یہ ہماری پولیس

شہریوں کاکہنا ہے کہ کراچی تو پولیس کے لیے دبئی ہے

روزنامہ ایکسپریس کی ایک خبرکے مطابق کراچی کی پریڈی پولیس نے مبینہ مقابلے میں اپنے ہی پیٹی بند بھائی کو ہلاک کر ڈالا،متوفی نوجوان سپاہی رزاق آباد ٹریننگ سینٹر میں زیر تربیت تھا جس کو انتہائی قریب سے 6 گولیاں لگی تھیں۔مقتول پولیس اہلکارکی ایک ماہ بعد شادی تھی اوروہ اپنے کپڑے سلوانے درزی کے پاس گیا تھا اور واپسی میں صدر پاسپورٹ آفس کے قریب پولیس نے اسے ہلاک کردیا۔پولیس نے مقتول سپاہی کی تلاشی پر ساڑھے 5 لاکھ روپے مالیت کی گھڑی ودیگر قیمتی سامان کی برآمدگی کا دعویٰ کیا ہے اور کہا ہے کہ مقتول سپاہی ڈکیتی کے 8 مقدمات میں ملوث تھا اور اس کے خلاف مقدمات درج تھے جب کہ مقتول کے ساتھی کے فرار کا بھی دعویٰ کیا گیا ہے۔مقتول کے بھائی کے بیان اورپولیس موقف میں کیا درست ہے کیا غلط یہ تو منصفانہ تفتیش سے ہی پتہ چلے گا۔

شہریوں کاکہنا ہے کہ کراچی تو پولیس کے لیے دبئی ہے مگر سندھ اور پنجاب پولیس کی زیادتیوں، جعلی مقابلوں، رشوت وصولی، لوگوں کو جھوٹے مقدمات میں پھانسنے، بے گناہوں پر ظلم اور بااثر افراد کی خوشنودی کے لیے غیر قانونی کاموں کے لیے آخری حد تک چلے جانے کی جتنی شکایات ہیں اتنی شکایات خیبر پختونخواہ کی اور بلوچستان پولیس کی نہیں ہیں۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ ہماری پولیس سو فیصد سیاست میں ملوث ہے اور ہمارے سیاستدانوں اور سیاسی پارٹیوں نے میرٹ کو نظرانداز کرکے پولیس میں اپنے لوگ بھرتی کرائے جن کا اولین مقصد اپنے بھرتی کرائے گئے لوگوں سے پارٹیوں سے وفاداری، ان کے مخالفوں کو تنگ کرنا اور رشوت کا حصول ہے۔ ان غیر قانونی بھرتیوں میں امیدواروں کا کردار دیکھا گیا نہ ان کا بیک گراؤنڈ۔ گزشتہ 25 برسوں میں جب 1985 سے ملک میں سیاسی حکومتیں اقتدار میں آئیں انھوں نے اپنے کارکنوں کو پولیس میں بھرتی کرایا۔ لسانی بنیادوں پر اپنے لوگ محکمہ پولیس میں بھر لیے گئے، اسی کا نتیجہ ہے کہ صرف کراچی نہیں بلکہ ملک بھر میں پولیس سیاست میں ملوث ہے۔ پولیس افسروں کے تقرر و تبادلے سیاسی بنیادوں پر ہوتے ہیں جس کے نتیجے میں پولیس سے متعلق شکایات دیگر محکموں سے زیادہ ہیں۔


یہ بھی درست ہے کہ رشوت میں بعض محکمے پولیس سے کہیں آگے ہیں کیونکہ ان کا عوام سے تعلق پولیس کے مقابلے میں کم ہے اس لیے ان کی کمائی پولیس سے زیادہ، مگر شکایتیں کم ہیں جب کہ پولیس کی شکایات سے نہ صرف اخبارات روز ہی بھرے ہوتے ہیں بلکہ ٹی وی چینلز بھی پولیس مظالم اجاگر کرنے میں پیش پیش ہیں۔ اب پولیس کی زیادتی پوشیدہ نہیں رہتی۔ عوام پولیس مظالم کے خلاف سڑکوں پر آکر احتجاج کرتے ہیں، پولیس کے اعلیٰ حکام تک شکایات پہنچ جاتی ہیں مگر کارروائی نہیں ہوتی کیونکہ کارروائی کرنے والوں کی اکثریت اور جن کے خلاف شکایات ہوں وہ سب سیاسی اثر ورسوخ کے حامل ہوتے ہیں جس کی وجہ سے شکایات پر کارروائی نہیں ہوتی۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ محکمہ پولیس میں مجرمانہ ذہنیت رکھنے والے بھی شامل ہیں۔ پولیس میں بھرتی ہونے والے ڈکیتیوں اور قتل جیسے جرائم میں ملوث ہوتے ہیں مگر بھرتی کے وقت رشوت اور سیاست کے باعث ان کا ریکارڈ صحیح طرح چیک نہیں ہوتا اور بھرتی و تربیت کے دوران وہ اپنے خلاف عدالتوں میں چلنے والے مقدمات میں پیش ہونے کے لیے پولیس حکام سے چھٹیاں لیتے رہتے ہیں۔اخباری اطلاعات کے مطابق پولیس میں ایس ایس پی سطح تک کے بعض افسران قتل جیسی سنگین وارداتوں میں ملوث ہیں۔

وہ معطل بھی ہوئے مگر سیاسی اثر سے نہ صرف بحال ہوگئے بلکہ اہم عہدوں پر تعینات ہوکر تحفظ حاصل کیے بیٹھے ہیں اور اپنے خلاف مقدمات کرنے والوں کو سرکاری عہدے کے باعث ہراساں کرکے مقدمات ختم کروادیتے ہیں یا شہادتوں پر اثر انداز ہوکر عدالتی سزا سے بچ جاتے ہیں، سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ میں غیر قانونی کاموں میں ملوث افسران کے خلاف آئے دن سخت ریمارکس دیے جاتے ہیں۔ چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کے دلیرانہ فیصلوں سے اکثر پولیس افسران خوف زدہ ہیں کیونکہ وہ سپریم کورٹ میں طلبی پر پریشان ہو جاتے ہیں۔ انھیں حکومت اور اپنے محکمے سے تو کوئی خوف نہیں مگر عدلیہ کا خوف وہ ضرور محسوس کرتے ہیں اور پولیس صرف عدالتوں اور میڈیا ہی کا کچھ خوف کرتی ہے مگر باز پھر بھی نہیں آتی۔
چند روز قبل حیدرآباد پریس کلب پر مورو کے رہائشی خاندان نے احتجاج کرتے ہوئے ایک ایس پی پر الزام لگایا کہ اس نے زمین کی خریداری کے سلسلے میں ایک شخص سے 18 لاکھ روپے لیے تھے جنھیں واپس کرنے کے بجائے اس کو پولیس نے تشدد کرکے ہلاک کردیا جس کے واضح ثبوت بھی صحافیوں کو دکھائے گئے مگر اس ایس پی کے خلاف کوئی کارروائی ہوئی نہ تحقیقات۔

پریڈی پولیس پر جس سپاہی کو ہلاک کرنے کا الزام ہے وہ ساڑھے پانچ لاکھ روپے کی گھڑی پہنے ہوئے اور ابھی زیر تربیت تھا تو جب ابھی اس کی امارت کا یہ حال تھا اگر وہ کسی اچھی جگہ تعیناتی حاصل کرلیتا تو نہ صرف کروڑ پتی ہوجاتا بلکہ پولیس وردی کی طاقت سے اپنے خلاف درج 8 مقدمات بھی ختم کروالیتا۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جس کے خلاف 8 مقدمات درج تھے وہ پولیس میں بھرتی کیسے ہوگیا؟ اور اگر وہ جدی پشتی امیر تھا تو اسے پولیس میں بھرتی ہونے کی کیا ضرورت تھی؟ پولیس میں بھرتی کا مقصد صرف کمائی تو نہیں ہونا چاہیے ۔ اب تو جرائم کی سرپرستی اور سرکاری عہدے کا غیر قانونی استعمال رہ گیا ہے۔ عوام کی خدمت، جرائم کا سدباب، مجرموں کی گرفت اب اکثر پولیس افسروں اور اہلکاروں کا فرض نہیں رہا، اسی لیے بدامنی اور جرائم مسلسل بڑھ رہے ہیں۔ اگر فرض شناس اعلیٰ افسران پولیس کی رہی سہی عزت بچانا اور شہریوں کے دلوں میں احترام پیدا کرنا چاہتے ہیں تو انھیں خود کچھ کرکے دکھانا ہوگا۔ آج بھی پولیس میں اچھے اور مثالی افسران موجود ہیں جن کی تقلید کی جانی چاہیے۔عوام کو ایک عوام دوست پولیس فورس چاہیے۔وہ دستیاب ہوجائے تو بدامنی کا خاتمہ نا ممکن نہیں ہوگا۔
Load Next Story