سانحہ کوئٹہ انکوائری کمیشن کی رپورٹ پر اعتراض
سیدھی سی بات ہے کہ سانحہ کوئٹہ بہت بڑا حادثہ تھا اور اس حادثے کی تحقیقات کی نظرثانی ہونی چاہیے
ISLAMABAD:
وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار نے سانحہ کوئٹہ انکوائری کمیشن رپورٹ کو سپریم کورٹ، قومی اسمبلی، سینیٹ سمیت تمام فورمز پر چیلنج کرنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ کمیشن کو سانحہ کوئٹہ کی انکوائری کا مینڈیٹ دیا گیا تھا لیکن اس نے اپنے مینڈیٹ سے تجاوز کیا۔ یہاں پریس کانفرنس میں انھوں نے کہا کہ کمیشن نے مجھے سنے اور میرا موقف لیے بغیر یکطرفہ رپورٹ دی ہے، انھوں نے مزید کہا کہ کمیشن کی رپورٹ اخبارات کے ذریعے پڑھی جس میں مرچ مصالحہ بھی تھا۔
انکوائری کمیشن نے مجھ سے پانچ سوالات پوچھے جن میں ایک بھی سانحہ کوئٹہ سے متعلق نہیں تھا۔انھوں نے واضح کیا کہ کمیشن نے اپنے مینڈیٹ سے تجاوز کرتے ہوئے غیر متعلقہ سوالات کیے اور سارا ملبہ مجھ پر اور وزارت داخلہ پر ڈالتے ہوئے ہمیں مورد الزام ٹھہرایا۔ میں اس ایشو پر ایک روز قبل پریس کانفرنس کرکے وضاحت کرنا چاہتا تھا لیکن وزیر اعظم نے روکا جس پر میں نے وزیر اعظم کو وزارت سے مستعفی ہوکر پریس کانفرنس کرنے کی پیشکش کی۔ مگر وزیر اعظم نے ایسا نہ کرنے کو کہا۔
اپنی پریس کانفرنس میں انھوں نے اس رپورٹ کے مندرجات سے ہٹ کر سیاسی مخالفین کو بھی ہدف تنقید بناتے ہوئے کہا کہ اس رپورٹ کے بعد ان لوگوں کو بھی موقع مل گیا جنھوں نے اپنے دور حکومت میں پاکستان کا تیا پانچہ کیا۔ میں نے سیاست اور وزارت ایل این جی کوٹہ، پیسہ کمانے یا آف شور کمپنیاں بنانے کے لیے قبول نہیں کی، میرے اوپر بات آئی ہے تو میں کھل کر اپنا دفاع بھی کرونگا اور حقیقت بھی عوام اور عدالت کے سامنے لاؤں گا تاکہ پتہ چلے کہ کس نے کیا کارکردگی دکھائی ہے۔
میرے چند مخالفین کے پیٹ میں مروڑ تھا اب ان کو موقع ملا ہے، بچہ پارٹی والے آج ہم پر تنقید کرتے ہیں اور ہم سے حساب مانگتے ہیں، وہ اس بارے میں اسمبلی میں تحریک التواء جمع کرائیں میں جواب دوں گا۔ عمران خان اور بچہ پارٹی جہاں کہیں ایکشن پلان پر بات کرنے کے لیے تیار ہوں۔انھوں نے دہشت گردی کے حوالے سے اعدادوشمار بھی پیش کیے اور کہا کہ رواں سال پاکستان میں سب سے کم سات سو چون دہشتگردی کے واقعات ہوئے۔
گزشتہ دور حکومت کے پانچ سالوں میں دس ہزار کے قریب دہشتگردی کے واقعات ہوئے اور وہی آج ہم پر تنقید کرتے ہیں۔ ہم نے نیشنل ایکشن پلان کے تحت نیکٹا کے ذریعے ملک بھر میں ساڑھے سات ہزار سے زائد انٹیلی جنس انفارمیشن شیئرنگ کی اور تقریباً بیس ہزار انٹیلی جنس بیسڈ آپریشن کیے گئے۔
سانحہ کوئٹہ پر قائم ہونے والے کمیشن کی رپورٹ چشم کشا ہے۔ وفاقی وزیر داخلہ نے اس حوالے سے جو کچھ کہا ہے ' یہ ان کی رائے ہے اور انھیں اپنی رائے دینے کا پورا حق ہے' انھوں نے اس رپورٹ کو سپریم کورٹ ' قومی اسمبلی ' سینیٹ سمیت تمام فورمز پر چیلنج کرنے کا اعلان کیا ہے۔ اصولی طور پر تو اگر وہ اس رپورٹ کو کسی فورمز پر چیلنج کرنا چاہتے تھے تو انھیں اپنا جواب بھی اسی فورم پر دینا چاہیے تھا۔اگر کمیشن میں سانحہ کوئٹہ سے متعلق سوالات نہیں پوچھے تھے تو اس کے بارے میں بھی کسی فورم پر اظہار خیال کر دیا جاتا تو بہتر ہوتا۔
ہو سکتا ہے کہ اس وقت ایسا کرنا بہتر نہ ہوتا کیونکہ کمیشن کی انکوائری کو خفیہ رکھنا مقصود ہو سکتا ہے۔ بہرحال اب دیکھنا یہ ہے کہ حکومت اس رپورٹ پر کیا ایکشن کرتی ہے کیونکہ رپورٹ تو منظرعام پر آ چکی ہے۔ اس رپورٹ میں جو کچھ کہا گیا ہے اسے معمولی نہیں سمجھا جا سکتا اور نہ ہی حکومت کو اسے سرسری یا معمولی انداز میں لینا چاہیے۔ پاکستان میں یہ کلچر ہے کہ بعض حساس چیزوں کو بھی روٹین میٹر سمجھ کر نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔
سیدھی سی بات ہے کہ سانحہ کوئٹہ بہت بڑا حادثہ تھا اور اس حادثے کی تحقیقات کی نظرثانی ہونی چاہیے۔ یہی نہیں بلکہ ہر سانحے کی تحقیقات ہونی چاہئیں۔ پاکستان میں ادارہ جاتی صورت حال کو دیکھا جائے تو یہ کہنے میں کوئی حرج نہیں ہے کہ ہمارے ادارے اتنی مستعدی سے کام نہیں کر رہے جتنی کہ حالات کا تقاضا ہے۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ کوئی بچوں کاکھیل نہیں کہ اسے بددلی سے یا کنفیوژ ذہن کے ساتھ لگا جا سکے۔پاکستان انکوائری کمیشن کی رپورٹوں کو ہمیشہ دبایا جاتا ہے۔ بہت سے کمیشن قائم ہوئے اور ان کمیشنوں کی رپورٹس بھی تیار ہوئیں' ان میں سے کچھ رپورٹوں کے مندرجات سامنے بھی آئے لیکن پھر وہ وقت کی گرد میں بیٹھ کر گم ہو گئے ۔
آج حمود الرحمن کمیشن کی رپورٹ کسی کو یاد نہیں۔ لیاقت علی خان کے قتل کی رپورٹ کا بھی کسی کو کچھ پتہ نہیں۔ سانحہ ماڈل ٹاؤن پر قائم ہونے والے کمیشن کی رپورٹ پر بھی اعتراضات سامنے آئے۔ اس صورت حال کو کسی طور بھی اچھا قرار نہیں دیا جا سکتا۔ اگر کمیشن کی رپورٹ کو سنجیدگی سے لینا نہیں ہے اور کمیشن قائم کرنے کا مقصد صرف یہ ہے کہ کسی بحران سے وہ وقتی طور پر نکل جائیں تو پھر ایسے کمیشن قائم کرنے کا کوئی فائدہ نہیں۔
وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار نے سانحہ کوئٹہ انکوائری کمیشن رپورٹ کو سپریم کورٹ، قومی اسمبلی، سینیٹ سمیت تمام فورمز پر چیلنج کرنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ کمیشن کو سانحہ کوئٹہ کی انکوائری کا مینڈیٹ دیا گیا تھا لیکن اس نے اپنے مینڈیٹ سے تجاوز کیا۔ یہاں پریس کانفرنس میں انھوں نے کہا کہ کمیشن نے مجھے سنے اور میرا موقف لیے بغیر یکطرفہ رپورٹ دی ہے، انھوں نے مزید کہا کہ کمیشن کی رپورٹ اخبارات کے ذریعے پڑھی جس میں مرچ مصالحہ بھی تھا۔
انکوائری کمیشن نے مجھ سے پانچ سوالات پوچھے جن میں ایک بھی سانحہ کوئٹہ سے متعلق نہیں تھا۔انھوں نے واضح کیا کہ کمیشن نے اپنے مینڈیٹ سے تجاوز کرتے ہوئے غیر متعلقہ سوالات کیے اور سارا ملبہ مجھ پر اور وزارت داخلہ پر ڈالتے ہوئے ہمیں مورد الزام ٹھہرایا۔ میں اس ایشو پر ایک روز قبل پریس کانفرنس کرکے وضاحت کرنا چاہتا تھا لیکن وزیر اعظم نے روکا جس پر میں نے وزیر اعظم کو وزارت سے مستعفی ہوکر پریس کانفرنس کرنے کی پیشکش کی۔ مگر وزیر اعظم نے ایسا نہ کرنے کو کہا۔
اپنی پریس کانفرنس میں انھوں نے اس رپورٹ کے مندرجات سے ہٹ کر سیاسی مخالفین کو بھی ہدف تنقید بناتے ہوئے کہا کہ اس رپورٹ کے بعد ان لوگوں کو بھی موقع مل گیا جنھوں نے اپنے دور حکومت میں پاکستان کا تیا پانچہ کیا۔ میں نے سیاست اور وزارت ایل این جی کوٹہ، پیسہ کمانے یا آف شور کمپنیاں بنانے کے لیے قبول نہیں کی، میرے اوپر بات آئی ہے تو میں کھل کر اپنا دفاع بھی کرونگا اور حقیقت بھی عوام اور عدالت کے سامنے لاؤں گا تاکہ پتہ چلے کہ کس نے کیا کارکردگی دکھائی ہے۔
میرے چند مخالفین کے پیٹ میں مروڑ تھا اب ان کو موقع ملا ہے، بچہ پارٹی والے آج ہم پر تنقید کرتے ہیں اور ہم سے حساب مانگتے ہیں، وہ اس بارے میں اسمبلی میں تحریک التواء جمع کرائیں میں جواب دوں گا۔ عمران خان اور بچہ پارٹی جہاں کہیں ایکشن پلان پر بات کرنے کے لیے تیار ہوں۔انھوں نے دہشت گردی کے حوالے سے اعدادوشمار بھی پیش کیے اور کہا کہ رواں سال پاکستان میں سب سے کم سات سو چون دہشتگردی کے واقعات ہوئے۔
گزشتہ دور حکومت کے پانچ سالوں میں دس ہزار کے قریب دہشتگردی کے واقعات ہوئے اور وہی آج ہم پر تنقید کرتے ہیں۔ ہم نے نیشنل ایکشن پلان کے تحت نیکٹا کے ذریعے ملک بھر میں ساڑھے سات ہزار سے زائد انٹیلی جنس انفارمیشن شیئرنگ کی اور تقریباً بیس ہزار انٹیلی جنس بیسڈ آپریشن کیے گئے۔
سانحہ کوئٹہ پر قائم ہونے والے کمیشن کی رپورٹ چشم کشا ہے۔ وفاقی وزیر داخلہ نے اس حوالے سے جو کچھ کہا ہے ' یہ ان کی رائے ہے اور انھیں اپنی رائے دینے کا پورا حق ہے' انھوں نے اس رپورٹ کو سپریم کورٹ ' قومی اسمبلی ' سینیٹ سمیت تمام فورمز پر چیلنج کرنے کا اعلان کیا ہے۔ اصولی طور پر تو اگر وہ اس رپورٹ کو کسی فورمز پر چیلنج کرنا چاہتے تھے تو انھیں اپنا جواب بھی اسی فورم پر دینا چاہیے تھا۔اگر کمیشن میں سانحہ کوئٹہ سے متعلق سوالات نہیں پوچھے تھے تو اس کے بارے میں بھی کسی فورم پر اظہار خیال کر دیا جاتا تو بہتر ہوتا۔
ہو سکتا ہے کہ اس وقت ایسا کرنا بہتر نہ ہوتا کیونکہ کمیشن کی انکوائری کو خفیہ رکھنا مقصود ہو سکتا ہے۔ بہرحال اب دیکھنا یہ ہے کہ حکومت اس رپورٹ پر کیا ایکشن کرتی ہے کیونکہ رپورٹ تو منظرعام پر آ چکی ہے۔ اس رپورٹ میں جو کچھ کہا گیا ہے اسے معمولی نہیں سمجھا جا سکتا اور نہ ہی حکومت کو اسے سرسری یا معمولی انداز میں لینا چاہیے۔ پاکستان میں یہ کلچر ہے کہ بعض حساس چیزوں کو بھی روٹین میٹر سمجھ کر نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔
سیدھی سی بات ہے کہ سانحہ کوئٹہ بہت بڑا حادثہ تھا اور اس حادثے کی تحقیقات کی نظرثانی ہونی چاہیے۔ یہی نہیں بلکہ ہر سانحے کی تحقیقات ہونی چاہئیں۔ پاکستان میں ادارہ جاتی صورت حال کو دیکھا جائے تو یہ کہنے میں کوئی حرج نہیں ہے کہ ہمارے ادارے اتنی مستعدی سے کام نہیں کر رہے جتنی کہ حالات کا تقاضا ہے۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ کوئی بچوں کاکھیل نہیں کہ اسے بددلی سے یا کنفیوژ ذہن کے ساتھ لگا جا سکے۔پاکستان انکوائری کمیشن کی رپورٹوں کو ہمیشہ دبایا جاتا ہے۔ بہت سے کمیشن قائم ہوئے اور ان کمیشنوں کی رپورٹس بھی تیار ہوئیں' ان میں سے کچھ رپورٹوں کے مندرجات سامنے بھی آئے لیکن پھر وہ وقت کی گرد میں بیٹھ کر گم ہو گئے ۔
آج حمود الرحمن کمیشن کی رپورٹ کسی کو یاد نہیں۔ لیاقت علی خان کے قتل کی رپورٹ کا بھی کسی کو کچھ پتہ نہیں۔ سانحہ ماڈل ٹاؤن پر قائم ہونے والے کمیشن کی رپورٹ پر بھی اعتراضات سامنے آئے۔ اس صورت حال کو کسی طور بھی اچھا قرار نہیں دیا جا سکتا۔ اگر کمیشن کی رپورٹ کو سنجیدگی سے لینا نہیں ہے اور کمیشن قائم کرنے کا مقصد صرف یہ ہے کہ کسی بحران سے وہ وقتی طور پر نکل جائیں تو پھر ایسے کمیشن قائم کرنے کا کوئی فائدہ نہیں۔