میڈیا اپنی سونڈ کی فکر کرے

میڈیا حکومتوں اور بڑی طاقتوں سے پنجہ آزمائی میں مصروف ہے یعنی بقول خوشحال خان خٹک اس کی نظر ’’بڑے بڑے شکاروں‘‘ پر ہے


Saad Ulllah Jaan Baraq December 24, 2012
[email protected]

GILGIT: میڈیا کو شاید پتہ بھی نہیں ہے کہ اس پر کتنا بڑا حملہ ہوا ہے بلکہ اسے یلغار کہنا چاہیے، میڈیا تو اپنے اخباروں اور چینلوں میں مست ہے اور اسے یہ پتہ بھی نہیں ہے کہ عقب سے اس پر کتنا کاری وار ہوا ہے۔

میڈیا تو حکومتوں اور بڑی طاقتوں سے پنجہ آزمائی میں مصروف ہے یعنی بقول خوشحال خان خٹک اس کی نظر ''بڑے بڑے شکاروں'' پر ہے لیکن عقب سے خلاف توقع چھری گھونپی گئی ہے۔ یہ چھری اس نئی نئی پیدا شدہ نومولود نوزائیدہ اور نوسیکھیا ''منی میڈیا'' کی طرف سے گھونپی گئی ہے جو موبائل سیٹوں پر آہستہ آہستہ اپنا وجود منوا رہا ہے۔ اسے آپ سینہ بہ سینہ گزٹ یا کان در کان نیوز یا نمبر در نمبر میڈیا بھی کہہ سکتے ہیں۔ یوں تو ایک عرصے سے اس میڈیا پر ہماری نظر تھی جو کبھی کبھی اتنی سنسر توڑ معلومات نشر کرتا تھا کہ موبائل سیٹ گرم ہو جاتا تھا۔ ملک کے وزیروں، امیروں اور کبیروں کے بارے میں انتہائی ایکسکلوزیو معلومات نشر ہوتی تھیں لیکن اب کے اس نے میڈیا پر براہ راست وار کیا ہے بلکہ گولی چلائی ہے۔ لکھا ہے کہ ملالہ کو جو گولی ماری گئی تھی، وہ وہاں سے پھسل کر میڈیا کے دماغ میں گھس گئی ہے۔

ہم جانتے ہیں کہ یہ خبر قطعی بے بنیاد ہے، سب سے بڑا جھوٹ یہ ہے کہ میڈیا کے دماغ کا ذکر ہوا ہے ،دنیا جانتی ہے کہ یہ ہے ہی نہیں،اگر خالی کھوپڑی کہا جاتا تو پھر بھی بات ہوتی کیوں کہ میڈیا کا دماغ ہوتا ہی نہیں، صرف زبان ہی زبان ہوتی ہے، بالفرض اگر میڈیا کا دماغ ہے بھی جس کا ہمیں پتہ نہیں ہے تو کیا گولی کی آنکھیں تھیں، جو وہاں سے پھسل کر میڈیا کے دماغ تک پہنچ گئی جہاں تک ہماری معلومات کا تعلق ہے،گولی کی نہ آنکھیں ہوتی ہیں اور نہ ہی زبان ، گولی کو ہم کوئی بلا فرض کر لیں تو بلائیں بھی کسی نہ کسی سے تو پتہ پوچھتی ہیں جیسا کہ انوری خامی فارسی کے شاعر نے بتایا ہے کہ آسمان سے جو بھی بلا نازل ہوتی ہے وہ میرے گھر کا پتہ پوچھتی نظر آتی ہے، لیکن اس گولی کے بارے میں کسی نے بھی کچھ نہیں بتایا، کم از کم کسی ٹریفک کے سپاہی سے تو اس نے پوچھا ہو گا کہ میڈیا کا دماغ کہاں ہے، ان ساری باتوں سے ہم نے یہ نتیجہ نکالا ہے کہ یہ خبر من گھڑت ہے۔

جب کوئی چیز موجود ہی نہیں ہے تو اس میں گولی کیسے لگ سکتی ہے، لیکن ہم پھر بھی فرض کیے لیتے ہیں کہ ہم نہایت عامی و امی قسم کے ایک مسکین اور بے خبر کالم نگار ہو سکتا ہے کہ میڈیا کے دماغ نہ ہونے کے بارے میں ہماری معلومات غلط ہوں اور واقعی اس کا کہیں وجود ہو جس کی ہمیں خبر نہ ہو، اس بات کو اس خیال سے بھی تقویت پہنچتی ہے کہ اگر واقعی میڈیا کا دماغ موجود ہے تو وہ کسی نہایت ہی محفوظ اور ناقابل رسائی مقام پر ہو گا کیوں کہ ایسی قیمتی چیز کسی معمولی سی کھوپڑی میں تو ہو نہیں سکتی اور وہ کھوپڑی اتنی آہنی اور فولادی ہو گی کہ ایک معمولی سی گولی اس کا کچھ بھی نہیں بگاڑ سکتی، اس لیے یہ خبر بالکل ہی بے بنیاد ہے، مطلب یہ کہ خبر تو غلط اور بے بنیاد ہے اور یہ کسی دشمن کی اڑائی ہوئی ہو گی لیکن سوچنے والی بات یہ ہے کہ میڈیا کو چوکنا ضرور ہونا چاہیے کہ کوئی تو ہے جو اس کے بارے میں الٹی سیدھی افواہیں اڑا رہا ہے۔

یوں سمجھئے کہ یہ ایک خطرے کی گھنٹی بلکہ الارم بلکہ ہوٹر ہے کہ میڈیا کے خلاف کہیں نہ کہیں تو ''کچھ کچھ'' ہو رہا ہے۔ یہ عوامی یا موبائل یا سینہ بہ سینہ میڈیا فی الحال تو اتنا طاقت ور نہیں ہے کہ طاقت ور ترین اصلی میڈیا کا کچھ بگاڑ سکے تو ماچس کی تیلی بھی تو بہت چھوٹی ہوتی ہے لیکن اسے بجھایا نہ جائے تو بہت بڑی آگ کا باعث بن سکتی ہے، خاکستر کی چنگاری بھی بہت بڑی قیامت ڈھا سکتی ہے، آج تو اس نے میڈیا کے دماغ کے بارے میں گولی لگنے کی بریکنگ نیوز دی ہے ،کل میڈیا کے دماغ کے خراب ہونے سے متعلق بھی کوئی بے پر کی ہانک سکتا ہے۔ بات چھوٹے بڑے کی بھی نہیں ہے، آج میڈیا اپنے باون گزے قد کے سامنے شاید اس موبائل میڈیا کو کچھ نہ سمجھے لیکن ڈینگی مچھر بھی تو بہت چھوٹا ہے بلکہ بقول نانا پاٹیکر عام مچھر بھی آدمی کو تالیاں بجا بجا کر... بنانے پر مجبور کر دیتا ہے۔

ہمارے خیال میں یہ اس ''چھوٹے دشمن'' کا پہلا سب سے بڑا حملہ ہے، اس سے پہلے چھیڑ چھاڑ تو عرصے سے جاری تھی اور کبھی کبھی میڈیا پر کوئی پھبتی کس دی جاتی جس سے ہم چھیڑ خوباں سے چلی جائے... کے کھاتے میں ڈالتے رہے لیکن یہ جملہ تو براہ راست میڈیا کے دماغ پر ہوا جس سے اس موبائل میڈیا کے عزائم کا پتہ بھی چلتا ہے اور آیندہ کے لیے اس کی نیت کا بھی اندازہ ہوتا ہے، ذرا سوچئے اگر اس نے کہیں میڈیا کی اس اصل کمزور رگ پر حملہ کر دیا جو ٹی وی اینکروں کی شکل میں آج کل بہت زیادہ پھڑک رہی ہے تو پھر تو نہ جانے کن کن پردہ نشینوں کے پردے فاش ہو جائیں لہٰذا ہمارا تو اپنے میڈیا کو یہ مشورہ ہے کہ اس خطرے کو چھوٹا نہ جانو اگرچہ ٹی وی اسکرینوں اور بڑے بڑے اخباروں کے مقابلے میں موبائل ایک چھوٹی سی ڈبیہ ہے لیکن

گرچہ چھوٹی ہے ذات بکری کی
دل کو لگتی ہے بات بکری کی

اور پھر اس کا واسطہ نوجوانوں سے ہے جو موبائل کو ہروقت حرز جان بنائے رکھتے ہیں اور ہمہ وقت اس کے ساتھ ہی سرگوشیاں کرتے رہتے ہیں، ایسا نہ ہو کہ یہ جو چیونٹی نظر آتی ہے اور باون باون گزے اینکروں اور ستر ستر گزے کالم نویسوں اور سو سو گز کے تجزیہ نگاروں کے مقابلے میں بڑی معمولی اور بے ضرر لگتی ہے، لیکن یہ کبھی نہیں بھولنا چاہیے کہ ہاتھی کی ایک سونڈ بھی ہوتی ہے اور وہ سونڈ اندر سے بڑی نازک ہوتی ہے اور چیونٹیوں کو سونڈوں میں گھسنے اور عین نازک جگہ پر کاٹنے کی پرانی عادت ہوتی ہے، اس لیے ابھی سے ساؤدھان ہو کر اپنی سونڈ کی فکر کریں تو اچھا ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں