وفاقی و صوبائی حکومت قیام امن میں ناکام قرار رپورٹ سانحہ کوئٹہ کمیشن
دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ابہام اور وزارت داخلہ میں قیادت کا فقدان ہے، رپورٹ
لاہور:
کوئٹہ میں وکلا پر خودکش حملے کی تحقیقات کے لیے قائم جوڈیشل کمیشن نے اپنی رپورٹ جاری کردی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ سانحہ کوئٹہ پر وفاقی وصوبائی وزرائے داخلہ اور وزیراعلیٰ نے غلط بیانی کی۔
سپریم کورٹ کے جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ پر مشتمل ایک رکنی کمیشن نے وفاقی اور صوبائی حکومت کو بلوچستان میں امن وامان قائم کرنے میں مکمل طور پر ناکام قرار دیتے ہوئے کہا کہ سیاسی مداخلت اور اقربا پروری نے ادارے تباہ کردیے، فاضل جج نے110صفحات پر مشتمل رپورٹ میں وفاقی وزارت داخلہ اور وزیرداخلہ پر سخت تنقید کرتے ہوئے قرار دیاکہ وزارت داخلہ کو قیادت میسرہے اور نہ ہی اس کی سمت متعین ہے، دہشت گردی کے خلاف مبہم جنگ لڑی جارہی ہے، وزارت کے افسران عوام کے بجائے وزیرداخلہ کی خدمت میں مگن ہیں۔
کمیشن نے اپنی فائنڈنگ میں کہا کہ 8 اگست کو بلوچستان ہائیکورٹ بارکے صدرپرحملے اور اسپتال کے باہر خودکش دھماکے کے پیچھے ایک ہی گروپ ملوث تھا، جب تک کمیشن نے مداخلت نہیں کی خودکش بمبارکی شناخت نہیں ہوسکی، سیکیورٹی اداروں نے جائے وقوعہ کومحفوظ کیا اور نہ فارنسک معائنے کے لیے لیباریٹری کی سہولت موجود تھی، وقوعہ کے بعد سیکیورٹی اہلکاروں کی ہوائی فائرنگ نے مزید خوف پیدا کیا، اسپتال غیرفعال تھا اور نہ ہی اس میں فرسٹ ایڈکٹس دستیاب تھیں اور نہ ہی حادثات سے نمٹنے کا کوئی ایس اوپی تھا۔ اقرباپروری کی وجہ سے اداروں میں نااہل افراد بھرتی کیے گئے، اس کی واضح مثال 4 سیکریٹریوں کی تقرری ہے، ان میں صوبائی سیکریٹری صحت بھی شامل ہے جوایک سابق لیفٹیننٹ جنرل اور وفاقی وزیرکابھائی ہے، کمیشن نے قرار دیاکہ سیاسی مداخلت کی وجہ سے اداروں میں ڈسپلن ختم ہوگیا ہے، ایف سی سول انتظامیہ کی اپیل کاجواب نہیں دیتی اور ایف سی کا پولیسنگ کا کیا کردار ہے، اس کی کوئی واضح پالیسی نہیں۔
کمیشن نے اپنی رپورٹ میں صوبے کو اے اور بی ایریا میں تقسیم کرنے پربھی تنقیدکی اور کہا کہ اس سے خرابیاں پیدا ہوئیں، وقوعہ کے بارے میں وزیراعلیٰ اور وزیرداخلہ کے بیانات نے مزید ابہام پیداکیا۔ ابھی تک نیشنل سیکیورٹی انٹرنل پالیسی پر عمل نہیں ہوا، نیشنل ایکشن پلان ایک بے معنی اور بے سمت پلان ہے جس کے مقاصد کی نگرانی کا کوئی طریقہ کار ہے اور نہ ہی اس پر عمل ہوا، پلان کا اطلاق کس کوکرناہے، اس بارے میں تحریری اسٹرٹیجی نہیں، انسداد دہشت گردی کے قانون کی کھلا کھلم خلاف ورزیاں ہورہی ہیں، ابھی تک کالعدم تنظیموں کی سرگرمیاں جاری ہیں اوران کے سربراہان کے بیانات نشراورشائع ہورہے ہیں۔
رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ وفاقی وزیرداخلہ نے ذمہ داری کامظاہرہ نہیں کیا، ساڑھے3 سال میں نیکٹا کے ایگزیکٹو بورڈ کاایک اجلاس ہوا لیکن اس کے فیصلوں پرعمل ہی نہیں ہوا، وزیرداخلہ نے کالعدم تنظیموں کے سربراہوں سے ملاقاتیں کیں اور شناختی کارڈکے معاملے پران کے مطالبات بھی تسلیم کیے، قانون کے مطابق کالعدم تنظیموں کے خلاف اب تک پابندیاں عائد کی گئیں نہ نیکٹا ایکٹ پرعمل درآمدہوا۔ وزارت داخلہ نے تاحال کاؤنٹرٹیررازم اسٹرٹیجی نہیں بنائی، مغربی سرحدیں غیرمحفوظ ہیں، مذہبی ہم آہنگی کےلیے وزارت مذہبی امور نے اپنی ذمہ داریاں پوری نہیں کیں۔ مدارس کی رجسٹریشن اور مانیٹرنگ کا کوئی طریقہ کار نہیں۔
رپورٹ میں حکومت پنجاب کو فارنسک لیباریٹری کے قیام اور متاثرین کو معاوضے کی ادائیگی پرسراہا گیا جبکہ انٹیلی جنس ایجنسیوں کی کارکردگی کی بھی تعریف کی گئی۔ کمیشن نے اپنی رپورٹ میں انسداد دہشت گردی اور نیکٹا ایکٹ پر مکمل عمل درآمد، تمام کالعدم تنظیموں پر فوری پابندی اور ان سے وابستہ افرادکے خلاف مقدمات کے اندراج، کالعدم تنظیموں کے بارے میں عوام میں آگاہی پیدا کرنے، دہشت گردی میں ملوث اور مشکوک افراد کا ڈیٹا بینک بنانے، ایک جدید فارنسک لیبارٹری کے قیام، واضح مقاصد اور مکمل نگرانی کے ساتھ نیشل ایکشن پلان بنانے اور اسے نافذ کرنے، مغربی بارڈر کو محفوظ بنانے، ملک بھر میں ہوائی فائرنگ پرمکمل پابندی اور اس میں ملوث افراد کے خلاف فوجداری مقدمات درج کرنے کی سفارش کی گئی ہے۔
کوئٹہ میں وکلا پر خودکش حملے کی تحقیقات کے لیے قائم جوڈیشل کمیشن نے اپنی رپورٹ جاری کردی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ سانحہ کوئٹہ پر وفاقی وصوبائی وزرائے داخلہ اور وزیراعلیٰ نے غلط بیانی کی۔
سپریم کورٹ کے جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ پر مشتمل ایک رکنی کمیشن نے وفاقی اور صوبائی حکومت کو بلوچستان میں امن وامان قائم کرنے میں مکمل طور پر ناکام قرار دیتے ہوئے کہا کہ سیاسی مداخلت اور اقربا پروری نے ادارے تباہ کردیے، فاضل جج نے110صفحات پر مشتمل رپورٹ میں وفاقی وزارت داخلہ اور وزیرداخلہ پر سخت تنقید کرتے ہوئے قرار دیاکہ وزارت داخلہ کو قیادت میسرہے اور نہ ہی اس کی سمت متعین ہے، دہشت گردی کے خلاف مبہم جنگ لڑی جارہی ہے، وزارت کے افسران عوام کے بجائے وزیرداخلہ کی خدمت میں مگن ہیں۔
کمیشن نے اپنی فائنڈنگ میں کہا کہ 8 اگست کو بلوچستان ہائیکورٹ بارکے صدرپرحملے اور اسپتال کے باہر خودکش دھماکے کے پیچھے ایک ہی گروپ ملوث تھا، جب تک کمیشن نے مداخلت نہیں کی خودکش بمبارکی شناخت نہیں ہوسکی، سیکیورٹی اداروں نے جائے وقوعہ کومحفوظ کیا اور نہ فارنسک معائنے کے لیے لیباریٹری کی سہولت موجود تھی، وقوعہ کے بعد سیکیورٹی اہلکاروں کی ہوائی فائرنگ نے مزید خوف پیدا کیا، اسپتال غیرفعال تھا اور نہ ہی اس میں فرسٹ ایڈکٹس دستیاب تھیں اور نہ ہی حادثات سے نمٹنے کا کوئی ایس اوپی تھا۔ اقرباپروری کی وجہ سے اداروں میں نااہل افراد بھرتی کیے گئے، اس کی واضح مثال 4 سیکریٹریوں کی تقرری ہے، ان میں صوبائی سیکریٹری صحت بھی شامل ہے جوایک سابق لیفٹیننٹ جنرل اور وفاقی وزیرکابھائی ہے، کمیشن نے قرار دیاکہ سیاسی مداخلت کی وجہ سے اداروں میں ڈسپلن ختم ہوگیا ہے، ایف سی سول انتظامیہ کی اپیل کاجواب نہیں دیتی اور ایف سی کا پولیسنگ کا کیا کردار ہے، اس کی کوئی واضح پالیسی نہیں۔
کمیشن نے اپنی رپورٹ میں صوبے کو اے اور بی ایریا میں تقسیم کرنے پربھی تنقیدکی اور کہا کہ اس سے خرابیاں پیدا ہوئیں، وقوعہ کے بارے میں وزیراعلیٰ اور وزیرداخلہ کے بیانات نے مزید ابہام پیداکیا۔ ابھی تک نیشنل سیکیورٹی انٹرنل پالیسی پر عمل نہیں ہوا، نیشنل ایکشن پلان ایک بے معنی اور بے سمت پلان ہے جس کے مقاصد کی نگرانی کا کوئی طریقہ کار ہے اور نہ ہی اس پر عمل ہوا، پلان کا اطلاق کس کوکرناہے، اس بارے میں تحریری اسٹرٹیجی نہیں، انسداد دہشت گردی کے قانون کی کھلا کھلم خلاف ورزیاں ہورہی ہیں، ابھی تک کالعدم تنظیموں کی سرگرمیاں جاری ہیں اوران کے سربراہان کے بیانات نشراورشائع ہورہے ہیں۔
رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ وفاقی وزیرداخلہ نے ذمہ داری کامظاہرہ نہیں کیا، ساڑھے3 سال میں نیکٹا کے ایگزیکٹو بورڈ کاایک اجلاس ہوا لیکن اس کے فیصلوں پرعمل ہی نہیں ہوا، وزیرداخلہ نے کالعدم تنظیموں کے سربراہوں سے ملاقاتیں کیں اور شناختی کارڈکے معاملے پران کے مطالبات بھی تسلیم کیے، قانون کے مطابق کالعدم تنظیموں کے خلاف اب تک پابندیاں عائد کی گئیں نہ نیکٹا ایکٹ پرعمل درآمدہوا۔ وزارت داخلہ نے تاحال کاؤنٹرٹیررازم اسٹرٹیجی نہیں بنائی، مغربی سرحدیں غیرمحفوظ ہیں، مذہبی ہم آہنگی کےلیے وزارت مذہبی امور نے اپنی ذمہ داریاں پوری نہیں کیں۔ مدارس کی رجسٹریشن اور مانیٹرنگ کا کوئی طریقہ کار نہیں۔
رپورٹ میں حکومت پنجاب کو فارنسک لیباریٹری کے قیام اور متاثرین کو معاوضے کی ادائیگی پرسراہا گیا جبکہ انٹیلی جنس ایجنسیوں کی کارکردگی کی بھی تعریف کی گئی۔ کمیشن نے اپنی رپورٹ میں انسداد دہشت گردی اور نیکٹا ایکٹ پر مکمل عمل درآمد، تمام کالعدم تنظیموں پر فوری پابندی اور ان سے وابستہ افرادکے خلاف مقدمات کے اندراج، کالعدم تنظیموں کے بارے میں عوام میں آگاہی پیدا کرنے، دہشت گردی میں ملوث اور مشکوک افراد کا ڈیٹا بینک بنانے، ایک جدید فارنسک لیبارٹری کے قیام، واضح مقاصد اور مکمل نگرانی کے ساتھ نیشل ایکشن پلان بنانے اور اسے نافذ کرنے، مغربی بارڈر کو محفوظ بنانے، ملک بھر میں ہوائی فائرنگ پرمکمل پابندی اور اس میں ملوث افراد کے خلاف فوجداری مقدمات درج کرنے کی سفارش کی گئی ہے۔