ایں خانہ ہمہ آفتاب است
آئی کے گجرال کا کمال یہ تھا کہ وہ لکھتے بھی خوب تھے اور بولتے بھی خوب تھے۔
PESHAWAR:
وہ جون کے مہینے کی ایک تپتی ہوئی دوپہر تھی جب میں نئی دہلی کے تاریخی انڈیا گیٹ کے نزدیک واقع نیشنل اسٹیڈیم کی آرٹ گیلری میں داخل ہوا۔ اس وقت گرمی کے مارے میرا برا حال تھا۔ گیلری میں ان دنوں ستیش گجرال کی تصویروں کی نمائش لگی ہوئی تھی۔گیلری میں نیم تاریکی اور نیم اجالے کی سی کیفیت تھی۔ چلتے چلتے مجھے ایک کھڑکی نظر آئی جسے کھولنے کے لیے میرا ہاتھ بے اختیار اس کی جانب لپکا۔ لیکن اس کے بعد جو کچھ ہوا الفاظ اسے بیان کرنے سے قاصر ہیں کیونکہ وہ کھڑکی نہیں ستیش گجرال صاحب کی تخلیق کردہ کھڑکی کی ایک تصویر تھی۔ ستیش گجرال محض ایک منفرد مصور ہی نہیں بلکہ ایک بلند پایہ ماہر تعمیرات بھی ہیں اور آنجہانی آئی کے گجرال کے سگے بھائی ہیں۔ اس کے علاوہ آئی کے گجرال صاحب کی شریک حیات شیلا گجرال صاحبہ بھی پنجابی کے علاوہ ہندی اور انگریزی کی ایک قادر الکلام شاعرہ تھیں۔ گجرال فیملی کے دو روشن چشم و چراغ نریش اور وشال ہندوستانی پارلیمان کے ایوان بالا راجیہ سبھا کے نہایت قابل قدر ارکان ہیں۔ گویا ایں خانہ ہمہ آفتاب است والی بات ہے۔
اندر کمار گجرال سے ہمیں شرف ملاقات اس وقت پہلی مرتبہ حاصل ہوا جب وہ نئی دہلی میونسپل کمیٹی کے نائب صدر منتخب ہوئے تھے۔ غالباً یہ 1958 کی بات تھی جب ہم دہلی کالج میں بی ۔اے سال اول کے طالب علم تھے۔ جی ہاں! وہی دہلی کالج جو کبھی عربک کالج ہوا کرتا تھا اور بعد میں ذاکر حسین کالج بھی کہلایا۔ اس زمانے میں مرزا محمود بیگ ہمارے کالج کے پرنسپل تھے جو ڈاکٹر ذاکر حسین اور پروفیسر محمد مجیب جیسے مانے ہوئے ماہرین تعلیم کے ہم پلہ تھے اور ایک زمانہ میں مقبوضہ کشمیر میں ماہر تعلیم کے منصب پر فائز رہے۔اس کے بعد گجرال صاحب کو متعدد مرتبہ دیکھنے اور سننے کی سعادت نصیب ہوئی۔
بعض لوگ بولتے اچھا ہیں اور بعضے لکھتے اچھا ہیں، مگر آئی کے گجرال کا کمال یہ تھا کہ وہ لکھتے بھی خوب تھے اور بولتے بھی خوب تھے۔ پنجابی ان کی مادری زبان تھی، مگر انگریزی اور اردو پر بھی انھیں یکساں عبور حاصل تھا۔ اس لحاظ سے وہ محض تقریر کے ہی نہیں بلکہ تحریر کے بھی دھنی تھے۔ علاوہ ازیں وہ گفتار اور کردار دونوں ہی کے غازی تھے۔ انھوں نے اپنے سیاسی کیرئیر کا آغاز گاندھی جی کی زیر قیادت انڈین نیشنل کانگریس کی ''ہندوستان چھوڑو'' نامی تحریک آزادی سے کیا جو 1942 میں انگریزوں کو ہندوستان سے نکالنے کے مقصد سے شروع کی گئی تھی۔ گجرال نے اس تحریک میں بڑی سرگرمی کے ساتھ حصہ لیا اور اس کے دوران جیل یاترا پر بھی گئے۔ اس زمانے میں وہ کراچی میں مقیم تھے۔ دراصل وہ 1940 میں کراچی آکر آباد ہوگئے تھے۔ اس عرصے میں ان کے مراسم سوبھوگیان چندانی اور قادر بخش نظامانی کے ساتھ قائم ہوئے جو ہندوستان کی کمیونسٹ پارٹی کے سرگرم ارکان میں شامل تھے۔ غالباً یہ اسی محبت کا اثر تھا کہ گجرال سندھی سمجھ لیتے تھے اور اس زبان سے لطف اندوز بھی ہوتے تھے۔ تقسیم ہند کے وقت وہ کراچی سے ہندوؤں اور سکھوں کی نقل مکانی پر بہت ملول اور آزردہ خاطر ہوئے۔ انھوں نے ترک وطن کرنے والے ہندوؤں اور سکھوں کا تحفظ کرنے پر سندھی رہنما محمد ایوب کھوڑو کی بہت تعریف کی جو اس وقت صوبہ سندھ کے وزیر اعلیٰ تھے۔ بالآخر اپنے دیگر ہم مذہبوں کی طرح گجرال بھی ہجرت کرکے بھارت چلے گئے جہاں انھوں نے بڑی عزت اور شہرت کمائی۔ پوٹھو ہار کے مردم خیز علاقے کو اس بات کا اعزاز حاصل ہے کہ اس نے ہندوستان کے دو نامور وزیر اعظم آئی۔کے گجرال اور ڈاکٹر من موہن سنگھ پید اکیے۔
یہ بھی عجب اتفاق ہے کہ وہ دسمبر ہی کے مہینے میں عدم سے وجود میں آئے اور اسی ماہ کے دوران اپنے ابدی سفر پر ملک عدم روانہ ہوئے۔ کانگریس کی قیادت میں ہم نے جن دو ہندو شخصیات کو انتہائی صلح جو، امن پسند اور مسلم دوست پایا ان میں گوپی ناتھ امنؔ اور آئی۔کے گجرال سرفہرست ہیں۔ امنؔ کا تعلق اگرچہ لکھنؤ سے تھا لیکن دہلی میں وہ اس قدر رچ بس گئے تھے کہ عملاً دہلوی ہوکر رہ گئے تھے، حتیٰ کہ ان کا انتقال بھی دہلی میں ہی ہوا۔ رگھوپیتی سہائے فراقؔ گورکھپوری کے بعد ہندوؤں میں اردو کے حمایتیوں میں وہ شاید سب سے زیادہ سرگرم اور پیش پیش تھے۔ اردو سے محبت انھیں اپنی ماتا جی سے ورثے میں ملی تھی جو اس زمانے کے دو مشہور اردو اخبارات ''ملاپ'' اور ''پرتاب'' بڑے شوق کے ساتھ پڑھا کرتی تھیں جب کہ ان کے پتا جی ان کے لیے اردو کا مشہور ماہنامہ ''پھول'' نہایت باقاعدگی اور پابندی کے ساتھ ہر ماہ لاہور سے منگوایا کرتے تھے۔ اردو کی کہانیاں اور مضامین پڑھنا ان کا سب سے محبوب مشغلہ تھا۔ یوں اردو ان کی گھٹّی میں شامل ہوگئی جو تادم آخر ان کی سانسوں میں بسی رہی۔ ان کی طبیعت کا میلان ترقی پسند تحریک کی جانب رہا۔ یہی وجہ ہے کہ مخدومؔ، فیضؔ اور ساحرؔ لدھیانوی کے اشعار ان کی تحریروں میں جابجا نظر آتے ہیں۔ اس کے علاوہ وہ اقبالؔ اور مجازؔ کو بھی بے حد پسند کرتے تھے۔ وہ فراقؔ اور آنند نارائن ملّا کی طرح اردو کے دیوانے تھے اور اردو کی حمایت اور وکالت میں کسی بھی حد تک جانے کے لیے تیار رہتے تھے۔ ان کی اردو دوستی ہر طرح کی سیاسی اور غیر سیاسی مصلحت سے بالاتر تھی۔ اردو کے بارے میں ''گجرال کمیٹی'' رپورٹ سے انھیںبڑی شہرت اور اردو حلقوں میں زبردست پذیرائی اور مقبولیت حاصل ہوئی۔ ان کا کہنا تھا کہ ''اردو کو انصاف دلوانے کی مانگ نہ تو کوئی مسلمانوں کی مانگ ہے اور نہ ہی کسی فرقہ وارانہ سیاست کی، یہ زبان ہماری مشترکہ تہذیب کی عکاسی کرتی ہے۔'' ان کے اردو مضامین کو پڑھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ انھیں اس زبان پر کتنی دسترس اور قدرت حاصل تھی۔ ان کی کتاب ''مضامین گجرال'' پڑھنے سے تعلق رکھتی ہے۔ گجرال حرمت قلم کے بہت زیادہ قائل تھے اور صحافت کو عبادت کا درجہ دیتے تھے۔ اظہار رائے کی خاطر بڑی سے بڑی قربانی دینے والے عہد ساز صحافیوں کو انھوں نے Crusaders کہا ہے۔ وہ اخبار کو ''دھرم یدھ'' کہا کرتے تھے ۔
آنجہانی گجرال کا ایک اور بڑا مسئلہ یہ تھا کہ وہ انتہائی صاف گو تھے اور سچی اور کھری بات کہنے سے کسی قیمت پر بھی نہیں چوکتے تھے۔
ان کا یہ خراج انھیں بڑا مہنگا بھی پڑا۔ مثلاً اندرا گاندھی کے چہیتے بیٹے بلکہ Spoiled Son سنجے گاندھی سے اختلاف کے کارن وہ زیر عتاب بھی آئے اور ماسکو میں سوویت کے لیے سفیر بناکر دلّی بدر کردیے گئے۔ وزارت اطلاعات سے یک بیک ان کی برطرفی بھی سیاسی اختلاف کا ہی نتیجہ تھی۔ مگر کیا مجال جو انھیں کبھی ان باتوں کا کوئی پچھتاوا ہوا ہو۔اپنے پورے سیاسی کیرئیر میں انھوں نے اپنے ضمیر کا سودا کبھی نہیں کیا۔ کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا سے گہرے تعلق کے باوجود وہ سوویت یونین پر تنقید کرنے سے بھی ذرا نہیں چوکے۔ اس تناظر میں 11 ماہ تک وزیر اعظم کی کرسی پر برقرار رہنا بھی ان کے حوالے سے بڑے اچھنبے کی بات تھی۔ یہ اپریل 1997 سے مارچ 1998 تک کا دور تھا۔وہ بھارت کے بارہویں وزیر اعظم تھے۔ ان کا ایک اور اعزازز یہ بھی ہے کہ تاحال وہ پنڈت نہرو کے بعد واحد وزیر اعظم ہند ہیں جنہوں نے اپنی خودنوشت بھی لکھی ہے۔
گجرال پنڈت جواہر لعل نہرو کے زمانے میں بھارت کے ایوان بالا راجیہ سبھا کے رکن منتخب ہوکر ہندوستان کی سیاست کے Main Stream میں شامل ہوئے اور نہرو کی بیٹی اندرا گاندھی کی وزارت عظمیٰ کے دور میں بھارت کی مرکزی کابینہ کے انتہائی فعال رکن رہے۔ انھوں نے بطور وزیر مواصلات مرکزی وزیر برائے پارلیمانی امور وہاؤسنگ اور وزیر اطلاعات و نشریات اہم خدمات انجام دیں۔ وہ مزاجاً بہت نرم گرفتار اور صلح پسند انسان تھے۔ ان کی خواہش تھی کہ ہندوستان کے اپنے تمام پڑوسیوں خصوصاً پاکستان کے ساتھ بہترین دوستانہ تعلقات قائم ہوں۔ اس حوالے سے انھوں نے اپنا ایک مخصوص نظریہ پیش کیا جسے ''گجرال ڈاکٹرائن'' کے نام سے بڑی شہرت اور پذیرائی حاصل ہوئی۔ ان کا یہ نظریہ نہرو کے نظریے پنج شہلا کی طرز پر پانچ بڑے اصولوں پر مبنی تھا۔ انھوں نے پاکستان کے ساتھ تعلقات کے فروغ کے معاملے میں اٹل بہاری واجپائی کی بھی حمایت کی جن کے ایماء پر 1999 کا لاہور ڈیکلیریشن وجود میں آیا۔ پاکستان کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کے لیے وہ ویزا پالیسی میں یکطرفہ نرمی اور رعایت تک کے لیے تیار تھے۔ وہ اگر حیات ہوتے تو پاکستان اور بھارت کے درمیان ویزا کے اجراء کے نئے معاہدے پر دستخط ہونے کے بعد خوشی سے پھولے نہ سماتے۔
1980 کی دہائی میں وہ کانگریس پارٹی کو چھوڑ کر ای۔پی سنگھ کی زیر قیادت نیشنل فرنٹ کی حکومت میں شامل ہوکر وزیر خارجہ کے منصب پر فائز ہوئے۔ اس وقت یہ وزارت کانٹوں کی سیج سے کم نہ تھی کیونکہ کویت پر عراق حملے کے نتیجے میں بے شمار ہندوستانی وہاں سے اجڑ کر وطن واپس آنے پر مجبور ہوگئے تھے جس کے باعث ایک بہت بڑا چیلنج درپیش تھا۔ اس کے بعد جب ایچ ڈی دیو گوڑھ ہندوستان کے وزیر اعظم بنے تو گجرال نے ان کی کابینہ میں دوسری مرتبہ وزارت خارجہ کا قلمدان سنبھالا اور پھر جب یونائیٹڈ فرنٹ شدید اختلافات کا شکار ہوئی تو وہ متفقہ امیدوار کے طور پر وزیر اعظم منتخب ہوئے۔ یہ اور بات ہے کہ ان کی حکومت محض چند ماہ سے زیادہ برقرار نہ رہ سکی کیونکہ راجیو گاندھی کے قتل کے بارے میں جین کمیشن رپورٹ کے منظر عام پر آنے کے بعد کانگریس پارٹی بے چینی اور بے اطمینان کا شکار ہوگئی۔ اندر کمار گجرال بے مثال خوبیوں کے مالک تھے۔ انھیں انسان دوستی، امن پسندی، ادب پروری، دور اندیشی، معاملہ فہمی، نرم خوئی، صلح جوئی، فہم و فراست، سیاسی تدبر، علم و دانش اور سخن فہمی کے باعث ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔
وہ جون کے مہینے کی ایک تپتی ہوئی دوپہر تھی جب میں نئی دہلی کے تاریخی انڈیا گیٹ کے نزدیک واقع نیشنل اسٹیڈیم کی آرٹ گیلری میں داخل ہوا۔ اس وقت گرمی کے مارے میرا برا حال تھا۔ گیلری میں ان دنوں ستیش گجرال کی تصویروں کی نمائش لگی ہوئی تھی۔گیلری میں نیم تاریکی اور نیم اجالے کی سی کیفیت تھی۔ چلتے چلتے مجھے ایک کھڑکی نظر آئی جسے کھولنے کے لیے میرا ہاتھ بے اختیار اس کی جانب لپکا۔ لیکن اس کے بعد جو کچھ ہوا الفاظ اسے بیان کرنے سے قاصر ہیں کیونکہ وہ کھڑکی نہیں ستیش گجرال صاحب کی تخلیق کردہ کھڑکی کی ایک تصویر تھی۔ ستیش گجرال محض ایک منفرد مصور ہی نہیں بلکہ ایک بلند پایہ ماہر تعمیرات بھی ہیں اور آنجہانی آئی کے گجرال کے سگے بھائی ہیں۔ اس کے علاوہ آئی کے گجرال صاحب کی شریک حیات شیلا گجرال صاحبہ بھی پنجابی کے علاوہ ہندی اور انگریزی کی ایک قادر الکلام شاعرہ تھیں۔ گجرال فیملی کے دو روشن چشم و چراغ نریش اور وشال ہندوستانی پارلیمان کے ایوان بالا راجیہ سبھا کے نہایت قابل قدر ارکان ہیں۔ گویا ایں خانہ ہمہ آفتاب است والی بات ہے۔
اندر کمار گجرال سے ہمیں شرف ملاقات اس وقت پہلی مرتبہ حاصل ہوا جب وہ نئی دہلی میونسپل کمیٹی کے نائب صدر منتخب ہوئے تھے۔ غالباً یہ 1958 کی بات تھی جب ہم دہلی کالج میں بی ۔اے سال اول کے طالب علم تھے۔ جی ہاں! وہی دہلی کالج جو کبھی عربک کالج ہوا کرتا تھا اور بعد میں ذاکر حسین کالج بھی کہلایا۔ اس زمانے میں مرزا محمود بیگ ہمارے کالج کے پرنسپل تھے جو ڈاکٹر ذاکر حسین اور پروفیسر محمد مجیب جیسے مانے ہوئے ماہرین تعلیم کے ہم پلہ تھے اور ایک زمانہ میں مقبوضہ کشمیر میں ماہر تعلیم کے منصب پر فائز رہے۔اس کے بعد گجرال صاحب کو متعدد مرتبہ دیکھنے اور سننے کی سعادت نصیب ہوئی۔
بعض لوگ بولتے اچھا ہیں اور بعضے لکھتے اچھا ہیں، مگر آئی کے گجرال کا کمال یہ تھا کہ وہ لکھتے بھی خوب تھے اور بولتے بھی خوب تھے۔ پنجابی ان کی مادری زبان تھی، مگر انگریزی اور اردو پر بھی انھیں یکساں عبور حاصل تھا۔ اس لحاظ سے وہ محض تقریر کے ہی نہیں بلکہ تحریر کے بھی دھنی تھے۔ علاوہ ازیں وہ گفتار اور کردار دونوں ہی کے غازی تھے۔ انھوں نے اپنے سیاسی کیرئیر کا آغاز گاندھی جی کی زیر قیادت انڈین نیشنل کانگریس کی ''ہندوستان چھوڑو'' نامی تحریک آزادی سے کیا جو 1942 میں انگریزوں کو ہندوستان سے نکالنے کے مقصد سے شروع کی گئی تھی۔ گجرال نے اس تحریک میں بڑی سرگرمی کے ساتھ حصہ لیا اور اس کے دوران جیل یاترا پر بھی گئے۔ اس زمانے میں وہ کراچی میں مقیم تھے۔ دراصل وہ 1940 میں کراچی آکر آباد ہوگئے تھے۔ اس عرصے میں ان کے مراسم سوبھوگیان چندانی اور قادر بخش نظامانی کے ساتھ قائم ہوئے جو ہندوستان کی کمیونسٹ پارٹی کے سرگرم ارکان میں شامل تھے۔ غالباً یہ اسی محبت کا اثر تھا کہ گجرال سندھی سمجھ لیتے تھے اور اس زبان سے لطف اندوز بھی ہوتے تھے۔ تقسیم ہند کے وقت وہ کراچی سے ہندوؤں اور سکھوں کی نقل مکانی پر بہت ملول اور آزردہ خاطر ہوئے۔ انھوں نے ترک وطن کرنے والے ہندوؤں اور سکھوں کا تحفظ کرنے پر سندھی رہنما محمد ایوب کھوڑو کی بہت تعریف کی جو اس وقت صوبہ سندھ کے وزیر اعلیٰ تھے۔ بالآخر اپنے دیگر ہم مذہبوں کی طرح گجرال بھی ہجرت کرکے بھارت چلے گئے جہاں انھوں نے بڑی عزت اور شہرت کمائی۔ پوٹھو ہار کے مردم خیز علاقے کو اس بات کا اعزاز حاصل ہے کہ اس نے ہندوستان کے دو نامور وزیر اعظم آئی۔کے گجرال اور ڈاکٹر من موہن سنگھ پید اکیے۔
یہ بھی عجب اتفاق ہے کہ وہ دسمبر ہی کے مہینے میں عدم سے وجود میں آئے اور اسی ماہ کے دوران اپنے ابدی سفر پر ملک عدم روانہ ہوئے۔ کانگریس کی قیادت میں ہم نے جن دو ہندو شخصیات کو انتہائی صلح جو، امن پسند اور مسلم دوست پایا ان میں گوپی ناتھ امنؔ اور آئی۔کے گجرال سرفہرست ہیں۔ امنؔ کا تعلق اگرچہ لکھنؤ سے تھا لیکن دہلی میں وہ اس قدر رچ بس گئے تھے کہ عملاً دہلوی ہوکر رہ گئے تھے، حتیٰ کہ ان کا انتقال بھی دہلی میں ہی ہوا۔ رگھوپیتی سہائے فراقؔ گورکھپوری کے بعد ہندوؤں میں اردو کے حمایتیوں میں وہ شاید سب سے زیادہ سرگرم اور پیش پیش تھے۔ اردو سے محبت انھیں اپنی ماتا جی سے ورثے میں ملی تھی جو اس زمانے کے دو مشہور اردو اخبارات ''ملاپ'' اور ''پرتاب'' بڑے شوق کے ساتھ پڑھا کرتی تھیں جب کہ ان کے پتا جی ان کے لیے اردو کا مشہور ماہنامہ ''پھول'' نہایت باقاعدگی اور پابندی کے ساتھ ہر ماہ لاہور سے منگوایا کرتے تھے۔ اردو کی کہانیاں اور مضامین پڑھنا ان کا سب سے محبوب مشغلہ تھا۔ یوں اردو ان کی گھٹّی میں شامل ہوگئی جو تادم آخر ان کی سانسوں میں بسی رہی۔ ان کی طبیعت کا میلان ترقی پسند تحریک کی جانب رہا۔ یہی وجہ ہے کہ مخدومؔ، فیضؔ اور ساحرؔ لدھیانوی کے اشعار ان کی تحریروں میں جابجا نظر آتے ہیں۔ اس کے علاوہ وہ اقبالؔ اور مجازؔ کو بھی بے حد پسند کرتے تھے۔ وہ فراقؔ اور آنند نارائن ملّا کی طرح اردو کے دیوانے تھے اور اردو کی حمایت اور وکالت میں کسی بھی حد تک جانے کے لیے تیار رہتے تھے۔ ان کی اردو دوستی ہر طرح کی سیاسی اور غیر سیاسی مصلحت سے بالاتر تھی۔ اردو کے بارے میں ''گجرال کمیٹی'' رپورٹ سے انھیںبڑی شہرت اور اردو حلقوں میں زبردست پذیرائی اور مقبولیت حاصل ہوئی۔ ان کا کہنا تھا کہ ''اردو کو انصاف دلوانے کی مانگ نہ تو کوئی مسلمانوں کی مانگ ہے اور نہ ہی کسی فرقہ وارانہ سیاست کی، یہ زبان ہماری مشترکہ تہذیب کی عکاسی کرتی ہے۔'' ان کے اردو مضامین کو پڑھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ انھیں اس زبان پر کتنی دسترس اور قدرت حاصل تھی۔ ان کی کتاب ''مضامین گجرال'' پڑھنے سے تعلق رکھتی ہے۔ گجرال حرمت قلم کے بہت زیادہ قائل تھے اور صحافت کو عبادت کا درجہ دیتے تھے۔ اظہار رائے کی خاطر بڑی سے بڑی قربانی دینے والے عہد ساز صحافیوں کو انھوں نے Crusaders کہا ہے۔ وہ اخبار کو ''دھرم یدھ'' کہا کرتے تھے ۔
آنجہانی گجرال کا ایک اور بڑا مسئلہ یہ تھا کہ وہ انتہائی صاف گو تھے اور سچی اور کھری بات کہنے سے کسی قیمت پر بھی نہیں چوکتے تھے۔
ان کا یہ خراج انھیں بڑا مہنگا بھی پڑا۔ مثلاً اندرا گاندھی کے چہیتے بیٹے بلکہ Spoiled Son سنجے گاندھی سے اختلاف کے کارن وہ زیر عتاب بھی آئے اور ماسکو میں سوویت کے لیے سفیر بناکر دلّی بدر کردیے گئے۔ وزارت اطلاعات سے یک بیک ان کی برطرفی بھی سیاسی اختلاف کا ہی نتیجہ تھی۔ مگر کیا مجال جو انھیں کبھی ان باتوں کا کوئی پچھتاوا ہوا ہو۔اپنے پورے سیاسی کیرئیر میں انھوں نے اپنے ضمیر کا سودا کبھی نہیں کیا۔ کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا سے گہرے تعلق کے باوجود وہ سوویت یونین پر تنقید کرنے سے بھی ذرا نہیں چوکے۔ اس تناظر میں 11 ماہ تک وزیر اعظم کی کرسی پر برقرار رہنا بھی ان کے حوالے سے بڑے اچھنبے کی بات تھی۔ یہ اپریل 1997 سے مارچ 1998 تک کا دور تھا۔وہ بھارت کے بارہویں وزیر اعظم تھے۔ ان کا ایک اور اعزازز یہ بھی ہے کہ تاحال وہ پنڈت نہرو کے بعد واحد وزیر اعظم ہند ہیں جنہوں نے اپنی خودنوشت بھی لکھی ہے۔
گجرال پنڈت جواہر لعل نہرو کے زمانے میں بھارت کے ایوان بالا راجیہ سبھا کے رکن منتخب ہوکر ہندوستان کی سیاست کے Main Stream میں شامل ہوئے اور نہرو کی بیٹی اندرا گاندھی کی وزارت عظمیٰ کے دور میں بھارت کی مرکزی کابینہ کے انتہائی فعال رکن رہے۔ انھوں نے بطور وزیر مواصلات مرکزی وزیر برائے پارلیمانی امور وہاؤسنگ اور وزیر اطلاعات و نشریات اہم خدمات انجام دیں۔ وہ مزاجاً بہت نرم گرفتار اور صلح پسند انسان تھے۔ ان کی خواہش تھی کہ ہندوستان کے اپنے تمام پڑوسیوں خصوصاً پاکستان کے ساتھ بہترین دوستانہ تعلقات قائم ہوں۔ اس حوالے سے انھوں نے اپنا ایک مخصوص نظریہ پیش کیا جسے ''گجرال ڈاکٹرائن'' کے نام سے بڑی شہرت اور پذیرائی حاصل ہوئی۔ ان کا یہ نظریہ نہرو کے نظریے پنج شہلا کی طرز پر پانچ بڑے اصولوں پر مبنی تھا۔ انھوں نے پاکستان کے ساتھ تعلقات کے فروغ کے معاملے میں اٹل بہاری واجپائی کی بھی حمایت کی جن کے ایماء پر 1999 کا لاہور ڈیکلیریشن وجود میں آیا۔ پاکستان کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کے لیے وہ ویزا پالیسی میں یکطرفہ نرمی اور رعایت تک کے لیے تیار تھے۔ وہ اگر حیات ہوتے تو پاکستان اور بھارت کے درمیان ویزا کے اجراء کے نئے معاہدے پر دستخط ہونے کے بعد خوشی سے پھولے نہ سماتے۔
1980 کی دہائی میں وہ کانگریس پارٹی کو چھوڑ کر ای۔پی سنگھ کی زیر قیادت نیشنل فرنٹ کی حکومت میں شامل ہوکر وزیر خارجہ کے منصب پر فائز ہوئے۔ اس وقت یہ وزارت کانٹوں کی سیج سے کم نہ تھی کیونکہ کویت پر عراق حملے کے نتیجے میں بے شمار ہندوستانی وہاں سے اجڑ کر وطن واپس آنے پر مجبور ہوگئے تھے جس کے باعث ایک بہت بڑا چیلنج درپیش تھا۔ اس کے بعد جب ایچ ڈی دیو گوڑھ ہندوستان کے وزیر اعظم بنے تو گجرال نے ان کی کابینہ میں دوسری مرتبہ وزارت خارجہ کا قلمدان سنبھالا اور پھر جب یونائیٹڈ فرنٹ شدید اختلافات کا شکار ہوئی تو وہ متفقہ امیدوار کے طور پر وزیر اعظم منتخب ہوئے۔ یہ اور بات ہے کہ ان کی حکومت محض چند ماہ سے زیادہ برقرار نہ رہ سکی کیونکہ راجیو گاندھی کے قتل کے بارے میں جین کمیشن رپورٹ کے منظر عام پر آنے کے بعد کانگریس پارٹی بے چینی اور بے اطمینان کا شکار ہوگئی۔ اندر کمار گجرال بے مثال خوبیوں کے مالک تھے۔ انھیں انسان دوستی، امن پسندی، ادب پروری، دور اندیشی، معاملہ فہمی، نرم خوئی، صلح جوئی، فہم و فراست، سیاسی تدبر، علم و دانش اور سخن فہمی کے باعث ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔