جناب قادری صاحب کا جلسہ اور بلور صاحب کی شہادت

قادری صاحب پاکستان میں اتنے مقبول ہرگز نہیں ہیں کہ ان کے نام پر اتنا بڑا اجتماع جمع ہو سکے۔


Abdul Qadir Hassan December 24, 2012
[email protected]

MUZAFFARABAD: جناب شیخ الاسلام علامہ ڈاکٹر محمد طاہر القادری بالقابہہ جس غیرمعمولی انداز میں کوئی پانچ برس کی خودساختہ مگر بے حد مفید اور نفع بخش جلاوطنی کے بعد پاکستان لوٹے ہیں۔ اس صورت حال اور انداز پر آپ کی طرح مجھے بھی سخت حیرت ہے اور ان کی آمد کے بارے میں خود میرے دل میں بھی آپ کی طرح پیدا ہونے والے سوالات کے شافی جواب موجود نہیں ہیں، اس کے لیے فی الحال شاید عالم غیب یا صاحب کشف ہونا ضروری ہے۔ ہمارے شاہ صاحب ان دنوں برطانیہ میں ہیں ورنہ ان سے کچھ مدد لی جاسکتی تھی۔

میں نے اپنی خاصی طویل صحافتی زندگی میں کبھی اتنا بڑا سیاسی اجتماع نہیں دیکھا۔ قادری صاحب پاکستان میں اتنے مقبول ہرگز نہیں ہیں کہ ان کے نام پر اتنا بڑا اجتماع جمع ہو سکے۔ وہ زیادہ سے زیادہ کسی عام سے جلسے کے مقرر ہیں۔ مجھے معلوم نہیں اس کے پیچھے کیا راز ہے لیکن یہ غیرمعمولی واقعہ کسی خاص وجہ اور سبب اور پس منظر کے بغیر وقوع پذیر نہیں ہو سکتا۔ اس ضمن میں قادری صاحب کی وضاحت سے میری تسلی نہیں ہوئی کہ لوگ خودبخود زیور تک بیچ کر آئے ہیں۔ عمران خان کے اسی مقام پر ایک بہت بڑے جلسے کی وجوہات واضح تھیں۔

عمران کی شخصیت اور حالات کے تقاضے اس بڑے جلسے کے اسباب تھے لیکن قادری صاحب نہ عمران جیسی دلکش عوامی شخصیت ہیں اور نہ حالات کے تقاضے ابھی تک تشنہ رہ گئے ہیں۔ عمران کو ان حالات کا ردعمل کہا گیا لیکن ایسا ردعمل بار بار اتنی جلدی اور اتنی مختصر مدت میں دوبارہ ظاہر نہیں ہوتا۔ بہرکیف میرے لیے یہ جلسہ ایک راز ہے۔ کروڑوں روپے کہاں سے آئے اور انھیں اس طرح انتہائی مفید اور موثرانداز میں کس طرح خرچ کیا گیا، یہ عام فہم بات نہیں ہے۔ قادری صاحب کی یہ تقریر ٹی وی کے ایک سے زیادہ چینلز پر نشر کی گئی۔ اس کے لیے شاید دو سوا دو گھنٹے کا وقت لیا گیا تھا کیونکہ دو گھنٹے گزرنے پر قادری صاحب نے کہا کہ ابھی چند منٹ باقی ہیں۔ یہ جلسہ' اس کے اخراجات ' اس کے حاضرین اور اس کے معقول انتظامات اور جلسہ سے قبل اشتہاری مہم سیاسی تاریخ کا ابھی تک ایک راز ہیں۔ میرا تجربہ اور ذہن اس راز سے پردہ اٹھانے سے معذور ہے۔

کئی ثقہ کالم نگاروں نے اطلاع دی ہے کہ کینیڈا میں قیام کے دو سال میں انھوں نے کینیڈا کی شہریت بھی حاصل کر لی ہے۔ اس طرح اب وہ پانچ چھ برس پہلے پاکستان سے بیرون ملک جانے والے کوئی خالی خولی قادری صاحب نہیں ہیں۔ اب وہ پاکستان کی شہریت میں ایک غیرمسلم بڑے ملک کی ملاوٹ کر چکے ہیں۔ اگر یہ درست ہے تو انھیں یہ ہرگز زیب نہیں دیتا کہ وہ کینیڈا کی نگران اور محافظ ملکہ برطانیہ کو بھی اپنا لیڈر اور محافظ سمجھیں اور اس کے ساتھ وفاداری کا حلف لیں۔ ان کی جرأت کی داد دینی پڑے گی کہ وہ دیار غیر اور دیارِ غیر اسلامی میں اپنے ساتھ اتنی بڑی واردات کرنے کے باوجود مینار پاکستان پر پاکستان کے اسلامی آئین کی روشنی اور رہنمائی میں خطاب کریں۔ آئین کی اسلامی دفعات پر عمل نہ کرنے پر دھمکیاں دیں اور ان پر عمل کا پروگرام واضح کریں۔ انھوں نے اپنی تقریر میںواضح انداز میں زور دے کر کہا کہ آج کے بعد اٹھارہ دنوں میں آئین کے مطابق نظام درست نہ کیا گیا تو وہ 14 جنوری کو اسلام آباد جائیں گے، اپنے چالیس لاکھ پیروکاروں کے ہمراہ اور پھر دنیا دیکھے گی کہ کیا ہو گا۔ قادری صاحب نے اپنی تجاویز پر عملدرآمد کے سلسلے میں یہ بھی کہا کہ انتخابات میں تاخیر ہوتی ہے تو اس میں کوئی حرج نہیں اور یہی وہ اصل نکتہ ہے جو بعض پاکستانیوں کے لیے شک پیدا کرنے کا باعث بن رہا ہے۔

پاکستان میں جب سے الیکشن کا پروگرام شروع ہوا ہے اور اس کی ابتدائی قانونی اور انتظامی تیاریاں شروع ہوئی ہیں، ان کو موخر کرانے کی باتیں بھی شروع ہو گئی ہیں۔ پاکستان کے محب وطن، غیرجانبدار، صاحب فراست لوگوں کا فیصلہ ہے کہ ملک کے مستقبل کا انحصار اب ان انتخابات کے انعقاد پر ہے، ان میں تاخیر اور التواء کا صاف مطلب ملک کا ''التوا'' ہے۔ ملکی حالات جس سطح پر پہنچ گئے ہیں، ان کو نارمل کرنا لازم ہے۔ کسی نے کہا ہے کہ الیکشن میں تاخیر وغیرہ ہوئی تو ملک میں خانہ جنگی ہو گی۔ ایک عام آدمی بھی جب سوچتا ہے تو اس نتیجے پر پہنچتا ہے کہ پاکستانی عوام اب صرف الیکشن کی امید اور اس سے اصلاح احوال کی توقع پر چپ ہیں ورنہ وہ ''نکونک'' آئے ہوئے ہیں۔ عوامی شعور بہت بلند ہو چکا ہے اور وہ دیکھ رہے ہیں کہ ان کی اس حالت زار کا ذمے دار کون ہے۔ وہ الیکشن میں ایسے لوگوں کی توقع کر رہے ہیں جو ان کے مسائل پر توجہ دیں اور ایک معقول اور قابل قبول حکومت قائم کریں ۔ پیپلزپارٹی کی رواں منتخب حکومت نے پاکستانی عوام کو خطرناک حد تک مایوس کر دیا ہے۔ اب اس سے زیادہ کی گنجائش نہیں ہے۔ یہی وہ پریشان حال پاکستانی عوام ہیں جو عمران خان اور طاہر القادری کے جلسوں کی اصل رونق ہیں۔ باقی کی حاضری جمع کی گئی ہے۔

عمران خان نے جو فضا بنا دی تھی اور جس سے فائدہ اٹھایا قادری صاحب نے وہ فضا اب اس ملک کا ایک مستقل موسم ہے جس کو سیاسی طور پر انجوائے کرنے کا حق پہلے عمران کو اور اس کے بعد شاید قادری صاحب کو ہے لیکن ان کا جلسہ عمران خان کے جلسے کی ایک انلارج تصویر تھی جس میں موسیقی کا تڑکا بھی لگایا گیا تھا جو پہلے عمران خان نے لگایا تھا۔ جناب قادری صاحب نے ہماری سیاست میں ایک نیا رنگ بھرا ہے اور پہلی بار عوامی سطح پر دھمکیوں سے کام لیا گیا ہے، اس پر اب گفتگو جاری رہے گی۔

مجھے پشاور میں بلور شہید کا ذکر کرنا ہے جنہوں نے موت کے خطرے کو گلے لگایا اور اپنی عارضی زندگی کو ابدی بنا دیا۔ ان کی ذات گرامی اے این پی کی زندگی اور سیاسی سفر کا ایک سنگ میل بن گئی ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ وہ پاکستان کی سیاسی زندگی کا ایک فعال لیڈر بن کر زندہ رہیں گے۔ سیاست میں کھانے والوں کی تو کمی نہیں لیکن سیاست میں جان دینے والے خال خال ہیں۔ اے این پی سے میرا آخری تعارف مرحوم عظیم المرتبت خان عبدالولی خان تھے، ان کے بعد اس جماعت سے رابطہ نہیں ہو سکا لیکن بلور صاحب نے قربانی دے کر ہر ایک کو اپنے اور جماعت کے قریب کر لیا ہے اور اب ہر زندہ دل اور درد دل والا ان کا دوست ہے۔ ان کے پسماندگان کو جہاں ان کی شہادت پر فخر ہے وہاں اللہ ان کو صبر بھی عطا کرے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں