قائداعظم ایک عہدساز شخصیت

نعرے تو آج بھی لگتے ہیں، بلکہ دن رات لگتے ہیں، قلب پر وہ کیفیت طاری کیوں نہیں ہوتی؟

قائد اعظمؒ نے جب برصغیر کے کروڑوں مسلمانوں کے منتشر،غریب، ناخواندہ، بے بس اور بے نظم غول کو ایک قوم بنانے، منوانے اور سرفراز و سربفلک کرنے کے لیے آل انڈیا مسلم لیگ کی تنظیم نو کی، تو پھر حالات نے خواہ کتنی ہی ناموافق صورت کیوں نہ اختیار کرلی، قائد کسی مرحلے پر حوصلہ نہ ہارے اور کبھی صبرو برداشت کا دامن نہیں چھوڑا، قائد اعظمؒ کا بچپن ہی آپ کی سیاسی پختہ کاری کا داعی ہے۔ آپ اوائل عمر ہی سے اپنے گردوپیش کے حالات میں دلچسپی لینے لگے تھے۔ پندرہ سال کی عمر میں جب کہ عقل غیر پختہ اور ذخیرہ معلومات محدود ہوتا ہے، آپ نے کراچی کے ایک عظیم الشان اجتماع میں مقامی حالات پر روشنی ڈالی۔ جس سے حاضرین کافی زیادہ متاثر ہوئے۔

آپ نے کتابوں سے زیادہ عوام کی زندگی کا مطالعہ کیا۔ ہندوستان کے ماحول کو سمجھنے کی کوشش کی۔ آپ نے دنیا کے ان انسانوں کو پڑھا، جن کے دامن سے انقلاب لپٹے نظر آتے تھے جو انقلابات کو اپنی رو میں بہانے کے لیے پیدا ہوئے تھے۔ ان میں سرفہرست حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات مبارکہ تھی۔ قائد اعظمؒ نے بھی اپنی زندگی کا نصب العین اس تخیل کو بنایا اورچہ جائیکہ آپ انقلابات کی رو میں بہہ جاتے، آپ نے انقلابات کو اپنی رو میں بہایا۔ آپ نے اسلامیان ہند کے تخیل میں وہ انقلاب عظیم پیدا کیا جو 1857 کے بعد تاریخ کا سب سے زیادہ سنہری کارنامہ ہے۔

قائد اعظمؒ انقلابی رہنماؤں کی صف میں شامل نہیں کیے جاتے لیکن درحقیقت وہ اپنے اسلوب سیاست کے اعتبار سے اور ایک بڑے ملک کے بانی کی حیثیت سے انقلابی رہنما ہیں۔ انھوں نے برصغیر کا نقشہ ہی نہیں بدلا، نوآبادیاتی دور سے پورے عالم اسلام کی نجات کا راستہ ہموارکیا اور مسلم قومیت کی بنیاد پر ایک اسلامی ریاست قائم کرکے ایک نیا نظریاتی محاذ کھولا۔ جس نے سرمایہ داری اور اشتراکیت کے شکنجے میں جکڑی ہوئی دنیا کو تیسرا متبادل نظام دیا۔ یہ سارا کام انقلابی نوعیت کا ہے۔ انقلاب حاضر و موجود سے سمجھوتہ نہیں کرتا اسے مٹاتا اور اپنا راستہ بناتا ہے۔ اور قائد اعظمؒ نے یہی کیا۔

ایک وقت تھا کہ قائد اعظمؒ کو اپنے ہندوستانی ہونے پر ناز تھا۔ انھوں نے ہندو مسلم اتحاد کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگادیا۔ قائد اعظم نے ہندو مسلم اتحاد کی داغ بیل کی آبیاری اس وقت سے کی، جب آپ کانگریس کے ممبر اور مسلم لیگ کے صدر تھے۔آپ نے ہندو مسلم اتحاد کے لیے ہر ممکن کوشش فرمائی۔ یہاں تک کہ انھیں ''ہندو مسلم اتحاد کا سفیر'' کے لقب سے یاد کیا جانے لگا۔ ایسے حالات اور واقعات رونما ہوئے کہ ہندو مسلم اتحاد کا سفیر مسلمانوں کے لیے ایک الگ وطن بنانے پر اٹل ہوگیا اور انھیں یہ موقف اختیار کرنا پڑا ''اگر مسلمانوں کے مفاد کے خلاف کوئی حل یا تجویز زبردستی عائد کی گئی تو ہم اس کی مزاحمت کریں گے اور اس کے جو بھی نتائج ہوں گے ان کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار ہیں۔اگر ہندو یا برطانوی قیادت الگ الگ یا مل کر فریب کاریوں اور سازشوں پر اتر آئے تو ہم اس کی مدافعت کریں گے تاکہ سب کے سب مرجائیں۔''

قائد اعظمؒ کے خیالات اور رویے میں یہ تبدیلی کانگریس کے منافقانہ اور خودغرضانہ کردار کو دیکھ اور سمجھ کر آئی تھی۔ انھوں نے بہت پہلے ہی یہ بھانپ لیا تھا کہ کانگریس ہندوستان میں برطانوی راج کے زیر سایہ صرف اپنے اقتدار کا راستہ ہموار کر رہی ہے اور مسلمانوں کو صرف ایک مفاد کے لیے استعمال کر رہی ہے۔ آپ میدان سیاست میں اترے اور اس دعوے کے ساتھ کہ مسلمان ہندوستان میں ایک مستقل قوم کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اس لیے نہ صرف ان کی حیثیت کو مانا جائے بلکہ انھیں ایک ایسے خطہ زمین کی ضرورت ہے جہاں وہ بلا شرکت غیرے اپنے ثقافت و تمدن اور تہذیب و معاشرت کی حفاظت کرسکیں۔

قائد اعظمؒ کے اس دعوے سے برطانوی اور کانگریسی کیمپ میں کھلبلی مچ گئی۔ ہندوستان کی نمایندگی کی تنہا دعویدار کانگریس سہمی، لرزی اور اس کے نیتا بوکھلا گئے، سیاسی خریدو فروخت شروع ہوگئی، ابن الوقت اور ذاتی مفاد کے دیوانے مسلمانوں کو خریدنے کی کوششیں جاری ہوئیں، مگر یہ ثانی اتا ترک اور آہنی عزم کا پتلا اپنی بات پر اڑگیا۔ قائد اعظمؒ کے اس عزم آہنی کی وجہ سے برطانوی اور کانگریسی صفوں میں ماتم بپا ہوگیا۔ ہندو انھیں رجعت پسند، ٹوڈی اور حکومت کا غلام کہنے لگے اور انگریزوں نے سمجھا کہ دوسرا ''سلطان ٹیپو شہید'' پیدا ہوگیا۔


قائد اعظمؒ اس تمام شور و غوغا سے بے نیاز بڑھتے گئے۔ یہاں تک کہ پاکستان کا سنگ بنیاد رکھ دیا گیا۔ بس پھر کیا تھا ایک نہ تھمنے والا کہرام تھا جو ایوان کانگریس میں پید اہوگیا۔ مونجے، مالوی، ساورکر، گاندھی، نہرو، پٹیل سبھی چیخ اٹھے۔ مگر اس چیخ و پکار کا اثر یہ ہوا کہ قائد اعظم معہ اپنے قافلے کے پاکستان کی طرف بڑھتے ہی چلے گئے۔ قائد اعظمؒ کی راہ میں روڑے اٹکانے والے صرف برطانوی اور ہندو ہی نہ تھے بلکہ چند میر جعفر وصادق بھی تھے۔جنہوں نے ذاتی مفاد اور خود غرضیوں کی وجہ سے فرزندان اسلام کو ایک بار پھر ناکامیوں سے دوچار کرانے کی کوششیں کیں اور اپنی ان خدمات کے صلے میں ان غدارانِ قوم نے بڑی بڑی جاگیریں اور خطاب پائے۔ مگر قائد اعظمؒ نے ان ملت فروشوں کی ایک بھی نہ چلنے دی۔ ان سب ملت فروش غداروں کی پشت پر اکثریت کی طاقت اور دولت تھی مگر اس طرف صرف اور صرف اللہ کا نام اور قائد اعظمؒ کا عزم راسخ تھا۔

قائد اعظمؒ کا اخلاقی اور سیاسی کردار ہی ان کی کامیابی کی بین دلیل ہے۔ ان کا اعلیٰ کردار ہی انھیں اقوام عالم کے تمام مشاہیر میں نمایاں مقام دیتا ہے۔ قائد اعظمؒ کے کٹر دشمن بھی ان کی دیانت، صداقت، عزیمت اور کھرے پن کی گواہی دینے پر مجبور ہیں۔ ان کا سیاسی عمل مسلمانوں کی صفوں میں کامل اتحاد اور صرف استدلال کی قوت پر آگے بڑھا اور ان کی پختگی کردار نے اسے پاکستان کی منزل تک پہنچایا۔ اس عمل میں دھوکہ ہے نہ فریب، جھوٹ ہے نہ جعلسازی، دھونس ہے نہ دھاندلی اور سب سے بڑھ کر یہ کہ وہ سیاسی رہنماؤں کے درمیان اپنی واضح شناخت رکھتے ہیں۔ انھیں کبھی کسی بدکردار آدمی سے ملتے جلتے نہیں دیکھا گیا۔ حتیٰ کہ وہ اپنے سیاسی حریفوں سے بھی صرف میدان سیاست میں ہی ملتے ہیں۔ ان کے گھر آتے جاتے، ان کی شادی بیاہ کی دعوتوں میں شریک ہوتے، ان کے ساتھ مختلف تقریبات میں خوش گپیاں کرتے کبھی نظر نہیں آئے۔

جس سے سیاسی جنگ ہوتی تھی، اس سے سیاسی میدان جنگ میں ہی ملاقات کرتے اور اپنی قوت استدلال کے جوہر دکھاتے تھے۔ اس کے بعد کوئی معاشی رابطہ نہ رکھتے۔ قائد اعظمؒ صرف نہرو اور گاندھی ہی سے الگ تھلگ نہیں رہے ان کے بہت سے حامی علماء اور ان کے رفقاء کے ساتھ بھی ان کا طرز عمل یہی رہا۔ انقلابی رہنما ہمیشہ یہی طرز عمل اختیار کرتے ہیں اور اسی سے اخلاقی قوت حاصل کرتے اور اپنی جداگانہ شناخت قائم کرتے ہیں۔ یہی وہ منفرد اسلوب سیاست ہے جو قائد اعظمؒ کی جداگانہ شناخت قائم کرتا ہے اور انھیں مسلمانوں کی آنکھ کا تارا بناتا ہے۔ 3 جون 1947 کو قائد اعظمؒ نے آل انڈیا ریڈیو اسٹیشن سے ''پاکستان زندہ باد''کا نعرہ پہلی بار لگایا تھا۔ اس نعرے نے سامعین کے رگ و پے میں جو برقی رو دوڑا دی تھی، کیا وہ محض الفاظ کا کرشمہ تھا؟ نہیں، وہ اس آواز کے پیچھے بیٹھے عظیم انسان کے اعلیٰ اخلاقی کردار کا نتیجہ تھا۔

نعرے تو آج بھی لگتے ہیں، بلکہ دن رات لگتے ہیں، قلب پر وہ کیفیت طاری کیوں نہیں ہوتی؟ اس لیے کہ ہمارے نعرے کھوکھلے ہیں۔ محض الفاظ کا مجموعہ ہیں۔ ان کے اندر اخلاق کی قوت اور اخلاص کی خوشبو نہیں۔قائد اعظمؒ بھی انسان تھے، پیشے کے لحاظ سے وکیل تھے، سیاسی رہنما تھے، کیا اب یہ مخلوق ہمارے درمیان ناپید ہے؟ نہیں، بس اتنا فرق ہے کہ اب

کاغذی ہے پیرہن ہر پیکر تصویر کا

اے کاش! قادر مطلق قائد اعظمؒ کو کچھ اور مہلت زندگی عطا کردیتا کہ اس پاک وطن کی بنیادیں مضبوط ہوجاتیں اور سیاست میں شائستگی اور بلندی کردار کی بنیاد پڑتی۔ کاش! سیاست میں اخلاق کی اہمیت اور بدکرداروں کی سیاسی رفاقت کے اثرات و نتائج سے ہمارے سیاستدان آگاہ ہوسکیں۔
Load Next Story