جنید جمشید کا کمال
جنید جمشید ایک عجیب و غریب کمال دکھا گئے
جنید جمشید ایک عجیب و غریب کمال دکھا گئے۔ ایک ایسا اعزاز پا گئے جو پاکستان کی تاریخ میں شاید ہی کسی کے حصے میں آیا ہو۔ نہ کسی گلوکار سے یہ ہوسکا اور نہ کسی اداکار سے۔ ایسا کمال نہ کوئی کھلاڑی دکھا سکا اور نہ کوئی سیاستدان۔ نہ کسی حکمران کے بس میں یہ رہا اور نہ کسی قانون دان کے۔ موت کے بعد ایسے غم زدہ نہ کسی سماجی کارکن کو ملے اور نہ کسی صحافی کے انتقال پر اس نوعیت کے تعزیت کرنے والے لوگ تھے۔ 7 دسمبر کو چترال سے اسلام آباد جاتے ہوئے ہوائی حادثے میں شہید ہونے والے جنید جمشید کے حصے میں جو سرفرازی آئی اس کی نوعیت بڑی انوکھی ہے۔
یہ نوے کے عشرے سے کچھ پہلے کی بات ہے، خوشحال گھرانوں میں جنم لینے والے موسیقی کے شوقین نوجوانوں نے گروپ کی شکل میں گانے شروع کیے۔ جنید جمشید نے بھی چند ساتھیوں کے ساتھ Vital Signs نامی گروپ بنایا۔ ''دل دل پاکستان'' اور ''سانولی سلونی سی محبوبہ'' نے انھیں مقبولیت کے آسمان تک پہنچادیا۔ اس سے پہلے مہدی حسن، احمد رشدی اور مسعود رانا فلمی موسیقی کے درخشاں ستارے تھے۔ یہ ستر کی دہائی تھی۔ آج ان میں سے کوئی بھی ہمارے درمیان نہیں۔ ملکہ ترنم کہلانے والی نورجہاں بھی انتقال کرگئیں۔
کسی مرحوم گلوکار کے حصے میں وہ اعزاز نہ آیا جو قدرت نے جنید جمشید کے لیے لکھ دیا۔ موسیقی کی دنیا میں مقبولیت کے حوالے سے اور کام کی تعداد و معیار کے لحاظ سے جنید کا شمار پچھلی صفوں میں ہوتا ہے، پھر بھی وہ کمال دکھا گئے۔ وہ کمال جو کسی بڑے سے بڑے گلوکار کے حصے میں نہ آیا۔ امجد صابری ہر دلعزیز قوال تھے جن کی موت پر ہر آنکھ اشک بار تھی۔ ان کے جنازے میں بے شمار شہریوں نے شرکت کی، لیکن جو کمال جنید جمشید نے دکھایا، وہ شاید تحریک آزادی کے چند رہنماؤں کے حصے میں ہی آیا ہو۔وحید مراد اپنے دور کے مقبول ہیرو تھے۔ انتقال کے کئی عشرے گزر جانے کے باوجود بھی چاکلیٹی ہیرو یاد رکھے جا رہے ہیں۔
سنتوش اور درپن بھی اپنے دور کے بڑے فنکار تھے۔ محمد علی، طالش اور شمیم آرا جیسے پاکستانی فنکار ہوں یا راج کپور، نرگس اور امریش پوری جیسے ہندوستانی کلاکار، کسی کے حصے میں بعد از مرگ وہ اعزاز نہیں آیا جو جنید جمشید کا مقدر ٹھہرا۔ شاید دلیپ کمار اور امیتابھ بچن کے حصے میں وہ عزت افزائی نہ آئے جو قدرت نے جنید جمشید کے لیے لکھ دی۔ گلوکاروں اور اداکاروں کے بعد ہم کھیل کے میدان کی طرف نظر دوڑاتے ہیں۔
حنیف محمد اپنے وقت کے بہت بڑے بیٹسمین اور فضل محمود اسی دور کے بہت بڑے بالر تھے۔ ان کھلاڑیوں نے اپنے ذہین کپتان عبدالحفیظ کاردار کے لیے وہ حالات پیدا کیے کہ پاکستانی کرکٹ ٹیم نے بھارت اور انگلینڈ کو ان کی اپنی سرزمین پر شکست سے دوچار کردیا۔ یہ پاکستان کے ابتدائی عشرے کی بات ہے۔ اپنی تمام تر مقبولیت کے باوجود کرکٹ کے دو بڑے کھلاڑی اس فہرست میں نہیں آتے جس میں جنید جمشید شامل ہیں۔
گفتگو کا مقصد کسی کو کمتر ٹھہرانا نہیں بلکہ ایک انوکھے اعزاز کی بات کرنا ہے۔ ہاکی کے دھیان چند اور نصیر بُندہ کو بھی اس فہرست میں شامل نہیں کیا جاسکتا جو جنید جمشید کا مقدر ٹھہری ہے۔ ایک ہاکی کی دنیا کا سب سے بڑا کھلاڑی تو دوسرا روم اولمپکس کے فائنل میں اکلوتا گول کرکے پاکستان کو بھارت کے مقابل پہلی مرتبہ سونے کا تمغہ دلانے والا کھلاڑی۔
اداکاروں، گلوکاروں اور کھلاڑیوں کے بعد ہم حکمرانوں اور قانون دانوں کی طرف آتے ہیں۔ غلام محمد، اسکندر مرزا اور یحییٰ خان کا ذکر کرکے ہم اپنے قارئین کا ذہنی ذائقہ خراب نہیں کرنا چاہتے۔ سہروردی، چندریگر اور جونیجو جیسے وزرائے اعظم ہوں یا ایوب، اسحق اور لغاری جیسے صدور، ان بڑے بڑے عہدوں پر فائز حکمرانوں کو وہ اعزاز نہیں ملا جو جنید جمشید کے حصے میں آیا ہے۔ اے کے بروہی اور خالد اسحق جیسے بڑے وکلا ہوں یا کارنیلس، کیانی اور کیکاؤس جیسے ججز، کسی کو انتقال کے بعد مختلف النوع سوگواروں کا ہجوم نہیں ملا جو جنید جمشید کا مقدر ٹھہرا۔ جنید کے جنازے میں جس نوعیت کے لوگ تھے وہ کم کم کا نصیب بنتا ہے۔
عبدالستار ایدھی جیسا مخلص سماجی کارکن اب شاید ہی پیدا ہوسکے۔ زندگی جس کی روشن اور موت جس کی تابناک۔ ایسی ہستی جس کے جنازے میں عوام و خواص نے جوق در جوق شرکت کی۔ اپنی تمام تر خوبیوں اور اعزازات کے باوجود جنید جمشید کا اعزاز انوکھا ہے۔
جنید جمشید کے اعزاز کو تھوڑی دیر کے لیے، جی ہاں صرف تھوڑی دیر کے لیے ایک طرف رکھ کر ہم دنیا بھر کے معاشرتی مزاج کا جائزہ لیتے ہیں کہ اسی سے گلوکاری کی دنیا سے نعت خوانی کی دنیا میں جانے والے کے اعزاز کا راز کھلے گا۔ چاہے ہالی وڈ ہو یا بالی وڈ، ایران کی فلم انڈسٹری ہو یا سعودی عرب کے فنکار، یہ سب کیا چاہتے ہیں؟ آزادی سے کام کرنا۔ بھرپور آزادی کی طلب میں یہ حد سے گزر جاتے ہیں تو معاشرہ ان کی گرفت کرتا ہے۔
سنسر بورڈ کی شکل میں یا اصلاحی تنظیموں کی صورت میں۔ فن پر قدغن نہ لگانے کا مطالبہ کرنے والے فنکار ایک طرف ہوتے ہیں تو آزادی کو آوارگی میں بدلنے کا الزام لگانے والے دوسری طرف۔ یوں معاشرہ دو طبقات میں بٹ جاتا ہے۔ پاکستانی معاشرہ بھی اور دنیا کا ہر سماج۔ دونوں طبقات اپنی اپنی انتہاؤں پر ہوتے ہیں۔ ان کو جوڑنے والا کوئی نہیں ہوتا۔ ہر کوئی یہاں ہوتا ہے یا وہاں۔ فنکاروں اور علمائے کرام کے درمیان کوئی پل کا کردار ادا نہیں کرسکتا۔ یہ تھا کمال جنید جمشید کا۔ ایک خوش شکل و خوش گلو اور مقبول گلوکار رنگ و نور کی چمکتی دمکتی دنیا کو چھوڑ کر دین کی سادہ سی زندگی میں چلا گیا۔
ایسا اب تک پاکستان کی تاریخ میں کسی نے نہیں کیا۔ کئی کھلاڑی شہرت کی بلندیوں کو چھو کر تبلیغ دین میں منسلک ہوئے لیکن ریٹائرمنٹ کے بعد۔ بھرا پڑا میلہ چھوڑ کر جنید جمشید نے دین کی راہ اپنائی۔ اب تک کسی گلوکار اور اداکار نے اس طرح کی دو دنیاؤں کی بلندی کا مزہ نہیں چکھا۔ یہ اعزاز جنید جمشید کے نصیب میں آیا کہ اس کی موت پر فنکار بھی آنسو بہا رہے ہیں تو علمائے دین بھی افسوس کا اظہار کر رہے ہیں۔ ایسا کسی کی موت پر کب ہوا ہے؟
جنید جمشید کا یہ ہے کمال۔ ایسا اعزاز اب تک کسی کے حصے میں نہیں آیا۔ پاکستان کے بڑے بڑے اداکار، مشہور گلوکار، مقبول اینکر پرسنز اور ہر دلعزیز فنکار جنید کی شہادت پر غم زدہ ہیں تو دوسری طرف پاکستان کے جید ترین علمائے کرام بھی افسردہ ہیں۔ اب تک یہ ہوتا رہا ہے کہ کسی فنکار کی موت پر فنکار آنسو بہائیں تو عالم کی موت پر علما کرام غم زدہ ہوں۔ عالم نہ ہونے کے باوجود یہ جنید کا کمال کہ ان کی موت پر معاشرے کے دونوں طبقات آنسو بہا رہے ہیں۔
یہ تعظیم ہے جنید کی۔ ایک انوکھی عزت افزائی اور سرفرازی ہے کہ متضاد انداز سے زندگی گزارنے والے دو طبقات جنید کو اپنا سمجھ رہے ہیں۔ جنید سنگم بن گئے ہیں علما اور فنکاروں کے درمیان۔ جنید جمشید آج بھی، جی ہاں آج بھی فن کی دنیا کی بڑی بڑی شخصیات اور علم کی دنیا کی برگزیدہ ہستیوں کو ایک تعزیتی مجلس اکٹھا کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ جنید کی موت کا غم دونوں کا مشترکہ غم قرار پاتا ہے۔ واقعتاً کیا یہ نہیں ہے جنید جمشید کا کمال؟
یہ نوے کے عشرے سے کچھ پہلے کی بات ہے، خوشحال گھرانوں میں جنم لینے والے موسیقی کے شوقین نوجوانوں نے گروپ کی شکل میں گانے شروع کیے۔ جنید جمشید نے بھی چند ساتھیوں کے ساتھ Vital Signs نامی گروپ بنایا۔ ''دل دل پاکستان'' اور ''سانولی سلونی سی محبوبہ'' نے انھیں مقبولیت کے آسمان تک پہنچادیا۔ اس سے پہلے مہدی حسن، احمد رشدی اور مسعود رانا فلمی موسیقی کے درخشاں ستارے تھے۔ یہ ستر کی دہائی تھی۔ آج ان میں سے کوئی بھی ہمارے درمیان نہیں۔ ملکہ ترنم کہلانے والی نورجہاں بھی انتقال کرگئیں۔
کسی مرحوم گلوکار کے حصے میں وہ اعزاز نہ آیا جو قدرت نے جنید جمشید کے لیے لکھ دیا۔ موسیقی کی دنیا میں مقبولیت کے حوالے سے اور کام کی تعداد و معیار کے لحاظ سے جنید کا شمار پچھلی صفوں میں ہوتا ہے، پھر بھی وہ کمال دکھا گئے۔ وہ کمال جو کسی بڑے سے بڑے گلوکار کے حصے میں نہ آیا۔ امجد صابری ہر دلعزیز قوال تھے جن کی موت پر ہر آنکھ اشک بار تھی۔ ان کے جنازے میں بے شمار شہریوں نے شرکت کی، لیکن جو کمال جنید جمشید نے دکھایا، وہ شاید تحریک آزادی کے چند رہنماؤں کے حصے میں ہی آیا ہو۔وحید مراد اپنے دور کے مقبول ہیرو تھے۔ انتقال کے کئی عشرے گزر جانے کے باوجود بھی چاکلیٹی ہیرو یاد رکھے جا رہے ہیں۔
سنتوش اور درپن بھی اپنے دور کے بڑے فنکار تھے۔ محمد علی، طالش اور شمیم آرا جیسے پاکستانی فنکار ہوں یا راج کپور، نرگس اور امریش پوری جیسے ہندوستانی کلاکار، کسی کے حصے میں بعد از مرگ وہ اعزاز نہیں آیا جو جنید جمشید کا مقدر ٹھہرا۔ شاید دلیپ کمار اور امیتابھ بچن کے حصے میں وہ عزت افزائی نہ آئے جو قدرت نے جنید جمشید کے لیے لکھ دی۔ گلوکاروں اور اداکاروں کے بعد ہم کھیل کے میدان کی طرف نظر دوڑاتے ہیں۔
حنیف محمد اپنے وقت کے بہت بڑے بیٹسمین اور فضل محمود اسی دور کے بہت بڑے بالر تھے۔ ان کھلاڑیوں نے اپنے ذہین کپتان عبدالحفیظ کاردار کے لیے وہ حالات پیدا کیے کہ پاکستانی کرکٹ ٹیم نے بھارت اور انگلینڈ کو ان کی اپنی سرزمین پر شکست سے دوچار کردیا۔ یہ پاکستان کے ابتدائی عشرے کی بات ہے۔ اپنی تمام تر مقبولیت کے باوجود کرکٹ کے دو بڑے کھلاڑی اس فہرست میں نہیں آتے جس میں جنید جمشید شامل ہیں۔
گفتگو کا مقصد کسی کو کمتر ٹھہرانا نہیں بلکہ ایک انوکھے اعزاز کی بات کرنا ہے۔ ہاکی کے دھیان چند اور نصیر بُندہ کو بھی اس فہرست میں شامل نہیں کیا جاسکتا جو جنید جمشید کا مقدر ٹھہری ہے۔ ایک ہاکی کی دنیا کا سب سے بڑا کھلاڑی تو دوسرا روم اولمپکس کے فائنل میں اکلوتا گول کرکے پاکستان کو بھارت کے مقابل پہلی مرتبہ سونے کا تمغہ دلانے والا کھلاڑی۔
اداکاروں، گلوکاروں اور کھلاڑیوں کے بعد ہم حکمرانوں اور قانون دانوں کی طرف آتے ہیں۔ غلام محمد، اسکندر مرزا اور یحییٰ خان کا ذکر کرکے ہم اپنے قارئین کا ذہنی ذائقہ خراب نہیں کرنا چاہتے۔ سہروردی، چندریگر اور جونیجو جیسے وزرائے اعظم ہوں یا ایوب، اسحق اور لغاری جیسے صدور، ان بڑے بڑے عہدوں پر فائز حکمرانوں کو وہ اعزاز نہیں ملا جو جنید جمشید کے حصے میں آیا ہے۔ اے کے بروہی اور خالد اسحق جیسے بڑے وکلا ہوں یا کارنیلس، کیانی اور کیکاؤس جیسے ججز، کسی کو انتقال کے بعد مختلف النوع سوگواروں کا ہجوم نہیں ملا جو جنید جمشید کا مقدر ٹھہرا۔ جنید کے جنازے میں جس نوعیت کے لوگ تھے وہ کم کم کا نصیب بنتا ہے۔
عبدالستار ایدھی جیسا مخلص سماجی کارکن اب شاید ہی پیدا ہوسکے۔ زندگی جس کی روشن اور موت جس کی تابناک۔ ایسی ہستی جس کے جنازے میں عوام و خواص نے جوق در جوق شرکت کی۔ اپنی تمام تر خوبیوں اور اعزازات کے باوجود جنید جمشید کا اعزاز انوکھا ہے۔
جنید جمشید کے اعزاز کو تھوڑی دیر کے لیے، جی ہاں صرف تھوڑی دیر کے لیے ایک طرف رکھ کر ہم دنیا بھر کے معاشرتی مزاج کا جائزہ لیتے ہیں کہ اسی سے گلوکاری کی دنیا سے نعت خوانی کی دنیا میں جانے والے کے اعزاز کا راز کھلے گا۔ چاہے ہالی وڈ ہو یا بالی وڈ، ایران کی فلم انڈسٹری ہو یا سعودی عرب کے فنکار، یہ سب کیا چاہتے ہیں؟ آزادی سے کام کرنا۔ بھرپور آزادی کی طلب میں یہ حد سے گزر جاتے ہیں تو معاشرہ ان کی گرفت کرتا ہے۔
سنسر بورڈ کی شکل میں یا اصلاحی تنظیموں کی صورت میں۔ فن پر قدغن نہ لگانے کا مطالبہ کرنے والے فنکار ایک طرف ہوتے ہیں تو آزادی کو آوارگی میں بدلنے کا الزام لگانے والے دوسری طرف۔ یوں معاشرہ دو طبقات میں بٹ جاتا ہے۔ پاکستانی معاشرہ بھی اور دنیا کا ہر سماج۔ دونوں طبقات اپنی اپنی انتہاؤں پر ہوتے ہیں۔ ان کو جوڑنے والا کوئی نہیں ہوتا۔ ہر کوئی یہاں ہوتا ہے یا وہاں۔ فنکاروں اور علمائے کرام کے درمیان کوئی پل کا کردار ادا نہیں کرسکتا۔ یہ تھا کمال جنید جمشید کا۔ ایک خوش شکل و خوش گلو اور مقبول گلوکار رنگ و نور کی چمکتی دمکتی دنیا کو چھوڑ کر دین کی سادہ سی زندگی میں چلا گیا۔
ایسا اب تک پاکستان کی تاریخ میں کسی نے نہیں کیا۔ کئی کھلاڑی شہرت کی بلندیوں کو چھو کر تبلیغ دین میں منسلک ہوئے لیکن ریٹائرمنٹ کے بعد۔ بھرا پڑا میلہ چھوڑ کر جنید جمشید نے دین کی راہ اپنائی۔ اب تک کسی گلوکار اور اداکار نے اس طرح کی دو دنیاؤں کی بلندی کا مزہ نہیں چکھا۔ یہ اعزاز جنید جمشید کے نصیب میں آیا کہ اس کی موت پر فنکار بھی آنسو بہا رہے ہیں تو علمائے دین بھی افسوس کا اظہار کر رہے ہیں۔ ایسا کسی کی موت پر کب ہوا ہے؟
جنید جمشید کا یہ ہے کمال۔ ایسا اعزاز اب تک کسی کے حصے میں نہیں آیا۔ پاکستان کے بڑے بڑے اداکار، مشہور گلوکار، مقبول اینکر پرسنز اور ہر دلعزیز فنکار جنید کی شہادت پر غم زدہ ہیں تو دوسری طرف پاکستان کے جید ترین علمائے کرام بھی افسردہ ہیں۔ اب تک یہ ہوتا رہا ہے کہ کسی فنکار کی موت پر فنکار آنسو بہائیں تو عالم کی موت پر علما کرام غم زدہ ہوں۔ عالم نہ ہونے کے باوجود یہ جنید کا کمال کہ ان کی موت پر معاشرے کے دونوں طبقات آنسو بہا رہے ہیں۔
یہ تعظیم ہے جنید کی۔ ایک انوکھی عزت افزائی اور سرفرازی ہے کہ متضاد انداز سے زندگی گزارنے والے دو طبقات جنید کو اپنا سمجھ رہے ہیں۔ جنید سنگم بن گئے ہیں علما اور فنکاروں کے درمیان۔ جنید جمشید آج بھی، جی ہاں آج بھی فن کی دنیا کی بڑی بڑی شخصیات اور علم کی دنیا کی برگزیدہ ہستیوں کو ایک تعزیتی مجلس اکٹھا کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ جنید کی موت کا غم دونوں کا مشترکہ غم قرار پاتا ہے۔ واقعتاً کیا یہ نہیں ہے جنید جمشید کا کمال؟