نیک دل ملکہ اور باغی شاعر

60 کی دہائی کا ابتدائی زمانہ تھا۔ مایہ ناز موسیقار رشید عطرے نے فلم بنانے کا منصوبہ بنالیا

60 کی دہائی کا ابتدائی زمانہ تھا۔ مایہ ناز موسیقار رشید عطرے نے فلم بنانے کا منصوبہ بنالیا اور پھر اس پر عمل بھی شروع کردیا۔ فلم کا نام تھا ''موسیقار''۔ اس فلم میں ہیروئن کا کردار میڈم نورجہاں نے ادا کیا تھا اور ہیرو تھے سنتوش کمار۔ ''موسیقار'' کے میوزک ڈائریکٹر اس فلم کے پروڈیوسر رشید عطرے خود تھے اور فلم کے گیت تنویر نقوی اور حبیب جالب نے لکھے تھے۔ فلم ''موسیقار'' اپنے زمانے کی سپرہٹ فلم تھی۔ جاندار کہانی، نورجہاں اور سنتوش کمار کی عمدہ اداکاری کے علاوہ فلم کے گیتوں نے بھی اس فلم کی کامیابی میں نمایاں کردار ادا کیا تھا۔ درج ذیل گیت گلی گلی گونجتے تھے:

1۔ تم جگ جگ جیو مہاراج رے، ہم توری نگریا میں آئے (نور جہاں)

2۔ جا جا رے جا/ جارے جا/ میں توسے نہیں بولوں (نور جہاں)

3۔ گائے گی دنیا گیت مرے/ سریلے انگ میں/ نرالے رنگ میں/ بھرے ہیں ارمانوں میں (نورجہاں)

4۔ اس شہر خرابی میں غم عشق کے مارے/ زندہ ہیں یہی بات بڑی بات ہے پیارے (سلیم رضا)

ملکہ ترنم نورجہاں کی برسی پر میں انھیں حبیب جالب کے حوالے سے یاد کروں گا۔ نورجہاں وہ واحد خاتون تھیں، جن سے حبیب جالب کی بہت قربت تھی۔ دونوں ایک دوسرے کے فن کے بڑے قدردان تھے۔ اس کا ثبوت حبیب جالب نے دو نظمیں نورجہاں کے لیے لکھ کر دنیا والوں کے سامنے پیش کیں۔ نورجہاں کا ایک واقعہ میں یہاں بیان کررہا ہوں۔ اس واقعے سے بخوبی پتا چلتا ہے کہ نورجہاں حبیب جالب کی کس درجہ عقیدت مند تھیں۔

واقعہ یہ ہے کہ جنرل ضیا الحق اپنے دور اقتدار میں نورجہاں سے ملاقات کے لیے آئے اور دوران ملاقات جنرل نے نورجہاں کا ہاتھ احتراماً پکڑ کر اپنے سینے پر رکھ لیا۔ دوسرے دن یہ تصویر تمام اخبارات میں نمایاں طور پر شایع ہوئی۔ جالب نے وہ تصویر دیکھی تو نورجہاں کو فون کیا اور کہا ''آپ نے میری بین الاقوامی سوچ کی نظم گائی اور پھر ایک آمر کے ہاتھ میں اپنا ہاتھ دے دیا، مجھے یہ تصویر دیکھ کر بہت دکھ ہوا ہے، دنیا والوں کے سامنے میں نے سوال رکھا:

ظلم رہے اور امن بھی ہو
کیا ممکن ہے تم ہی کہو

اس نظم کو آپ نے گایا، اپنا لحن عطا کیا۔ آپ کو ایسا نہیں کرنا چاہیے تھا۔'' جالب کی بات سن کر نورجہاں نے ان سے کہا ''وہ تو جنرل صاحب نے خود میرا ہاتھ پکڑا، میں نے اپنا ہاتھ ان کے ہاتھ میں نہیں دیا، مگر میں آپ سے کہوں گی کہ آپ آئیے، میں کیمرہ مین کو بلوا لوں گی اور میں خود اپنا ہاتھ آپ کے ہاتھ میں دے کر تصویر بنواؤں گی۔'' اور پھر ایسا ہو بھی گیا۔

میری یادوں میں کچھ ایسا ہے کہ اس فوٹو سیشن کا اہتمام مشہور اداکار اور جالب کے نظریاتی ساتھی مصطفیٰ قریشی کے گھر پر کیا گیا، جہاں ایک ملکہ نے باغی شاعر کے ہاتھ میں اپنا ہاتھ دیا اور مسکرا کر باغی شاعر کو دیکھتے ہوئے تصویر بنوائی۔ اسی طرح ایک اور تصویر بھی بنائی گئی جس میں ملکہ کا ہاتھ باغی شاعر نے تھام رکھا ہے۔ اب یہ دونوں رنگین تصاویر ''جالب بیتی'' (جالب صاحب کی آپ بیتی، مطبوعہ جنگ پبلی کیشنز لاہور 1993) میں شامل ہوکر تاریخ کا حصہ بن چکی ہیں۔


قصہ ملکہ اور باغی شاعر کا ہے، تو مجھے یاد آرہا ہے، یہ بات 1962 کی ہے ۔ میں اس وقت مسلم ماڈل ہائی اسکول میں آٹھویں جماعت میں پڑھتا تھا۔ ہم لوگ چھوٹے ساندے میں رہتے تھے، یعنی ساندہ خورد۔ صاف ظاہر ہے کہ ایک ساندہ کلاں (بڑا ساندہ) بھی تھا۔ ایک کمرے والا کوارٹر۔ چھوٹا سا برآمدہ، آگے ویسا ہی چھوٹا سا صحن، کرایہ 30 روپے ماہوار۔ گھر کا واحد کفیل باغی شاعر، میرے بڑے بھائی حبیب جالب۔ انا پرست، خوددار، نہ جھکنے والا، نہ بکنے والا۔ اس چھوٹے سے گھر میں ہمارے اماں ابا، جالب کی بیگم، راقم الحروف اور جالب کا دو سالہ بیٹا ناصر۔ بھائی رات گئے گھر لوٹتے تو مجھے ہی آواز دیتے، تاکہ ابا جی یا اماں دروازہ نہ کھولیں۔

ایسی ہی ایک رات تھی، دسمبر کی نہایت سرد رات۔ سعید! سعید! بھائی مجھے پکار رہے تھے۔ میں جلدی سے اٹھا اور دروازہ کھولا، مگر گلی میں کوئی نہیں تھا اور پوری گلی میں انتہائی مسحور کن خوشبو پھیلی ہوئی تھی، دسمبر کی شدید رات میں میرے جیسے پسینے چھوٹ گئے۔ میں تیزی سے پلٹا اور دروازہ بند کرکے بھابی کو جگایا ''آپا تاج! آپا تاج! اٹھو! (بھابی ہماری چچا زاد بہن تھیں، لہٰذا ہم انھیں آپا تاج کہہ کر ہی بلاتے تھے) بھابی ہڑبڑا کر اٹھیں۔

''کیا ہوا؟'' بھابی نے دوپٹے کا پلو سر پر رکھتے ہوئے پوچھا۔

''وہ...وہ! بھابھا... بھائی کی آواز آئی تھی، وہ مجھے پکار رہے تھے، میں دروازہ کھول کر باہر گیا، مگر وہاں کوئی نہیں تھا اور بھابی! باہر گلی میں خوشبو پھیلی ہوئی ہے''۔

میری بات سن کر بھابی اٹھیں اور باہر جانے لگیں، میں نے ان کا ہاتھ پکڑ لیا اور کہا ''باہر مت جانا۔'' مگر انھوں نے ہاتھ چھڑایا، دروازہ کھولا اور باہر گلی میں آگئیں۔ میں بھی ان سے چار قدم پیچھے چل رہا تھا، مجھے اب بھی یاد ہے کہ اس وقت میرے ذہن میں تھا کہ اگر کوئی جن بھوت، بلا ہوگی تو بھابی ہی کو پکڑے گی۔ خیر بھابی گلی میں چلتے چلتے گلی کے نکڑ تک پہنچ گئیں اور چند ساعتیں رک کر واپس آگئیں اور مجھ سے کہا ''جاؤ دیکھ لو، تمہارے بھائی کار میں نورجہاں کے ساتھ بیٹھے ہیں۔''

بھابی یہ کہہ کر گھر میں چلی گئیں اور میں آگے بڑھ گیا۔ پھر یہ بات کہ مجھے خوب یاد ہے، نور کا ہالہ تھا (بخدا میں نے ایسا ہی دیکھا) جو نورجہاں کے چہرے کا احاطہ کیے ہوئے تھے، کار کی پچھلی نشست پر ملکہ اور باغی شاعر بیٹھے ہوئے تھے۔ میں بھی چند ساعتیں یہ منظر دیکھ کر چلا آیا۔واقعہ یوں تھا کہ رات گئے ملکہ نورجہاں ازراہ احترام اپنی کار سے اتریں اور باغی شاعر کو گھر کے دروازے تک چھوڑنے آئیں۔ جالب صاحب نے مجھے آواز دی اور پھر واپس جاتی ہوئی ملکہ کو ان کی کار تک چھوڑنے چل دیے۔ یہ اس زمانے کی خوبصورت روایت ہوتی تھی۔ ملکہ گلی میں آئیں اور واپس چلی گئیں، مگر اپنی مسحور کن مہکار گلی میں پھیلا گئیں۔ملکہ ترنم نورجہاں نے جالب کے بہت سے گیت گائے، چند مشہور گیتوں کا ذکر کروں گا۔

1۔ لوگ دیکھیں نہ تماشا، میری تنہائی کا (فلم: ماں بہو اور بیٹا۔ موسیقار: حسن لطیف ملک)

2۔ تن تو پے واروں، من تو پے واروں ( فلم: ناگ منی۔ موسیقار: نثار بزمی)

3۔ من میں اٹھی ننھی ترنگ، ناچے مورا انگ انگ/ پنچھی تیرے سنگ سنگ من چاہے/ اڑ جاؤں/کسی کے ہاتھ نہ آؤں (فلم: ناگ منی۔ موسیقار: نثار بزمی)

4۔ ظلم رہے اور امن بھی ہو/کیا ممکن ہے تم ہی کہو (فلم: یہ امن۔ موسیقار: اے حمید)

5۔ کیوں کہیں یہ ستم آسماں نے کیے/ آسماں سے ہمیں کچھ شکایت نہیں/ دکھ ہمیں جو رہتے اس جہاں نے وہ دیے (فلم: ساز و آواز۔ موسیقار: حسن لطیف ملک)

ملکہ ترنم نورجہاں اور باغی شاعر حبیب جالب دونوں ہی اب اس دنیا میں نہیں ہیں۔ کہتے ہیں ماہ رمضان شریف میں جہنم کے دروازے بند کردیے جاتے ہیں اور جنت کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں، اور واقعہ یہ ہے کہ ملکہ اور باغی شاعر کے لیے اﷲ پاک نے دنیا سے رخصت ہونے کا مہینہ رمضان شریف رکھا۔ حبیب جالب 8 رمضان المبارک کے دن رخصت ہوئے اور نورجہاں اس ماہ مقدس کی اہم ترین رات یعنی 27 ویں شب میں رخصت ہوئیں۔
Load Next Story