دیواریں ہیں یا ورق قاعدے کے۔۔۔
کراچی میں دیواروں پر حرف تہجی کے تحت طبع کی گئی دل چسپ معلومات کا احوال
شاہ راہوں کی دیواروں کا ذکر کیا جائے، تو یہاں پوسٹر اور وال چاکنگ کے ذریعے تشہیر اور جذبات کے اظہار کا سلسلہ خاصا پرانا ہے اور بڑے شہروں میں یہ معاملہ کافی حد تک گمبھیر بھی رہا ہے۔ سیاسی ومذہبی جلسے جلوسوں کی دعوت سے انتخابی مہم تک، اظہارمحبت سے نعرۂ مرگ تک، مطالبوں سے احتجاجی نعروں تک۔۔۔ الغرض دیواریں اپنی تحریروں کے ذریعے ہمیں بولتی، ہنستی، روتی، گاتی اور چیختی چنگھاڑتی دکھائی دیتی ہیں۔
جذبات کے اظہار کا ایک سستا، عوامی اور موثر سمجھا جانے والا ذریعہ جب شہر کی دیواروں کو گندا کرنے کا سبب بننے لگے، تو اسے ایک مسئلہ شمار کیا جانے لگتا ہے۔
گذشتہ دنوں ''دیوار مہربانی'' کے ذریعے دیوار کا ایک نیا اور اچھوتا روپ بھی سامنے آیا تھا، یعنی وہ دیواریں جہاں لوگ ضرورت مندوں کے لیے مختلف چیزیں چھوڑ جایا کرتے تھے۔ اب شہر کی دیواروں کا تازہ حوالہ ''کراچی کا قاعدہ'' ہے۔ صدر، کراچی میں دیوار پر الف سے ے تک حرف تہجی کے اعتبار سے شہر بھر کی اہم اور دل چسپ معلومات درج کی گئی ہیں، جن میں مختلف مقامات اور عمارتوں کے رنگین خاکوں کو ان کی معلومات کے ساتھ دیوار پر منتقل کیا گیا ہے۔
یہ منصوبہ 'آئی ایم کراچی' نامی ایک غیر سرکاری تنظیم نے تشکیل دیا ہے، جس کا مقصد شہریوں کو کراچی کی معلومات سے روشناس کرانا اور بیرون کراچی، شہر کا مثبت تاثر اجاگر کرنا ہے۔ اس دیوار کو ویسل آرٹسٹ کلیکٹو (Vasl Artist Collective) کی ڈیزائنر سعدیہ حلیمہ نے انڈس ویلی اسکول آف آرٹس اینڈ آرکیٹکچر کے تعاون سے طبع کیا ہے۔ خطاطی کے لیے ضیاء الرحمٰن کی خدمات حاصل کی گئی ہیں۔ مصوری کے لیے گلریز خان، مزمل حسین، اویس خان، جنید خان اور ہارون نے کام کیا، جب کہ رنگ وروغن کے لیے نعیم اختر خان اور محمد ہاشم کی صلاحیتوں سے استفادہ کیا گیا ہے۔
گذشتہ کچھ عرصے سے اسی تنظیم کی جانب سے کراچی کے مختلف علاقوں میں بدنما اور خراب دیواروں کو دیدہ زیب نقش ونگار اور دل فریب مصوری سے آراستہ کرنے کا سلسلہ جاری ہے، جس کا مقصد شہر کو خوب صورت بنانا اور اس شہر میں بسنے والے مختلف رنگ ونسل اور عقائد کے حامل لوگوں کو ایک دوسرے سے جوڑنا اور ان کے درمیان ایسی ہم آہنگی پیدا کرنا ہے کہ جس سے واقعتاً وہ بھی اس شہر کو اپنا سمجھیں، اس کے مسائل حل کرنے کے لیے تعاون کریں اور اپنی شہری ذمہ داریاں نبھائیں۔
گذشتہ کچھ عرصے سے کراچی میں جاری سیاسی، لسانی اور فرقہ وارانہ تنائو اس شہر کی دیواروں سے بھی عیاں ہوتا تھا۔ مختلف متحارب گروہ اپنی اپنی زہریلی اور نفرت انگیز سوچ کو شہر بھر کی دیواروں پر لکھتے رہے۔ ماہرین عمرانیات واِبلاغیات لکھی گئی دیواروں کو بھی ایک اہم بصری ذریعہ اِبلاغ گردانتے ہیں۔ دیواری تحریروں کے ذریعے سماج کے ناگفتنی مسائل، سرگرمیوں اور رجحانات کی خبر ملتی ہے، بعض حالات میں سچائی کے لیے بھی دیواروں کو ایک اہم ذریعہ سمجھا جانے لگتا ہے، خالد صدیقی کے بقول ؎
بے کار ہے بے معنی ہے اخبار کی سرخی
لکھا ہے جو دیوار پہ وہ غور طلب ہے
لیکن بے ترتیب، بے نظم، بے ہنگم اور تلخ ونازیبا تحریروں سے آراستہ دیواریں نگاہوں کو بہت گراں گزرتی ہیں، پھر جب دیواروں کو نفرت وتعصب کے اظہار کا عام ذریعہ سمجھ لیا جائے، ناشائستہ اشتہارات سے لے کر مغلظات تک لکھ دی جائیں، تو اس پر بند باندھنے کی سعی کرنی چاہیے۔ ماضی میں ان دیواری تحریروں کی روک تھام کے لیے مقامی حکومتوں سے لے کر صوبائی حکومتوں تک بہتیری کوششیں کی جاتی رہی ہیں۔ آگاہی مہم سے لے کر اس کا ارتکاب کرنے والوں کے خلاف تادیبی کارروائیوں تک۔۔۔ لیکن مجموعی طور پر اس مسئلے سے چھٹکارا نہیں مل سکا۔
اس مسئلے پر قابو پانے کے لیے مختلف تجارتی اداروں کی جانب سے کچھ علاقوں میں دیواروں کو صاف کیا گیا تھا، اور ان پر اپنی تشہیر کے ساتھ مفاد عامّہ کے مختلف پیغام کنندہ کیے گئے تھے۔ دل چسپ امر یہ ہے کہ شہر کے بعض علاقوں میں انہوں نے مختلف سیاسی جماعتوں کے نعرے بھی اسی کے ساتھ درج کر دیے تھے، تاکہ سیاسی کارکن اپنے جذبات کے اظہار کے لیے اس دیوار کے خوب صورت رنگ وروغن کو خراب کرنے سے باز رہیں۔
بہت سے علاقوں میں بہ یک وقت کئی جماعتوں کا اثر رسوخ تھا، تو تشہیری اداروں کی جانب سے روغن کی گئی اس دیوار پر ان سب کو باری باری نمائندگی دی گئی اور ہر نعرے کے بعد اپنا تجارتی نعرہ 'یہی تو رنگ ہے زندگی کا' بھی درج کیا۔ اب سڑک سے گزرتے ہوئے آپ انہیں پڑھتے چلے جائیں، تو اس کے تجارتی نعرے 'یہی تو رنگ ہے زندگی کا' کے ساتھ مل کر عجیب مضحکہ خیز تحریر بن جاتی ہے۔ جیسے 'جیے فلاں...یہی تو رنگ ہے زندگی کا، نعرہ ٔ فلاں...یہی تو رنگ ہے زندگی کا، فلاں زندہ باد...یہی تو رنگ ہے زندگی کا، وغیرہ۔ یہی نہیں اس پر بہت سے عامل اور پیروں کے اشتہار طبع کرنے کے بعد مضحکہ خیزی اور بھی بڑھ جاتی۔
''آئی ایم کراچی'' نے بھی کراچی کی دیواروں کو مثبت سرگرمیوں کے لیے منتخب کیا۔ اس تنظیم کا مقصد کھیل، فنون، مکالمے اور شہر کے ثقافتی نفوذ کو فروغ دینا ہے۔ دیواروں پر کی جانے والی اس سرگرمی کا مقصد بھی شہریوں میں امید، تنوع، فخر اور ملکیت کے احساس کو اجاگر کرنا ہے۔ اسی سلسلے میں صدر کے علاقے میں دیواروں پر 'کراچی کا قاعدہ' طبع کیا گیا ہے۔ اس 'قاعدے' میں شہر کراچی کی عمارتیں، مشہور علاقے، شہر کا قدیم ثقافتی ورثہ، طرز زندگی اور تنوع کو اجاگر کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔
''آئی ایم کراچی'' کے پروگرام ایسوسی ایٹ صدام صدیقی نے ''ایکسپریس'' سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ وہ چاہتے ہیں کہ اس دیوار کو شہر میں گھومنے والے باقاعدہ دیکھنے کے لیے آئیں، تاکہ دیواروں کا یہ خوب صورت تاثر اور لطف انگیز تعلیم سب تک پہنچے۔ ''آئی ایم کراچی'' کے تحت شہر کے لیے آٹھ کلیدی اقدام کیے جا رہے ہیں، جن میں مختلف فنون، کھیل، تربیتی بیٹھک، مکالمے، ثقافتی اور تفریحی میلوں اور حوصلہ افزائی کے لیے ایوارڈز کا اہتمام کیا جاتا ہے۔
دیواروں پر لکھی جانے والی کسی بھی تحریر کو ایک مختصر المدتی تحریر کہا جاتا ہے، اس کی کوئی ضمانت نہیں ہوتی کہ کب کوئی اور تحریر یا اشتہار اس پر طبع کردیا جائے۔ ایسے میں نہایت محنت سے آراستہ کیا جانے والا 'کراچی کا قاعدہ' اور اس نوعیت کی دیگر دیدہ زیب مصوری کو کس طرح محفوظ رکھا جا سکتا ہے، اس پر صدام صدیقی نے بتایا کہ 'کراچی کا قاعدہ' طبع کرنے کے بعد وہاں کے مکینوں نے اس کے تحفظ کی ضمانت دی ہے۔
اب وہاں کے رہائشی اپنی ذمہ داری کے تحت اس پر نظر رکھیں گے کہ اس دیوار پر کوئی پوسٹر چپکایا جائے اور نہ ہی کسی قسم کی کوئی چاکنگ ہو۔ صدام صدیقی کا کہنا تھا کہ اتفاق یہ ہے کہ 'آئی ایم کراچی' کی بنائی گئی دیواروں پر کبھی کسی نے چاکنگ یا پوسٹر لگا کر خراب نہیں کیا۔ ایک مرتبہ ایک سیاسی تنظیم کی جانب سے مولوی تمیز الدین روڈ پر ان کی بنائی گئی مصوری پر پوسٹر چسپاں کر دیے گئے تھے، 'آئی ایم کراچی' نے اس سیاسی تنظیم سے باقاعدہ تحریری طور پر احتجاج کیا، جس کے نتیجے میں انہوں نے معذرت کرتے ہوئے نہ صرف وہ پوسٹر صاف کرائے، بل کہ نقش ونگار کو ٹھیک کرانے کے اخراجات بھی خود برداشت کیے۔
شہری ذمہ داری اور احساس وشعور کے حوالے سے اسے ایک نہایت خوش کُن تجربہ کہا جا سکتا ہے۔ علاوہ ازیں کراچی کے کینٹ اسٹیشن کی دیواروں کو بھی انہوں نے دل آویز مصوری سے سجایا ہے۔ اس کے لیے باقاعدہ ریلوے انتظامیہ کا تعاون حاصل کیا گیا ہے۔ اسی طرح ہوائی اڈوں کی دیواروں پر کام کرنے کے لیے وہ سول ایوی ایشن اتھارٹی (سی اے اے ) کا تعاون حاصل کریں گے۔
اردو کا فروغ، قاعدے کا اہم مقصد
'کراچی کے قاعدے' کے لیے خصوصی طور پر قومی زبان اردو کو اختیار کیا گیا ہے۔ اس حوالے سے 'آئی ایم کراچی' کے پروگرام ایسوسی ایٹ صدام صدیقی نے ہمیں بتایا کہ 'اس کا مقصد یہ ہے کہ ہماری نئی نسل اپنی زبان کے قریب آئے۔' یہ حقیقت ہے کہ ہمارے بچے انگریزی ذریعہ تعلیم میں پڑھتے ہیں، جس کی وجہ سے ان کی انگریزی اچھی ہو یا نہ ہو، اردو کافی کم زور دکھائی دیتی ہے۔
اب یہ بات بھی بہت عام ہو چکی ہے کہ بچے ماحول کی وجہ سے اردو بول اور سمجھ تو لیتے ہیں، لیکن انہیں اردو رسم الخط سے دور ہونے کی وجہ سے اردو لکھنے اور پڑھنے میں اب کافی مسائل کا سامنا ہو رہا ہے۔ 'کراچی کے قاعدے' میں جہاں عام کراچی والوں کے لیے درس ہے، وہیں نئی نسل کے لیے بھی اپنی زبان سے جُڑنے کا پیغام پنہاں ہے۔
اس منصوبے کے لیے قومی زبان اردو کو اختیار کرنا بلاشبہ ایک لائق تحسین کوشش ہے، لیکن حرف تہجی کے اعتبار سے جب ہم یہ 'کراچی کی یہ الف، ب پ' پڑھتے ہیں تو کچھ حرف تہجی کا جوڑ کافی غلط دکھائی دیتا ہے، جیسے ''ھ'' سے بھٹے والا، ''ء'' سے اورنگی ٹاؤن اور ڑ سے کٹی پہاڑی وغیرہ۔ بھٹے والا بھ سے، اورنگی ٹاؤن الف سے اور کٹی پہاڑی ک سے لکھا جانا چاہیے تھا۔
کراچی کی مکمل
الف، ب، پ۔۔۔
دیوار پر لکھی گئی کراچی کی الف، ب کی تفصیل کچھ اس طرح ہے، الف سے ایمپریس مارکیٹ، آ سے آئی آئی چندریگر روڈ، ب سے بندر روڈ ، پ سے پاکستان چوک، ت سے تین تلوار، ٹ سے ٹاور، ث سے ثمر، ج سے جہانگیر کوٹھاری پریڈ، چ سے چار مینار چورنگی (بہادرآباد)، ح سے حلوہ پوری، خ سے خالق دینا ہال، د سے دیا رام جیٹھ مل (ڈی جے) سائنس کالج، ڈ سے ڈھابے، ذ سے ذخیرہ، ر سے ریڈیو پاکستان، ڑ سے کٹی پہاڑی (اس میں پہاڑی میں ڑ کے استعمال کو بنیاد بنایا گیا) ز سے زیب النسا اسٹریٹ، ژ سے ٹیلی وژن (اس میں ٹیلی وژن میں ژ کو معیار بنایا گیا)
س سے ساحل سمندر، ش سے شری سوامی نارائن مندر، ص سے صدر، ض سے ضیاء الدین احمد روڈ، ط سے طاہری مسجد، ظ سے ظروف، ع سے عبداﷲ شاہ غازی کا مزار، غ سے غبارے والا، ف سے فلیگ اسٹاف ہاؤس، ق سے قائداعظم کا مزار، ک سے کھارادر، گ سے گاندھی گارڈن، ل سے لیاری، م سے منگھو پیر، ن سے نشاط سنیما، و سے وکٹوریہ مینشن، ہ سے ہندوجم خانہ، ء سے اورنگی ٹاؤن (لفظ ٹاؤن میں ہمزہ کے استعمال کی بنا پر) ی سے یونیورسٹی روڈ۔
ظروف، حلوہ پوری اور 'ڈھابے' کا تذکرہ
اس قاعدے میں جہاں کراچی کے مختلف عمارتیں، بازار، محلے اور علاقے شامل کیے گئے ہیں، وہیں شہر کے ثقافتی نفوذ کو بھی مدنظر رکھا گیا ہے۔ جیسے ث سے ثمر ہے، جس میں کراچی کے پھل فروشوں کو دکھایا گیا ہے۔ ساتھ ہی 'حلوہ پوری' اور 'ڈھابے' کی رونقوں کا تذکرہ بھی ہے تو 'بھٹے والا' اور 'غبارے والا' بھی بطور خاص ان دیواروں پر نقش ہے۔
ذ سے ذخیرہ میں شہر کے بڑے تھوک بازاروں کا احاطہ کیا گیا ہے۔ ظ سے ظروف میں کراچی میں بننے والے مٹی کے برتنوں کے حوالے سے لکھا گیا ہے۔ پہلے یہ ظروف صرف لیاری کے کمہار واڑے میں بنتے تھے، اب نئی کراچی کے کمہار واڑے میں بھی یہ کام ہوتا ہے۔
٭ 13 عمارتیں اور تاریخی مقامات
'کراچی کے قاعدے' میں شامل 13 عمارتوں میں ہمیں برطانوی دور میں ''باغیوں'' کی قتل گاہ پر تعمیر ہونے والے بازار ایمپریس مارکیٹ (صدر) کا تعارف سب سے پہلے نظر آتا ہے۔ 1971ء میں مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے بعد آباد ہونے والی دنیا کی نمایاں ترین کچی آبادی اورنگی ٹاؤن، شہر کے پارسی تاجر جہانگیر کوٹھاری کی جانب سے 1919ء میں تعمیر کی جانے والی 'جہانگیر کوٹھاری پریڈ' بھی اس دل چسپ قاعدے کا حصہ ہے، جس کے ارد گرد 2007ء میں ایک وسیع وعریض 'باغ ابن قاسم' بنا دیا گیا۔
1906ء میں تعمیر ہونے والا تاریخی خالق دینا ہال بھی اس قاعدے میں موجود ہے، جو ماضی میں اہم سیاسی، سماجی اور مذہبی سرگرمیوں کا مرکز رہا، ساتھ ہی انگریزوں کے زمانے میں حریت پسند راہ نما مولانا شوکت علی اور محمد علی جوہر پر اسی عمارت میں مقدمہ چلایا گیا۔ اس قاعدے میں شہر کا پہلا کالج دیا رام جیٹھ مل (ڈی جے) سائنس کالج بھی جگمگاتا نظر آتا ہے، جو 1887ء میں قائم ہوا۔ دیگر اہم مقامات میں مزار قائد، ریڈیو پاکستان، پاکستان ٹیلی وژن سینٹر، نشاط سینما، فلیگ اسٹاف ہاؤس (قائداعظم ہاؤس) اور وکٹوریہ مینشن (عبداﷲ ہارون روڈ) کے علاوہ 1925ء میں تعمیر ہونے والے ہندو جم خانے کا تذکرہ ہے، جہاں اب نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف پرفارمنگ آرٹس (ناپا) قائم ہے۔ 1878ء کا تاریخی گاندھی گارڈن، بھی اس قاعدے میں شامل کیا گیا ہے، جو اب کراچی کے چڑیا گھر کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔
٭پانچ سڑکیں بھی قاعدے کی زینت
کراچی کی پانچ شاہ راہیں جو اس قاعدے کی زینت بنائی گئی ہیں، ان میں معاشی سرگرمیوں کا مرکز آئی آئی چندریگر روڈ، بندر دوڈ (یہ سڑک بندرگاہ تک جاتی ہے، اسی مناسبت سے بندر روڈ کہلاتی تھی، اب اسے ایم اے جناح روڈ کہا جاتا ہے) صدر کی زیب النساء اسٹریٹ، ضیاء الدین احمد روڈ اور یونیورسٹی روڈ شامل ہیں۔
٭نو علاقے اور چورنگیاں
اس قاعدے میں کراچی کے نو مختلف علاقوں اور چورنگیوں کا تعارف شامل کیا گیا ہے، جن میں صدر، لیاری، کھارادر، پاکستان چوک، تاریخی میری ویدر ٹاور، تین تلوار (کلفٹن)، 2007ء میں حیدر آباد (دکن) کے 1591ء میں تعمیر شدہ چار مینار کی طرز پر بہادر آباد میں بنائی گئی چار مینار چورنگی شامل ہیں۔ اس کے علاوہ چند برسوں قبل اورنگی ٹاؤن کا راستہ نکالنے کے لیے بنائی گئی کٹی پہاڑی اور ساحل سمندر کو بھی شامل کیا گیا ہے۔
٭عبادت گاہیں اور مقدس مقامات
اس قاعدے میں شہر کی چار عبادت گاہوں اور مقدس مقامات کو بھی درج کیا گیا ہے، جن میں ش سے شری سوامی نارائن مندر بھی شامل ہے۔ اس کی انفرادیت یہ ہے کہ یہ پاکستان میں سوامی نارائن کا واحد مندر ہے، جو کہ بندر روڈ (ایم اے جناح روڈ) پر واقع ہے۔ ط سے طاہری مسجد (صدر) کا تذکرہ ہے، جو بوہری برادری کی ایک وسیع مسجد ہے۔ ع سے عبداﷲ شاہ غازی کے مزار کا احوال بیان کیا گیا ہے تو م سے منگھو پیر اور اس کی وجہ تسمیہ پیر سخی سلطان شاہ کے مزار کا تذکرہ ہے، جہاں کی خاص بات سو کے قریب مگر مچھ ہیں، جن کے بارے میں لوگوں کا ماننا ہے کہ یہ پیر صاحب کی جوئیں تھیں، جو کرامت کے نتیجے میں مچھ بن گئیں۔
٭سیاسی، تاریخی اور مذہبی دیواریں
یوں تو دیوار کے کئی حقیقی اور مجازی معنی لیے جاتے ہیں۔۔۔ دیوار اگر کسی خطرے کے آگے بنے، تو خوب سراہی جاتی ہے، اگر کسی صحن میں اٹھے، تو تاثر منفی ہو جاتا ہے۔ ''دیوار چین'' ہو تو عجوبہ بن کر دنیا کی مرکز نگاہ بن جاتی ہے۔۔۔ 'دیوار برلن' کے نام سے ہو تو نظریاتی فصیل ہو کر یک ساں لوگوں کو الگ الگ ملکوں میں بانٹ دیتی ہے۔ تاریخ کے اوراق پلٹیں، تو مغل بادشاہ اکبر کی جانب سے شہزادہ سلیم کی محبوبہ انارکلی کو دیوار میں چنوانے کا قصہ ملتا ہے۔ مذہبی حوالے دیکھیں تو فلسطین میں واقع 'دیوار گریہ' کا یہودیوں کے لیے مقدس ہے۔ اب سماجی ذرایع اِبلاغ کے صارفین کے لیے فیس بک کی دیوار (وال) کی بھی کافی اہمیت ہو گئی ہے!
٭اردو ادب میں 'دیوار'
دیوار زندگی کی ہی ایک ضرورت نہیں بلکہ محاورتاً اور تشبیہاً بھی دیوار اپنے اندر نہایت گہرائی اور گیرائی لیے ہوئے ہے۔ اس ہی دیوار میں در بھی ہے اور دریچہ بھی۔ مجازی معنوں سے لے کر اشعار تک دیوار کے استعارے کا برتاؤ خوب ملتا ہے، کہیں دیواروں سے باتیں کرنے کا تذکرہ ہے، تو کہیں عالم دیوانگی و بے بسی میں دیوار سے سر ٹکرانے کا خیال۔۔۔ کہیں شاعر اپنے کچے مکان کی دیوار گرنے پر لوگوں کے رستے بنانے کا شکوہ کرتا ہے، تو کہیں 'گرتی ہوئی دیوار کو ایک دھکا اور دینے کے لیے اُکسایا جاتا ہے، کہیں دیواروں کے کان ہوتے ہیں، جیسی باتیں کر کے لوگوں کو ہوشیار کیا جاتا ہے۔ مظلومیت کی دُہائی دیتے ہوئے 'دیوار سے لگائے جانے' کا شکوہ تو زبان زدِ عام ہے۔ دیوار کے حوالے سے کچھ اشعار بھی خاصے مقبول ہیں
در ودیوار پہ حسرت سی ٹپکتی ہے قتیل
جانے کس دیس گئے پیار نبھانے والے
(قتیل شفائی)
ہمارے گھر کی دیواروں پہ ناصر
اداسی بال کھولے سو رہی ہے
(ناصر کاظمی)
سامنے دیوار پر کچھ داغ تھے
غور سے دیکھا تو چہرے ہوگئے
(محمد علوی)
بے سود ہمیں روزن دیوار سے مت دیکھ
ہم اجڑے ہوئے لوگ، ہمیں پیار سے مت دیکھ
(اعتبار ساجد)
ہے میری آنکھوں میں عکس نوشتۂ دیوار
سمجھ سکو تو مرا نطق بے زباں لے لو
(فرحان سالم)
جذبات کے اظہار کا ایک سستا، عوامی اور موثر سمجھا جانے والا ذریعہ جب شہر کی دیواروں کو گندا کرنے کا سبب بننے لگے، تو اسے ایک مسئلہ شمار کیا جانے لگتا ہے۔
گذشتہ دنوں ''دیوار مہربانی'' کے ذریعے دیوار کا ایک نیا اور اچھوتا روپ بھی سامنے آیا تھا، یعنی وہ دیواریں جہاں لوگ ضرورت مندوں کے لیے مختلف چیزیں چھوڑ جایا کرتے تھے۔ اب شہر کی دیواروں کا تازہ حوالہ ''کراچی کا قاعدہ'' ہے۔ صدر، کراچی میں دیوار پر الف سے ے تک حرف تہجی کے اعتبار سے شہر بھر کی اہم اور دل چسپ معلومات درج کی گئی ہیں، جن میں مختلف مقامات اور عمارتوں کے رنگین خاکوں کو ان کی معلومات کے ساتھ دیوار پر منتقل کیا گیا ہے۔
یہ منصوبہ 'آئی ایم کراچی' نامی ایک غیر سرکاری تنظیم نے تشکیل دیا ہے، جس کا مقصد شہریوں کو کراچی کی معلومات سے روشناس کرانا اور بیرون کراچی، شہر کا مثبت تاثر اجاگر کرنا ہے۔ اس دیوار کو ویسل آرٹسٹ کلیکٹو (Vasl Artist Collective) کی ڈیزائنر سعدیہ حلیمہ نے انڈس ویلی اسکول آف آرٹس اینڈ آرکیٹکچر کے تعاون سے طبع کیا ہے۔ خطاطی کے لیے ضیاء الرحمٰن کی خدمات حاصل کی گئی ہیں۔ مصوری کے لیے گلریز خان، مزمل حسین، اویس خان، جنید خان اور ہارون نے کام کیا، جب کہ رنگ وروغن کے لیے نعیم اختر خان اور محمد ہاشم کی صلاحیتوں سے استفادہ کیا گیا ہے۔
گذشتہ کچھ عرصے سے اسی تنظیم کی جانب سے کراچی کے مختلف علاقوں میں بدنما اور خراب دیواروں کو دیدہ زیب نقش ونگار اور دل فریب مصوری سے آراستہ کرنے کا سلسلہ جاری ہے، جس کا مقصد شہر کو خوب صورت بنانا اور اس شہر میں بسنے والے مختلف رنگ ونسل اور عقائد کے حامل لوگوں کو ایک دوسرے سے جوڑنا اور ان کے درمیان ایسی ہم آہنگی پیدا کرنا ہے کہ جس سے واقعتاً وہ بھی اس شہر کو اپنا سمجھیں، اس کے مسائل حل کرنے کے لیے تعاون کریں اور اپنی شہری ذمہ داریاں نبھائیں۔
گذشتہ کچھ عرصے سے کراچی میں جاری سیاسی، لسانی اور فرقہ وارانہ تنائو اس شہر کی دیواروں سے بھی عیاں ہوتا تھا۔ مختلف متحارب گروہ اپنی اپنی زہریلی اور نفرت انگیز سوچ کو شہر بھر کی دیواروں پر لکھتے رہے۔ ماہرین عمرانیات واِبلاغیات لکھی گئی دیواروں کو بھی ایک اہم بصری ذریعہ اِبلاغ گردانتے ہیں۔ دیواری تحریروں کے ذریعے سماج کے ناگفتنی مسائل، سرگرمیوں اور رجحانات کی خبر ملتی ہے، بعض حالات میں سچائی کے لیے بھی دیواروں کو ایک اہم ذریعہ سمجھا جانے لگتا ہے، خالد صدیقی کے بقول ؎
بے کار ہے بے معنی ہے اخبار کی سرخی
لکھا ہے جو دیوار پہ وہ غور طلب ہے
لیکن بے ترتیب، بے نظم، بے ہنگم اور تلخ ونازیبا تحریروں سے آراستہ دیواریں نگاہوں کو بہت گراں گزرتی ہیں، پھر جب دیواروں کو نفرت وتعصب کے اظہار کا عام ذریعہ سمجھ لیا جائے، ناشائستہ اشتہارات سے لے کر مغلظات تک لکھ دی جائیں، تو اس پر بند باندھنے کی سعی کرنی چاہیے۔ ماضی میں ان دیواری تحریروں کی روک تھام کے لیے مقامی حکومتوں سے لے کر صوبائی حکومتوں تک بہتیری کوششیں کی جاتی رہی ہیں۔ آگاہی مہم سے لے کر اس کا ارتکاب کرنے والوں کے خلاف تادیبی کارروائیوں تک۔۔۔ لیکن مجموعی طور پر اس مسئلے سے چھٹکارا نہیں مل سکا۔
اس مسئلے پر قابو پانے کے لیے مختلف تجارتی اداروں کی جانب سے کچھ علاقوں میں دیواروں کو صاف کیا گیا تھا، اور ان پر اپنی تشہیر کے ساتھ مفاد عامّہ کے مختلف پیغام کنندہ کیے گئے تھے۔ دل چسپ امر یہ ہے کہ شہر کے بعض علاقوں میں انہوں نے مختلف سیاسی جماعتوں کے نعرے بھی اسی کے ساتھ درج کر دیے تھے، تاکہ سیاسی کارکن اپنے جذبات کے اظہار کے لیے اس دیوار کے خوب صورت رنگ وروغن کو خراب کرنے سے باز رہیں۔
بہت سے علاقوں میں بہ یک وقت کئی جماعتوں کا اثر رسوخ تھا، تو تشہیری اداروں کی جانب سے روغن کی گئی اس دیوار پر ان سب کو باری باری نمائندگی دی گئی اور ہر نعرے کے بعد اپنا تجارتی نعرہ 'یہی تو رنگ ہے زندگی کا' بھی درج کیا۔ اب سڑک سے گزرتے ہوئے آپ انہیں پڑھتے چلے جائیں، تو اس کے تجارتی نعرے 'یہی تو رنگ ہے زندگی کا' کے ساتھ مل کر عجیب مضحکہ خیز تحریر بن جاتی ہے۔ جیسے 'جیے فلاں...یہی تو رنگ ہے زندگی کا، نعرہ ٔ فلاں...یہی تو رنگ ہے زندگی کا، فلاں زندہ باد...یہی تو رنگ ہے زندگی کا، وغیرہ۔ یہی نہیں اس پر بہت سے عامل اور پیروں کے اشتہار طبع کرنے کے بعد مضحکہ خیزی اور بھی بڑھ جاتی۔
''آئی ایم کراچی'' نے بھی کراچی کی دیواروں کو مثبت سرگرمیوں کے لیے منتخب کیا۔ اس تنظیم کا مقصد کھیل، فنون، مکالمے اور شہر کے ثقافتی نفوذ کو فروغ دینا ہے۔ دیواروں پر کی جانے والی اس سرگرمی کا مقصد بھی شہریوں میں امید، تنوع، فخر اور ملکیت کے احساس کو اجاگر کرنا ہے۔ اسی سلسلے میں صدر کے علاقے میں دیواروں پر 'کراچی کا قاعدہ' طبع کیا گیا ہے۔ اس 'قاعدے' میں شہر کراچی کی عمارتیں، مشہور علاقے، شہر کا قدیم ثقافتی ورثہ، طرز زندگی اور تنوع کو اجاگر کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔
''آئی ایم کراچی'' کے پروگرام ایسوسی ایٹ صدام صدیقی نے ''ایکسپریس'' سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ وہ چاہتے ہیں کہ اس دیوار کو شہر میں گھومنے والے باقاعدہ دیکھنے کے لیے آئیں، تاکہ دیواروں کا یہ خوب صورت تاثر اور لطف انگیز تعلیم سب تک پہنچے۔ ''آئی ایم کراچی'' کے تحت شہر کے لیے آٹھ کلیدی اقدام کیے جا رہے ہیں، جن میں مختلف فنون، کھیل، تربیتی بیٹھک، مکالمے، ثقافتی اور تفریحی میلوں اور حوصلہ افزائی کے لیے ایوارڈز کا اہتمام کیا جاتا ہے۔
دیواروں پر لکھی جانے والی کسی بھی تحریر کو ایک مختصر المدتی تحریر کہا جاتا ہے، اس کی کوئی ضمانت نہیں ہوتی کہ کب کوئی اور تحریر یا اشتہار اس پر طبع کردیا جائے۔ ایسے میں نہایت محنت سے آراستہ کیا جانے والا 'کراچی کا قاعدہ' اور اس نوعیت کی دیگر دیدہ زیب مصوری کو کس طرح محفوظ رکھا جا سکتا ہے، اس پر صدام صدیقی نے بتایا کہ 'کراچی کا قاعدہ' طبع کرنے کے بعد وہاں کے مکینوں نے اس کے تحفظ کی ضمانت دی ہے۔
اب وہاں کے رہائشی اپنی ذمہ داری کے تحت اس پر نظر رکھیں گے کہ اس دیوار پر کوئی پوسٹر چپکایا جائے اور نہ ہی کسی قسم کی کوئی چاکنگ ہو۔ صدام صدیقی کا کہنا تھا کہ اتفاق یہ ہے کہ 'آئی ایم کراچی' کی بنائی گئی دیواروں پر کبھی کسی نے چاکنگ یا پوسٹر لگا کر خراب نہیں کیا۔ ایک مرتبہ ایک سیاسی تنظیم کی جانب سے مولوی تمیز الدین روڈ پر ان کی بنائی گئی مصوری پر پوسٹر چسپاں کر دیے گئے تھے، 'آئی ایم کراچی' نے اس سیاسی تنظیم سے باقاعدہ تحریری طور پر احتجاج کیا، جس کے نتیجے میں انہوں نے معذرت کرتے ہوئے نہ صرف وہ پوسٹر صاف کرائے، بل کہ نقش ونگار کو ٹھیک کرانے کے اخراجات بھی خود برداشت کیے۔
شہری ذمہ داری اور احساس وشعور کے حوالے سے اسے ایک نہایت خوش کُن تجربہ کہا جا سکتا ہے۔ علاوہ ازیں کراچی کے کینٹ اسٹیشن کی دیواروں کو بھی انہوں نے دل آویز مصوری سے سجایا ہے۔ اس کے لیے باقاعدہ ریلوے انتظامیہ کا تعاون حاصل کیا گیا ہے۔ اسی طرح ہوائی اڈوں کی دیواروں پر کام کرنے کے لیے وہ سول ایوی ایشن اتھارٹی (سی اے اے ) کا تعاون حاصل کریں گے۔
اردو کا فروغ، قاعدے کا اہم مقصد
'کراچی کے قاعدے' کے لیے خصوصی طور پر قومی زبان اردو کو اختیار کیا گیا ہے۔ اس حوالے سے 'آئی ایم کراچی' کے پروگرام ایسوسی ایٹ صدام صدیقی نے ہمیں بتایا کہ 'اس کا مقصد یہ ہے کہ ہماری نئی نسل اپنی زبان کے قریب آئے۔' یہ حقیقت ہے کہ ہمارے بچے انگریزی ذریعہ تعلیم میں پڑھتے ہیں، جس کی وجہ سے ان کی انگریزی اچھی ہو یا نہ ہو، اردو کافی کم زور دکھائی دیتی ہے۔
اب یہ بات بھی بہت عام ہو چکی ہے کہ بچے ماحول کی وجہ سے اردو بول اور سمجھ تو لیتے ہیں، لیکن انہیں اردو رسم الخط سے دور ہونے کی وجہ سے اردو لکھنے اور پڑھنے میں اب کافی مسائل کا سامنا ہو رہا ہے۔ 'کراچی کے قاعدے' میں جہاں عام کراچی والوں کے لیے درس ہے، وہیں نئی نسل کے لیے بھی اپنی زبان سے جُڑنے کا پیغام پنہاں ہے۔
اس منصوبے کے لیے قومی زبان اردو کو اختیار کرنا بلاشبہ ایک لائق تحسین کوشش ہے، لیکن حرف تہجی کے اعتبار سے جب ہم یہ 'کراچی کی یہ الف، ب پ' پڑھتے ہیں تو کچھ حرف تہجی کا جوڑ کافی غلط دکھائی دیتا ہے، جیسے ''ھ'' سے بھٹے والا، ''ء'' سے اورنگی ٹاؤن اور ڑ سے کٹی پہاڑی وغیرہ۔ بھٹے والا بھ سے، اورنگی ٹاؤن الف سے اور کٹی پہاڑی ک سے لکھا جانا چاہیے تھا۔
کراچی کی مکمل
الف، ب، پ۔۔۔
دیوار پر لکھی گئی کراچی کی الف، ب کی تفصیل کچھ اس طرح ہے، الف سے ایمپریس مارکیٹ، آ سے آئی آئی چندریگر روڈ، ب سے بندر روڈ ، پ سے پاکستان چوک، ت سے تین تلوار، ٹ سے ٹاور، ث سے ثمر، ج سے جہانگیر کوٹھاری پریڈ، چ سے چار مینار چورنگی (بہادرآباد)، ح سے حلوہ پوری، خ سے خالق دینا ہال، د سے دیا رام جیٹھ مل (ڈی جے) سائنس کالج، ڈ سے ڈھابے، ذ سے ذخیرہ، ر سے ریڈیو پاکستان، ڑ سے کٹی پہاڑی (اس میں پہاڑی میں ڑ کے استعمال کو بنیاد بنایا گیا) ز سے زیب النسا اسٹریٹ، ژ سے ٹیلی وژن (اس میں ٹیلی وژن میں ژ کو معیار بنایا گیا)
س سے ساحل سمندر، ش سے شری سوامی نارائن مندر، ص سے صدر، ض سے ضیاء الدین احمد روڈ، ط سے طاہری مسجد، ظ سے ظروف، ع سے عبداﷲ شاہ غازی کا مزار، غ سے غبارے والا، ف سے فلیگ اسٹاف ہاؤس، ق سے قائداعظم کا مزار، ک سے کھارادر، گ سے گاندھی گارڈن، ل سے لیاری، م سے منگھو پیر، ن سے نشاط سنیما، و سے وکٹوریہ مینشن، ہ سے ہندوجم خانہ، ء سے اورنگی ٹاؤن (لفظ ٹاؤن میں ہمزہ کے استعمال کی بنا پر) ی سے یونیورسٹی روڈ۔
ظروف، حلوہ پوری اور 'ڈھابے' کا تذکرہ
اس قاعدے میں جہاں کراچی کے مختلف عمارتیں، بازار، محلے اور علاقے شامل کیے گئے ہیں، وہیں شہر کے ثقافتی نفوذ کو بھی مدنظر رکھا گیا ہے۔ جیسے ث سے ثمر ہے، جس میں کراچی کے پھل فروشوں کو دکھایا گیا ہے۔ ساتھ ہی 'حلوہ پوری' اور 'ڈھابے' کی رونقوں کا تذکرہ بھی ہے تو 'بھٹے والا' اور 'غبارے والا' بھی بطور خاص ان دیواروں پر نقش ہے۔
ذ سے ذخیرہ میں شہر کے بڑے تھوک بازاروں کا احاطہ کیا گیا ہے۔ ظ سے ظروف میں کراچی میں بننے والے مٹی کے برتنوں کے حوالے سے لکھا گیا ہے۔ پہلے یہ ظروف صرف لیاری کے کمہار واڑے میں بنتے تھے، اب نئی کراچی کے کمہار واڑے میں بھی یہ کام ہوتا ہے۔
٭ 13 عمارتیں اور تاریخی مقامات
'کراچی کے قاعدے' میں شامل 13 عمارتوں میں ہمیں برطانوی دور میں ''باغیوں'' کی قتل گاہ پر تعمیر ہونے والے بازار ایمپریس مارکیٹ (صدر) کا تعارف سب سے پہلے نظر آتا ہے۔ 1971ء میں مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے بعد آباد ہونے والی دنیا کی نمایاں ترین کچی آبادی اورنگی ٹاؤن، شہر کے پارسی تاجر جہانگیر کوٹھاری کی جانب سے 1919ء میں تعمیر کی جانے والی 'جہانگیر کوٹھاری پریڈ' بھی اس دل چسپ قاعدے کا حصہ ہے، جس کے ارد گرد 2007ء میں ایک وسیع وعریض 'باغ ابن قاسم' بنا دیا گیا۔
1906ء میں تعمیر ہونے والا تاریخی خالق دینا ہال بھی اس قاعدے میں موجود ہے، جو ماضی میں اہم سیاسی، سماجی اور مذہبی سرگرمیوں کا مرکز رہا، ساتھ ہی انگریزوں کے زمانے میں حریت پسند راہ نما مولانا شوکت علی اور محمد علی جوہر پر اسی عمارت میں مقدمہ چلایا گیا۔ اس قاعدے میں شہر کا پہلا کالج دیا رام جیٹھ مل (ڈی جے) سائنس کالج بھی جگمگاتا نظر آتا ہے، جو 1887ء میں قائم ہوا۔ دیگر اہم مقامات میں مزار قائد، ریڈیو پاکستان، پاکستان ٹیلی وژن سینٹر، نشاط سینما، فلیگ اسٹاف ہاؤس (قائداعظم ہاؤس) اور وکٹوریہ مینشن (عبداﷲ ہارون روڈ) کے علاوہ 1925ء میں تعمیر ہونے والے ہندو جم خانے کا تذکرہ ہے، جہاں اب نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف پرفارمنگ آرٹس (ناپا) قائم ہے۔ 1878ء کا تاریخی گاندھی گارڈن، بھی اس قاعدے میں شامل کیا گیا ہے، جو اب کراچی کے چڑیا گھر کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔
٭پانچ سڑکیں بھی قاعدے کی زینت
کراچی کی پانچ شاہ راہیں جو اس قاعدے کی زینت بنائی گئی ہیں، ان میں معاشی سرگرمیوں کا مرکز آئی آئی چندریگر روڈ، بندر دوڈ (یہ سڑک بندرگاہ تک جاتی ہے، اسی مناسبت سے بندر روڈ کہلاتی تھی، اب اسے ایم اے جناح روڈ کہا جاتا ہے) صدر کی زیب النساء اسٹریٹ، ضیاء الدین احمد روڈ اور یونیورسٹی روڈ شامل ہیں۔
٭نو علاقے اور چورنگیاں
اس قاعدے میں کراچی کے نو مختلف علاقوں اور چورنگیوں کا تعارف شامل کیا گیا ہے، جن میں صدر، لیاری، کھارادر، پاکستان چوک، تاریخی میری ویدر ٹاور، تین تلوار (کلفٹن)، 2007ء میں حیدر آباد (دکن) کے 1591ء میں تعمیر شدہ چار مینار کی طرز پر بہادر آباد میں بنائی گئی چار مینار چورنگی شامل ہیں۔ اس کے علاوہ چند برسوں قبل اورنگی ٹاؤن کا راستہ نکالنے کے لیے بنائی گئی کٹی پہاڑی اور ساحل سمندر کو بھی شامل کیا گیا ہے۔
٭عبادت گاہیں اور مقدس مقامات
اس قاعدے میں شہر کی چار عبادت گاہوں اور مقدس مقامات کو بھی درج کیا گیا ہے، جن میں ش سے شری سوامی نارائن مندر بھی شامل ہے۔ اس کی انفرادیت یہ ہے کہ یہ پاکستان میں سوامی نارائن کا واحد مندر ہے، جو کہ بندر روڈ (ایم اے جناح روڈ) پر واقع ہے۔ ط سے طاہری مسجد (صدر) کا تذکرہ ہے، جو بوہری برادری کی ایک وسیع مسجد ہے۔ ع سے عبداﷲ شاہ غازی کے مزار کا احوال بیان کیا گیا ہے تو م سے منگھو پیر اور اس کی وجہ تسمیہ پیر سخی سلطان شاہ کے مزار کا تذکرہ ہے، جہاں کی خاص بات سو کے قریب مگر مچھ ہیں، جن کے بارے میں لوگوں کا ماننا ہے کہ یہ پیر صاحب کی جوئیں تھیں، جو کرامت کے نتیجے میں مچھ بن گئیں۔
٭سیاسی، تاریخی اور مذہبی دیواریں
یوں تو دیوار کے کئی حقیقی اور مجازی معنی لیے جاتے ہیں۔۔۔ دیوار اگر کسی خطرے کے آگے بنے، تو خوب سراہی جاتی ہے، اگر کسی صحن میں اٹھے، تو تاثر منفی ہو جاتا ہے۔ ''دیوار چین'' ہو تو عجوبہ بن کر دنیا کی مرکز نگاہ بن جاتی ہے۔۔۔ 'دیوار برلن' کے نام سے ہو تو نظریاتی فصیل ہو کر یک ساں لوگوں کو الگ الگ ملکوں میں بانٹ دیتی ہے۔ تاریخ کے اوراق پلٹیں، تو مغل بادشاہ اکبر کی جانب سے شہزادہ سلیم کی محبوبہ انارکلی کو دیوار میں چنوانے کا قصہ ملتا ہے۔ مذہبی حوالے دیکھیں تو فلسطین میں واقع 'دیوار گریہ' کا یہودیوں کے لیے مقدس ہے۔ اب سماجی ذرایع اِبلاغ کے صارفین کے لیے فیس بک کی دیوار (وال) کی بھی کافی اہمیت ہو گئی ہے!
٭اردو ادب میں 'دیوار'
دیوار زندگی کی ہی ایک ضرورت نہیں بلکہ محاورتاً اور تشبیہاً بھی دیوار اپنے اندر نہایت گہرائی اور گیرائی لیے ہوئے ہے۔ اس ہی دیوار میں در بھی ہے اور دریچہ بھی۔ مجازی معنوں سے لے کر اشعار تک دیوار کے استعارے کا برتاؤ خوب ملتا ہے، کہیں دیواروں سے باتیں کرنے کا تذکرہ ہے، تو کہیں عالم دیوانگی و بے بسی میں دیوار سے سر ٹکرانے کا خیال۔۔۔ کہیں شاعر اپنے کچے مکان کی دیوار گرنے پر لوگوں کے رستے بنانے کا شکوہ کرتا ہے، تو کہیں 'گرتی ہوئی دیوار کو ایک دھکا اور دینے کے لیے اُکسایا جاتا ہے، کہیں دیواروں کے کان ہوتے ہیں، جیسی باتیں کر کے لوگوں کو ہوشیار کیا جاتا ہے۔ مظلومیت کی دُہائی دیتے ہوئے 'دیوار سے لگائے جانے' کا شکوہ تو زبان زدِ عام ہے۔ دیوار کے حوالے سے کچھ اشعار بھی خاصے مقبول ہیں
در ودیوار پہ حسرت سی ٹپکتی ہے قتیل
جانے کس دیس گئے پیار نبھانے والے
(قتیل شفائی)
ہمارے گھر کی دیواروں پہ ناصر
اداسی بال کھولے سو رہی ہے
(ناصر کاظمی)
سامنے دیوار پر کچھ داغ تھے
غور سے دیکھا تو چہرے ہوگئے
(محمد علوی)
بے سود ہمیں روزن دیوار سے مت دیکھ
ہم اجڑے ہوئے لوگ، ہمیں پیار سے مت دیکھ
(اعتبار ساجد)
ہے میری آنکھوں میں عکس نوشتۂ دیوار
سمجھ سکو تو مرا نطق بے زباں لے لو
(فرحان سالم)