طلاق خلع اور اثرات حصہ اول

چند دن قبل سپریم کورٹ کے حوالے سے ایک خبر نے میری توجہ اپنی جانب مبذول کروائی


Raees Fatima December 18, 2016
[email protected]

چند دن قبل سپریم کورٹ کے حوالے سے ایک خبر نے میری توجہ اپنی جانب مبذول کروائی۔ سپریم کورٹ میں میاں بیوی نے طلاق کے لیے درخواست دی جس میں شوہر نے بیوی کو دو طلاقیں دے دی تھیں، بیوی نے بچوں کی حوالگی سے کیس دائر کیا ہوا تھا۔ چیف جسٹس نے بتایا کہ دو طلاقیں دینے سے طلاق واقع نہیں ہوتی، اگر دوطلاقوں کے بعد بھی بیوی اور شوہرصلح کر لیں اور باہمی رضامندی سے بس جائیں تو دوطلاقیں ختم ہوجاتی ہیں۔

اس خبر نے اپنی طرف اس لیے متوجہ کیا کہ کورٹ نے فوری فیصلہ نہیں دیا بلکہ فریقین کو سوچنے کی مہلت دی کیونکہ علیحدگی صرف میاں بیوی کے درمیان نہیں ہوتی بلکہ بچے رُل جاتے ہیں۔ میاں بیوی میں اکثر بچوں کی تقسیم پر جھگڑا ہوتا ہے جو ماں کے پاس ہوتے ہیں وہ باپ کو ترستے ہیں اور جو باپ کے پاس رہ جائیں وہ ماں کی ممتا سے محروم ہو جاتے ہیں۔ یہ ہر اس گھر کی کہانی ہے جہاں میکے والوں نے ذرا ذرا سی بات پر بیٹیوں کو گھر بٹھالیا یا دامادوں کو مسلسل دباؤ میں رکھا اور بات بات پر طلاق کا مطالبہ۔ جب لڑکی کے گھر والے ہروقت اس سے کہتے رہیں کہ ''کسی کے دباؤ میں مت آنا، ہم ہیں نا تمہارے پیچھے'' بعض اوقات لڑکی کے ماں باپ داماد کے والدین کو بھی برا بھلا کہنے اور ان کے خلاف منفی پروپیگنڈا کرتے رہتے ہیں۔

ہوتا یوں ہے کہ اکثر لڑکے کے والدین معاملات بھانپ کر اور اپنے بیٹے کی بے بسی دیکھ کر خاموشی اختیارکرکے گوشہ نشین ہوجاتے ہیں تاکہ بیٹے کا گھر آباد رہے۔ وہ ہر صورت میں اپنے بیٹے اور اس کے بچوں کی بھلائی چاہتے ہیں۔ ایسے میں لڑکی اور شیر ہوجاتی ہے اور شوہر پر طلاق کا بار بار مطالبہ کرکے اسے ذہنی دباؤکا شکار اس حد تک بنادیتی ہے کہ بعض اوقات نہایت خطرناک صورتحال پیدا ہوجاتی ہے۔ چند دن پہلے ہی کی خبر ایکسپریس ہی میں پڑھی تھی کہ ایک سرکاری ملازم نے روز روزکے جھگڑوں سے تنگ آکر پہلے اپنے پانچ بچوں کو گولی ماری اور پھر خود کو اسی پستول کی گولی سے ختم کرلیا۔ اب بیوی میکے میں ماں باپ کے سینے پہ مونگ دلنے کے لیے شوق سے رہے۔

لیکن ہمارا موضوع اس وقت وہ گھرانے ہیں جہاں عموماً بیوی اور اس کے میکے والوں کی طرف سے طلاق یا خلع کا مقدمہ کورٹ میں داخل کیا جاتا ہے۔ علیحدگی کے وقت میکے والوں کی محبت طلاق دلوانے میں بہت موثر ثابت ہوتی ہے۔ بچے یا تو کسی ایک فریق کے پاس رہ جاتے ہیں یا دونوں میں بٹ جاتے ہیں۔ عموماً ابتدا میں لڑکی کے والدین بالخصوص بھائی بہت آگے آتے ہیں، لیکن رفتہ رفتہ محبت کا عارضی جذبہ کم ہوتا جاتا ہے، بہن اور اس کے بچے بوجھ لگنے لگتے ہیں، تب لڑکی کی آنکھیں کھلتی ہیں اور پچھتاوؤں کا لامتناہی سلسلہ شروع ہوتا ہے۔ لڑکی اگر پڑھی لکھی ہے تو ملازمت ڈھونڈنے نکل پڑتی ہے، لیکن اس کے برعکس ہو تو اسے میکے میں ملازمہ بن کے رہنا پڑتا ہے۔ بچے الگ احساس کمتری کا شکار ہوجاتے ہیں۔

جب بھی طلاق اور خلع کے معاملات آتے ہیں ، فریقین کو خصوصاً بیوی کو یہ ضرور سوچنا چاہیے کہ بچوں کو ماں اور باپ دونوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ ماموں یا نانا باپ کا نعم البدل نہیں ہوسکتے، لیکن ہر معاملے میں نانا، نانی، ماموں، پھوپھیاں اور لڑکی کی خالائیں گھر بگاڑنے اور اپنی فتح کا جشن منانے کے لیے ہمہ وقت تیار رہتے ہیں۔ لڑکے والے اگر زبردست ہیں اور اینٹ کا جواب پتھر سے دینے کا گر جانتے ہیں تو گھر بسے رہتے ہیں، لیکن جہاں جہاں بھی لڑکی کے میکے والے حاوی ہوتے ہیں، وہاں معاملات لڑکے کے لیے بہت خراب ہوجاتے ہیں۔

ایک طرف بچوں کی خاطر اسے بدتمیز بیوی، ہلاکو خان جیسی ساس اور سسر سے واسطہ پڑتا ہے، وہیں وہ اوچھے ہتھکنڈوں کا شکار ہوکر والدین کو جیتے جی چھوڑنے پر اس حد تک مجبور ہوجاتا ہے کہ والدین کے فون نمبر پر بھی ریجیکٹ کال کا کوڈ لگا دیتا ہے، یا بیوی خود لگا دیتی ہے اور شوہرکو علم ہی نہیں ہوتا کہ اس کے ساتھ کیا ہو رہا ہے۔ وہ بیوی اور سسرالی عزیزوں کے پروپیگنڈے کا شکار ہوکر انھی کا ہم خیال بن جاتا ہے اور بدظن ہوکر یہ بات دل میں بٹھا لیتا ہے کہ ''اس کی ماں اس سے بالکل محبت نہیں کرتی، اسی لیے تو وہ فون نہیں کرتیں، نہ سالگرہ کی مبارکباد، نہ بچوں کی خیریت دریافت کرنا'' لیکن ایسا شریف پڑھے لکھے اور خاندانی مرد کے ساتھ ہوتا ہے کہ وہ اپنی ماں کی گود کی تربیت کا پروردہ ہے۔ شرافت کو کمزوری سمجھ لیا جاتا ہے۔ اس طرح گھر بچتے ہیں۔ بچے جب اس ماحول میں پلتے ہیں تو سب کچھ اپنی آنکھوں سے دیکھتے ہیں۔

سپریم کورٹ کے چیف جسٹس نے تو اپنا فرض بہت اچھی طرح نبھایا، مجھے امید ہے کہ تین بچے ماں باپ میں تقسیم ہونے سے بچ گئے ہوں گے، لیکن ساتھ ہی میری ان وکلا حضرات سے بھی اپیل ہے کہ طلاق کے کیس لیتے وقت محض اپنی وکالت چمکانے کے بجائے انسانی جذبوں اورانسانیت کو مدنظر رکھیں۔ طلاق اورخلع کے معاملات میں کوئی بھی وکیل کیس جیتنے اور فیس کھری کرنے کے بجائے فریقین میں صلح کرانے کی کوشش کرے اور بیوی کو تمام نشیب وفراز سمجھائے۔ کوئی مانے نہ مانے خصوصاً وہ NGO اور ادارے جو عورت کی آزادی کی آڑ میں ان کے گھر تباہ کررہی ہیں، میں یہی کہوں گی کہ گھر بنانے میں عورت کا حصہ 70 فیصد ہے۔

مرد کما کر لاتا ہے، سکون بھی چاہتا ہے۔ ایسے میں بیوی اگر جھوٹ موٹ ڈپریشن کا بہانہ کرکے شوہر سے طلاق کا مطالبہ کردے تو شریف شوہرکا کیا حال ہوگا۔ وہ بھی ایسا جس کے ماں باپ، بہن بھائی کوئی نہ ہو۔ میں یہ نہیں کہتی کہ زبردستی کسی کو باندھ کر رکھا جائے، لیکن عورتوں کو طلاق یا خلع کے مطالبے سے پہلے ان باتوں پہ ضرور سوچ لینا چاہیے جن کی طرف میں نے اشارہ کیا ہے اور چیف جسٹس نے جس کی ہدایت کی ہے۔

گھر بنانے کے لیے زیادہ قربانی عورت ہی کو دینی پڑتی ہے۔ عموماً دیکھا گیا ہے کہ زیادہ پرسکون ماحول اور سلیقہ مند گھر وہ ہوتے ہیں جہاں خاتون خانہ بھی کوئی ملازمت کررہی ہو۔ البتہ زیادہ تر گھرکی بربادی شوہر کو پریشان کرنے کے واقعات گھریلو خواتین کے خراب رویے سے جڑے ہوتے ہیں کیونکہ ان کے پاس وقت وافر ہوتا ہے۔ میاں گئے دفتر، بچے گئے اسکول، کام والی کام کرکے چلی گئی، اب کیا کریں؟ اٹھاؤ فون، اماں جان سے ملاؤ، سسرال کی غیبت کرو، شوہرکو الو بنانے اور اپنے قبضے میں لینے کے گر سیکھو۔ ویسے تو یہ کام ٹی وی ڈرامے بہت اچھی طرح کررہے ہیں، لیکن گھریلو خواتین میں ایسی بھی ہیں جو شوہرکی کم آمدنی اور بچوں کی خاطرگھر پہ سلائی کررہی ہیں، بچوں کو ٹیوشن پڑھا رہی ہیں اور نہ صرف اپنا گھر اچھی طرح چلا رہی ہیں بلکہ اپنا مقام بھی بنا رہی ہیں۔

بچوں کی اچھی تربیت بھی کررہی ہیں چونکہ یہ ملازمت پیشہ خواتین مصروف زیادہ رہتی ہیں، اس لیے ان کے پاس میکے اور سہیلیوں کو لمبے لمبے فون کرنے اور غیبت کرنے کا وقت ہی نہیں ہوتا۔ ان کی زندگی میں ایک ڈسپلن ہوتا ہے، جو خود بخود ان کے بچوں میں بھی منتقل ہوتا ہے۔ طلاقیں اور خلع جن عورتوں نے لی ہیں، ان کی زندگی میں بعد میں کیا ہوا۔ اور آج وہ کیوں اس دن کو کوس رہی ہیں، جب ماں اور بھائیوں کے دباؤ میں آ کر اپنا گھر چھوڑا تھا۔ اس کی چند مثالیں معہ ان کے پچھتاوؤں بھری زندگی کے اگلے کالم میں دوں گی۔

(جاری ہے)

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں