Creation of BangladeshMyths Exploded
پاکستان کی 93 ہزار فوج نے ہندوستان کی قید میں جانے کے لیے ہتھیار ڈالے
KARACHI:
ہر سال جب دسمبر آتا ہے تواس المیے کی یاد ستاتی ہے جو پاکستان کے مشرقی حصے کے الگ ہوجانے اور بنگلہ دیش کے وجود میں آنے کی شکل میں رونما ہوا تھا اور یہ سوال پھراٹھتے ہیں کہ یہ کیوں ہوا،کیسے ہوا، وہ کون سے عناصر تھے جو اس المیے کا اور اس کے ساتھ مسلمانوں کے ایک قوم ہونے کے تصور پر سوال اٹھنے کا سبب بنے۔ ان سوالوں کا جواب دینے کی بہت کوششیں ہوئی ہیں مگر ان کا کوئی شافی جواب نہیں ملا ہے۔ حقیقتیں فسانوں میں گم ہوگئی ہیں۔ تاریخ کا قرض ابھی تک باقی ہے۔ جنید احمد عالم اورمحقق ہیں، اعلیٰ ملکی اوربیرونی تدریسی اداروں سے تعلق رہا ہے، مالیات اورمعاشیات اور پالیسی امور پرگرفت رکھتے ہیں۔ انھوں نے اپنی کتاب ''بنگلہ دیش کا قیام، افسانے اور حقیقتیں'' میں ان سوالوں کا جواب دینے اورتاریخ کا قرض اتارنے کی کوشش کی ہے۔
وہ لکھتے ہیں''واقعہ یہ ہے کہ بنگلہ دیش کے المیے کا تجزیہ کرنے میں بعض حقائق کو قصداً نظر انداز کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ ہندوستان کا سلامتی کا مسئلہ، عوامی لیگ اور اس کی فسطائی پالیسیاں، مکتی باہنی کے دہشت گردوں کی تنظیمیں، ہندوستانی اور بیرونی پریس کی پروپیگنڈا مہم، ہندوستان کی عالمی سطح پرسفارتی کوششیں، مشرقی اورمغربی پاکستان کے درمیان سیاسی محاذ آرائی، نوآبادیاتی دورکی پیدا کردہ معاشی ناہمواریاں اور پھر اس کے ساتھ پاکستان کی وفاقی حکومت کی کمزور سیاسی، سماجی اورمعاشی پالیسیاں اور اقدام ایسے حقائق ہیں جنھیں نظرانداز نہیں کیا جاسکتا اب وقت آگیا ہے کہ بنگلہ دیش کے قیام اوراس کے بعد کے واقعات کی پوری تصویر پیش کی جائے۔''
جنید احمد نے ان دعوؤں کا جو حقائق کے برخلاف تھے اور جنھیں بنگلہ دیش کے قیام کا سبب بناکر یقین کے ساتھ پیش کیا گیا، تفصیل سے ذکر کیا ہے اور ان کی پول کھولی ہے ان میں کچھ اہم مفروضے یہ ہیں۔ مغربی پاکستان نے سونار بنگلہ (مشرقی پاکستان) کا استحصال کیا، مشرقی پاکستان میں کوئی ترقیاتی کام نہیں ہوا۔ مغربی پاکستان نے اپنا کلچر بنگالیوں پر تھوپا، اگرتلا کیس کا ڈراما رچایا گیا،مغربی پاکستان نے معصوم بنگالیوں کے خلاف آپریشن سرچ لائٹ شروع کیا پاکستان کی فوج نے تیس لاکھ سے زیادہ بے گناہ بنگالیوں کو مار ڈالا، خاص طور پر ہندوؤں کو نشانہ بنایاگیا، مشرقی پاکستان میں تشدد کی واحد ذمے دار پاکستان آرمی ہے، مشرقی پاکستان میں ہندوستان کی مداخلت خالصتاً ہمدردی کی بنیاد پر تھی۔
اس کی پہلے سے کوئی منصوبہ بندی نہیں کی گئی تھی۔ پاکستان کی 93 ہزار فوج نے ہندوستان کی قید میں جانے کے لیے ہتھیار ڈالے، پاکستان کے فوجیوں نے بنگالی عورتوں کی عصمت دری کی، عالمی طاقتوں نے ہندوستان کی کوئی حمایت نہیں کی۔ جنید احمد نے ان تمام مفروضوں کا جو باورکرائے گئے ایک ایک کرکے جواب دیا ہے اور ثابت کیا ہے کہ یہ حقائق کے خلاف اورغلط تھے۔ انھوں نے پہلے تحریک پاکستان کا جس کے نتیجے میں پاکستان کی نئی مملکت وجود میں آئی تفصیل سے ذکر کیا ہے پھر ان موضوعات کا ذکرکیا ہے جو مشرقی اور مغربی پاکستان کے درمیان اختلافات کا سبب بنے۔اس ضمن میں وہ لکھتے ہیں کہ مشرقی پاکستان کی علیحدگی کا سبب محض ملک کے دونوں حصوں کے درمیان لسانی اور ثقافتی اختلافات کو قرار دینا درست نہیں۔ مشرقی پاکستان کی علیحدگی کی بڑی وجہ یہ تھی کہ پاکستان کا سیاسی نظام صورت حال سے نمٹنے کی اہلیت نہیں رکھتا تھا، جس سے فائدہ اٹھایاگیا۔
جنید احمد نے ہندوستان کی ریشہ دوانیوں کا تفصیل سے ذکرکیا ہے اور لکھا ہے کہ مشرقی پاکستان کو مغربی پاکستان سے الگ کرکے اپنے دائرہ اثرمیں لانے کے لیے باقاعدہ منصوبہ بندی کس طرح کی گئی پروپیگنڈا مہم، اگرتلا سازش کیس، پناہ گزینوں کا معاملہ، 1971 کا روس سے معاہدہ، مکتی باہنی کا قیام، ''را'' کے ایجنٹوں کی مشرقی پاکستان میں سرگرمیاں، بغاوت کی آگ کو بھڑکانا اور پھر باقاعدہ فوجی مداخلت یہ سب اسی منصوبہ بندی کے تحت ہوا جس کا نتیجہ بنگلہ دیش کے قیام کی صورت میں ظاہر ہوا، مکتی باہنی کی کارروائیوں اوران کے ظلم اور بربریت کا حال بھی جنید احمد نے تفصیل سے لکھا ہے ان کی کتاب میں جو تصویریں شامل ہیں انھیں دیکھ کر دل لرز اٹھتا ہے حقیقت ہے کہ جب انسان انسانیت کھو بیٹھتا ہے تو وہ حیوان ہی نہیں حیوانوں سے بھی بدتر ہوجاتا ہے۔
جنید احمد لکھتے ہیں ''بنگالیوں نے آزادی کے نام پر بہت ظلم کیے، پاکستان کے فوجی افسروں نے بغاوت کے خلاف کارروائیوں میں ثابت کردیا کہ وہ بہتر صفات کے مالک ہیں اوران کے خلاف جو الزامات ہیں وہ کتنے بے حقیقت ہیں۔''
جنید لکھتے ہیں کہ تاریخ کی کتابیں ازسر نو لکھنے کی ضرورت ہے تا کہ لوگوں کواصل حقائق کا علم ہو،اپنی غلطیوں پر پردہ ڈالنے کی پالیسی اب ترک کردینی چاہیے۔ غلطیوں کے ادراک سے ہی ہم اپنے آپ کو بہتر بناسکتے ہیں۔ یہ ضروری ہے کہ پاکستان کے دوٹکڑے ہونے کے اصل اسباب تاریخی حقائق کی بنیاد پر ہمیں بتانے چاہئیں ہمیں دنیا کو بتانا چاہیے کہ ہندوستان نے اس سارے معاملے میں کیا کردار ادا کیا اور مشرقی پاکستان میں بغاوت کی آگ کیسے بھڑکائی گئی۔اس سلسلے میں اگرچہ کچھ کام ہوا ہے لیکن پاکستان اپنی بات ابھی تک پوری طرح بیان نہیں کرسکا ہے جس کا نتیجہ یہ ہے کہ غلط بیانیے جاری ہیں اور الزامات کی انگلیاں ہماری طرف اٹھائی جارہی ہیں، اس صورت حال کا ازالہ اب لازمی طور پر ہوجانا چاہیے۔
جنید احمدکی کتاب کا مقصد بھی یہی ہے کہ حقائق کی روشنی میں واقعات کو ان کے اصلی رنگ میں پیش کیا جائے تاکہ غلط مفروضے اور جھوٹے فسانے بے نقاب ہوں انھوں نے اپنی کتاب میں ان واقعات کا بھی ذکر کیا ہے جو بنگلہ دیش کے قیام کے بعد وہاں پیش آئے اور پاکستان نے کس طرح اس بعد کی صورت حال کا مقابلہ کیا۔ اسی طرح کئی اہم دستاویزات کی نقلیں بھی کتاب کا حصہ ہیں جن سے بہت کچھ ان حالات کو سمجھنے کا موقع ملتا ہے جنھوں نے مشرقی پاکستان کے المیے کو جنم دیا۔
ہر سال جب دسمبر آتا ہے تواس المیے کی یاد ستاتی ہے جو پاکستان کے مشرقی حصے کے الگ ہوجانے اور بنگلہ دیش کے وجود میں آنے کی شکل میں رونما ہوا تھا اور یہ سوال پھراٹھتے ہیں کہ یہ کیوں ہوا،کیسے ہوا، وہ کون سے عناصر تھے جو اس المیے کا اور اس کے ساتھ مسلمانوں کے ایک قوم ہونے کے تصور پر سوال اٹھنے کا سبب بنے۔ ان سوالوں کا جواب دینے کی بہت کوششیں ہوئی ہیں مگر ان کا کوئی شافی جواب نہیں ملا ہے۔ حقیقتیں فسانوں میں گم ہوگئی ہیں۔ تاریخ کا قرض ابھی تک باقی ہے۔ جنید احمد عالم اورمحقق ہیں، اعلیٰ ملکی اوربیرونی تدریسی اداروں سے تعلق رہا ہے، مالیات اورمعاشیات اور پالیسی امور پرگرفت رکھتے ہیں۔ انھوں نے اپنی کتاب ''بنگلہ دیش کا قیام، افسانے اور حقیقتیں'' میں ان سوالوں کا جواب دینے اورتاریخ کا قرض اتارنے کی کوشش کی ہے۔
وہ لکھتے ہیں''واقعہ یہ ہے کہ بنگلہ دیش کے المیے کا تجزیہ کرنے میں بعض حقائق کو قصداً نظر انداز کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ ہندوستان کا سلامتی کا مسئلہ، عوامی لیگ اور اس کی فسطائی پالیسیاں، مکتی باہنی کے دہشت گردوں کی تنظیمیں، ہندوستانی اور بیرونی پریس کی پروپیگنڈا مہم، ہندوستان کی عالمی سطح پرسفارتی کوششیں، مشرقی اورمغربی پاکستان کے درمیان سیاسی محاذ آرائی، نوآبادیاتی دورکی پیدا کردہ معاشی ناہمواریاں اور پھر اس کے ساتھ پاکستان کی وفاقی حکومت کی کمزور سیاسی، سماجی اورمعاشی پالیسیاں اور اقدام ایسے حقائق ہیں جنھیں نظرانداز نہیں کیا جاسکتا اب وقت آگیا ہے کہ بنگلہ دیش کے قیام اوراس کے بعد کے واقعات کی پوری تصویر پیش کی جائے۔''
جنید احمد نے ان دعوؤں کا جو حقائق کے برخلاف تھے اور جنھیں بنگلہ دیش کے قیام کا سبب بناکر یقین کے ساتھ پیش کیا گیا، تفصیل سے ذکر کیا ہے اور ان کی پول کھولی ہے ان میں کچھ اہم مفروضے یہ ہیں۔ مغربی پاکستان نے سونار بنگلہ (مشرقی پاکستان) کا استحصال کیا، مشرقی پاکستان میں کوئی ترقیاتی کام نہیں ہوا۔ مغربی پاکستان نے اپنا کلچر بنگالیوں پر تھوپا، اگرتلا کیس کا ڈراما رچایا گیا،مغربی پاکستان نے معصوم بنگالیوں کے خلاف آپریشن سرچ لائٹ شروع کیا پاکستان کی فوج نے تیس لاکھ سے زیادہ بے گناہ بنگالیوں کو مار ڈالا، خاص طور پر ہندوؤں کو نشانہ بنایاگیا، مشرقی پاکستان میں تشدد کی واحد ذمے دار پاکستان آرمی ہے، مشرقی پاکستان میں ہندوستان کی مداخلت خالصتاً ہمدردی کی بنیاد پر تھی۔
اس کی پہلے سے کوئی منصوبہ بندی نہیں کی گئی تھی۔ پاکستان کی 93 ہزار فوج نے ہندوستان کی قید میں جانے کے لیے ہتھیار ڈالے، پاکستان کے فوجیوں نے بنگالی عورتوں کی عصمت دری کی، عالمی طاقتوں نے ہندوستان کی کوئی حمایت نہیں کی۔ جنید احمد نے ان تمام مفروضوں کا جو باورکرائے گئے ایک ایک کرکے جواب دیا ہے اور ثابت کیا ہے کہ یہ حقائق کے خلاف اورغلط تھے۔ انھوں نے پہلے تحریک پاکستان کا جس کے نتیجے میں پاکستان کی نئی مملکت وجود میں آئی تفصیل سے ذکر کیا ہے پھر ان موضوعات کا ذکرکیا ہے جو مشرقی اور مغربی پاکستان کے درمیان اختلافات کا سبب بنے۔اس ضمن میں وہ لکھتے ہیں کہ مشرقی پاکستان کی علیحدگی کا سبب محض ملک کے دونوں حصوں کے درمیان لسانی اور ثقافتی اختلافات کو قرار دینا درست نہیں۔ مشرقی پاکستان کی علیحدگی کی بڑی وجہ یہ تھی کہ پاکستان کا سیاسی نظام صورت حال سے نمٹنے کی اہلیت نہیں رکھتا تھا، جس سے فائدہ اٹھایاگیا۔
جنید احمد نے ہندوستان کی ریشہ دوانیوں کا تفصیل سے ذکرکیا ہے اور لکھا ہے کہ مشرقی پاکستان کو مغربی پاکستان سے الگ کرکے اپنے دائرہ اثرمیں لانے کے لیے باقاعدہ منصوبہ بندی کس طرح کی گئی پروپیگنڈا مہم، اگرتلا سازش کیس، پناہ گزینوں کا معاملہ، 1971 کا روس سے معاہدہ، مکتی باہنی کا قیام، ''را'' کے ایجنٹوں کی مشرقی پاکستان میں سرگرمیاں، بغاوت کی آگ کو بھڑکانا اور پھر باقاعدہ فوجی مداخلت یہ سب اسی منصوبہ بندی کے تحت ہوا جس کا نتیجہ بنگلہ دیش کے قیام کی صورت میں ظاہر ہوا، مکتی باہنی کی کارروائیوں اوران کے ظلم اور بربریت کا حال بھی جنید احمد نے تفصیل سے لکھا ہے ان کی کتاب میں جو تصویریں شامل ہیں انھیں دیکھ کر دل لرز اٹھتا ہے حقیقت ہے کہ جب انسان انسانیت کھو بیٹھتا ہے تو وہ حیوان ہی نہیں حیوانوں سے بھی بدتر ہوجاتا ہے۔
جنید احمد لکھتے ہیں ''بنگالیوں نے آزادی کے نام پر بہت ظلم کیے، پاکستان کے فوجی افسروں نے بغاوت کے خلاف کارروائیوں میں ثابت کردیا کہ وہ بہتر صفات کے مالک ہیں اوران کے خلاف جو الزامات ہیں وہ کتنے بے حقیقت ہیں۔''
جنید لکھتے ہیں کہ تاریخ کی کتابیں ازسر نو لکھنے کی ضرورت ہے تا کہ لوگوں کواصل حقائق کا علم ہو،اپنی غلطیوں پر پردہ ڈالنے کی پالیسی اب ترک کردینی چاہیے۔ غلطیوں کے ادراک سے ہی ہم اپنے آپ کو بہتر بناسکتے ہیں۔ یہ ضروری ہے کہ پاکستان کے دوٹکڑے ہونے کے اصل اسباب تاریخی حقائق کی بنیاد پر ہمیں بتانے چاہئیں ہمیں دنیا کو بتانا چاہیے کہ ہندوستان نے اس سارے معاملے میں کیا کردار ادا کیا اور مشرقی پاکستان میں بغاوت کی آگ کیسے بھڑکائی گئی۔اس سلسلے میں اگرچہ کچھ کام ہوا ہے لیکن پاکستان اپنی بات ابھی تک پوری طرح بیان نہیں کرسکا ہے جس کا نتیجہ یہ ہے کہ غلط بیانیے جاری ہیں اور الزامات کی انگلیاں ہماری طرف اٹھائی جارہی ہیں، اس صورت حال کا ازالہ اب لازمی طور پر ہوجانا چاہیے۔
جنید احمدکی کتاب کا مقصد بھی یہی ہے کہ حقائق کی روشنی میں واقعات کو ان کے اصلی رنگ میں پیش کیا جائے تاکہ غلط مفروضے اور جھوٹے فسانے بے نقاب ہوں انھوں نے اپنی کتاب میں ان واقعات کا بھی ذکر کیا ہے جو بنگلہ دیش کے قیام کے بعد وہاں پیش آئے اور پاکستان نے کس طرح اس بعد کی صورت حال کا مقابلہ کیا۔ اسی طرح کئی اہم دستاویزات کی نقلیں بھی کتاب کا حصہ ہیں جن سے بہت کچھ ان حالات کو سمجھنے کا موقع ملتا ہے جنھوں نے مشرقی پاکستان کے المیے کو جنم دیا۔