CATCH ME IF YOU CAN
چیف جسٹس کا عہدہ سنبھالنے والے جسٹس ثاقب نثار بلا خوف و خطر آئین کے مطابق، مبنی بر انصاف فیصلے کرنے کی شہرت رکھتے ہیں
نومبر میں سپریم کورٹ نے جب ''پانامہ لیکس'' مقدمے کی روزانہ بنیادوں پر سماعت شروع کی تو قوم کی توقعات اس عدالتی کارروائی سے وابستہ تھیں۔یہ امید بندھنے لگی تھی کہ آٹھ ماہ سے قوم کو کرب میں مبتلا کرنے والے اس مسئلے کا کوئی حل نکل آئے گا۔ لیکن خلاف توقع اس مقدمے کی سماعت کو موجودہ چیف جسٹس کی ریٹائرمنٹ سے تین ہفتے قبل ہی اگلے برس تک ملتوی کر دیا گیا۔
اب نئے چیف جسٹس نیا بینچ بنائیں گے اور اس معاملے پر دلائل کا سلسلہ از سر نو شروع ہو گا۔ اس کی مثال ایسی ہی ہے کہ سرجن مریض کو ہفتوں آپریشن ٹیبل پر چھوڑ جائے، اور بدن دریدہ مریض اسی حالت میں اپنے مسیحا کا منتظر ہو۔ اسی طرح پانامہ اسکینڈل میں بھی اب گنتی دوبارہ شروع ہو گی یعنی مزید تاخیر۔ ریاست کے ایک اور اہم ترین ادارے عدلیہ میں بھی نئے سربراہ کی آمد آمد ہے۔
چیف جسٹس کا عہدہ سنبھالنے والے جسٹس ثاقب نثار بلا خوف و خطر آئین کے مطابق، مبنی بر انصاف فیصلے کرنے کی شہرت رکھتے ہیں۔ ان سے متعلق قبل از وقت ہی کوئی تاثر یا رائے قائم کرنا انتہائی غیر منصفانہ رویہ ہو گا۔
ملک کے دیگر اداروں کی طرح عدلیہ میں بھی بدعنوانی ایک سنگین مسئلہ ہے۔ یہی سبب تھا کہ سبکدوش ہونے والے چیف جسٹس انور ظہیر جمالی نے 2015-16ء کو عدالتی احتساب کا سال قرار دیا تھا ۔ ایک ماہر وکیل، فیصل صدیقی اپنے ایک مضمون ''عدالتی احتساب'' میں لکھتے ہیں: ''1973ء میں آرٹیکل 209 کے نفاذ سے لے کر آج تک ہائی کورٹ یا سپریم کورٹ کے کسی جج کو عہدے سے برطرف نہیں کیا گیا۔
کیا ہم اس سے یہ نتیجہ اخذ کرنے میں حق بجانب ہوں گے کہ آج تک اعلیٰ عدلیہ کا کوئی ایک جج بھی بدعنوانی میں ملوث نہیں رہا؟ افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ عدالت پر ریاستی بالادستی اور معاشرتی سطح پر ذاتی مفادات کے حصول کا جواز بنا کر، ناگزیر عدالتی احتساب کا عمل آج تک شروع ہی نہ ہو سکا۔''
حال ہی میں بحال ہونے والی سپریم جوڈیشل کونسل، جسے آئین کے آرٹیکل 209 کے تحت ججوں کے احتساب کا اختیار حاصل ہے، تاحال مؤثر ثابت نہیں ہو سکی۔ تاخیر ہمارے عدالتی نظام کا جزو بن چکی اور یہ روایت یہاں بھی قائم ہے۔ عدالتی کارروائی میں تاخیر کوئی نئی بات نہیں، لیکن معاملے کی بڑھتی ہوئی سنگینی اب خوف ناک اندیشوں کو جنم دینے لگی ہے۔
احتساب، پاکستان میں دیوانے کا خواب ہو چکا۔ طاقتور یہاں قتل کر کے بھی بچ نکلتے ہیں۔ بلا امتیاز احتساب ہی حقیقی جمہوریت کو مضبوط بنیادیں فراہم کرتا ہے۔ فوج کی جانب سے مداخلت بھی اسی وقت ہوتی ہے جب نظام انصاف پر عوام کا اعتبار اٹھ چکا ہوتا ہے۔ جنرل قمر باجوہ سول حکمرانی اور اس کے تسلسل پر یقین رکھتے ہیں، لیکن اقربا پروری اور بدعنوانی کے سبب روز بہ روز بڑھتی ہوئی بدانتظامی ان کی مشکلات میں بھی اضافے کا باعث بنے گی۔
کچھ کور کمانڈرز اپنے عہدے کی دوسالہ مدت پوری کرچکے تھے، آنے والے سپہ سالار کو اپنی ٹیم خود بنانے کا موقع دینے کے لیے ہی جنرل راحیل نے ان کی تعیناتی سے گریز کیا، گو ان کے پیشرو جنرل کیانی نے انھیں یہ مہلت نہیں دی تھی۔
کئی لیفٹیننٹ جنرل سپر سیڈ ہوئے، اور سات اہم عہدوں پر میجر جنرل اور لیفٹیننٹ جنرلز کی تعیناتی کر دی گئی۔ تیزی سے فیصلہ کر کے جنرل قمر باجوہ نے ثابت کر دیا کہ وہ رچرڈ نکسن کے بیان کردہ اس اصول کے قائل ہیں کہ ''کسی بھی فیصلے پر تادم مرگ بحث نہیں ہونی چاہیے'' شاید ایک دو افسران خوش قسمت ثابت نہیں ہوئے اور ان کی ترقیاں نہ ہو سکیں لیکن سبھی ترقی پانے والے میرٹ پر پورا اُترتے ہیں۔
جرم کا ارتکاب کرنے والوں کو علی الاعلان سزا دی جائے تو عوام کی نظر میں اداروں کا احترام بڑھتا ہے۔ فوج میں احتسابی عمل کے ''نتائج'' کو عوام کے سامنے نہیں لایا جاتا، جس کی وجہ سے یہ تاثر زور پکڑتا ہے کہ وردی والوں کو قانون کے مطابق سزا نہیں دی جاتی، دیانت و احتساب کے نعرے صرف سیاست دانوں اور سویلینز کے لیے ہیں۔ یہ تاثر بے سروپا ہے۔ جنرل راحیل شریف نے چند بدعنوان اعلیٰ فوجی افسران کو برطرف کر کے قابل تعریف مثال قائم کی اور یہ سخت پیغام بھی دیا کہ میدان جنگ میں سپاہی،کچھ بدعنوان عناصر کی زندگی پُرتعیش بنانے کے لیے، قربانیاں نہیں دیتے۔
راحیل شریف جو بہت سے کام مکمل نہ کر سکے اور مدت پوری ہوئی، تکمیل کے منتظر ان کاموں میں فوج کے اندر بدعنوان عناصر کے خلاف کارروائی کرنا بھی شامل ہے ۔
جنرل باجوہ دنیا کی بہترین جنگی صلاحیت رکھنے والی افواج میں شامل سپاہ کی قیادت کا اعزاز حاصل کر چکے ہیں، یہ فوج میدان عمل میں بے مثال قربانیوں کا ورثہ رکھتی ہے، لیکن کیا وہ بھارتی وزیر اعظم مودی کی پاکستانی فوج کے خلاف ہرزہ سرائیوں کی باز گشت پر مبنی من گھڑت خبریں پھیلانے والوں کو نظر انداز کر سکتے ہیں؟ بدترین پراپیگنڈا اگر نظر انداز کر دیا گیا تو مزید خبر لیکس نمودار ہوں گی۔ پرویز رشید کی اچانک منظر عام پر آمد بھی بے معنی نہیں ہے۔
زرداری صاحب کے تند و تیز بیانات اور ڈاکٹر عاصم اور عذیر بلوچ جیسے کرداروں کے اعترافی بیانات سے صرف نظر کیا جاسکتا ہے ؟ زرداری صاحب کی واپسی سے اشرافیہ کے احتساب کی امیدیں خاک ہو جائیں گی۔ جنرل باجوہ خود کو جس آئین کے ایک ایک حرف کا پاسدار تسلیم کرتے ہیں، کیا اسی کی روح کے تقاضوں کو نظر انداز کر پائیں گے؟
''پاناما لیکس'' مقدمے کی سماعت میں جو اساطیر سنائی گئیں، اشرافیہ میں بدعنوانی کے عوامی تاثر کو ان سے مزید تقویت ملی ہے۔ یہ داستانیں ہانس کرسچین اینڈریسن کو شرمانے کے لیے کافی ہیں۔ کوئی انتہائی سادہ لوح، یا پرُجوش ''کارکن'' ہی یہ انھیں ہضم کر سکتا ہے۔ فرینک ولیم ابیگنیل یاد آتا ہے، جس نے 15 سے 21 برس کی عمر میں دھوکا دہی، جعل سازی اور بہروپ بدلنے کے گُر سیکھ لیے تھے، وہ آٹھ شناختیں رکھتا تھا جن میں پائلٹ، معالج ، امریکی بیورو آف پرزنس ایجنٹ اور وکیل کے بہروپ بھی شامل تھے۔
21 برس عمر ہونے سے بھی پہلے دو مرتبہ وہ پولیس کی حراست سے فرار ہوا، پانچ سال قید میں گزارے۔ پھر ایف بی آئی نے ''چور کی مدد سے چور کا سراغ لگانے'' کی تکنیک پر عمل کے لیے اس کی خدمات حاصل کرنے کا فیصلہ کیا۔ اب وہ ایف بی آئی کا کنسلٹنٹ ہے، اس کی اکیڈمی میں زیر تربیت افسران کو لیکچر دیتا ہے اور غبن اور جعل سازی سے بچاؤ کے لیے کنسلٹنسی کمپنی بنا چکا ہے۔ معروف ہدایت کار اسٹیون اسپل برگ کی جرم کے موضوع پر بنائی والی معروف فلم "Catch Me If You Can," ابیگنیل ہی کی زندگی سے ماخوذ ہے۔
یہ فلم عکاسی کرتی ہے قوم کو بے رحمی سے لوٹنے والوں کی، ان کی بھی جو بے صبری سے اپنی باری کے انتظار میں ہے کہ کس طرح وہ نیب اور این آر او سے آلودہ احتسابی عمل کو چکما دے کر اُس جمہوریت کے ثمرات سمیٹے ہیں، جس کا مقصد قوم کی نہیں، اپنی ہی خدمت کرنا ہے۔