امریکی مفادات اور ہم

عہد قدیم میں بادشاہتیں خزانے کو ذاتی جاگیر سمجھتی تھیں۔


Zamrad Naqvi December 18, 2016
www.facebook.com/shah Naqvi

تحریک انصاف کی طرف سے پانامہ لیکس کی انکوائری کے لیے کمیشن کے قیام کی مخالفت کے بعد سپریم کورٹ نے مقدمے کی سماعت جنوری کے پہلے ہفتے تک ملتوی کرتے ہوئے قرار دیا ہے کہ کیس کو ازسرنو سنا جائے گا۔ عدالت نے کمیشن کے قیام کی تجویز پر فریقین سے رائے مانگی گئی تھی۔ کچھ فریقین نے اس تجویز کی حمایت کی لیکن کچھ کمیشن کے مخالف ہیں۔ اس لیے اس بارے میں کوئی تبصرہ کیے بغیر کیس کی سماعت اگلے سال جنوری کے پہلے ہفتے تک ملتوی کی جاتی ہے۔ اب تک کسی سماعت کو ''سنا'' ہوا کیس نہ سمجھا جائے بلکہ اس کی سماعت ازسرنو ہو گی کیونکہ بنچ کے ایک رکن کی ریٹائرمنٹ کی وجہ سے بنچ ازسرنو تشکیل دینا پڑے گا۔

پانامہ کیس کے حوالے سے امیر جماعت اسلامی نے مطالبہ کیا ہے کہ جب تک اس کیس کا فیصلہ نہیں ہو جاتا وزیراعظم اپنے اختیارات کا استعمال نہ کریں۔ کرپشن ایک ناسور ہے جس سے پوری دنیا نمٹنے کی کوشش کر رہی ہے۔ امریکا یورپ خاص طور پر چین میں کرپشن کے مرتکب افراد کو موت کی سزا دی جاتی ہے۔ نچلی سطح پر کرپشن ہوتی ہے تو اعلیٰ عہدوں اور اعلیٰ پوزیشن پر فائز افراد آج بھی اربوں کی کرپشن کر رہے ہیں۔ کرپشن کا مطلب یہ ہے کہ محدود افراد کا گروہ عوام کی دولت پر ہاتھ صاف کر رہا ہوتا ہے جتنی زیادہ معاشرے میں کرپشن بڑھتی ہے اتنی ہی اس معاشرے میں غربت اور پسماندگی بڑھتی چلی جاتی ہے۔

عہد قدیم میں بادشاہتیں خزانے کو ذاتی جاگیر سمجھتی تھیں۔ عوام کا اس میں کوئی حصہ نہیں تھا۔ حالانکہ یہ عوام ہی تھے جو اجناس اور دیگر اشیا کی شکل میں دولت تخلیق کرتے تھے۔ ابتدائے اسلام میں بیت المال کو عوام کی امانت سمجھا جاتا تھا۔ بیت المال کے نگران بیت المال سے صرف اتنا ہی لیتے تھے جتنا ان کی ضرورت ہوتی تھی بعض اوقات تو وہ اپنی ضرورت سے بھی کم لیتے تھے۔ لیکن جیسے خلافت ملوکیت میں ڈھلی۔ بیت المال ان کے لیے مخصوص ہو گیا۔ جب عوام الناس نے اس پر احتجاج کیا تو ان کے اس عمل کو فتنہ قرار دے دیا گیا۔

حکمران طبقات طاقتور تھے انھوں نے اپنی جنگی طاقت کے ذریعے کہ بیت المال عوام کا ہے کی تحریک کو سختی سے کچل دیا۔ اس وقت سے لے کر اب تک سیکڑوں سال اسی حالت میں گزر گئے۔ عام لوگ یہ بھول گئے کہ بیت المال پر ان کا حق بھی ہے۔ آج یہ حال ہے کہ بیشتر مسلمان معاشروں کے حکمران طبقات کرپشن میں ڈوبے ہوئے ہیں۔ برازیل ہو یا جنوبی افریقہ یا جنوبی کوریا وہاں کے عوام اپنے حکمرانوں کی کرپشن کے خلاف سڑکوں پر آتے ہیں۔

جنوبی کوریا میں عوام اپنی خاتون صدر کی کرپشن پر جو سابق فوجی آمر کی بیٹی ہیں سڑکوں پر آگئے۔ جنوبی کوریائی عوام کے شعور اور جذبے کا یہ عالم تھا کہ وہ سخت سردی اور برفباری میں کم از کم دس لاکھ کی تعداد میں سڑکوں پر آ گئے۔ ساری رات سڑکوں پر رہے۔ یہاں تک کہ وہاں کی قومی اسمبلی نے اپنی صدر کے خلاف مواخذے کی تحریک منظور کر لی جس میں خاتون صدر کی اپنی سیاسی جماعت بھی شامل تھی نتیجہ یہ نکلا کہ صدر اب برائے نام صدر ہیں کیونکہ ان کو انتظامی اختیارات سے محروم کر دیا گیا ہے۔

جنوبی کوریا میں طویل عرصہ فوجی آمریتیں رہیں جنھوں نے قومی خزانے کو بے دردی سے لوٹا۔ وہاں آمریت کے زمانے میں عدلیہ آزاد تھی نہ پارلیمنٹ۔ لیکن وہاں اب عدلیہ اور پارلیمنٹ آزاد ہیں۔ کسی جمہوری ملک میں عدلیہ کا آزاد ہونے کا ساتھ غیر جانبدار رہنا بھی بہت ضروری ہے ورنہ عدلیہ کی آزادی بے معنی ہو جاتی ہے۔ پاکستان بھی طویل عرصہ آمریتوں کا شکار رہا ہے۔ آج بھی اس کے اثرات پارلیمنٹ اور عدلیہ پر واضع ہیں۔ آج بھی سیاسی بالادستی کی کشمکش جاری ہے۔

پارلیمنٹ اور عدلیہ کو حقیقی معنوں میں آزاد ہونے کے لیے ابھی بہت وقت درکار ہے۔ اس کشمکش کو ہم پاکستان کے اسٹرٹیجک پس منظر میں سمجھ سکتے ہیں۔ آمریت طویل عرصہ پاکستان میں رہی۔ پاکستان میں جتنے بھی مارشل لا لگے وہ امریکی مفاد میں تھے اور امریکا کی ضرورت تھے۔ اب بھی پاکستان میں کنٹرولڈ جمہوریت ہے جو جمہوری آمریت میں بھی ڈھل جاتی ہے۔ جس میں جمہوریت کے نام پر ایک ہی شخص فیصلے کرتا ہے۔ لیکن اب امریکا کی ترجیح بدل گئی ہے۔

کنٹرولڈ ڈیمو کریسی ایک عرصہ پاکستان کا مقدر رہے گی جبتک مشرق وسطیٰ میں بادشاہت رہے گی' پاکستان میں کنٹرول ڈیمو کریسی ہی رہے گی۔ کیونکہ ان دونوں میں چولی دامن کا ساتھ ہے۔ پنجاب کے حکمران طبقات کا مفاد بھی اسی میں پوشیدہ ہے کیونکہ نواز شریف پاکستان میں انتہا پسندی کے راستے میں آزمودہ اور موثر رکاوٹ ہیں ورنہ تو پاکستان اور اس خطے میں امریکی مفادات خطرے میں پڑجائیں۔

حقیقی جمہوریت' آزاد عدلیہ بالادست پارلیمنٹ ایسی چیزیں نہیں جو بٹن دبانے سے کسی قوم کو حاصل ہوجائیں۔ اس کے لیے بڑی طویل جدوجہد اور صبر آزما انتظار کرنا پڑتا ہے۔ بادشاہت ملوکیت اور آمریتوں کے ہزاروں سال پرانے خوانخوار شکنجے سے اپنے حقوق حاصل کرنا مذاق نہیں۔ خود امریکا اور یورپ نے یہ آزادی سیکڑوں سال کی خونیں جدوجہد کے بعد حاصل کی۔ چٹکی بجاتے ہی ہمیں کیسے مل جائیں۔

دسمبر کا آخر اور جنوری کا شروع نیوز لیکس کے حوالے سے دھماکا خیز وقت ہے۔

 

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں