نئے چینی صدر کا پہلا تعارف
چینی کمیونسٹ پارٹی کی مرکزی کمیٹی اعلیٰ سول اور فوجی حکام پر مشتمل ہوتی ہے۔
ISLAMABAD:
چین کے نومنتخب صدر شی جن پنگ اپنے انتخاب کے بعد گزشتہ دنوں جنوبی چین میں ایک سرکاری ضیافت میں جا پہنچے جس کا اہتمام فوجی افسروں کے لیے کیا گیا تھا۔ یہ بوفے طرز کی دعوت تھی۔ ویسے نئے چینی صدر یکم جنوری سے باقاعدہ اپنا عہدہ سنبھالیں گے، مگر کیونکہ چین کے سیاسی نظام میں اِبہام اور غیریقینی کا کوئی گزر نہیں اس لیے انتخاب کا عمل مکمل ہونے کے بعد کسی کو بھی آنے والی نئی قیادت کی حیثیت کے بارے میں کوئی شک و شبہ نہیں رہتا۔ اس ضیافت میں نومنتخب صدر کی آمد ہی ایک غیرمتوقع بات تھی لیکن اس کے بعد جو کچھ ہوا وہ اور بھی زیادہ چونکا دینے والا تھا۔ اگلے ہی روز بیجنگ میونسپلٹی کی جانب سے ایسی پُرتعیش بوفے پارٹیوں پر پابندی کا حکم نامہ جاری کر دیا گیا۔
دراصل چین کے طول وعرض سے سول اور فوجی حکام کو بالخصوص دارالحکومت بیجنگ اور ملک کے دیگر حصوں میں سرکاری امور کی بجا آوری کے لیے جانا پڑتا ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان افسروں کی سہولت کے لیے دارالحکومت میں بوفے طرز کی ضیافتوں کا اہتمام کیا جانے لگا۔ یہ بوفے زیاد ہ سے زیادہ پُرتکلف ہوتے چلے گئے۔ چینی صدر نے جو دیکھا، اس کی انھیں توقع نہیں تھی لہٰذا اس غلط روش کے خلاف فی الفور عملی اقدامات کا آغاز کر دیا گیا۔ پُرتعیش بوفے پارٹیوں اور ان میں شراب کے بے مہار استعمال پر پابندی لگا دی گئی۔ سرکار کی طرف سے پابندی کا نشانہ محض پُرتعیش دعوتوں کو نہیں بنایا گیا بلکہ اس سلسلے میں تفصیلی احکامات جاری کیے گئے ہیں جن کی تفصیل ہم پاکستانیوں کے لیے یقیناً دلچسپی کا باعث ہو گی۔ وہ اس لیے کہ ہم پاکستانیوں کو بحث کرنا بہت مرغوب ہے۔ اور اپنی بحث میں ہم اپنے دعوے کی دلیل کے طور پر دنیا بھر کے مختلف ملکوں میں ہونے والے مثبت واقعات اور مثالی اقدامات کو نظیر کے طور پر پیش کر کے سینہ پُھلائے پھرتے ہیں لیکن ملک کے اندر تبدیلی کی کوئی صورت نظر نہیں آتی۔
چینی کمیونسٹ پارٹی کی مرکزی کمیٹی اعلیٰ سول اور فوجی حکام پر مشتمل ہوتی ہے۔ کمیٹی نے اس سلسلے میں جو احکامات جاری کیے، ان کا آغاز ہی اس بات سے ہوتا ہے کہ فوجی اور سول افسروں کو اپنے طور طریقے بدلنا ہوں گے۔ فوج میں خوشامدی بینروں کے استعمال' سرخ قالینوں اور پھولوں کی آرائش پر پابندی ہو گی۔ تحفے تحائف کا لین دین بھی ممنوع قرار دے دیا گیا ہے۔ دوروں پر جانے والے افسروں کو پُرتعیش ہوٹلوں میں ٹھہرنے اور مہنگی گاڑیاں استعمال کرنے کی اجازت نہیں ہو گی۔ اعلیٰ افسروں کی آمد ورفت کے دوران سائرنوں کا بے جا استعمال بھی ممنوع قرار دے دیا گیا ہے۔
افسروں کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ اجلاسوں میں غیرمتعلقہ گفتگو نہیں کریں گے' صرف کام کی بات تک محدود رہیں گے۔ فوجی کمیشن کے اہلکار افتتاحی تقریبات میں ربن کاٹنے اور تختیوں کی نقاب کشائی سے بھی کنارہ کشی اختیار کریں گے۔ دیگر تقریبات اور سیمیناروں میں شرکت بھی صرف اس صورت میں ہو گی جب سینٹرل کمیٹی ایسا کرنے کی اجازت دے۔ افسروں کو یہ ہدایت بھی کی گئی ہے کہ وہ اپنے بیوی بچوں اور ماتحتوں کو نظم وضبط میں لائیں اور انھیں خبردار کر دیں کہ وہ رشوت لینے سے باز رہیں۔ ان ساری ہدایات میں ایک انتہائی دلچسپ بات بھی شامل ہے جس میں اخبارات اور میڈیا کو اس بات کا پابند بنایا گیا ہے کہ وہ سرکاری اہل کاروں کی مدح سرائی پر مبنی خبروں کا حجم ممکنہ حد تک مختصر کر دیں کیونکہ ایسی خبریں لوگوں کے لیے بیزاری کا باعث بنتی ہیں۔ ان ساری پابندیوں کے بعد اب ایک نظر اس طرف بھی ڈالتے ہیں کہ جس ملک میں اتنی کڑی پابندیاں لگائی جا رہی ہیں اس کی اپنی حالت کیسی ہے۔
اس ملک کی مجموعی قومی پیداوار .30 7ٹریلین ڈالر ہے۔ قومی پیداوار کی شرح نمو 7.4 فیصد اور فی کس آمدنی 5414 ڈالر۔ یہ ملک کان کنی اور اس سے وابستہ صنعتوں میں دنیا بھر میں پہلے نمبر پر ہے(ماہرین کہتے ہیں کہ ان ملکوں کا مستقبل تابناک ہے جو دھات کاری کے شعبہ میں آگے نکل جائیں گے) اور اس ملک کی برآمدات 1.904 ٹریلین ڈالر سے زائد ہیں۔ چین کی تجارتی سرگرمیاں دنیا بھر کی منڈیوں کو اپنی لپیٹ میں لیے ہوئے ہیں۔ تیزی سے ترقی کی منازل طے کرتے ہوئے اس ملک کی قیادت کو اس بات کا احساس ہے کہ بڑے سے بڑا انقلاب بھی وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ آگے بڑھنے کی اپنی قوت اور رفتار سے محروم ہوتا چلا جاتا ہے۔ خوشحالی کی فراوانی سستی' بے عملی اور عیش وعشرت کی راہ دکھاتی ہے۔ سرکاری حکام عوام الناس کے لیے ایک مثال کا درجہ رکھتے ہیں۔ لوگ ان کی تقلید میں ناجائز کو جائز سمجھنے میں دیر نہیں لگاتے۔ تبدیلی کے عمل کو آگے بڑھنے کے لیے مسلسل قوت درکار ہوتی ہے۔ یہ قوت تبھی فراہم ہو سکتی ہے جب معاشرے کو ہر صورت تعمیری عمل سے منسلک رکھا جائے اور اسی بات کو یقینی بنانے کی کوشش نئے چینی صدر نے کی ہے۔
چین کے نئے صدر کے بارے میں ایک اور حیران کر دینے والی بات یہ ہے کہ ماضی میں ان کا خاندان کمیونسٹ پارٹی کے زیرعتاب رہ چکا ہے۔ شی جن پنگ چیئرمین ماؤزے تنگ کے قریبی ساتھی جنرل شی زونگ شن کے بیٹے ہیں۔ بعد میں ایسا وقت بھی آیا جب جنرل زونگ کو چیئرمین ماؤ سے اختلاف کے باعث جیل بھیج دیے گئے۔ اُس وقت شی جن پنگ کی عمر صرف 15 برس تھی۔ ان کے خاندان کو دوردراز علاقے میں بھیج دیا گیا جہاں انھیں پہاڑ کھود کر بنائے گئے غار نما گھر میں رہنا پڑا۔ انھیں کھیتوں میں جبری مشقت کرنا پڑتی۔ صدر شی جن پنگ کہتے ہیں کہ ان کی سیاسی زندگی میں آنے والی مُشکلات ان مصائب کے سامنے کوئی حیثیت نہیں رکھتیں جو انھیں اپنی نوجوانی کی جبری مشقت کے دوران سہنے پڑے۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ انھوں نے اس مشکل دور کو وطن دشمنی پر آمادہ ہو جانے کا جواز ہرگز نہیں بنایا حالانکہ ایسا کرنے والوں کو مغربی ممالک ہاتھوں ہاتھ لیتے ہیں۔ انھوں نے حالات کا مقابلہ کرتے ہوئے اسی کمیونسٹ پارٹی میں اپنی جگہ بنائی اور مقامی سطح سے ترقی کرتے کرتے کمیونسٹ پارٹی کی مرکزی کمیٹی تک پہنچ گئے۔ اولمپک کھیلوں کے کامیاب انعقاد نے انھیں ایک ہی جست میں چین کے اعلیٰ ترین سیاسی مقام پر لا کھڑا کیا ہے۔ چین کے صدر کی حیثیت سے شی جن پنگ کے ابتدائی اقدامات سے اندازہ ہوتا ہے کہ چین کے بارے میں امریکا اور اس کے مغربی ہم نواؤں کی توقعات پوری ہونے کا دور دور تک کوئی امکان نظر نہیں آتا۔
ہے �#��`�O i��وں کی ضمانتوں اورگواہ ثبوت کی عدم دستیابی کی وجہ سے مجرموںکی رہائی کی جو شکایات آج واویلے کی شکل اختیارکر رہی ہیں، اس میں قانونی چشم پوشیوں، قانونی مہارتوں کے علاوہ کیا انصاف کی چشم پوشیاں اور انصافی ڈھانچے میں نیچے سے اوپر تک سرائیت کر جانے والی خرابیوں کا بھی کوئی دخل ہے؟ مثال کے طور پر ہماری دیہی زندگی اور زرعی معیشت میں وڈیروں کی نجی جیلوں کا کلچر کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے، نجی جیلوں سے سیکڑوں ہاری کسان مع خاندان عشروں کی قید کے بعد برآمد ہوتے ہیں تو انھیں عدالت سے'' آزاد اور مرضی کے مطابق زندگی گزارنے '' کا انصاف تو مل جاتا ہے لیکن ان کی عمر کا ایک بڑا حصہ جس طرح ان جیلوں میں گزر جاتا ہے نہ اس کا حساب ہوتا ہے نہ کسی وڈیرے کو اس سنگین جرم کی سزا ملتی دکھائی دیتی ہے۔
پولیو مہم کے خلاف قبائلی جہل سے نکل کر کراچی جیسے بیدار شہر میں جو وبا آرہی ہے اس ''وبا کے جرثوموں'' کو موقعہ واردات سے آلہ قتل اور اقرار قتل کے ساتھ پکڑا جارہا ہے، لیکن بھتہ خوری، ٹارگٹ کلنگ، بینک ڈکیتیوں، اغوا برائے تاوان کے جرائم میں پکڑے جانے والے مجرموں کی طرح پولیو کے قاتل بھی قانون اور انصاف کے گرد وغبار میں گم ہورہے ہیں، کیا یہ طریقہ کار انصاف کی بالادستی قائم کرنے اور معاشرے کو جرائم سے پاک کرنے میں معاون ثابت ہوسکتا ہے؟
ہمارے قانون اور انصاف کی پوری عمارت گواہ اور ثبوت کے ستونوں پر کھڑی ہے اور اس جبر و ظلم کے معاشرے میں کسی مظلوم کی یہ جرأت نہیں ہوسکتی کہ وہ اپنے حق میں اور ظلم کرنے والے ظالموں کے خلاف گواہی دے یا ثبوت پیش کرے۔ کیونکہ اس جرأت کی سزا مظلوم کی بوریوں میں بند لاشوں کی شکل میں سامنے آتی ہے اور انصاف کی تاریک راہوں میں مارے جانے والے ان مظلوموں کے ساتھ ان کے پورے کے پورے خاندان قتل ہوجاتے ہیں۔ کیا اس ظلم وجبر کو ختم کیے بغیر انصاف کے تقاضے پورے ہوسکتے ہیں؟ ہمارا خیال ہے کہ امن و امان کی اس بدتر صورتحال سے نمٹنے کے لیے ہنگامی بنیادوں پر قانون اور انصاف کے فوری نفاذ اور جزا و سزا کے فوری فیصلوں کا اہتمام ضروری ہے۔