درہم برہم کراچی
کراچی میں ہونے والی بدامنی اور کھلی قتل وغارت سے کراچی کے شہری بری طرح متاثر ہوتے ہیں
کراچی میں ہر دو چار مہینے کے بعد امن و امان کی جو دگرگوں صورتحال پیدا ہوجاتی ہے وہ اس امر کا تقاضا کرتی ہے کہ تمام سیاسی قوتیں مل بیٹھ کر اس سنگین مسئلے کو حل کرنے کی تدبیر کریں مگر بدقسمتی سے ہمارے ہاں محض وقتی طور پر صورتحال میں معمولی سی تبدیلی کو کامیابی قرار دے کر اس سنگین مسئلے سے فرار کی راہیں تلاش کرلی جاتی ہیں ۔ حکومت کو یہ بات ذہن میں رکھنی چاہیے کہ عدم توجہ کے باعث یہ مسئلہ دن بدن الجھتا جارہا ہے۔
شہر قائد میں روزانہ دس سے پندرہ افرادکا بے رحمانہ قتل، متعدد گاڑیوں کا نذر آتش کیا جانا، ضروریات زندگی کے حصول میں ناکامی، پٹرول پمپس اور سی این جی اسٹیشنز کی بندش جہاں معمولات زندگی کو بری طرح درہم برہم کرکے رکھ دیتی ہے وہیں لاکھوں افراد آمدورفت کی سہولت سے محروم بھی ہوجاتے ہیں۔ ملازمین کا اپنے دفاتر یا پھر واپس گھروں تک پہنچنا تقریباً ناممکن ہوجاتا ہے۔ ہر گزرتے دن کے ساتھ اس تاثر کو تقویت مل رہی ہے کہ دہشت گردی و شدت پسندی پھل پھول رہی ہے اور حکومت پسپا ہوتی جارہی ہے۔ کراچی میں جب بھی ایسی صورتحال پیدا ہوتی ہے حکومت سیاسی جماعتوں کو بٹھا کر ان کے درمیان صلح صفائی کرانے کے بعد مطمئن ہوجاتی ہے۔ حکومت کی اس روش سے عوامی حلقوں میں تاثر یہ پھیلتا ہے جیسے اس ساری صورتحال کی ذمے دار سیاسی جماعتیں ہیں جب کہ درحقیقت حکومت اس ساری صورتحال کی ذمے دار ملک دشمن کسی تیسری خفیہ قوت کو بے نقاب کرنے سے چشم پوشی برتتی آرہی ہے۔
کراچی میں ہونے والی بدامنی اور کھلی قتل وغارت سے کراچی کے شہری بری طرح متاثر ہوتے ہیں اور کاروبار زندگی مکمل طور پر بند ہو کر رہ جاتا ہے جس سے سب سے زیادہ غریب اور محنت کش طبقہ متاثر ہوتا ہے۔ کاروباری اور صنعتی ادارے بند ہونے سے یومیہ اجرت پانے والے لاکھوں افراد کے لیے سبزی، گوشت، دودھ، دہی، گھی اور پھل وغیرہ خریدنا بھی ممکن نہیں رہتا۔ گویا پورے شہر کا گلا گھونٹ دیا جاتا ہے۔ ہزاروں گھروں کے چولہے بجھ جاتے ہیں۔ دکانیں، تجارتی و کاروباری مراکز، میڈیکل اسٹورز اور ٹرانسپورٹ بند ہونے سے مریضوں کے لیے ادویات خریدنا اور انھیں اسپتال تک پہنچانا بھی ممکن نہیں رہتا۔ کراچی کے حالات کو مستقل بنیادوں پر بہتربنانے کے لیے جس سنجیدگی اور دل سوزی کی ضرورت ہے بدقسمتی سے وہ کہیں نظر نہیں آتی۔ حالانکہ اس حقیقت سے کسی ذی ہوش کو انکار نہیں کہ اس ملک کی خوشحالی اور ترقی کا انحصار بڑی حد تک کراچی میں امن و امان پر ہے کیونکہ یہ شہر ملک کا اقتصادی اور تجارتی مرکز ہے۔
کراچی کا امن پوری قومی معیشت کی ترقی کے لیے ناگزیر ہے پھر بھی اس شہر میں پائیدار بنیادوں پر قیام امن کے لیے اقدامات کے نام پر محض وقت ضایع کیا جارہا ہے۔بھتہ مافیا، ٹارگٹ کلنگ اور اغوا برائے تاوان کی مسلسل وارداتوں نے ہر شخص کو خوف و ہراس میں جکڑ رکھا ہے۔ آج شہر قائد میں کسی کی جان و مال محفوظ نہیں، ملک کے سب سے بڑے صنعتی و تجارتی مرکز اور ڈیڑھ کروڑ کے لگ بھگ آبادی والے شہر میں پرتشدد واقعات، ٹارگٹ کلنگ، بھتہ خوری اور گاڑیاں نذر آتش کرنا معمول بن چکا ہے۔ اس بدامنی کی بڑی وجہ پاکستانی سیاست بھی ہے کیونکہ پاکستانی سیاست کو نہ قرار ہے نہ قیام ہے۔ ایک بے چینی ہے کہ جو اہل سیاست کو ٹکنے نہیں دیتی۔ ایک بے قراری ہے کہ جو رگ وپے میں سمائی ہوئی ہے۔ نہ اہل اقتدار دیوار کی طرف دیکھ پاتے ہیں، نہ اہل اختلاف کو دیوار کا لکھا نظر آتا ہے۔ اہل اختلاف جب تک اقتدار حاصل کر نہیں پاتے، اس وقت تک ان کے معاملات اور ہوتے ہیں۔
اہل اقتدار، اقتدار کی چکا چوند میں مست ہوتے ہیں تو ان کودنیا اور نظر آتی ہے۔ وہ آنکھیں کھولنے اور موجودہ حقائق کو بھی دیکھنے پر آمادہ نہیں ہوتے۔ انتخابات ہار جانے والے اگلے انتخابات کا انتظار نہیں کرپاتے، اور جیت جانے والے اپنی مدت کو اطمینان کے حوالے نہیں کرپاتے۔ اقتدار حاصل کرنے والے کچھ سمجھنے پر تیار نہیں ہوتے اور اقتدار نہ حاصل کرسکنے والے کچھ سننے پر تیار نہیں ہو پاتے۔ برسوں سے پاکستانی سیاست میں دھماچوکڑی مچی ہوئی ہے۔ لوٹ مار کا بازار گرم ہے۔ تعلیم گاہوں میں تعلیم نہیں رہی، انصاف کے ایوانوں میں انصاف نہیں رہا، اسپتالوں میں علاج نہیں ہورہا، تھانوں میں قانون نہیں رہا۔ دفتروں میں نظم و ضبط کو داخل ہونے کی اجازت ہے نہ دیانت کو۔ کارخانوں اور دکانوں میں نفع خور پل رہے ہیں یا ٹیکس چور، ملاوٹ کرنے والے یا کم تولنے والے۔ ایک افراتفری ہے اور ایک بدنظمی ہے کہ ہرطرف دیکھنے کو مل رہی ہے۔ کسی با اختیار کو اس طرف دیکھنے کی فرصت نہیں ہے اور اسے اس کی ضرورت بھی نہیں ہے۔
جس کے ہاتھ کرسی تک پہنچ گئے، اسے اب جیب کی فکر ہے، اور جس کے ہاتھ نہیں پہنچے، اسے وہاں تک پہنچنے کی فکر ہے۔ یہ سب کیا ہورہا ہے؟ اور کب تک ہوتا رہے گا؟ یہ ایک سوال ہے، جس کا جواب دینے پر کوئی تیار نہیں ہے۔ اداس آنکھیں اور خشک ہونٹ جواب مانگ رہے ہیں، لیکن جواب نہیں مل پارہا ہے۔ کراچی میں ہونے والی تخریبی کارروائیوں نے شدت اختیار کرلی ہے اور نوبت اب یہاں تک آن پہنچی ہے کہ پولیو کے قطرے گھر گھر جا کر پلانے والی خواتین پر حملے ہورہے ہیں۔ پولیو مہم کی اراکین خواتین کو بیدردی سے گولیوں کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔ کچھ عناصر ہیں جو نہیں چاہتے کہ اس قوم کے نونہال اپنے پیروں پر کھڑے ہوسکیں۔ پولیومہم کو ناکام بنانے کا مشن لے کر اٹھنے والے ملک دشمن عناصر بہرحال پولیو مہم ملتوی کرانے میں جزوی طور پر کامیاب ہوچکے ہیں۔ حکومتی رٹ کہیں نظر نہیں آرہی۔ قوم کے ساتھ ساتھ عالمی ادارے بھی جواب مانگ رہے ہیں مگرجواب شاید کسی کے پاس نہیں ہے۔ ہر سوال بالآخر اپنا جواب تلاش کرلیتا ہے، تاریخ اس کی شاہد ہے۔