اشرافیائی کلچر کی حشرسامانیاں
یہ یقین تھا کہ پاناما لیکس کے معاملے کو مختلف طریقوں سے الجھا کر داخل دفتر کرنے کی کوشش کی جائے گی
SYLHET:
یہ یقین تھا کہ پاناما لیکس کے معاملے کو مختلف طریقوں سے الجھا کر داخل دفتر کرنے کی کوشش کی جائے گی۔ مسلم لیگ (ن) کا لیت و لعل اس لیے قابل فہم ہے کہ وہ موردِ الزام ہے۔ لیکن یہ بھی اندازہ تھا کہ پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف بھی اس معاملے کو الجھانے کی کوشش کریں گی، کیونکہ ان کے اپنے دامن بھی داغدار ہیں۔ جہاں تک چھوٹی جماعتوں کا تعلق ہے، تو یہ قومی دھارے (Mainstream) جماعتوں میں مختلف نوعیت کے فوائد حاصل کر کے کسی نہ کسی شکل میں بالواسطہ کرپشن میں ملوث ہیں۔ یہ اندازے درست ثابت ہوئے اور کرپشن اور بدعنوانیوں کے خاتمے کی توقعات دم توڑ چکی ہیں۔
جب پاناما لیکس کا قضیہ اٹھا اور جس غیر سنجیدہ انداز میں اسے اچھالا گیا، اسی وقت سے ہر متوشش شہری یہ سمجھ گیا تھا کہ اٹھایا جانے والا ہنگامہ ملک سے کرپشن اور بدعنوانی کے مکمل خاتمے کے لیے نہیں بلکہ ایک اشرافیائی جماعت کی جگہ دوسری اشرافیائی جماعت کے لیے جگہ بنانے کے لیے ہے۔
اس صورتحال کا مضحکہ خیز پہلو یہ ہے کہ ہر ننگا دوسرے کو ننگا کہہ کر اپنے ننگ کو چھپانے کی کوششوں میں لگا ہوا ہے۔ متوشش شہری یہ سب کچھ جاننے کے باوجود ''تماشائے اہل کرم'' دیکھنے کو ترجیح دے رہے ہیں۔ کیونکہ اس طرح انھیں سیاسی جماعتوں میں اہلیت کے فقدان، استعداد کی کمی اور عوامی خواہشات سے عدم دلچسپی کو سمجھنے کا مزید موقع مل رہا ہے۔
اس میں شک نہیں کہ میاں صاحب کے دامن پہ سمندر پار سرمایہ کاری کے دھبے ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ جو رقم ملک سے باہر منتقل کی گئی ہو، وہ جائز طریقے سے حاصل کردہ ہو اور نہ ہی باہر بھیجے جانے کا عمل غیر قانونی ہو۔ مگر کیا پیپلز پارٹی اپنی پارسائی کو ثابت کر سکتی ہے؟ کیا تحریک انصاف یہ دعویٰ کر سکتی ہے کہ اس کے رہنماؤں کے دامن پر کرپشن و بدعنوانی کا کوئی دھبہ نہیں ہے؟ کیا چھوٹی جماعتیں یہ کہہ سکتی ہیں کہ وہ بالواسطہ نوعیت کی کرپشن میں ملوث نہیں ہیں؟ دراصل جسے جب، جہاں اور جیسے موقع مل رہا ہے، بہتی گنگا میں ہاتھ دھو رہا ہے۔ ملک کی دولت اور وسائل کو شیر مادر سمجھ کر لوٹا جا رہا ہے۔ چنانچہ ہر جماعت کے بیشتر رہنما اور اعلیٰ قیادتیں گھٹنوں گھٹنوں تک کرپشن کی غلاظت میں دھنسی ہوئی ہیں۔
ایک ایسی صورتحال میں کرپشن، بدعنوانی اور بری حکمرانی سے چھٹکارا ممکن نہیں ہے۔ کیونکہ ہر جماعت اپنے مخصوص مفادات کی خاطر ایک دوسرے پر کیچڑ تو ضرور اچھالتی ہے مگر ان کی قیادتیں اور ان میں موجود طاقتور Electables کرپشن اور بدعنوانیوںکے خلاف ہونے والی شفاف اور غیر جانبدارانہ تحقیق و تفتیش کی راہ میں کسی نہ کسی طور رکاوٹ ڈالتے رہتے ہیں، تاکہ ریاست کا ہاتھ ان کے گریبانوں تک نہ پہنچنے پائے۔
یہ وہی عناصر ہیں، جو ہر انتخابات کے بعد دھاندلی کا شور مچاتے ہیں، مگر اس دھاندلی کے خاتمے کے لیے قانون سازی سے دامن بچانے کی کوشش کرتے ہیں۔ کوئی اراکین پارلیمان سے پوچھے کہ اس 31 رکنی کمیٹی کا کیا ہوا، جو انتخابی اصلاحات کے لیے دو برس قبل قائم کی گئی تھی؟
ان سیاسی جماعتوں اور ان کے رہنماؤں سے سوال کیا جائے، جو اٹھتے بیٹھتے جمہوریت کی مالا جپتے نہیں تھکتے، کہ وہ کس جمہوریت کی بات کرتے ہیں؟ کیونکہ ان کا ہر عمل جمہوریت دشمنی پر مبنی ہوتا ہے۔ جمہوریت اپنی سرشت میں شراکتی ہوتی ہے، جو مقامی حکومتی نظام سے مشروط ہے۔ جب کہ ہمارے ملک کی سیاسی جماعتیں، بالخصوص mainstream جماعتیں شراکتی جمہوریت کے فروغ کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ بنی ہوئی ہیں۔
اپنے فیوڈل مزاج کی وجہ سے یہ جماعتیں اقتدار و اختیار کی عدم مرکزیت کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ بنی ہوئی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ عدالت عظمیٰ کے دباؤ پر بادل نخواستہ بلدیاتی نظام کے انتخابات تو کرا دیے، مگر صوبائی اسمبلیوں میں اپنی عددی اکثریت کی بنیاد پر پہلے تو مقامی حکومتی نظام کا حلیہ بگاڑا، پھر اس اپاہج نظام سے بھی اس قدر خوفزدہ ہیں کہ اسے چلنے نہیں دے رہے ہیں۔
گزشتہ بدھ سپریم کورٹ کے جج جسٹس فائز عیسیٰ کی اگست میں سول اسپتال کوئٹہ میں ہونے والی دہشتگردی پر رپورٹ شائع ہوئی ہے۔ یہ رپورٹ مکمل اظہاریے کی متقاضی ہے، لیکن برسبیل تذکرہ عرض ہے کہ اس رپورٹ نے وفاقی وازرت داخلہ اور بلوچستان کی صوبائی حکومت کی اہلیت اور استعداد کا رہا سہا پردہ بھی چاک کر دیا ہے۔
اس رپورٹ سے یہ اندازہ بھی ہوا کہ کرپشن بدانتظامی کی وجہ سے جنم لیتی ہے۔ بدانتظامی کی وجہ حکومتوں اور حکمرانوں کی نااہلی اور کمتر استعداد ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ اہم قومی امور پر دوہرے معیارات اور منافقانہ طرز عمل بھی حکمرانی کو کمزور کرنے کا باعث بنتا ہے۔
ہمارا معاملہ یہ ہے کہ ہم ایسے معیارات متعین کرنے میں مسلسل ناکام ہیں، جو نظم حکمرانی کو بہتر بنانے میں معاون ثابت ہو سکیں۔ اس کی کئی وجوہات ہیں۔ سب سے پہلے تو 68 برسوں کے دوران نظام حکمرانی کو وہ استحکام حاصل نہیں ہو سکا، جو حکمرانی کے معیارات طے کرنے کے لیے ضروری ہوتا ہے۔ دوسری بات یہ کہ ملک پر زیادہ تر فوجی آمریتیں مسلط رہیں، وہ اس سیاسی ویژن سے عاری تھیں، جو نظم حکمرانی کو مستحکم کرنے کا سبب بنتا ہے۔
قائم ہونے والی سیاسی حکومتوں میں ان قوتوں کی بالادستی رہی ہے، جو اقتدار و اختیار پر اپنی گرفت مضبوط رکھنے کی خاطر ہر قسم کی تبدیلی اور اصلاح کے خلاف مزاحمت کرتے ہوئے Status Quo کو جاری رکھنے پر مصر رہتی ہیں، جب کہ عوام خواندگی کی کمتر شرح اور قبائلی اور جاگیردارانہ کلچر کی زنجیروں میں جکڑے ہونے کے باعث ریاستی امور کی نزاکتوں اور باریکیوں کو سمجھنے اور حسب ضرورت ردعمل ظاہر کرنے کی صلاحیت سے محروم ہیں، جس کی وجہ سے ان کا طرز عمل غیر متوازن ہے۔
آج کی دنیا میں حکمرانی کسی فرد واحد کی مطلق حاکمیت کے تابع نہیں ہوتی، بلکہ اجتماعی فیصلہ سازی کے ذریعے کی جاتی ہے۔ اسی طرح پارٹی کا ہر رکن فرد واحد کے فیصلوں اور اقدامات کا ترجمان نہیں ہوتا، بلکہ اپنی جماعت کے نظریات، سیاسی ایجنڈے اور منشور کا وفادار اور اس کا مبلغ ہوتا ہے۔ پارٹی سربراہ بھی ان ہی کارکنوں کا منتخب کردہ رہنما ہوتا ہے، مگر پاکستان میں ایسا سیاسی کلچر ابھی بہت دور کی بات ہے۔
یہاں قائد سے وفاداری ہی جماعت اور نظریات سے وفاداری تسلیم کی جاتی ہے۔ اس کی دو بنیادی وجوہات ہیں۔ اول، ایسے تمام معاشرے جو صدیوں تک غلامی کے زیر اثر رہے ہوں، وہاں عوام و خواص کے رویوں میں شخصیت پرستی کا عنصر غالب ہو جاتا ہے۔ ان کے مزاج میں منکسرالمزاجی کی جگہ خوشامد، حق گوئی کی جگہ مصلحت کوشی اور بیباکی کی جگہ چاپلوسی گھر کر لیتی ہے۔ طاقتور کے آگے سجدہ ریز ہونا اور کمزور کو آنکھیں دکھانا ایسے معاشروں کا وتیرہ بن جاتا ہے۔
لہٰذا ہمارے 68 برسوں کے دوران کسی ایک دن بھی نظم حکمرانی میں پائی جانے والی خرابیوں اور کمزوریوں کا سنجیدگی کے ساتھ جائزہ لے کر ان کے خاتمے کے لیے ٹھوس اور پائیدار حکمت عملی تیار کرنے کی زحمت کسی بھی جانب سے گوارا نہیں کی گئی۔ ایسی صورتحال میں پاناما لیکس کی کیا حیثیت ہے؟ اس سے بڑے انکشافات بھی حکمران اشرافیہ کی بدعنوانیوں اور بے اعتدالیوں کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے۔ ایک ایسا معاشرہ، جو ہاتھ میں چبھی پھانس نکالنے کے بجائے اس پر مرہم پٹی کو ہی علاج سمجھتا ہو، اس کے سیاسی شعور پر کیا تبصرہ کیا جا سکتا ہے۔ یہ سب اشرافیائی کلچر کی حشر سامانیاں ہیں۔ یہاں شیخ سعدیؒ کا یہ شعر ہی اس معاشرے پر صادق آتا ہے کہ:
خشت اول چوں نہد معمار کج
تا ثریا می رود دیوار کج