جنید جمشید اپنے رب کی طرف لوٹ گئے
جنید جمشید سے راقم کا بہت قریبی تعلق رہا، میری ان سے پہلی ملاقات 1993 میں گارمنٹ کے شعبے سے وابستہ طارق صاحب نے کروائی
گزشتہ دنوں چترال سے اسلام آباد جانے والی پی آئی اے کی پرواز ایبٹ آباد میں حویلیاں کے مقام پر گر کر تباہ ہوگئی، جس میں معروف مذہبی اسکالر جنید جمشید سمیت 47 افراد اپنے رب کی طرف لوٹ گئے۔ اﷲ تعالیٰ جاں بحق ہونے والے تمام افراد کی مغفرت اور انھیں بلند درجات عطا کرے اور ان سب کے اہل خانہ کو صبر جمیل عطا فرمائے (آمین)۔ مذہبی حوالے سے ہم جنید جمشید کی گراں قدر خدمات کو نظرانداز نہیں کرسکتے، وہ رسالت مآبؐ کے سچے عاشق تھے۔
جنید جمشید سے راقم کا بہت قریبی تعلق رہا، میری ان سے پہلی ملاقات 1993 میں گارمنٹ کے شعبے سے وابستہ طارق صاحب نے کروائی۔ انھوں نے ایک شوٹ اپنی ملبوسات کا جنید جمشید سے کروایا تھا۔ اس زمانے میں فوٹوگرافی کا ایک بڑا نام اسرار ندیم مرحوم کا ہوا کرتا تھا، ان کے اسٹوڈیو میں وہ شوٹ ہوا۔ وہ زمانہ بحیثیت گلوکار جنید جمشید کا تھا۔ دوران شوٹ جنید جمشید نے محسوس ہی نہیں ہونے دیا کہ یہ زمانہ جنید جمشید کا ہے، جسے عوامی پذیرائی ہر لمحہ ملتی تھی۔
سادگی جنید میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی۔ یہ میری جنید سے تفصیلی ملاقات تھی اور یہ ملاقات کم ازکم میرے لیے تو یادگار تھی اور اس ملاقات کے بعد جنید سے ہماری بہت یاد اللہ ہوگئی۔ بہاولپور کے ایک بڑے زمیندار ثاقب ہوا کرتے تھے، ان کے صاحبزادے ندیم ثاقب کو گلوکاری کا بہت شوق تھا، اس نے اپنی ایک البم ''تیری یاد'' کے نام سے تیار کی۔ وہ جنید کے بہت اچھے دوستوں میں تھا۔ اس کی بہاولپور میں پریس کانفرنس کے لیے جنید نے مجھ سے کہا اور یوں میں، جنید، صحافی اسد جعفری مرحوم، معروف سماجی شخصیت افضل ہاشمی پریس کانفرنس کے حوالے سے بہاولپور گئے اور راقم نے اس پریس کانفرنس کی تمام تر تیاری کرنے کے بعد ''رنگیلا بازار'' کے قریب ایک اعلیٰ ہوٹل میں اس پریس کانفرنس کا اہتمام کیا جس میں صادق آباد، رحیم یار خان اور ملتان کے نامی گرامی صحافیوں نے خصوصی شرکت کی۔
قابل ذکر بات یہ ہے کہ ندیم کے والد نے تمام صحافیوں کی بہت خوبصورت مہمان نوازی کی جب کہ تقریب کی کمپیئرنگ ماضی کے فلمی ہیرو اور معروف جرنلسٹ اسد جعفری مرحوم نے کی۔ کراچی سے بہاولپور کا سفر ہم سب نے ریل سے کیا۔ دوران سفر جنید جمشید ہر شخص سے بڑی محبت سے ملتے رہے۔ دوران سفر انھوں نے کئی مواقعوں پر مذہب سے اپنائیت کا بہت تذکرہ کیا۔ محسوس ہی نہیں ہورہا تھا کہ یہ پاپ سنگر ہیں، کیونکہ وہ ملی نغمہ ''دل دل پاکستان'' کے ہیرو تھے۔
جنید جمشید نے بحیثیت گلوکار اپنی فنی زندگی کا آغاز پاپ موسیقی گروپ وائٹل سائن سے کیا۔ کئی البم جاری کیے، گٹار ان کی پہچان تھی اور وہ نوجوانوں کے دل کے راجہ تھے اور پھر صراط مستقیم کا راستہ اختیار کرتے ہوئے جنید جمشید نے ''توبہ و استغفار کا دروازہ'' غفورالرحیم اور نبی رحمۃ اللعالمینؐ کے احکامات کی روشنی تلے کھول دیا اور پھر ان کا دل اسلامی تعلیمات کی طرف واجب الاحترام ہوگیا۔ ان کی نعت ''محمدؐ کا روضہ قریب آرہا ہے'' کو رب العزت نے جو اعلیٰ و ارفع مقام دیا وہ دنیائے نعت کا عظیم سرمایہ ہے۔ وہ رمضان پروگرام ''شان مصطفیٰ ؐ'' ایک نجی چینل سے پیش کیا کرتے تھے۔ اس دوران ان سے تقریباً روز ہی ملاقات ہوتی تھی۔
ایک دن ان سے میں نے پوچھ لیا کہ آپ کو سیاسی لیڈر کون پسند ہے؟ سوچ میں پڑگئے اور ہنستے ہوئے کہا کہ جو لوگ میڈیا سے وابستہ ہیں ان کی پسند ان کے دل میں رہتی ہے، وہ لبوں پر اس کا تذکرہ نہیں کرتے۔ میں نے ان کی اس بات سے اتفاق کیا مگر میرے اصرار پر انھوں نے کچھ شخصیات کے نام بتائے۔ عبدالستار ایدھی مرحوم کے لیے انھوں نے بڑے پیار سے کہا، یہاں لوگوں کے پاس رکشے کا کرایہ نہیں ہوتا جب کہ ایدھی کا ادارہ جس متحرک انداز سے مختلف شعبہ ہائے زندگی کے لوگوں کی خدمت کر رہا ہے وہ قابل تحسین ہے، صرف دو سو روپے میں وہ میت اسپتال سے گھر تک لاتے ہیں، یہ سہولت تو لوگوں کو یورپ میں ملتی ہے۔
میری ترجیحات میں صرف وہ لوگ ہیں جو بغیر کسی ہچکچاہٹ کے لوگوں کی مدد کرتے ہیں۔ اس مہنگائی کے زمانے میں مفلوک الحال لوگ ایڑیاں رگڑ رگڑ کر آہوں اور کراہوں کے ساتھ روٹی کو محتاج ہیں۔ اب تو چند گنے چنے لوگ ہی رہ گئے ہیں جو غریبوں کے ساتھ کندھے سے کندھا ملا کر چل رہے ہیں۔جنید جمشید کی خاطر مدارات کے حوالے سے ایک واقعہ آپ کو سناتا ہوں۔ امن اور محبت کا درس دینے والے جنید جمشید کے ساتھ 2011 میں راقم کو حج پر جانے کا موقع ملا، میرے ہمراہ مولانا طارق جمیل بھی تھے۔ ہم منیٰ کے مکتب نمبر 1 میں جاکر ٹھہرے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ اسلام کا سپاہی جنید جمشید گفتگو کا دریا تھا اور پھر سونے پہ سہاگہ مولانا طارق جمیل کے بصیرت افروز خیالات نے دل کے نہاں خانوں میں رب العزت کے نور کو روشن کردیا اور میں نے ایک نئی بات دیکھی جو میرے اور جنید کے ہمراہ دوست حج کی سعادت کے لیے آئے، ان میں اکثریت نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کی تھی، جنھیں جنید ساتھ لے کر آئے تھے اور یہ سارے نوجوان بہت تعلیم یافتہ تھے، جن میں C.A، ڈاکٹر، MBA، کمیشنڈ افسر، مذہبی اسکالر، مفتی حضرات، غرض علم کی ایک انسائیکلو پیڈیا مذہب اسلام سے سرشار تھی۔
کھانے کے تمام انتظامات جنید جمشید کے ذمے تھے اور مکتب میں عالیشان دستر خوان کا اہتمام کیا جاتا۔ نماز فجر کے بعد جنید جمشید اﷲ کے بابرکت نام سے تلاوت اور نعت کے بعد، ذکر کا اہتمام مولانا طارق جمیل کرتے۔ میں اس لمحے کو بیان نہیں کرسکتا۔ واقعی میرے رب نے ہمیں اشرف المخلوقات کا درجہ دیا۔ اس کے بعد ناشتے کا اہتمام ہوتا اور جنید جمشید صبح کے ناشتے پر اپنے ہاتھوں سے حاجیوں کی پلیٹوں میں لوازمات ڈالتے اور جو تکلف کرتا اسے کہتے ''ارے کھاؤ بھئی! اور تم اﷲ کی کس کس نعمت کو ٹھکراؤ گے''۔
ظہر اور عصر کی نماز کی امامت جنید جمشید کرتے، جب کہ مغرب اور عشا کی نماز مولانا طارق جمیل پڑھاتے اور پھر تمام حاجی حضرات ان کے بیان سے مستفید ہوتے۔ ایک بات جو میں نے خاص طور پر محسوس کی کہ سعودی پولیس کے افسران، وزیر حج خاص طور پر جنید جمشید سے ملنے آتے، وہ ان کی بھی کافی سے مہمان نوازی کرتے۔ جنید بڑے مہمان نواز تھے۔
دنیائے اسلام کا یہ دلیر سپاہی ہم سے جدا ہوگیا، وہ بڑی محبت کرنے والا انسان تھا، ہر مکتبہ فکر کے لوگ اس سے محبت کرتے تھے، اکثر عشا کے بعد راقم اور جنید جمشید کھانے کے بعد مکتب کے باہر چہل قدمی کرتے تو وہ بس ایک بات کہتے تھے کہ ''ہمیشہ مفلوک الحال اور بے سروساماں لوگوں پر شفقت کا ہاتھ رکھنا اور حرمت قلم سے ہمیشہ ان غریبوں کا ساتھ دینا جن کا کوئی پرسان حال نہیں کہ یہ سختیاں جھیل کر بھی زندہ رہتے ہیں''۔ انھوں نے ایک بہت خاص پیغام راقم کو دیتے ہوئے کہا کہ پروردگار عالم نے مجھے اور آپ کو جو ذمے داری عطا کی اسے زندگی میں ہی پورا کرنے کی کوشش کرنی ہے کہ ہمیں اپنے رب ذوالجلال کی طرف لوٹنا ہے۔
جنید جمشید سے راقم کا بہت قریبی تعلق رہا، میری ان سے پہلی ملاقات 1993 میں گارمنٹ کے شعبے سے وابستہ طارق صاحب نے کروائی۔ انھوں نے ایک شوٹ اپنی ملبوسات کا جنید جمشید سے کروایا تھا۔ اس زمانے میں فوٹوگرافی کا ایک بڑا نام اسرار ندیم مرحوم کا ہوا کرتا تھا، ان کے اسٹوڈیو میں وہ شوٹ ہوا۔ وہ زمانہ بحیثیت گلوکار جنید جمشید کا تھا۔ دوران شوٹ جنید جمشید نے محسوس ہی نہیں ہونے دیا کہ یہ زمانہ جنید جمشید کا ہے، جسے عوامی پذیرائی ہر لمحہ ملتی تھی۔
سادگی جنید میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی۔ یہ میری جنید سے تفصیلی ملاقات تھی اور یہ ملاقات کم ازکم میرے لیے تو یادگار تھی اور اس ملاقات کے بعد جنید سے ہماری بہت یاد اللہ ہوگئی۔ بہاولپور کے ایک بڑے زمیندار ثاقب ہوا کرتے تھے، ان کے صاحبزادے ندیم ثاقب کو گلوکاری کا بہت شوق تھا، اس نے اپنی ایک البم ''تیری یاد'' کے نام سے تیار کی۔ وہ جنید کے بہت اچھے دوستوں میں تھا۔ اس کی بہاولپور میں پریس کانفرنس کے لیے جنید نے مجھ سے کہا اور یوں میں، جنید، صحافی اسد جعفری مرحوم، معروف سماجی شخصیت افضل ہاشمی پریس کانفرنس کے حوالے سے بہاولپور گئے اور راقم نے اس پریس کانفرنس کی تمام تر تیاری کرنے کے بعد ''رنگیلا بازار'' کے قریب ایک اعلیٰ ہوٹل میں اس پریس کانفرنس کا اہتمام کیا جس میں صادق آباد، رحیم یار خان اور ملتان کے نامی گرامی صحافیوں نے خصوصی شرکت کی۔
قابل ذکر بات یہ ہے کہ ندیم کے والد نے تمام صحافیوں کی بہت خوبصورت مہمان نوازی کی جب کہ تقریب کی کمپیئرنگ ماضی کے فلمی ہیرو اور معروف جرنلسٹ اسد جعفری مرحوم نے کی۔ کراچی سے بہاولپور کا سفر ہم سب نے ریل سے کیا۔ دوران سفر جنید جمشید ہر شخص سے بڑی محبت سے ملتے رہے۔ دوران سفر انھوں نے کئی مواقعوں پر مذہب سے اپنائیت کا بہت تذکرہ کیا۔ محسوس ہی نہیں ہورہا تھا کہ یہ پاپ سنگر ہیں، کیونکہ وہ ملی نغمہ ''دل دل پاکستان'' کے ہیرو تھے۔
جنید جمشید نے بحیثیت گلوکار اپنی فنی زندگی کا آغاز پاپ موسیقی گروپ وائٹل سائن سے کیا۔ کئی البم جاری کیے، گٹار ان کی پہچان تھی اور وہ نوجوانوں کے دل کے راجہ تھے اور پھر صراط مستقیم کا راستہ اختیار کرتے ہوئے جنید جمشید نے ''توبہ و استغفار کا دروازہ'' غفورالرحیم اور نبی رحمۃ اللعالمینؐ کے احکامات کی روشنی تلے کھول دیا اور پھر ان کا دل اسلامی تعلیمات کی طرف واجب الاحترام ہوگیا۔ ان کی نعت ''محمدؐ کا روضہ قریب آرہا ہے'' کو رب العزت نے جو اعلیٰ و ارفع مقام دیا وہ دنیائے نعت کا عظیم سرمایہ ہے۔ وہ رمضان پروگرام ''شان مصطفیٰ ؐ'' ایک نجی چینل سے پیش کیا کرتے تھے۔ اس دوران ان سے تقریباً روز ہی ملاقات ہوتی تھی۔
ایک دن ان سے میں نے پوچھ لیا کہ آپ کو سیاسی لیڈر کون پسند ہے؟ سوچ میں پڑگئے اور ہنستے ہوئے کہا کہ جو لوگ میڈیا سے وابستہ ہیں ان کی پسند ان کے دل میں رہتی ہے، وہ لبوں پر اس کا تذکرہ نہیں کرتے۔ میں نے ان کی اس بات سے اتفاق کیا مگر میرے اصرار پر انھوں نے کچھ شخصیات کے نام بتائے۔ عبدالستار ایدھی مرحوم کے لیے انھوں نے بڑے پیار سے کہا، یہاں لوگوں کے پاس رکشے کا کرایہ نہیں ہوتا جب کہ ایدھی کا ادارہ جس متحرک انداز سے مختلف شعبہ ہائے زندگی کے لوگوں کی خدمت کر رہا ہے وہ قابل تحسین ہے، صرف دو سو روپے میں وہ میت اسپتال سے گھر تک لاتے ہیں، یہ سہولت تو لوگوں کو یورپ میں ملتی ہے۔
میری ترجیحات میں صرف وہ لوگ ہیں جو بغیر کسی ہچکچاہٹ کے لوگوں کی مدد کرتے ہیں۔ اس مہنگائی کے زمانے میں مفلوک الحال لوگ ایڑیاں رگڑ رگڑ کر آہوں اور کراہوں کے ساتھ روٹی کو محتاج ہیں۔ اب تو چند گنے چنے لوگ ہی رہ گئے ہیں جو غریبوں کے ساتھ کندھے سے کندھا ملا کر چل رہے ہیں۔جنید جمشید کی خاطر مدارات کے حوالے سے ایک واقعہ آپ کو سناتا ہوں۔ امن اور محبت کا درس دینے والے جنید جمشید کے ساتھ 2011 میں راقم کو حج پر جانے کا موقع ملا، میرے ہمراہ مولانا طارق جمیل بھی تھے۔ ہم منیٰ کے مکتب نمبر 1 میں جاکر ٹھہرے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ اسلام کا سپاہی جنید جمشید گفتگو کا دریا تھا اور پھر سونے پہ سہاگہ مولانا طارق جمیل کے بصیرت افروز خیالات نے دل کے نہاں خانوں میں رب العزت کے نور کو روشن کردیا اور میں نے ایک نئی بات دیکھی جو میرے اور جنید کے ہمراہ دوست حج کی سعادت کے لیے آئے، ان میں اکثریت نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کی تھی، جنھیں جنید ساتھ لے کر آئے تھے اور یہ سارے نوجوان بہت تعلیم یافتہ تھے، جن میں C.A، ڈاکٹر، MBA، کمیشنڈ افسر، مذہبی اسکالر، مفتی حضرات، غرض علم کی ایک انسائیکلو پیڈیا مذہب اسلام سے سرشار تھی۔
کھانے کے تمام انتظامات جنید جمشید کے ذمے تھے اور مکتب میں عالیشان دستر خوان کا اہتمام کیا جاتا۔ نماز فجر کے بعد جنید جمشید اﷲ کے بابرکت نام سے تلاوت اور نعت کے بعد، ذکر کا اہتمام مولانا طارق جمیل کرتے۔ میں اس لمحے کو بیان نہیں کرسکتا۔ واقعی میرے رب نے ہمیں اشرف المخلوقات کا درجہ دیا۔ اس کے بعد ناشتے کا اہتمام ہوتا اور جنید جمشید صبح کے ناشتے پر اپنے ہاتھوں سے حاجیوں کی پلیٹوں میں لوازمات ڈالتے اور جو تکلف کرتا اسے کہتے ''ارے کھاؤ بھئی! اور تم اﷲ کی کس کس نعمت کو ٹھکراؤ گے''۔
ظہر اور عصر کی نماز کی امامت جنید جمشید کرتے، جب کہ مغرب اور عشا کی نماز مولانا طارق جمیل پڑھاتے اور پھر تمام حاجی حضرات ان کے بیان سے مستفید ہوتے۔ ایک بات جو میں نے خاص طور پر محسوس کی کہ سعودی پولیس کے افسران، وزیر حج خاص طور پر جنید جمشید سے ملنے آتے، وہ ان کی بھی کافی سے مہمان نوازی کرتے۔ جنید بڑے مہمان نواز تھے۔
دنیائے اسلام کا یہ دلیر سپاہی ہم سے جدا ہوگیا، وہ بڑی محبت کرنے والا انسان تھا، ہر مکتبہ فکر کے لوگ اس سے محبت کرتے تھے، اکثر عشا کے بعد راقم اور جنید جمشید کھانے کے بعد مکتب کے باہر چہل قدمی کرتے تو وہ بس ایک بات کہتے تھے کہ ''ہمیشہ مفلوک الحال اور بے سروساماں لوگوں پر شفقت کا ہاتھ رکھنا اور حرمت قلم سے ہمیشہ ان غریبوں کا ساتھ دینا جن کا کوئی پرسان حال نہیں کہ یہ سختیاں جھیل کر بھی زندہ رہتے ہیں''۔ انھوں نے ایک بہت خاص پیغام راقم کو دیتے ہوئے کہا کہ پروردگار عالم نے مجھے اور آپ کو جو ذمے داری عطا کی اسے زندگی میں ہی پورا کرنے کی کوشش کرنی ہے کہ ہمیں اپنے رب ذوالجلال کی طرف لوٹنا ہے۔