صوبوں کے فنانس کمیشن کہاں ہیں
پاکستان میں جوکثیر القومی ریاست ہے
ہمارے ملک میں، مرکز کے پاس محدود اختیارات کے حامیوں کو مضبوط بنانے اورقومی یگانگت پیدا کرنے کی ضرورت کے بارے میں حب الوطنی سے لبریزمباحثوں اورگفتگو کی کوئی کمی نہیں ہے، مگر اس بارے میں شاذونادر ہی کوئی بات کی جاتی ہے کہ مرکزکس طرح صوبوں کو محاصل سے محروم کرتا ہے اورصوبے کس طرح مقامی حکومتوں کو محاصل میں سے ان کا حصہ دینے سے گریز کرتے ہیں۔
پاکستان میں جوکثیر القومی ریاست ہے، حقیقی جمہوریت کی ترویج اورقومی یگانگت کی تعمیر کے لیے وفاقی اکائیوں کو نہ صرف زیادہ سے زیادہ قومی خود مختاری بلکہ ان کے قدرتی وسائل پر کنٹرول بھی دیا جانا چاہیے۔ناکافی ترقی کے لیے زیادہ تناسب اورقومی خزانے میں حصے کو بنیاد بناتے ہوئےNFC (نیشنل فنانس کمیشن)کا ازسرِنوجائزہ لیا جائے۔
پاکستان میں جمہوریت کی کمزوری کی ایک وجہ یہ ہے کہ مقامی حکومت کی بنیاد مستحکم نہ ہونے کے باعث یہ ہوا میں معلق ہے۔ حکمران سیاسی جماعتوں نے نہ صرف بلدیاتی انتخابات سے جان چھڑانے کی کوشش کی بلکہ اگرسپریم کورٹ کے دباؤکی وجہ سے انھیں چاروناچار الیکشن کرانے بھی پڑے تو انھوں نے بلدیاتی اداروں کے انتظامی اورریونیو وصولی کے اختیارات محدودکردیے۔
خیبرپختونخواہ کی حکومت کو چھوڑکر باقی صوبے ، صوبائی فنانس کمیشنوںکو فعال کرنے میں ناکام رہے۔قومی اورصوبائی سطح کے سیاست دان،اپنے حلقوں کی ترقی کے لیے صوابدیدی فنڈزکے حصول کو ترجیح دیتے ہیں۔ یہ طریقہ نہ صرف بدعنوانی کا راستہ کھولتا ہے بلکہ انھیں اپنے حلقوں میں طاقتور بھی بناتا ہے۔ان صوابدیدی فنڈز سے وہ جن اسکیموں پرکام کرتے ہیں، بنیادی طور پروہ مقامی حکومتوں کی ذمے داری ہے۔
سندھ کی مثال لیجیے،گزشتہ پراونشل فنانس کمیشن میں جو2007 میں قائم ہوا تھا ، یہ بات طے کی گئی تھی کہ صوبائی محاصل کا55 فیصد درج ذیل فارمولے کے مطابق مقامی حکومتوں کے لیے مختص کیا جائے گا۔ آبادی40 فیصد،انفرا اسٹرکچر سروسز35 فیصد، ترقیاتی ضروریات10 فیصد،علاقہ5 فیصد اورکارکردگی10 فیصد۔کارکردگی کو 5 فیصد پرائمری اسکول انرولمنٹ اور5 فیصد محصولات کی وصولی کی بنیاد پرجانچا جاتا ہے۔ نیا این ایف سی 2013 میں آنا تھا جو نہیں آیا، مگر اس مسئلے کو کوئی بھی نہیں اٹھاتا۔
جواہم ترین عنصر غائب ہے، وہ کان کنی، تیل وگیس کی تلاش، پیداواراور بندرگاہوں وغیرہ جیسے قدرتی وسائل پر اضلاع سے وصول کیا جانے والا ٹیکس اوررائلٹی ہے۔مرکز، تیل اورگیس کی پیداوار پر رائلٹی میں سے حصہ ادا کرتا ہے مگر صوبے آگے یہ حصہ ان اضلاع کو نہیں دیتے جن کے وسائل کو استعمال کیا جارہا ہے۔ یاد رہے کہ اتفاق سے ایسے زیادہ تر وسائل،ملک کے انتہائی پسماندہ علاقوں میں ہیں۔ان معدنی اور تیل وگیس کے وسائل کے منافعے میں متعلقہ اضلاع کو اداراتی بنیاد یعنی لوکل گورنمنٹ کے ذریعے حصہ دار بنانے کے بجائے علاقے کے بااثرافراد کوحفاظت کے لیے کچھ رقم دے دی جاتی ہے۔
یہ بااثر افراد اپنی برادری کے لوگوں پر بمشکل ہی کوئی پیسہ خرچ کرتے ہیں، اس کی ایک واضح مثال بلوچستان میں بعض علاقوں میں سوئی گیس فیلڈز کی ہے۔اس معمولی سی رقم کا بھی خوب پروپیگنڈا کیا جاتا ہے۔ایک وجہ یہ بھی ہے کہ مقامی آبادی عام طور سے ان وسائل کے استعمال کی، خواہ یہ حکومت کی طرف سے ہو یا نجی شعبے کی کمپنیوں کی طرف سے ہو، مخالفت کرتی ہے۔قدرتی وسائل والے علاقوں اور ان کے آس پاس رہنے والی آبادیوں میں عام طور سے شدت کے ساتھ یہ احساس پایا جاتا ہے کہ ان وسائل کے استعمال سے انھیں کچھ نہیں ملتا۔یہ بات اس وقت بھی سچ لگتی ہے جب بلوچستان کے عوام عموماً اورگوادرکے عوام خصوصاً علاقے میں ترقیاتی اسکیموں پر غم وغصے کا اظہارکرتے ہیں۔
صوبائی اوروفاقی دونوں حکومتیں ان اسکیموں کی حمایت کرتی ہیں۔ مقامی لوگوںکو جب بھی آزادی سے بات کرنے کا موقع ملتا ہے ، وہ اپنی ناراضگی کا اظہارکرتے ہیں۔ان کے غم وغصے کی وجہ جائز ہے اور اس پراجیکٹ میں ان کا مفاد پیدا کر کے ناراضگی کا ازالہ کیا جانا چاہیے۔ مثال کے طور پر صوبوں کی بندرگاہوں سے آنے والے سامان اور فراہم کی جانے والی تمام خدمات پر5% میونسپل ٹیکس نافذ کردیا جائے۔ بلدیاتی حکومتوں کو ان کے علاقوں سے استعمال کیے جانے والے قدرتی وسائل کا کم ازکم25% فیصد منافع اور رائلٹی بھی دی جانی چاہیے۔
اس قسم کے اقدامات کا نتیجہ مسلسل تبدیلی کی صورت میں نکلتا ہے ۔اس سے تلخ مزاج طبقے مہربان ہو جائیں گے اوراپنے اپنے علاقے میں سرمایہ کاری کی دعوت دینے کے لیے مختلف اضلاع میں مقابلہ شروع ہو جائے گا۔یہ کوئی مشکل کام نہیں ہے متعدد ترقی یافتہ جمہوری ملکوں میں مقامی حکومتیں اپنے علاقے میں سرمایہ کاری کی ترغیب دیتی ہیں تاکہ ان کی آمدنی بڑھے، لوگوں کو زیادہ ملازمتیں حاصل ہوں اوران علاقوں میں تیارہونے والی اشیاء اورخدمات میں اضافہ ہو۔
دوسروں پر شک کرنے والے بہت سے لوگ کہتے ہیں کہ اس سے ان اضلاع کے عوام کی حالت پر کوئی زیادہ فرق نہیں پڑے گاکیونکہ اس رقم کو بلدیاتی حکومتوں کے عہدیدار ہڑپ کرجائیں گے۔ میں ان سے پہلا سوال یہ پوچھتا ہوں کہ کیا ان صوبوں میں بھی ایسا ہی ہورہا ہے جہاں صوبائی سطح پر قوم پرستوں کا ان وسائل پر مکمل کنٹرول ہے اور وہ ٹیکس لگانے کا اختیار بھی رکھتے ہیں؟حقیقت یہ ہے کہ بلدیاتی حکومت کی سطح پر بد عنوانی کو روکنا آسان ہوتا ہے کیونکہ منتخب ارکان اسی آبادی میں رہتے ہیں، وہ صوبائی یا وفاقی دارالحکومت میں نہیں رہتے کہ کبھی کبھار اپنے حلقے کا دورہ کریں۔
مضبوط بلدیاتی اداروں سے جمہوریت کی بنیاد بھی مستحکم ہوگی،اس طرح نچلی سطح پر رہنے والے لوگوں کا نظام سے مفاد وابستہ ہوگا۔فوجی حکومتیں صرف بندوق کی طاقت سے ہی قائم نہیں رہیں بلکہ انھوں نے عوام تک رسائی کے لیے بلدیاتی ادارے بھی قائم کیے۔تمام جمہوریت پسند وفاقی اکائیوں کے لیے زیادہ سے زیادہ خود مختاری پر یقین رکھتے ہیں، مگر انھوں نے اس بات کی اجازت نہیں دی کہ فوجی حکومت صوبائی ڈھانچے کو چھوڑکر براہ راست بلدیاتی حکومتوں تک پہنچے۔
یہ بات یاد رکھنا بھی بہت اہم ہے کہ یہ فیصلہ کرنے کے لیے کہ حکومت کی پالیسیاں عام آدمی کے مفاد میں ہیں یا وہ صرف چند لوگوں کے مخصوص مفادات کی خدمت کریں گی،ان پالیسیوں کو جانچنا ضروری ہے۔ہر پالیسی کی حمایت یا مخالفت ،اس کو مذکورہ بالا اصول پر پرکھنے کے بعد انفرادی بنیاد پرکی جانی چاہیے، فیصلہ سازوں کو مجموعی طورپر پسند یا ناپسند کرنے کی بنیاد پر نہیں ہونی چاہیے۔یہ لوگ بعض پالیسیاں اپنے مفادات کی خاطر بناتے ہیں لیکن اگر ان کے نتیجے میں عوام کا بھی کچھ فائدہ ہوتا ہے تو ہمیں یکسر مسترد کردینے کے بجائے انھیں مزید بہتر بنانے کا مطالبہ کرنا چاہیے۔