اصل مسئلہ کچھ اور ہے
راجہ پرویز اشرف کو 8 اگست تک مہلت مل گئی۔
راجہ پرویز اشرف کو 8 اگست تک مہلت مل گئی۔ ''وہ چٹھی'' نہ لکھنے کی صورت میں انجام اُن کا بھی یُوسف رضا گیلانی جیسا ہونا ہے۔ خواہش مگر زیادہ سے زیادہ مہلت حاصل کرنے کی ہے۔ توہین ِعدالت میں جلدی سے کی گئی ترامیم کا قضیہ بھی اسی لیے کھڑا کیا گیا ہے۔ اس سے کہیں زیادہ چالاک حرکت یہ دعویٰ کرنا ہے کہ وزیر اعظم اٹھارویں ترمیم کے بعد انتظامیہ کا مختار کل تو ہے مگر آمر پھر بھی نہیں۔ اس کی ایک کابینہ ہوتی ہے۔ روزمرہ امور سے بالاتر معاملات وہ اسی کابینہ سے مشاورت کے بعد طے کرتا ہے اور آخری خبریں آنے تک کابینہ نے اپنے وزیر اعظم کو وہ ''چٹھی'' لکھنے کا مشورہ نہیں دیا تھا۔
میں نے اسی کالم میں راجہ پرویز اشرف کے وزیر اعظم ہائوس پہنچنے کے چند ہی دنوں بعد کابینہ کا نام استعمال کرنے والی چال کا ذکر کر دیا تھا۔ اب اس کے مضمرات پر غور کر لیتے ہیں۔ سب سے پہلی اور اہم بات یہ ہے کہ راجہ پرویز اشرف کی کابینہ میں موجود تمام وزراء کا تعلق پاکستان پیپلز پارٹی سے نہیں ہے۔ وہ ایک ''مخلوط حکومت'' کے سربراہ ہیں جس میں ایم کیو ایم، اے این پی اور قاف والے مسلم لیگیے بھی بیٹھے ہوئے ہیں۔ فاٹا اور بلوچستان سے نمایندگی بھی اسی کابینہ میں دیکھی جا سکتی ہے۔
سارے وزراء کا تعلق صرف پاکستان پیپلز پارٹی سے ہوتا تو راجہ پرویز اشرف اور ان کی کابینہ اپنی جماعت کے سربراہ آصف علی زرداری کی عزت و صدارتی استثنیٰ کے تحفظ کی خاطر ''اجتماعی خودکشی'' پر تیار ہو ہی جاتے۔ مگر دوسری جماعتوں کے نمایندوں کو کیا مصیبت آن پڑی کہ وہ سپریم کورٹ کے حکم کو نہ ماننے کی صورت میں موجودہ اسمبلی یا سینیٹ سے ہی فارغ نہ ہوں بلکہ آیندہ پانچ سال کے لیے انتخابی عمل میں حصہ لینے کے اہل بھی نہ رہیں؟
اپنی اپنی کھال بچانے کے اسی خیال کے سبب ایم کیو ایم نے پہل کی ہے۔ ان کے قائد کا خیال ہے کہ پاکستان کے ساحلوں کے قریب تباہ کن بحری بیڑے لنگرانداز ہو چکے ہیں۔ ظاہر سی بات ہے ایسے جنگی جہاز مچھلیاں پکڑنے لنگرانداز نہیں ہوتے۔ ان کے ارادے قطعی طور پر دفاعی یا جارحانہ ہوتے ہیں۔ پاکستان کی ریاست اور اس کے عسکری ادارے تو اس ضمن میں خاموش ہیں۔ پاکستان کی سیاسی قیادت کا فرض بنتا ہے کہ وہ سرجوڑ کر بیٹھیں اور جاننے کی کوشش کریں کہ پاکستان کے وجود کو کس قسم کے خطرات لاحق ہو سکتے ہیں۔ مقصد صرف ان خطرات کی نشاندہی تک محدود نہیں رہنا چاہیے۔ سیاسی قیادت کی اجتماعی فہم و فراست کو ممکنہ خطرات سے بچ نکلنے کے راستے بھی تلاش کرنا ہوں گے۔
ایم کیو ایم تمام سیاسی جماعتوں کو ایک جگہ بٹھانے کی خاطر ہی منگل کو ایک وفد کی صورت منصورہ پہنچی۔ ''ایم کیو ایم کے ڈپٹی لیڈر'' نے ''جماعت اسلامی کے سربراہ'' سے ملاقات کی جو اس سے قبل ''پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین'' سے بھی مل چکے تھے۔ پاکستان کے قیام سے 1970ء کی دہائی کے اختتام تک جماعت اسلامی کراچی اور حیدرآباد میں رہنے والے ''شہریوں'' کی نمایندہ سمجھی جاتی تھی۔ مولانا شاہ احمد نورانی نے ان کا مقابلہ کرتے ہوئے اپنا ایک اور حلقہ نیابت دریافت کر کے اسے پروان چڑھایا۔ مگر پھر بشریٰ زیدی والا واقعہ ہوگیا اور بالآخر سہراب گوٹھ۔ اب کراچی کی ''نمایندگی''1988ء کے بعد سے ایم کیو ایم کے پاس چلی آ رہی ہے۔ اس صدی کے آغاز میں شاہی سید ''میرا بھی تو ہے'' کہنا شروع ہو گئے۔
ابھی ان کے معاملات طے ہی نہیں ہوئے تھے کہ لیاری میں ''امن'' قائم کرنے کی باتیں شروع ہو گئیں۔ ہماری بدقسمتی ہے کہ ہمارا مستعد اور بیدار میڈیا سپریم کورٹ کے چٹھی والے حکم کے سبب عدلیہ اور انتظامیہ میں جاری کشمکش پر مبنی ڈرامائی سیریل والی داستانوں کو بیان کرنے تک محدود ہو کر رہ گیا ہے۔ کراچی کا ذکر صرف بھتہ خوری اور ٹارگٹ کلنگ کے حوالے سے ہوتا ہے۔ ان دونوں کے پیچھے کارفرما عوامل اور گروہوں کو سب جانتے ہیں۔ مگر کہہ دینے کی ہمت نہیں ہوتی۔ ہمت مجھ میں بھی نہیں ہے مگر چند ماہ پہلے ڈرتے ڈرتے میں نے یہ عرض ضرور کرنے کی کوشش کی تھی کہ کراچی میں اب نئے کردار بھی آگئے ہیں۔ ان کا گہرا اور براہِ راست تعلق کراچی میں پہلے سے موجود قضیوں اور قبضہ گروپوں سے نہیں ہے۔ یہ نئے کردار بلوچستان میں نواب اکبر بگٹی کے قتل کے بعد مسلسل جنگ کو کراچی میں لے آئے ہیں۔
اگر میڈیا والوں میں سے کچھ لوگ سمجھنے کی کوشش کرتے تو گڈاپ میں پولیوکی مہم میں مدد دینے والے رضا کار کا قتل کافی کچھ بتا دیتا۔ گڈاپ میں افغان مہاجرین یا پشتونوں کی اکثریت نہیں رہتی جنھیں شکیل آفریدی کے حوالے دے کر پولیو کے تدارک کی مہم کے خلاف مشتعل کیا جا سکتا ہے۔ یہاں کی اکثریت سندھی اور بلوچی بولنے والوں پر مشتمل ہے۔ یہ کچھ ماہ قبل تک پاکستان پیپلز پارٹی کے جیالے ووٹر سمجھے جاتے تھے۔ اب نہیں رہے۔ زیادہ تر لوگ لاتعلق ہو گئے ہیں مگر وہ جو ''سیاست'' کیے بغیر رہ نہیں سکتے بلوچستان میں متحرک ''علیحدگی پسندوں'' سے رشتے اور رابطے بنا اور بڑھا رہے ہیں۔
کراچی میں اپنے ہمالیہ سے اونچے اور بحیرہ عرب سے زیادہ گہرے یار چین کے قونصلیٹ کے باہر موٹر سائیکل دھماکا انھی رابطوں کا شاخسانہ ہے۔ پاکستان کی ریاست نے مشرف کے زمانے میں اربوں روپے خرچ کر کے گوادر پر بندرگاہ تو بنالی۔ مگر اس کے استعمال کے طریقے نہ سوچ پائی۔ نہ ہی اس بندرگاہ کے اِرد گرد سرگرم دھندے کی بدولت نئی بستیاں آباد ہو سکیں۔ حقیقت تو یہ ہے کہ برسوں سے آباد گوادر شہر جس کی قدیمی آبادی تقریباََ ایک لاکھ نفوس پر مشتمل ہے ،گذشتہ کئی ہفتوں سے پانی کی بوند بوند کو ترس رہا ہے۔
پانی کا ایک ٹینکر 15 سے 18 ہزار روپے میں ملنا شروع ہوگیا ہے۔ اس کی قیمت کو اپنی برداشت سے باہر پا کر ہزاروں لوگ گوادر سے نقل مکانی کر کے ایران یا بالآخر کراچی چلے گئے۔ بلوچستان کے وزیر اعلیٰ اسلام آباد کی سڑکوں پر موٹرسائیکل چلا کر زندگی سے لطف اندوز ہوتے رہے۔ میرے جیسے کچھ صحافیوں نے واویلا مچایا تو وزیر اعظم نے پاکستان نیوی کو جہازوں کے ذریعے گوادر کو پانی فراہم کرنے کے احکامات جاری کیے۔ پانی کی بوند بوند کو ترستے بلوچ نوجوان کے پاس غصے سے بپھر جانے کے علاوہ کونسا راستہ بچتا ہے؟
یہ غصہ ان قوتوں کے بہت کام آتا ہے جنھیں پاکستان کی ریاست کے اندر اہم اور حساس اداروں میں بیٹھے اپنے ایجنٹوں کے ذریعے یہ خبر ملتی ہے کہ آصف علی زرداری گوادر کو عوامی جمہورریہ چین کے حوالے کرنے پر تیار بیٹھے ہیں تا کہ وہ اس شہر میں اربوں روپوں سے بنائی گئی بندرگاہ کو بھرپور طریقے سے استعمال کر سکے۔
کراچی میں چینی قونصلیٹ کے باہر کیا جانے والا موٹرسائیکل دھماکا اس ملک کی قیادت کو یہ پیغام دینے کے لیے کروایا گیا کہ وہ گوادر سے دور رہیں۔ مگر یہ تو صرف ابتداہے۔ ہمارے مستعد میڈیا کی نظروں سے اوجھل بہت کچھ ہو رہا ہے۔ منصوبے بنانے اور ان پر عمل کرانے والے محض افراد نہیں بڑی طاقت ور ریاستیں اور ان کے سازشی اور بے پناہ وسائل والے ادارے ہیں۔ہماری ساری توجہ البتہ اس بات پر مرکوز ہو کر رہ گئی ہے کہ راجہ پرویز اشرف اور کتنے دنوں تک یوسف رضا گیلانی والے انجام کوٹال سکتے ہیں۔
میں نے اسی کالم میں راجہ پرویز اشرف کے وزیر اعظم ہائوس پہنچنے کے چند ہی دنوں بعد کابینہ کا نام استعمال کرنے والی چال کا ذکر کر دیا تھا۔ اب اس کے مضمرات پر غور کر لیتے ہیں۔ سب سے پہلی اور اہم بات یہ ہے کہ راجہ پرویز اشرف کی کابینہ میں موجود تمام وزراء کا تعلق پاکستان پیپلز پارٹی سے نہیں ہے۔ وہ ایک ''مخلوط حکومت'' کے سربراہ ہیں جس میں ایم کیو ایم، اے این پی اور قاف والے مسلم لیگیے بھی بیٹھے ہوئے ہیں۔ فاٹا اور بلوچستان سے نمایندگی بھی اسی کابینہ میں دیکھی جا سکتی ہے۔
سارے وزراء کا تعلق صرف پاکستان پیپلز پارٹی سے ہوتا تو راجہ پرویز اشرف اور ان کی کابینہ اپنی جماعت کے سربراہ آصف علی زرداری کی عزت و صدارتی استثنیٰ کے تحفظ کی خاطر ''اجتماعی خودکشی'' پر تیار ہو ہی جاتے۔ مگر دوسری جماعتوں کے نمایندوں کو کیا مصیبت آن پڑی کہ وہ سپریم کورٹ کے حکم کو نہ ماننے کی صورت میں موجودہ اسمبلی یا سینیٹ سے ہی فارغ نہ ہوں بلکہ آیندہ پانچ سال کے لیے انتخابی عمل میں حصہ لینے کے اہل بھی نہ رہیں؟
اپنی اپنی کھال بچانے کے اسی خیال کے سبب ایم کیو ایم نے پہل کی ہے۔ ان کے قائد کا خیال ہے کہ پاکستان کے ساحلوں کے قریب تباہ کن بحری بیڑے لنگرانداز ہو چکے ہیں۔ ظاہر سی بات ہے ایسے جنگی جہاز مچھلیاں پکڑنے لنگرانداز نہیں ہوتے۔ ان کے ارادے قطعی طور پر دفاعی یا جارحانہ ہوتے ہیں۔ پاکستان کی ریاست اور اس کے عسکری ادارے تو اس ضمن میں خاموش ہیں۔ پاکستان کی سیاسی قیادت کا فرض بنتا ہے کہ وہ سرجوڑ کر بیٹھیں اور جاننے کی کوشش کریں کہ پاکستان کے وجود کو کس قسم کے خطرات لاحق ہو سکتے ہیں۔ مقصد صرف ان خطرات کی نشاندہی تک محدود نہیں رہنا چاہیے۔ سیاسی قیادت کی اجتماعی فہم و فراست کو ممکنہ خطرات سے بچ نکلنے کے راستے بھی تلاش کرنا ہوں گے۔
ایم کیو ایم تمام سیاسی جماعتوں کو ایک جگہ بٹھانے کی خاطر ہی منگل کو ایک وفد کی صورت منصورہ پہنچی۔ ''ایم کیو ایم کے ڈپٹی لیڈر'' نے ''جماعت اسلامی کے سربراہ'' سے ملاقات کی جو اس سے قبل ''پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین'' سے بھی مل چکے تھے۔ پاکستان کے قیام سے 1970ء کی دہائی کے اختتام تک جماعت اسلامی کراچی اور حیدرآباد میں رہنے والے ''شہریوں'' کی نمایندہ سمجھی جاتی تھی۔ مولانا شاہ احمد نورانی نے ان کا مقابلہ کرتے ہوئے اپنا ایک اور حلقہ نیابت دریافت کر کے اسے پروان چڑھایا۔ مگر پھر بشریٰ زیدی والا واقعہ ہوگیا اور بالآخر سہراب گوٹھ۔ اب کراچی کی ''نمایندگی''1988ء کے بعد سے ایم کیو ایم کے پاس چلی آ رہی ہے۔ اس صدی کے آغاز میں شاہی سید ''میرا بھی تو ہے'' کہنا شروع ہو گئے۔
ابھی ان کے معاملات طے ہی نہیں ہوئے تھے کہ لیاری میں ''امن'' قائم کرنے کی باتیں شروع ہو گئیں۔ ہماری بدقسمتی ہے کہ ہمارا مستعد اور بیدار میڈیا سپریم کورٹ کے چٹھی والے حکم کے سبب عدلیہ اور انتظامیہ میں جاری کشمکش پر مبنی ڈرامائی سیریل والی داستانوں کو بیان کرنے تک محدود ہو کر رہ گیا ہے۔ کراچی کا ذکر صرف بھتہ خوری اور ٹارگٹ کلنگ کے حوالے سے ہوتا ہے۔ ان دونوں کے پیچھے کارفرما عوامل اور گروہوں کو سب جانتے ہیں۔ مگر کہہ دینے کی ہمت نہیں ہوتی۔ ہمت مجھ میں بھی نہیں ہے مگر چند ماہ پہلے ڈرتے ڈرتے میں نے یہ عرض ضرور کرنے کی کوشش کی تھی کہ کراچی میں اب نئے کردار بھی آگئے ہیں۔ ان کا گہرا اور براہِ راست تعلق کراچی میں پہلے سے موجود قضیوں اور قبضہ گروپوں سے نہیں ہے۔ یہ نئے کردار بلوچستان میں نواب اکبر بگٹی کے قتل کے بعد مسلسل جنگ کو کراچی میں لے آئے ہیں۔
اگر میڈیا والوں میں سے کچھ لوگ سمجھنے کی کوشش کرتے تو گڈاپ میں پولیوکی مہم میں مدد دینے والے رضا کار کا قتل کافی کچھ بتا دیتا۔ گڈاپ میں افغان مہاجرین یا پشتونوں کی اکثریت نہیں رہتی جنھیں شکیل آفریدی کے حوالے دے کر پولیو کے تدارک کی مہم کے خلاف مشتعل کیا جا سکتا ہے۔ یہاں کی اکثریت سندھی اور بلوچی بولنے والوں پر مشتمل ہے۔ یہ کچھ ماہ قبل تک پاکستان پیپلز پارٹی کے جیالے ووٹر سمجھے جاتے تھے۔ اب نہیں رہے۔ زیادہ تر لوگ لاتعلق ہو گئے ہیں مگر وہ جو ''سیاست'' کیے بغیر رہ نہیں سکتے بلوچستان میں متحرک ''علیحدگی پسندوں'' سے رشتے اور رابطے بنا اور بڑھا رہے ہیں۔
کراچی میں اپنے ہمالیہ سے اونچے اور بحیرہ عرب سے زیادہ گہرے یار چین کے قونصلیٹ کے باہر موٹر سائیکل دھماکا انھی رابطوں کا شاخسانہ ہے۔ پاکستان کی ریاست نے مشرف کے زمانے میں اربوں روپے خرچ کر کے گوادر پر بندرگاہ تو بنالی۔ مگر اس کے استعمال کے طریقے نہ سوچ پائی۔ نہ ہی اس بندرگاہ کے اِرد گرد سرگرم دھندے کی بدولت نئی بستیاں آباد ہو سکیں۔ حقیقت تو یہ ہے کہ برسوں سے آباد گوادر شہر جس کی قدیمی آبادی تقریباََ ایک لاکھ نفوس پر مشتمل ہے ،گذشتہ کئی ہفتوں سے پانی کی بوند بوند کو ترس رہا ہے۔
پانی کا ایک ٹینکر 15 سے 18 ہزار روپے میں ملنا شروع ہوگیا ہے۔ اس کی قیمت کو اپنی برداشت سے باہر پا کر ہزاروں لوگ گوادر سے نقل مکانی کر کے ایران یا بالآخر کراچی چلے گئے۔ بلوچستان کے وزیر اعلیٰ اسلام آباد کی سڑکوں پر موٹرسائیکل چلا کر زندگی سے لطف اندوز ہوتے رہے۔ میرے جیسے کچھ صحافیوں نے واویلا مچایا تو وزیر اعظم نے پاکستان نیوی کو جہازوں کے ذریعے گوادر کو پانی فراہم کرنے کے احکامات جاری کیے۔ پانی کی بوند بوند کو ترستے بلوچ نوجوان کے پاس غصے سے بپھر جانے کے علاوہ کونسا راستہ بچتا ہے؟
یہ غصہ ان قوتوں کے بہت کام آتا ہے جنھیں پاکستان کی ریاست کے اندر اہم اور حساس اداروں میں بیٹھے اپنے ایجنٹوں کے ذریعے یہ خبر ملتی ہے کہ آصف علی زرداری گوادر کو عوامی جمہورریہ چین کے حوالے کرنے پر تیار بیٹھے ہیں تا کہ وہ اس شہر میں اربوں روپوں سے بنائی گئی بندرگاہ کو بھرپور طریقے سے استعمال کر سکے۔
کراچی میں چینی قونصلیٹ کے باہر کیا جانے والا موٹرسائیکل دھماکا اس ملک کی قیادت کو یہ پیغام دینے کے لیے کروایا گیا کہ وہ گوادر سے دور رہیں۔ مگر یہ تو صرف ابتداہے۔ ہمارے مستعد میڈیا کی نظروں سے اوجھل بہت کچھ ہو رہا ہے۔ منصوبے بنانے اور ان پر عمل کرانے والے محض افراد نہیں بڑی طاقت ور ریاستیں اور ان کے سازشی اور بے پناہ وسائل والے ادارے ہیں۔ہماری ساری توجہ البتہ اس بات پر مرکوز ہو کر رہ گئی ہے کہ راجہ پرویز اشرف اور کتنے دنوں تک یوسف رضا گیلانی والے انجام کوٹال سکتے ہیں۔