انور احسن صدیقی الوداع
زندگی کیا ہے عناصر میں ظہور ترتیب - موت کیا ہے ان ہی اجزا کا پریشاں ہونا
زندگی کیا ہے عناصر میں ظہور ترتیب
موت کیا ہے ان ہی اجزا کا پریشاں ہونا
انسان جب کرۂ ارض پر پہلی سانس لیتا ہے تو اسی وقت سے وہ موت کی طرف بڑھنا شروع کردیتا ہے۔ انسان طبعی عمر کو پہنچ کر بھی موت کی بے انت وادی میں داخل ہوتا ہے، زندہ رہنے کی سہولتوںکے فقدان کی وجہ سے بھی حادثاتی وجوہات کے نتیجے میں بھی اور دہشت گردی اور خودکش حملوں کے نتیجے میں بھی وہ موت سے ہمکنار ہوتا ہے۔ آخری وجہ بیماری ہے جو انسان کی جان لے لیتی ہے۔
ہمارے دیرینہ رفیق اور ترقی پسند تحریک کے فعال کارکن انور احسن صدیقی پچھلے ہفتے موت کے اس بلیک ہول میں داخل ہوگئے، جس میں اب تک اربوں انسان گم ہوچکے ہیں۔ میں نے موت کی جن وجوہات کا ذکر کیا ہے، ان میں موت کی ایک وجہ زندہ رہنے کی سہولتوں کا فقدان بھی شامل ہے۔ زندہ رہنے کی سہولتوں سے محروم عوام کی تعداد 98 فیصد ہے، ان 98 فیصد انسانوں کے زندہ رہنے کے حق پر 2 فیصد نے قبضہ کر رکھا ہے، 98 فیصد غریب انسانوں کے زندہ رہنے کے حق کو 2 فیصد سرمایہ داروں کے قبضے سے چھڑانے کی جو جنگ صدیوں سے مختلف شکلوں میں لڑی جارہی ہے، اس جنگ کا ایک نامور سپاہی انور احسن صدیقی بھی تھا۔
انور احسن صدیقی نے زندگی بھر یہ جنگ کئی محاذوں پر لڑی، ایک محاذ طلبا کی تنظیم این ایس ایف تھا، دوسرا محاذ نیپ سمیت کئی اور محاذ تھے، تیسرا محاذ ادبی تھا، چوتھا محاذ کالم نگاری تھا جس پر وہ زندگی کے آخری دنوں تک لڑتے رہے تھے۔ انور احسن صدیقی کراچی کی ایک مضافاتی بستی صفورا گوٹھ میں رہتے تھے، کراچی کی ایک مضافاتی بستی لانڈھی میں ملک کے مشہور ترقی پسند شاعر خالد علیگ رہتے تھے اور انھوں نے ساری زندگی اس بستی کے ایک چھوٹے سے مکان میں گزاری، جب ان کی بیماری تشویش ناک حدوں میں داخل ہوئی تو انھیں اسی سے ملحقہ بستی کورنگی کے ایک ایسے اسپتال لے جایا گیا، جہاں ابتدائی طبی سہولتوں کا بھی فقدان تھا۔
اسی اسپتال کے علاج کے دوران وہ زندگی کی سرحد پھلانگ کر موت کے اس بلیک ہول میں داخل ہوگئے، کراچی کے بیشتر ترقی پسند صفورا گوٹھ جیسی مضافاتی بستیوں میں زندگی گزارتے ہیں اور ان ہی بستیوں میں موت سے جاملتے ہیں۔ کسی ترقی پسند نے کبھی کلفٹن اور ڈیفنس کراچی میں جانے کی کوشش اس لیے نہیں کی کہ ان پوش بستیوں میں اس 2 فیصد لوگوں کی ایک بڑی تعداد رہتی ہے جس نے 98 فیصد انسانوں کے حقِ زندگی پر قبضہ کر رکھا ہے۔
انور احسن صدیقی جیسے لوگ غریب بستیوں میں رہ کر غریبوں کے حقوق کی جنگ زندگی بھر لڑتے رہے، ایسے محترم لوگوں کی یہ بدقسمتی ہے یا اس معاشرے کی بے حسی ہے کہ ان بہادر لوگوں کو معاشرے میں وہ مقام حاصل نہیں جس کے وہ مستحق ہیں۔ میں انور احسن صدیقی کے انتقال کے بعد ٹی وی چینلوں کو غور سے دیکھتا رہا کہ شاید اس کی امتیازی اور کمرشل پٹیوں میں انور احسن کے انتقال کی پٹی آجائے۔ میں پرنٹ میڈیا کے اخبارات میں حکمرانوں کے تعزیتی بیانوں کو ڈھونڈتا رہا، میں سیاست دانوں کے تعزیتی بیانوں کو تلاش کرتا رہا، لیکن نہ میں نے چینلوں پر اس حوالے سے کوئی پٹی دیکھی نہ اخبارات میں کوئی تعزیتی بیان دیکھا۔
اس بے حسی کی وجہ یہ تھی کہ انور احسن صدیقی اس مافیا سے تعلق رکھنے والے تمام ''عوام دشمن فنکاروں'' کے خلاف لکھتا تھا، اگر وہ اس مافیا کا حامی ہوتا تو چینلوں پر پٹیاں بھی چلتیں، چینلوں کے رپورٹر وفوٹوگرافر انور احسن صدیقی کے گھر سے قبر تک کی لائیو رپورٹیں دکھاتے اور الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا حکمرانوں اور سیاست دانوں کے تعزیتی بیانات سے بھرا رہتا۔
میں نے کالم کی ابتدا ایک شعر سے کی تھی۔ اصل میں زندگی اور موت کے مفہوم کو برصغیر کے معروف شاعر چکبست نے اس شعر میں اس طرح سمودیا ہے کہ زندگی کی بے ثباتی کی اس سے اچھی کوئی تفسیر نہیں ہوسکتی۔ میں حیران ہوتا ہوں کہ کیا وہ دو فیصد طبقہ زندگی اور موت کی اس بے معنویت اور لازم و ملزومیت سے واقف نہیں جو 98 فیصد انسانوں کی زندگی پر سانپ بن کر بیٹھا ہوا ہے؟
جب وہ جانتا ہے کہ ایک نہ ایک دن اسے اس دنیا سے جانا ہے اور چھ گز کفن اوڑھ کر چھ فٹ لمبی قبر میں اترنا ہے تو وہ پھر ملک و قوم کی اسی فیصد دولت پر سانپ بن کر ساری زندگی کیوں بیٹھا رہتا ہے؟ میں نے اس 2 فیصد طبقے کے حیوانوں کی قبروں کو دیکھا ہے، جن پر کتے لوٹتے رہتے ہیں، جہاں نہ مسلح گارڈ ہوتے ہیں، نہ لمبی لمبی کاریں، نہ اے سی، نہ وہ دولت کے انبار جو غریب عوام کی محنت کا ثمر ہوتے ہیں، ان کے کوئی کام آتے ہیں۔
زندگی تو انسان ہی نہیں چرند پرند بھی گزارتے ہیں جو نہ زندگی کے مقصد سے آشنا ہوتے ہیں نہ موت کی حقیقت سے، لیکن اشرف المخلوقات کا تمغہ پیشانی پر سجائے پھرنے والا انسان اگر زندگی کی مقصدیت کو سمجھ نہیں سکتا یا سمجھنا نہیں چاہتا تو پھر اس کے اشرف المخلوقات ہونے کا کوئی جواز نہیں ہوتا۔ ویسے تو اہلِ علم و عقل زندگی کے مختلف مقاصد رکھتے ہیں، لیکن ان تمام بے معنی مقاصد میں سب سے اعلیٰ مقصد ظلم و استحصال کے اس نظام کا خاتمہ ہے، جس نے دنیا کے سات ارب انسانوں کی آسودہ زندگی کو جہنم بنا کر رکھ دیا ہے۔
اس استحصالی نظام کے خلاف جنگ انسانی زندگی کا وہ عظیم و برتر مقصد ہے، جس کا ایک علمبردار انور احسن صدیقی تھا۔ آج وال اسٹریٹ سے نکل کر 100 کے لگ بھگ ملکوں میں سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف پھیلنے والی تحریک کے پیچھے موجود جذبہ وہ بغاوت کی آگ کو بھڑکانے میں انور احسن صدیقی کی شاعری، ادب، عملی جدوجہد اور کالم نگاری کا بھی حصّہ ہے لیکن افسوس یہ ہے کہ آج کے انسانی معاشروں میں ایسے جلیل القدر انسانوں کا کوئی مقام، کوئی احترام نہیں، کیونکہ دولت اور طاقت کے سینگ پر کھڑے اس نظام میں چوروں، ڈاکوئوں، لٹیروں اور 98 فیصد غریب انسانوں کی خوشیوں پر سانپ بن کر بیٹھنے والوں کو سر آنکھوں پر بٹھایا جاتا ہے۔
یہی لوگ قانون ساز اداروں، سول اور فوجی اعلیٰ عہدوں، مرکزی اور صوبائی کابینائوں میں براجمان ہیں۔ انسانی معاشروں میں جب تک احترام اور توقیر کے معیارات نہیں بدلیں گے، ہزاروں انور احسن صدیقی صفورا گوٹھوں، لانڈھیوں کی بستیوں میں زندگی کی سہولتوں اور علاج معالجے سے محرومیوں کے ساتھ زندہ رہیں گے اور مرجائیں گے۔ یہ زندگی، یہ موت نہ دکھ ہے نہ ملال کیونکہ یہ زندگی یہ موت 98 فیصد انسانوں کے دکھوں اور محرومیوں سے جڑی ہوئی ہے۔
اس لیے ایسی زندگی اعزاز اور فخر کا باعث بنی رہتی ہے۔ میرے قارئین مجھے ایسے ایس ایم ایس بھیجتے ہیں، جنھیں پڑھ کر میں حیران رہ جاتا ہوں۔ ایسے ہی ایس ایم ایس میں ایک یہ ہے ''یہ جو ہم ہیں نا احساس میں جلتے ہوئے لوگ، زمین زاد نہ ہوتے تو ستارے ہوتے۔''
موت کیا ہے ان ہی اجزا کا پریشاں ہونا
انسان جب کرۂ ارض پر پہلی سانس لیتا ہے تو اسی وقت سے وہ موت کی طرف بڑھنا شروع کردیتا ہے۔ انسان طبعی عمر کو پہنچ کر بھی موت کی بے انت وادی میں داخل ہوتا ہے، زندہ رہنے کی سہولتوںکے فقدان کی وجہ سے بھی حادثاتی وجوہات کے نتیجے میں بھی اور دہشت گردی اور خودکش حملوں کے نتیجے میں بھی وہ موت سے ہمکنار ہوتا ہے۔ آخری وجہ بیماری ہے جو انسان کی جان لے لیتی ہے۔
ہمارے دیرینہ رفیق اور ترقی پسند تحریک کے فعال کارکن انور احسن صدیقی پچھلے ہفتے موت کے اس بلیک ہول میں داخل ہوگئے، جس میں اب تک اربوں انسان گم ہوچکے ہیں۔ میں نے موت کی جن وجوہات کا ذکر کیا ہے، ان میں موت کی ایک وجہ زندہ رہنے کی سہولتوں کا فقدان بھی شامل ہے۔ زندہ رہنے کی سہولتوں سے محروم عوام کی تعداد 98 فیصد ہے، ان 98 فیصد انسانوں کے زندہ رہنے کے حق پر 2 فیصد نے قبضہ کر رکھا ہے، 98 فیصد غریب انسانوں کے زندہ رہنے کے حق کو 2 فیصد سرمایہ داروں کے قبضے سے چھڑانے کی جو جنگ صدیوں سے مختلف شکلوں میں لڑی جارہی ہے، اس جنگ کا ایک نامور سپاہی انور احسن صدیقی بھی تھا۔
انور احسن صدیقی نے زندگی بھر یہ جنگ کئی محاذوں پر لڑی، ایک محاذ طلبا کی تنظیم این ایس ایف تھا، دوسرا محاذ نیپ سمیت کئی اور محاذ تھے، تیسرا محاذ ادبی تھا، چوتھا محاذ کالم نگاری تھا جس پر وہ زندگی کے آخری دنوں تک لڑتے رہے تھے۔ انور احسن صدیقی کراچی کی ایک مضافاتی بستی صفورا گوٹھ میں رہتے تھے، کراچی کی ایک مضافاتی بستی لانڈھی میں ملک کے مشہور ترقی پسند شاعر خالد علیگ رہتے تھے اور انھوں نے ساری زندگی اس بستی کے ایک چھوٹے سے مکان میں گزاری، جب ان کی بیماری تشویش ناک حدوں میں داخل ہوئی تو انھیں اسی سے ملحقہ بستی کورنگی کے ایک ایسے اسپتال لے جایا گیا، جہاں ابتدائی طبی سہولتوں کا بھی فقدان تھا۔
اسی اسپتال کے علاج کے دوران وہ زندگی کی سرحد پھلانگ کر موت کے اس بلیک ہول میں داخل ہوگئے، کراچی کے بیشتر ترقی پسند صفورا گوٹھ جیسی مضافاتی بستیوں میں زندگی گزارتے ہیں اور ان ہی بستیوں میں موت سے جاملتے ہیں۔ کسی ترقی پسند نے کبھی کلفٹن اور ڈیفنس کراچی میں جانے کی کوشش اس لیے نہیں کی کہ ان پوش بستیوں میں اس 2 فیصد لوگوں کی ایک بڑی تعداد رہتی ہے جس نے 98 فیصد انسانوں کے حقِ زندگی پر قبضہ کر رکھا ہے۔
انور احسن صدیقی جیسے لوگ غریب بستیوں میں رہ کر غریبوں کے حقوق کی جنگ زندگی بھر لڑتے رہے، ایسے محترم لوگوں کی یہ بدقسمتی ہے یا اس معاشرے کی بے حسی ہے کہ ان بہادر لوگوں کو معاشرے میں وہ مقام حاصل نہیں جس کے وہ مستحق ہیں۔ میں انور احسن صدیقی کے انتقال کے بعد ٹی وی چینلوں کو غور سے دیکھتا رہا کہ شاید اس کی امتیازی اور کمرشل پٹیوں میں انور احسن کے انتقال کی پٹی آجائے۔ میں پرنٹ میڈیا کے اخبارات میں حکمرانوں کے تعزیتی بیانوں کو ڈھونڈتا رہا، میں سیاست دانوں کے تعزیتی بیانوں کو تلاش کرتا رہا، لیکن نہ میں نے چینلوں پر اس حوالے سے کوئی پٹی دیکھی نہ اخبارات میں کوئی تعزیتی بیان دیکھا۔
اس بے حسی کی وجہ یہ تھی کہ انور احسن صدیقی اس مافیا سے تعلق رکھنے والے تمام ''عوام دشمن فنکاروں'' کے خلاف لکھتا تھا، اگر وہ اس مافیا کا حامی ہوتا تو چینلوں پر پٹیاں بھی چلتیں، چینلوں کے رپورٹر وفوٹوگرافر انور احسن صدیقی کے گھر سے قبر تک کی لائیو رپورٹیں دکھاتے اور الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا حکمرانوں اور سیاست دانوں کے تعزیتی بیانات سے بھرا رہتا۔
میں نے کالم کی ابتدا ایک شعر سے کی تھی۔ اصل میں زندگی اور موت کے مفہوم کو برصغیر کے معروف شاعر چکبست نے اس شعر میں اس طرح سمودیا ہے کہ زندگی کی بے ثباتی کی اس سے اچھی کوئی تفسیر نہیں ہوسکتی۔ میں حیران ہوتا ہوں کہ کیا وہ دو فیصد طبقہ زندگی اور موت کی اس بے معنویت اور لازم و ملزومیت سے واقف نہیں جو 98 فیصد انسانوں کی زندگی پر سانپ بن کر بیٹھا ہوا ہے؟
جب وہ جانتا ہے کہ ایک نہ ایک دن اسے اس دنیا سے جانا ہے اور چھ گز کفن اوڑھ کر چھ فٹ لمبی قبر میں اترنا ہے تو وہ پھر ملک و قوم کی اسی فیصد دولت پر سانپ بن کر ساری زندگی کیوں بیٹھا رہتا ہے؟ میں نے اس 2 فیصد طبقے کے حیوانوں کی قبروں کو دیکھا ہے، جن پر کتے لوٹتے رہتے ہیں، جہاں نہ مسلح گارڈ ہوتے ہیں، نہ لمبی لمبی کاریں، نہ اے سی، نہ وہ دولت کے انبار جو غریب عوام کی محنت کا ثمر ہوتے ہیں، ان کے کوئی کام آتے ہیں۔
زندگی تو انسان ہی نہیں چرند پرند بھی گزارتے ہیں جو نہ زندگی کے مقصد سے آشنا ہوتے ہیں نہ موت کی حقیقت سے، لیکن اشرف المخلوقات کا تمغہ پیشانی پر سجائے پھرنے والا انسان اگر زندگی کی مقصدیت کو سمجھ نہیں سکتا یا سمجھنا نہیں چاہتا تو پھر اس کے اشرف المخلوقات ہونے کا کوئی جواز نہیں ہوتا۔ ویسے تو اہلِ علم و عقل زندگی کے مختلف مقاصد رکھتے ہیں، لیکن ان تمام بے معنی مقاصد میں سب سے اعلیٰ مقصد ظلم و استحصال کے اس نظام کا خاتمہ ہے، جس نے دنیا کے سات ارب انسانوں کی آسودہ زندگی کو جہنم بنا کر رکھ دیا ہے۔
اس استحصالی نظام کے خلاف جنگ انسانی زندگی کا وہ عظیم و برتر مقصد ہے، جس کا ایک علمبردار انور احسن صدیقی تھا۔ آج وال اسٹریٹ سے نکل کر 100 کے لگ بھگ ملکوں میں سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف پھیلنے والی تحریک کے پیچھے موجود جذبہ وہ بغاوت کی آگ کو بھڑکانے میں انور احسن صدیقی کی شاعری، ادب، عملی جدوجہد اور کالم نگاری کا بھی حصّہ ہے لیکن افسوس یہ ہے کہ آج کے انسانی معاشروں میں ایسے جلیل القدر انسانوں کا کوئی مقام، کوئی احترام نہیں، کیونکہ دولت اور طاقت کے سینگ پر کھڑے اس نظام میں چوروں، ڈاکوئوں، لٹیروں اور 98 فیصد غریب انسانوں کی خوشیوں پر سانپ بن کر بیٹھنے والوں کو سر آنکھوں پر بٹھایا جاتا ہے۔
یہی لوگ قانون ساز اداروں، سول اور فوجی اعلیٰ عہدوں، مرکزی اور صوبائی کابینائوں میں براجمان ہیں۔ انسانی معاشروں میں جب تک احترام اور توقیر کے معیارات نہیں بدلیں گے، ہزاروں انور احسن صدیقی صفورا گوٹھوں، لانڈھیوں کی بستیوں میں زندگی کی سہولتوں اور علاج معالجے سے محرومیوں کے ساتھ زندہ رہیں گے اور مرجائیں گے۔ یہ زندگی، یہ موت نہ دکھ ہے نہ ملال کیونکہ یہ زندگی یہ موت 98 فیصد انسانوں کے دکھوں اور محرومیوں سے جڑی ہوئی ہے۔
اس لیے ایسی زندگی اعزاز اور فخر کا باعث بنی رہتی ہے۔ میرے قارئین مجھے ایسے ایس ایم ایس بھیجتے ہیں، جنھیں پڑھ کر میں حیران رہ جاتا ہوں۔ ایسے ہی ایس ایم ایس میں ایک یہ ہے ''یہ جو ہم ہیں نا احساس میں جلتے ہوئے لوگ، زمین زاد نہ ہوتے تو ستارے ہوتے۔''