جمہوری رویہ
ایک ادارے کے اندر بیٹھا آمر دوسرے ادارے میں بیٹھے آمر سے ٹکراتا ہے
MUSCAT, OMAN:
یوں لگتا ہے کہ اب ادارے اپنی جگہ بنا رہے ہیں اور یوں بھی ہے جب ادارے جگہ بنا رہے ہوتے ہیں ان کے سربراہ خود ان اداروں کے آقا بن جاتے ہیں۔ بات شعور اور لاشعور کی ہے۔ آمریت ہمارا لاشعور ہے، ہم نے جہاں بھی جو بھی اقتدار پایا، اسے اپنی ملکیت سمجھ بیٹھے۔ میرٹ گیا بھاڑ میں، پھر ادارے نہ ہوئے آپ کے گھر کی لونڈی ہوگئی۔ اور پھر ہم نے اپنوں کو نوازنا شروع کیا، اقربا پروری کی، اس طرح کرتے کرتے جمہوریت اور آمریت میں انیس بیس کا فرق رہ گیا۔ نہ بدلی اگر تو لوگوں کی حالت زار نہ بدلی۔
اور اس لمحے کورٹ آگیا اور خاص کر سپریم کورٹ مفادِ عامہ یا آرٹیکل 184(3) کی جیورسڈکشن (Jurisdiction ) یا ہائی کورٹ آرٹیکل 199 کی جیورسڈکشن سے بڑے بڑے کام کرتی ہے۔ لیکن ہے تو سپریم کورٹ یا مجموعی طور پر عدلیہ ایک ادارہ۔ ایک وہ زمانہ تھا جب سوموٹو پر بہت زور دیا کرتے تھے، پھر اس سوموٹو کو انھوں نے سکیڑا۔ پھر یوں بھی ہوا کہ حد بنانے کے حق سے حد سے تجاوز بھی کرگئے۔
ان سب اداروں میں دو ادارے پھر بھی تحسین کے لائق ہیں، ایک پارلیمنٹ اور دوسری سپریم کورٹ۔ اس کا مطلب یہ بھی نہیں کہ یہ دو ادارے تنقید سے بالاتر ہیں۔ نہ وہ، نہ ان کے فیصلے، نہ ان کے بنائے ہوئے قانون۔ جج کوئی آسمان سے نہیں آتے، یہ بھی ہم میں سے ہوتے ہیں۔ عدالتیں ایک رات میں آزاد بھی نہیں ہوا کرتیں۔ جس طرح سے عدلیہ کی آزادی کی تحریک سے ہم اخذ کر بیٹھے تھے۔ آمریت کہیں سے بھی ٹپک سکتی ہے، صرف فوج کے ادارے سے کیوں۔ کبھی کبھی تو لوہے کو لوہا کاٹتا ہے۔
ایک ادارے کے اندر بیٹھا آمر دوسرے ادارے میں بیٹھے آمر سے ٹکراتا ہے اور اس میں ہاتھ جمہوریت کا ہی ہوتا ہے، بالکل اس طرح، جس طرح امریکا کے چیف جسٹس سر جان مارشل کانگریس یا امریکا کے صدر سے ٹکرائے تھے۔ ان کو پھر آمر نہیں کہا جائے گا بلکہ ہمت والا کہا جائے گا۔ ایک ایسی ہمت جس سے ڈٹ کر کھڑا ہوا جاتا ہے۔ آہن بن کر ادارے کی دفاع کی خاطر، جمہوریت کی خاطر، لوگوں کی خاطر۔ جس طرح مولوی تمیزالدین کھڑے ہوگئے تھے۔ یہ اور بات ہے کہ عدالت میں آنے کے لیے انھیں برقعے میں چھپنا پڑا تھا۔
میرا سندھ تذلیلوں کے سوا کچھ بھی نہیں۔ اونچ نیچ کے قبیلوں کی دیواریں ہیں، جن میں دراڑیں ہیں کہ پڑتی ہی نہیں۔ یہ ہے آکسفورڈ گریجویٹ بلاول بھٹو کی پارٹی، جو چالیس سال سے یہاں راج کرتی ہے۔ آپ کے نانا بھی آکسفورڈ سے آئے تھے، آپ کی اماں بھی وہاں کی گریجویٹ تھیں۔
بہت سی اچھی چیزیں بھی کیں، آمریتوں سے ڈٹ کر مقابلہ بھی کیا، جان کا نذرانہ بھی دیا، بہت حد تک سیکولر بھی ہیں، لیکن ان کے قلعہ نما گھروں کے گرد صرف اور صرف غریبوں کی بستیاں ہیں۔ وہ غریب جن کے چولہے ٹھنڈے پڑے ہیں۔ یرقان دیو کے سائے کی مانند ان کی قبا لپٹ گئی ہے۔ بچے ہیں نیم برہن اور مائیں مٹی میں نہلائے ہوئے ان بلکتے بچوں کو لوریاں دے رہی ہیں کہ روٹیاں سورج کی مانند آسمانوں میں لٹک رہی ہیں۔ بھوک و افلاس میرے سندھ میں ہے اور وڈیرے ہیں جن کی لینڈ کروزریں راستوں سے گزرتی ہیں، دُھول اڑاتی اپنے قلعہ نما اوطاقوں کی طرف بڑھ رہی ہیں۔
وہ تصویر تو دل سے اترتی نہیں جب سندھ کے ایک بڑے ابھی بہت بڑے نہ بنے تھے، فقط وزیر تھے اور ایک دہقان اس کے پاؤں تلے بیٹھے ہاتھ جوڑے فریاد کناں تھا اور یہ اس کی فریاد کنانی سے محظوظ ہورہے تھے کہ جیسے ان کی بندوق سے کوئی تیتر زمین پر آگرا تھا۔ اور جب وہ بہت بڑے ہوئے تو حال ہی میں کسی جیالے کے جیالے پن سے اکتا گئے اور نیم تھپڑ نما حرکت اس کے گال پر رسید کر بیٹھے۔ تو پھر کیوں نہ کیڈٹ کالج لاڑکانہ میں ایک استاد ایک شاگرد کو اس حد تک مارے جہاں سے موت صرف چند قدم دور رہ جاتی ہے۔
یہ حدوں سے تجاوز کرنا ہی آمرانہ و غیر جمہوری رویے ہیں۔ یہ پارٹیوں کے سربراہ اور ان پر خاندانوں کی میراث، یہ پارلیمنٹ اور اس میں سوائے شرفاؤں کے کسی اور کا نہ آسکنا، یہ سب امیروں کی بازی ہے۔ جمہوریت ہو یا آمریت، غریبوں کے لیے بس غریب تر ہونا، نا انصافیوں کا دوسرا نام ہے میرا پاکستان۔ اشرافیہ کا ہے یہ پاکستان اور اس کی کوکھ سے پھوٹتے ہوئے دیکھ رہا ہوں میں بہت بڑی خانہ جنگی۔ اگر ہم جمہوریت کو جمہوریت نہیں بنا سکتے، اگر ہم عدالتوں کو عدالت نہیں بناسکتے، اتنے سارے کیسز التوا میں پڑے ہیں اور وہ بھی دہائیوں سے پڑے ہوئے ہیں اور فیصلے ہیں کہ ہو نہیں پاتے۔ یہاں تک بھی ہوا کہ سپریم کورٹ میں سزائے موت سے بری کیا گیا جب تو پتا چلا کہ وہ تو کب کا پھانسی لگ چکا۔
ماموں، چچا، بھانجے ہیں، جن کو نوکریاں ملتی ہیں۔ غریب کے بچے ہیں اسکول اور اسپتال سے محروم اور ان کے لیے چھوٹی موٹی نوکریاں بھی نہیں ہیں۔ ہم جب طالبعلم تھے تو بائیں بازو کی سیاست کی انھوں نے بھی، اس ظلمت کدے کو اور منور کیا، آمریتوں سے گٹھ جوڑ کیا اور جاگیرداروں سے رشتہ جوڑا۔ ہمارے فیض تبھی تو کہتے تھے:
ابھی گرانی شب میں کمی نہیں آئی
نجات دیدہ و دل کی گھڑی نہیں آئی
چلے چلو کہ وہ منزل ابھی نہیں آئی
جمہوری رویہ ایک رات میں منور نہیں ہوتا، ماجرا بھی اسی طرح ہے جس طرح نرگس اپنی بے نوری پر روتی ہے۔
ذرا بند ہوا جمہوریتوں اور آمریتوں کے بیچ ہنگامہ اور بجادو طبل جمہوریت کا۔ جمہوریت کا ہو تصادم انصاف سے اور انصاف کی جستجو۔ اشتراکیت میں پڑی جمہوریت۔ کچھ پی آئی اے کے لیے قانون، کچھ ریجنٹ پلازہ کو عدالت میں لانے کی تگ و، دو کچھ دواؤں میں ملاوٹ کرنے کی پکڑ دھکڑ، آرٹیکل 25(A) پر حرکت، اس شہری کو شہری والے حقوق دینے کی باتیں۔
اور بند ہو اب دہقانوں کو جوتوں کے بل بٹھانا، جیالے کو تھپڑ رسید کرنا وغیرہ۔ جمہوریت یہ ہے کہ جمہوری رویہ رکھو، نہ کہ اس کو اپنے گھر کی لونڈی سمجھو۔
یوں لگتا ہے کہ اب ادارے اپنی جگہ بنا رہے ہیں اور یوں بھی ہے جب ادارے جگہ بنا رہے ہوتے ہیں ان کے سربراہ خود ان اداروں کے آقا بن جاتے ہیں۔ بات شعور اور لاشعور کی ہے۔ آمریت ہمارا لاشعور ہے، ہم نے جہاں بھی جو بھی اقتدار پایا، اسے اپنی ملکیت سمجھ بیٹھے۔ میرٹ گیا بھاڑ میں، پھر ادارے نہ ہوئے آپ کے گھر کی لونڈی ہوگئی۔ اور پھر ہم نے اپنوں کو نوازنا شروع کیا، اقربا پروری کی، اس طرح کرتے کرتے جمہوریت اور آمریت میں انیس بیس کا فرق رہ گیا۔ نہ بدلی اگر تو لوگوں کی حالت زار نہ بدلی۔
اور اس لمحے کورٹ آگیا اور خاص کر سپریم کورٹ مفادِ عامہ یا آرٹیکل 184(3) کی جیورسڈکشن (Jurisdiction ) یا ہائی کورٹ آرٹیکل 199 کی جیورسڈکشن سے بڑے بڑے کام کرتی ہے۔ لیکن ہے تو سپریم کورٹ یا مجموعی طور پر عدلیہ ایک ادارہ۔ ایک وہ زمانہ تھا جب سوموٹو پر بہت زور دیا کرتے تھے، پھر اس سوموٹو کو انھوں نے سکیڑا۔ پھر یوں بھی ہوا کہ حد بنانے کے حق سے حد سے تجاوز بھی کرگئے۔
ان سب اداروں میں دو ادارے پھر بھی تحسین کے لائق ہیں، ایک پارلیمنٹ اور دوسری سپریم کورٹ۔ اس کا مطلب یہ بھی نہیں کہ یہ دو ادارے تنقید سے بالاتر ہیں۔ نہ وہ، نہ ان کے فیصلے، نہ ان کے بنائے ہوئے قانون۔ جج کوئی آسمان سے نہیں آتے، یہ بھی ہم میں سے ہوتے ہیں۔ عدالتیں ایک رات میں آزاد بھی نہیں ہوا کرتیں۔ جس طرح سے عدلیہ کی آزادی کی تحریک سے ہم اخذ کر بیٹھے تھے۔ آمریت کہیں سے بھی ٹپک سکتی ہے، صرف فوج کے ادارے سے کیوں۔ کبھی کبھی تو لوہے کو لوہا کاٹتا ہے۔
ایک ادارے کے اندر بیٹھا آمر دوسرے ادارے میں بیٹھے آمر سے ٹکراتا ہے اور اس میں ہاتھ جمہوریت کا ہی ہوتا ہے، بالکل اس طرح، جس طرح امریکا کے چیف جسٹس سر جان مارشل کانگریس یا امریکا کے صدر سے ٹکرائے تھے۔ ان کو پھر آمر نہیں کہا جائے گا بلکہ ہمت والا کہا جائے گا۔ ایک ایسی ہمت جس سے ڈٹ کر کھڑا ہوا جاتا ہے۔ آہن بن کر ادارے کی دفاع کی خاطر، جمہوریت کی خاطر، لوگوں کی خاطر۔ جس طرح مولوی تمیزالدین کھڑے ہوگئے تھے۔ یہ اور بات ہے کہ عدالت میں آنے کے لیے انھیں برقعے میں چھپنا پڑا تھا۔
میرا سندھ تذلیلوں کے سوا کچھ بھی نہیں۔ اونچ نیچ کے قبیلوں کی دیواریں ہیں، جن میں دراڑیں ہیں کہ پڑتی ہی نہیں۔ یہ ہے آکسفورڈ گریجویٹ بلاول بھٹو کی پارٹی، جو چالیس سال سے یہاں راج کرتی ہے۔ آپ کے نانا بھی آکسفورڈ سے آئے تھے، آپ کی اماں بھی وہاں کی گریجویٹ تھیں۔
بہت سی اچھی چیزیں بھی کیں، آمریتوں سے ڈٹ کر مقابلہ بھی کیا، جان کا نذرانہ بھی دیا، بہت حد تک سیکولر بھی ہیں، لیکن ان کے قلعہ نما گھروں کے گرد صرف اور صرف غریبوں کی بستیاں ہیں۔ وہ غریب جن کے چولہے ٹھنڈے پڑے ہیں۔ یرقان دیو کے سائے کی مانند ان کی قبا لپٹ گئی ہے۔ بچے ہیں نیم برہن اور مائیں مٹی میں نہلائے ہوئے ان بلکتے بچوں کو لوریاں دے رہی ہیں کہ روٹیاں سورج کی مانند آسمانوں میں لٹک رہی ہیں۔ بھوک و افلاس میرے سندھ میں ہے اور وڈیرے ہیں جن کی لینڈ کروزریں راستوں سے گزرتی ہیں، دُھول اڑاتی اپنے قلعہ نما اوطاقوں کی طرف بڑھ رہی ہیں۔
وہ تصویر تو دل سے اترتی نہیں جب سندھ کے ایک بڑے ابھی بہت بڑے نہ بنے تھے، فقط وزیر تھے اور ایک دہقان اس کے پاؤں تلے بیٹھے ہاتھ جوڑے فریاد کناں تھا اور یہ اس کی فریاد کنانی سے محظوظ ہورہے تھے کہ جیسے ان کی بندوق سے کوئی تیتر زمین پر آگرا تھا۔ اور جب وہ بہت بڑے ہوئے تو حال ہی میں کسی جیالے کے جیالے پن سے اکتا گئے اور نیم تھپڑ نما حرکت اس کے گال پر رسید کر بیٹھے۔ تو پھر کیوں نہ کیڈٹ کالج لاڑکانہ میں ایک استاد ایک شاگرد کو اس حد تک مارے جہاں سے موت صرف چند قدم دور رہ جاتی ہے۔
یہ حدوں سے تجاوز کرنا ہی آمرانہ و غیر جمہوری رویے ہیں۔ یہ پارٹیوں کے سربراہ اور ان پر خاندانوں کی میراث، یہ پارلیمنٹ اور اس میں سوائے شرفاؤں کے کسی اور کا نہ آسکنا، یہ سب امیروں کی بازی ہے۔ جمہوریت ہو یا آمریت، غریبوں کے لیے بس غریب تر ہونا، نا انصافیوں کا دوسرا نام ہے میرا پاکستان۔ اشرافیہ کا ہے یہ پاکستان اور اس کی کوکھ سے پھوٹتے ہوئے دیکھ رہا ہوں میں بہت بڑی خانہ جنگی۔ اگر ہم جمہوریت کو جمہوریت نہیں بنا سکتے، اگر ہم عدالتوں کو عدالت نہیں بناسکتے، اتنے سارے کیسز التوا میں پڑے ہیں اور وہ بھی دہائیوں سے پڑے ہوئے ہیں اور فیصلے ہیں کہ ہو نہیں پاتے۔ یہاں تک بھی ہوا کہ سپریم کورٹ میں سزائے موت سے بری کیا گیا جب تو پتا چلا کہ وہ تو کب کا پھانسی لگ چکا۔
ماموں، چچا، بھانجے ہیں، جن کو نوکریاں ملتی ہیں۔ غریب کے بچے ہیں اسکول اور اسپتال سے محروم اور ان کے لیے چھوٹی موٹی نوکریاں بھی نہیں ہیں۔ ہم جب طالبعلم تھے تو بائیں بازو کی سیاست کی انھوں نے بھی، اس ظلمت کدے کو اور منور کیا، آمریتوں سے گٹھ جوڑ کیا اور جاگیرداروں سے رشتہ جوڑا۔ ہمارے فیض تبھی تو کہتے تھے:
ابھی گرانی شب میں کمی نہیں آئی
نجات دیدہ و دل کی گھڑی نہیں آئی
چلے چلو کہ وہ منزل ابھی نہیں آئی
جمہوری رویہ ایک رات میں منور نہیں ہوتا، ماجرا بھی اسی طرح ہے جس طرح نرگس اپنی بے نوری پر روتی ہے۔
ذرا بند ہوا جمہوریتوں اور آمریتوں کے بیچ ہنگامہ اور بجادو طبل جمہوریت کا۔ جمہوریت کا ہو تصادم انصاف سے اور انصاف کی جستجو۔ اشتراکیت میں پڑی جمہوریت۔ کچھ پی آئی اے کے لیے قانون، کچھ ریجنٹ پلازہ کو عدالت میں لانے کی تگ و، دو کچھ دواؤں میں ملاوٹ کرنے کی پکڑ دھکڑ، آرٹیکل 25(A) پر حرکت، اس شہری کو شہری والے حقوق دینے کی باتیں۔
اور بند ہو اب دہقانوں کو جوتوں کے بل بٹھانا، جیالے کو تھپڑ رسید کرنا وغیرہ۔ جمہوریت یہ ہے کہ جمہوری رویہ رکھو، نہ کہ اس کو اپنے گھر کی لونڈی سمجھو۔