صحت اور تعلیم توجہ کی شدید ضرورت
پاکستان دنیا کے ان ملکوں میں سے ایک ملک ہے جہاں صحت کا بجٹ بڑھ رہا ہے
پاکستان دنیا کے ان ملکوں میں سے ایک ملک ہے جہاں صحت کا بجٹ بڑھ رہا ہے، ہمیں آبادی کے لحاظ سے ہر سال زیادہ اسپتال، زیادہ ڈاکٹرز، زیادہ نرسوں کی ضرورت ہے، مگر عوام میں امراض سے ناواقفیت مریضوں کی تعداد بڑھانے کا بڑا سبب بن رہی ہے، صحت اور تعلیم دونوں ہی لازم و ملزوم ہیں مگر ہماری بدقسمتی دیکھئے کہ دونوں ہی شعبوں پر خاطر خواہ توجہ نہیں دی جارہی۔
نوجوان مریضوں کی تعداد میں روز بروز اضافہ ہوتا جارہا ہے اور لگ بھگ ایک اندازے کے مطابق تیس سال تک لوگ اپنے آپ کو بہت زیادہ صحت مند تصورکرتے ہیں، اس لیے بیماریوں پر توجہ ہی نہیں کرتے سیلف میڈیسن لے کرگزارا کرلیتے ہیں اور اسپتال جب پہنچتے ہیں جب امراض شدت اختیار کرچکے ہوتے ہیں۔ شوگر، بلڈ پریشر، ہارٹ اٹیک ، مٹاپا، ٹینشن، ڈپریشن ہمارے ملک میں تیزی سے پھیلنے والے امراض ہیں جو بچوں سے لے کر بوڑھوں تک میں پائے جا رہے ہیں، حکیمی علاج، ایلوپیتھک، ہومیوپیتھک، گھریلو ٹوٹکے، گوکہ تمام علاج اردگرد موجود ہیں مگر امراض تیزی سے اپنی جڑیں بنارہے ہیں۔ ہیپاٹائٹس، HIV، کینسر، پولیو، ٹی۔بی، یہ بھی وہ امراض ہیں جو پہلے کبھی کبھی مگر اب بہت زیادہ سنائی دیتے ہیں۔
شوگرکے امراض میں پاکستان کا نمبر چوتھا ہے اور یہ صورتحال بہرحال تشویشناک ہے، ان تمام امراض کو کنٹرول کرنے کے لیے مناسب منصوبہ بندی کی بے حد ضرورت ہے، اگر اب بھی اس پر توجہ نہیں دی گئی تو بے انتہا الارمنگ صورتحال ہوگی ان تمام بیماریوں کی awarenes کے پروگرام مرتب کیے جائیں اورریڈیو، ٹیلی ویژن پر باقاعدگی سے نشرکیے جائیں،آسان الفاظ کے ساتھ FM اسٹیشن ایک بہت ہی اچھا ذریعہ ہے ایک اچھا پلیٹ فارم ہے لوگوں کو توجہ دلانے کے لیے۔
باہر کے کھانے ایک ٹرینڈ بن گیا ہے اور ان پر ابھی تک کوئی چیک اینڈ بیلنس نہیں ہے، جس کا جو دل چاہ رہا ہے وہ جانے کیا کیا اورکس کوالٹی کا بنا رہا ہے۔ گدھے، کتے اور نہ جانے کس کس قسم کے گوشت کھلائے جا رہے ہیں، حرام گوشت، مضرصحت اجزا، غلیظ ترین کوکنگ آئل میں پکے ہوئے یہ کھانے لذیذ بنانے کے لیے ان میں وہ پاؤڈر شامل کردیے جاتے ہیں جو دنیا میں Band ہیں مگر یہاں کوئی قانون نہیں، کوئی Rules نہیں، اس لیے اندھا دھند سستے ترین سے مہنگے ترین کھانے دستیاب ہیں، سمجھ میں نہیں آتا ہے کہ اس ملک میں کس کس پر روئیں ، بے حسی بڑھنے کا ایک سبب یہ بھی ہے کہ حرام وحلال کی تفریق ختم کردی، صحت و تعلیم دونوں شعبوں پر شدید ترین توجہ کی ضرورت ہے اوراگر اب بھی اس پر توجہ نہیں دی گئی تو یہ ملک سے عوام سے دشمنی ہی قرار دی جائے گی۔ اسکول،کالجز، یونیورسٹیز اوراسپتالوں میں صحت سے آگاہی کے پروگرام مرتب کیے جائیں۔
پارکوں میں کچھ سستی ایکسرسائز مشینوں کا بھی انتظام کیا جائے جائیدادوں اور مالی ورثے کو بچانے کے لیے خاندان میں شادیاں بھی بیماریوں کو جنم دیتی ہیں، بچوں میں تھیلیسمیا اس کی ایک مثال ہے، پان، چھالیہ، گٹکا، سگریٹ سرعام ان بیماریوں کی فروخت پر پابندی لگائی جائے جس طرح شیشہ کو کنٹرول کیا گیا ہے، اسی طرح کے اقدامات ان چیزوں کے لیے بھی ہونے چاہئیں۔
صحت کے نام پر ہر سال اربوں روپے خرچ ہورہے ہیں، اس کے باوجود عوام بنیادی سہولتوں سے محروم ہے اور روز بروز پستی کی طرف جارہے ہیں۔ جتنا حکومت سڑکوں پر خرچ کررہی ہے ، حکومت بجلی مہنگی کررہی ہے، ٹیکسز لگارہی ہے اتنے ہی دل سے اگر 30 فیصد بھی صحت پرکام کریں تو عوام کا معیار زندگی بہتر ہوسکتا ہے، عوام کو تعلیم یافتہ بنانا اب ہماری مجبوری بن جانا چاہیے کیونکہ جہالت کے نقصانات طویل ہیں، دنیا کی کوئی بھی جاہل اوربیمار قوم کبھی ترقی یافتہ قوم نہیں بن سکتی۔
پرانے اور نئے تمام اسپتالوں کو اپ گریڈ کرنا ضروری ہے، اصلی ادویات کا حصول اورجعلی ادویات کی روک تھام بہت ضروری اورفوری اقدام ہے، ہمارے ملک میں ادویات کی انڈسٹری نے بھی بہت تیزی سے ترقی کی ہے، وجہ یہی ہے کہ چیک اینڈ بیلنس کی کمی ہے،کسی بھی بیماری میں مبتلا افراد کے لیے اصلی ادویات کی فراہمی حکومت کی ذمے داری ہے۔
ہمارے ملک کے اسپتالوں کو تو بہت ہی اچھا ہونا چاہیے، بہت ہی مثالی ہونا چاہیے، وہ اس لیے بھی کہ اسلامی طرز زندگی میں زکوٰۃ ایک بڑا عنصر ہے۔ بڑی بڑی رقوم، اسپتالوں کے نام پر آئیں اور وہ بھی خرد برد ہوجائیں تو اس بددیانتی کوکیا کہا جائے، تجارت کرنے والا طبقہ دل کھول کر امداد کرنا چاہتا ہے اورکرتا بھی ہے مگر لالچ اور ہوس ان چند افراد کو ایسا بے شرم بنادیتی ہے کہ ان کے لیے شاید خزانے کم ہیں۔
لوگوں میں ایکسرسائزکرنے کی طرف رجحان بنایا جائے، بڑے شہروں میں جم بنوائے جائیں ایسے لوگوں کو ایسے اداروں کو پروموٹ کیا جائے جو دیانت داری کے ساتھ عوام کی خدمت کرنا چاہتے ہیں، خراب صحت کے نقصانات بڑی تباہی کی صورت میں نمودار ہوں گے، ماحول کو صحت مند بنانے کے لیے سبزہ کو پروموٹ کریں، اندھے، لالچی نہ بنیں درختوں کو نہ کاٹیں بلکہ زیادہ سے زیادہ فضا کو صحت مند بنایا جائے تاکہ انوائرمنٹ بہتر ہوسکے۔
میری درخواست ہے وزیراعظم نواز شریف سے اور تمام صوبوں کے وزیر اعلیٰ سے پوری دنیا میں انوائرمنٹ تیزی سے بدل رہا ہے، ہمارے ملک میں بھی اس کے آثار بہت نمایاں نظر آتے ہیں، پچھلے سالوں میں Heat Wave ایک ناگہانی مصیبت بن کر ماہ رمضان میں نازل ہوئی اور ہمارے اسپتالوں کا ہمارے معیارکا پول کھل گیا، کئی اموات ہوئیں، لوگوں کو سانس لینا مشکل ہوگیا۔
تیزی سے ہنگامی بنیاد پر سبزہ کاری پر بھرپور توجہ کی ضرورت ہے، خاص طور پر کراچی میں، وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ اس پر بھی توجہ دیں ، صاف ستھرا پینے کا پانی، اصلی ادویات، صاف ستھری فضا، حق ہے عوام کا۔
ایک مہینے میں دو دن آگاہی کے لیے مسلسل کئی مہینوں تک کیمپ لگائے جائیں، جب تک ہم سب پریکٹیکلی ان پر توجہ نہیں دیں گے کچھ نہیں ہوسکے گا۔ بچوں میں اسپورٹس کی ایکٹیویٹی بڑھائی جائیں، صفائی و ستھرائی نصف ایمان ہے، اس بات کو ہر ذہن میں بٹھایا جائے، کچرے کے ڈھیروں سے شہرکو پاک کیا جائے، فری میڈیکل چیک اپ کے کیمپ پروموٹ کیے جائیں، اپنے آپ کو صاف ستھرا رکھنے کی آگاہی دینے کا فری کیمپ لگائیں۔ کبھی نہ کبھی،کسی نہ کسی نے تو یہ کام ہنگامی بنیادوں پر شروع کرنے ہی ہیں زیادہ آنکھیں بند کرکے رہنا اب ممکن نہیں ہوگا، التماس ہے کہ آپ ہی یہ کام شروع کیجیے۔