جمہوریت مہیب گھٹائوں کی زد میں

سرکاری اعدادوشمار کے مطابق 58 فیصد پاکستانی خوراک کے حوالے سے عدم تحفظ کے شکار ہیں

جوں جوں انتخابات کا وقت قریب آرہا ہے ویسے ہی خدشات بڑھ رہے ہیں،ملک کی اجتماعی صورتحال پہلے سے مخدوش اورقابو سے باہر ہوتی جا رہی ہے اس لیے جمہوریت سے بیزار اور اپنے ذاتی مفادات کے اسیرکچھ عناصر ان حالات سے فائدہ اُٹھانے کے لیے فوج کو کھلم کھلا دعوت دے رہے ہیں تو کچھ نگران حکومت کے دورانیے کو قانونی کور چڑھا کر حالات سدھارنے کے بہانے تین سال کرنے کی کوششیں کررہے ہیں تاکہ آنے والے سیٹ اپ میں اپنے آپ کو ایڈجسٹ کرسکیں ۔ یہ بات اپنی جگہ سو فیصد درست ہے کہ جمہوری حکومتوں (جن میں صوبائی حکومتیں بھی شامل ہیں) نے کچھ بھی ڈلیور نہیں کیا ہے ان میں ان کی نا اہلی اور جمہوریت دشمن قوتوں دونوں کا ہاتھ شامل ہیں اگر ملکی صورتحال کا سرسری جائزہ لیا جائے تو ہمیں ہر طرف لوٹ مار نظر آتی ہے ۔ امن وامان کی صورتحال انتہائی خراب ہے روزگار کے مواقعے سکڑتے جا رہے ہیں ۔

سرکاری اعدادوشمار کے مطابق 58 فیصد پاکستانی خوراک کے حوالے سے عدم تحفظ کے شکار ہیں غربت کے منحوس سائے ہرطرف پھیلتے جارہے ہیں مڈل کلاس جو کسی بھی جمہوری نظام میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے۔ سکڑنے کی جگہ معدوم ہورہی ہے۔ پشتونخوا اور فاٹا میں خانہ جنگی کی کیفیت ہے بلوچستان میں علیحدگی کی تحریک چل رہی ہے۔کراچی کی صورتحال سب کے سامنے ہے یہی حالت اندرون سندھ کی ہے،اقتصادی صورتحال دھماکا خیز اور مالیاتی ادارے بدترین زوال کا شکار ہے، قومی خزانہ خالی ہوچکا ہے فارن ریزرو صرف ایک مہینے کی درآمدات کے رہ گئے ہیں،آنے والے مہینوں میں آئی ایم ایف کے مزید دو اقساط دینی ہیں، روپے کی قدر انتہائی کم ہو چکی ہے۔اداروں کے درمیان تصادم اور انٹیلیکچول کرپشن عروج پر ہے ۔ اسی طرزکی مشکلات بیرونی ممالک کے ساتھ تعلقات میں موجود ہیں خصوصاً افغان صورتحال کے تناظر میں۔ لیکن ان سب کو ماننے اوراس کا باربار ذکر کرتے ہوئے کچھ بنیادی باتیں قصداً نظرانداز کی جاتی ہیں پہلی بات یہ کہ بنیادی طور پر یہ بورژوا ڈیموکریسی ہے اگر یہ اپنے معراج پر بھی پہنچے تو اس میں کسی نہ کسی شکل میں غربت کے ساتھ کرپشن موجود رہتی ہے، مغربی ممالک کی مثال اس حوالے سے دی جاسکتی ہے۔

انسانی فطرت بھی شاید اسی طرز کی ہے علائوالدین خلجی نے اپنے دور حکومت میں کم تولنے والوں کے جسم سے اسی مقدار میں گوشت کاٹنے کا قانون بنا رکھا تھا لیکن باوجود اس کے کم تولنے کو ختم نہ کرسکا۔آج بھی چین میں کرپشن پر سزائے موت دی جاتی ہے لیکن پھر بھی کرپشن ہو رہی ہے دوسری بات یہ کہ انسان نے معلوم تاریخ سے اب تک جتنے بھی مختلف قسم کے سیاسی نظام اپنائے ہیں ان میں سب سے بہتر یا کم تر برائیوں والا نظام جمہوریت ہی ہے اور اس کا حل مزید جمہوریت ہے نہ کہ آمریت یا غیر منتخب نظام جو کسی بھی شکل میں ہو، ایک بات جو بطورِ خاص نوٹ کرنے کی ہے وہ یہ کہ یہ لوٹ مار، کرپشن اور اداروں کی تباہی کی شروعات پاکستان بننے سے ہی ہوگئی تھیں یہ سلسلہ بیوروکریسی میں نااہل لوگوں کی اکثریت کا انگریز کے جانے سے خلاء پر کرنے کی صورت میں اوپر آنا، متروکہ املاک میں لوٹ مار اور حقیقی سیاسی وجمہوری قوتوں کو دبانے ، جیلوں میں ڈالنے اور بعد میںایبڈو جیسے قوانین کا سہارا لے کر ان کو سیاست سے باہر کرنا اورگملوں میں پالے ہوئے بونے سیاستدانوں کا اوپر آناہے یہ الگ بات ہے کہ زوال کا یہ دور اب اپنے انتہائی حدوں کو چھونے لگا ہے۔ یہ جو غیر جمہوری طرز حکومت کی بات کی جا رہی ہے ملک کو ان حالات تک پہنچانے میں انھی غیر جمہوری قوتوں کا ہاتھ سب سے زیادہ ہے ۔


اب یہ لوگ ٹاک شوز میں آکر بڑے بڑے بھاشن دیتے ہیں کہ یہ ہونا چاہیے یہ نہیں ۔ اب کوئی دبئی میں بیٹھ کر وہی سے ہدایات کی صورت میں مشورے دے رہا ہے کہ موجودہ حکمرانوں کے ناموں کی فہرستیں تیار کی جائے تاکہ یہ ملک نہ چھوڑ سکیں کوئی واشنگٹن میں بیٹھ کر اداروں کو لڑانے اور حکومت پر قبضہ کرنے کی ترغیب دے کر اپنی حب الوطنی کا ثبوت دے رہا ہے۔ کچھ کو یہ گلہ ہے کہ ان کی صلاحیتوں سے موجودہ حکومت نے کوئی فائدہ نہیں لیا جب کہ کچھ سیاسی قوتیں جن کا جمہوری طریقے سے اقتدار میں آنا ممکن نہیں وہ بھی ایسی صورتحال کو خوش آمدید کہنے کو تیار ہیں۔ پاکستان عوامی تحریک کے سربراہ بھی (سیاست نہیں ریاست کو بچائو) کا نعرہِ مستانہ لگا کر پھر سے 23 دسمبر کو لاہور میں باقاعدہ جلسہ کرکے میدان میں اتر رہے ہیں۔ تازہ دھماکا نیب کے چیئرمین نے یہ کہہ کر کردیا ہے کہ ملک میں روز سات ارب کی کرپشن ہو رہی ہے بعدمیں ساڑھے تیرہ ارب روپے بنیں۔ اگر ایک عام آدمی یہ انکشاف کرتا تو اور بات ہوتی لیکن یہ بات اس ادارے کا بااختیار چیئرمین کر رہا ہے جس کا کام ہی کرپشن کو روکنا ہے جس سے مزیدسازشی نظریات جنم لیتے ہیں ۔

مشرف دور کے کچھ نام نہاد ماہرین آئے روز اخبارات میں مشرف اور آج کے دور کا موازنہ کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ اقتصادی لحاظ سے مشرف کا دور بہتر تھا ہم بھی یہی کہتے ہیں لیکن ان حالات کو بھی مدنظر رکھنا چاہیے کہ امریکا، مغربی ممالک اور ان کے اتحادیوں نے (وار آن ٹیرر کی وجہ سے)کچھ قرضے معاف، کچھ ری شیڈول کرنے کے ساتھ دسیوں ارب ڈالر کی امداد اور قرضے دیے تھے۔لگتا ہے کہ یہ سب کچھ ایک مضبوط چارج شیٹ موجودہ حکومت کے خلاف بنا رہے ہیں تاکہ بعد میں اس سے کام لیا جا سکے۔لیکن عرض یہ ہے کہ شاید اوپر والے نے ہمارے مقدر میں اوسط درجے سے بھی کم کے لیڈر لکھے ہیں اور ہمیں انھی پر گذارہ کرنا ہوگا ۔ اصلاح احوال کے لیے واحد راستہ اور حل جمہوریت اور وقت پر انتخابات کا ہونا ہے انھی پر اصرار کرنا ہوگا ۔

امید کی کچھ کرنیں مایوسیوں کے ان گھٹا ٹوپ اندھیروں میں نظر آرہی ہیں جیسا کہ پارلیمنٹ کے پبلک اکاونٹس کمیٹی کا مختلف اداروں کا احتساب کے لیے اقدامات اٹھانا جو پارلیمنٹ کی مضبوطی پر منتج ہوگی، عدلیہ کا اپنے آپ کو منوانا اور آزاد حیثیت سے ابھرنا، آزاد میڈیا اور سب سے بڑھ کر لوگوں کے شعور کی سطح کا بلند ہونا (کرپشن پر باتیں اور سیاسی پارٹیوں پر عام آدمی کی طرف سے تنقید اس بات کی نشاندہی کرتا ہے) یہی اس سسٹم اور اس ملک کی بقاء کی ضمانت ہے غیرجمہوری حل کسی بھی شکل میں ہو جس میں بنگلہ دیش ماڈل ،نگران حکومت کو تین سال تک طول دینا، ٹیکنوکریٹس کی حکومت (یہ تینوں تقریباً ایک ہی سسٹم ہے) یا ڈائریکٹ فوجی حکومت یہ سب راستے مزید خرابیوں اور تباہی کی طرف جاتے ہیں ۔جن سے ہر صورت میں بچنا ہوگا اور جمہوری قوتوں کو مل کر اس کی مزاحمت کرنی ہوگی اور عملاً اداروں کے تصادم کو روکنا ،آپس میں برداشت اور سیاسی مفاہمت کا مظاہرہ کرنا ہوگا بہ صورت دیگر یہی سیاسی قوتیں حالات کی خود ہی ذمے دار ہوگی کیونکہ اب تک جتنی بھی غیر جمہوری تبدیلیاں اس ملک میں آئی ہیں وہ اتنی واضح اور نوشتہ دیوار کی حیثیت نہیں رکھتی تھی جتنی کہ اب ہیں۔

Recommended Stories

Load Next Story