سانحہ کوئٹہ پر کمیشن کی رپورٹ جاری

سانحہ کوئٹہ پر وفاقی وصوبائی وزرائے داخلہ اور وزیراعلیٰ نے غلط بیانی کی


Editorial December 16, 2016
، رپورٹ

کوئٹہ میں 8 اگست 2016 کو بلوچستان ہائیکورٹ بار کے صدر پر حملے اور اسپتال کے باہر وکلا پر خودکش حملے کے افسوسناک سانحے کی تحقیقات کے لیے قائم جوڈیشل کمیشن نے اپنی رپورٹ میں واضح کیا ہے کہ دونوں حملوں کے پیچھے ایک ہی گروپ ملوث تھا۔ سپریم کورٹ کے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ پر مشتمل یک رکنی کمیشن نے 110 صفحات پر مشتمل اپنی رپورٹ میں اس جانب بھی توجہ دلائی ہے کہ جب تک کمیشن نے مداخلت نہیں کی خودکش بمبار کی شناخت نہیں ہو سکی، سیکیورٹی اداروں نے جائے وقوعہ کو محفوظ کیا اور نہ فرانزک معائنے کے لیے لیبارٹری کی سہولت موجود تھی، وقوعہ کے بعد سیکیورٹی اہلکاروں کی ہوائی فائرنگ نے مزید خوف پیدا کیا، اسپتال غیرفعال تھا اور اس میں فرسٹ ایڈ کٹس تک دستیاب نہ تھیں، نہ ہی حادثات سے نمٹنے کا کوئی ایس او پی تھا۔

بلوچستان ایک عرصے سے بدامنی اور شورش کا شکار ہے، سال رواں بلوچستان میں تواتر سے ہونے والی شرپسند کارروائیوں میں کئی قیمتی جانوں کا نقصان ہوا، بلوچستان کی سول سوسائٹی سے تعلق رکھنے والے 60 سے زائد وکلا سمیت 73 افراد اس خودکش حملے میں جاں بحق ہوئے۔ بظاہر نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمد ہو رہا ہے لیکن حقیقت یہی ہے کہ وفاقی و صوبائی حکومت بلوچستان میں امن و امان کے مکمل قیام میں اب تک ناکام ہیں، قیادت کے فقدان اور دہشتگردی کے خلاف جاری جنگ میں جو کنفیوژن ہے اس نے حالات کی سنگینی کو مزید مہمیز دی ہے، اس پر مستزاد سیاسی مداخلت اور اقربا پروری نے اداروں کو تباہی کی جانب گامزن کیا ہوا ہے۔ کمیشن نے بھی قرار دیا ہے کہ سیاسی مداخلت کی وجہ سے اداروں میں ڈسپلن ختم ہو گیا ہے۔

کمیشن نے اپنی رپورٹ میں صوبے کو اے اور بی ایریا میں تقسیم کرنے پر بھی تنقید کی اور کہا کہ اس سے خرابیاں پیدا ہوئیں۔ صائب ہو گا کہ اس طرح کی امتیازی تقسیم سے گریز برتا جائے۔ کمیشن نے نیشنل ایکشن پلان میں موجود اسقام کی سمت جو توجہ دلائی ہے اس پر بھی دھیان دینا چاہیے۔ کمیشن کے مطابق ابھی تک نیشنل سیکیورٹی انٹرنل پالیسی پر عمل نہیں ہوا ہے، نیشنل ایکشن پلان کے مقاصد کی نگرانی کا کوئی طریقہ کار ہے اور نہ ہی اس پر عمل ہوا، پلان کا اطلاق کس نے کرنا ہے، اس بارے میں تحریری اسٹرٹیجی نہیں ہے۔

انسداد دہشتگردی کے قانون کی کھلم کھلا خلاف ورزیاں ہورہی ہیں، ابھی تک کالعدم تنظیموں کی سرگرمیاں جاری ہیں اور ان کے سربراہان کے بیانات نشر اور شایع ہو رہے ہیں۔ وزارت داخلہ نے تاحال کاؤنٹر ٹیرر ازم اسٹرٹیجی نہیں بنائی، مغربی سرحدیں غیر محفوظ ہیں، مذہبی ہم آہنگی کے لیے وزارت مذہبی امور نے اپنی ذمے داریاں پوری نہیں کیں، جب کہ مدارس کی رجسٹریشن اور مانیٹرنگ کا بھی کوئی طریقہ کار نہیں۔ کیا وجہ ہے کہ متواتر نقصانات کے باوجود بے لگام دہشتگردی اور شرپسند عناصر کے مذموم مقاصد کی سوکوبی اور دہشتگردوں کے نیٹ ورکس کے مکمل خاتمے کے لیے موثر کارروائی عمل میں نہیں آ سکی ہے؟

صائب ہو گا کہ کمیشن کی رپورٹ میں جو سفارشات کی گئی ہیں ان پر عملدرآمد کیا جائے، جیسے انسداد دہشتگردی اور نیکٹا ایکٹ پر مکمل عملدرآمد، تمام کالعدم تنظیموں پر فوری پابندی اور ان سے وابستہ افراد کے خلاف مقدمات کے اندراج، کالعدم تنظیموں کے بارے عوام میں آگاہی پیدا کرنے، دہشتگردی میں ملوث اور مشکوک افراد کا ڈیٹا بینک بنانے، جدید فرانزک لیبارٹری کے قیام، واضح مقاصد اور مکمل نگرانی کے ساتھ نیشنل ایکشن پلان بنانے اور اسے نافذ کرنے، مغربی بارڈر کو محفوظ بنانے، ملک بھر میں ہوائی فائرنگ پر مکمل پابندی اور اس میں ملوث افراد کے خلاف فوجداری مقدمات درج کیے جائیں۔ ملک دشمن عناصر سے آہنی ہاتھوں سے نمٹنا ہی وقت کا اہم تقاضا ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں