کروڑ پتی خاتون کی ’چھولے چاٹ‘ کی ریڑھی

حالات بدلے تو نرسری ٹیچر نے جمع پونجی پر بھروسا کرنے کے بہ جائے دور اندیشانہ فیصلہ کیا


Rizwan Tahir Mubeen December 19, 2016
اپنا ہنر کام میں لائیں، یہ نہ سوچیں کہ لوگ کیا کہیں گے، ارواشی یادیو۔ فوٹو: فائل

ہر نئی صبح جب سب لوگ اپنے معمولات کے لیے تیار ہو رہے ہوتے ہیں۔۔۔ گرو گرام (گڑ گاؤں) سیکٹر 14 میں گلاب سوئیٹس کے مقابل پیپل کے گھنے پیڑ کے 'مکین' بھی دانا دنکا چگنے کے واسطے ایک ڈالی سے دوسری ڈالی پر لپکتے ہیں ایک پیڑ سے دوسرے پیڑ کی طرف اڑان بھرتے ہیں۔۔۔ تنکوں سے بنے نازک سے آشیانوں میں سانس لیتی ننھی منّی سی جانیں منتظر ہوتی ہیں کہ کب ان کی ماں چونچ میں رزق لیے آئے گی۔۔۔ پھر کبھی جلد اور کبھی دیر سے جانے کتنی مائیں گھونسلوں میں موجود پہلے اپنے جگر گوشوں کا پیٹ بھرتی ہیں۔۔۔ اس کے بعد اپنی پیٹ پوچا کا سامان کرتی ہیں۔۔۔ اسی دوران لگ بھگ کوئی ساڑھے آٹھ بجے اسی پیپل کے درخت کی چھایا بھی آباد ہونے لگتی ہے اور یہاں ایک صاف ستھرا ٹھیلا آموجود ہوتا ہے، جس پر کھانے کے واسطے ایک الاؤ دہکایا جاتا ہے۔۔۔ اور کچھ ہی دیر میں ارد گرد کی فضا مٹر اور چھولے کی بھینی بھینی خوش بو سے مہک جاتی ہے۔ دفاتر کو روانہ ہونے والے یہاں ٹھیرتے ہیں تو کالج کے طلبا و طالبات کی چہل پہل بھی ہوتی ہے، ساتھ ہی کھانے پینے کے دیگر شوقین بھی آپہنچتے ہیں اور یوں ایک جمگٹھا سا لگ جاتا ہے۔

ریڑھی پر جلی حروف میں ''چھولے چاٹ'' لکھا ہوا ہے، اس کے نیچے 'پراٹھے، آلو، رائتہ اور سبزی' بھی کنندہ ہے۔ گھر کے باورچی خانوں جیسا ایک چولھا بھی یہاں دھرا ہے۔۔۔ نمک، اور مرچ مسالوں کے واسطے صاف ستھرے ڈبے، کتری ہوئی پیاز، سلاد اور رائتہ بھی سلیقے سے رکھا ہوا ہے۔ قریب ہی ایک کھلی ہوئی تھیلی میں سرخ سرخ ٹماٹر دکھائی دے رہے ہیں، اس کی باجو والی تھیلی میں پودینے اور ہرے دھنیے کی تازہ شاخیں ہیں۔ ڈھکنا ڈھکی ہوئی چھوٹی پتیلیوں میں پکے ہوئے چھولے ہیں۔ ساتھ ہی صاف ستھری رکابیاں بھی رکھی ہوئی ہیں اور ایک چمچماتا آب خورہ بھی۔ زمین پر قریب ہی ایک کوڑے دان بھی رکھا ہوا ہے۔۔۔ غور کریں، تو یہ مکمل طور پر کسی سلیقہ مند خاتون کے باورچی خانے کا نقشہ دکھائی دیتا ہے۔۔۔ جہاں ہنڈیا چولھے پر چڑھائی جا رہی ہو اور کیوں نہ ہو، آخر اس دیکھ ریکھ ایک ایسی ہی باشعور اور سمجھ دار خاتون 'ارواشی یادیو' ہی تو کر رہی ہیں۔ سڑک کے کنارے چار پہیوں والی لکڑی کی یہ ریڑھی اور اس پر دھری چوڑے پیندے کی چپٹی سی دیگ ہی تو اسے گھر کے باورچی خانے سے مختلف کر رہی ہے۔



یہ منظر جس شہر گروگرام کا ہے، وہ ہندوستان کا ایک جدید اور ترقی یافتہ شہر ہے۔ یہ درالحکومت نئی دلی کے جنوب مغرب میں 32 کلو میٹر کی مسافت پر واقع ہے۔ چندی گڑھ سے اس کا فاصلہ 268 کلو میٹر ہے۔ بلند وبالا عمارتوں کا حامل یہ شہر انتظامی طور پر ریاست ہریانہ کا حصہ ہے۔ پہلے یہ گڑگاؤں کے نام سے جانا جاتا تھا، اب اسے گروگرام سے موسوم کر دیا گیا ہے۔

پیپل کے یپڑ کے نیچے کھڑے ہوئے اس ٹھیلے پر موجود 34 سالہ ارواشی یادیو پوسٹ گریجویٹ اور نرسری کے بچوں کی استاد رہی ہیں۔ اب ہم یقیناً یہ سوچ رہے ہوں گے ارواشی یادیو فقروفاقہ کی ڈسی ہوئی کوئی خاتون ہوں گی۔۔۔ لیکن یہاں ایک مختلف ماجرا ہے۔

ارواشی یادیو کے شوہر 37 سالہ امیت یادیو ایک تعمیراتی ادارے سے ایگزیکٹو کے طور پر منسلک تھے، جب کہ ارواشی نرسری کے بچوں کی تدریس پر مامور۔ ایک کھاتے پیتے گھرانے میں سب کچھ اچھی طرح چل رہا تھا۔۔۔ یکایک 31 مئی 2016ء کو ان کی زندگی نے کروٹ بدلی۔۔۔ امیت یادیو کو ایک حادثہ پیش آیا اور انہیں گہری چوٹیں آئیں۔ معالجین نے گھائل امیت یادیو کے لیے ایک پیچیدہ آپریشن تجویز کیا، تشویش ناک بات یہ تھی کہ آپریشن کے بعد بھی ان کے دوبارہ چلنے پھرنے کے امکانات زیادہ روشن نہیں تھے۔ امیت یادیو کی ملازمت جاتی رہی۔ گھر کے مرکزی کفیل کے یہ گھاؤ براہ راست تمام گھر والوں کے مستقبل کے لیے مشکلات پیدا کر گئے۔

ایسے میں ان کی نصف بہتر ارواشی یادیو نے اپنی اسکول کی تدریس پر نظرثانی کی۔ اسکول کی لگی بندھی تنخواہ کو گھر بھرکی کفالت کے لیے ناکافی جانا اور ایک باقاعدہ کاروبار کی داغ بیل ڈالنے کا ارادہ کیا۔ یہاں یہ امر دل چسپی سے خالی نہیں کہ وہ جس گھر میں رہتی ہیں، اس کا رقبہ 300 مربع گز ہے، اس کی مالیت تین کروڑ روپے تک ہے۔ بلند معیار زندگی کے حامل اس گھر میں بیش قیمت گاڑیاں بھی موجود ہیں۔



فی الحال تو ارواشی یادیو اور ان کے اہل خانہ کو کسی مالی مشکل کا سامنا نہیں تھا، لیکن انہوں نے دور اندیشی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنا کاروبار کرنے کی ٹھانی، لیکن اس کے لیے فوری طور پر سرمائے کی کمی کا مسئلہ درپیش تھا، اپنے شریک حیات سے مشاورت کے بعد انہوں نے اس ٹھیلے کی صورت نئے کاروبار کا ڈول ڈالا، تاکہ بڑے پیمانے پر کاروبار کے لیے رقم جمع کر سکیں۔

کاروبار کایہ ڈھب انہیں کس طرح سُوجھا؟ اس بابت وہ بتاتی ہیں کہ ایک دن وہ اپنے شوہر کی دوائیں لینے بازار گئیں اور انہوں نے سڑک کے کنارے کھانے پینے کا ایک ایسا ٹھیلا دیکھا، تو اسی دن یہ طے کر لیا کہ ان کے پاس بھی شروعات کے لیے یہی راہ بچی ہے۔ یہ ایک مشکل انتخاب تھا، جس پر ان کے بچے بھی ناخوش تھے اور ان کے سسرالیوں کو بھی اعتراض تھا، لیکن شوہر امیت یادیو کو ان کے اس اقدام کی مکمل حمایت حاصل رہی۔ ارواشی یادیو کہتی ہیں کہ ہمارے خاندان کے لیے زیادہ قابل قبول راہ یہ ہوتی کہ میں کوئی ریستوران کھول لیتی، لیکن ہمارے پاس اس قدر رقم نہیں تھی کہ جس سے ہم ریستوران کے پیمانے پر یہ کام کر سکیں۔

ارواشی بتاتی ہیں کہ انہیں شروع میں ہر چیز کے حوالے سے شدید پریشانی کا سامنا کرنا پڑا۔ اس کام کی شروعات کا پہلا دن کٹھن ترین تھا، جب میں بہت بے آرام رہی، میں نے اپنے چہرے کو چھپایا ہوا تھا، لیکن بتدریج میں نے خود کو آگے بڑھایا۔ مجھے یہ اعتراف کرنا بہت برا لگتا ہے کہ میں تو ان لوگوں میں سے تھی، جو اے سی کے بغیر گویا زندہ ہی نہیں رہ سکتے تھے۔ سورج کی روشنی منہ پر پڑنا بہت گراں گزرتا تھا، لیکن اب میں سڑک کے کنارے سخت گرمی میں بھی چھولا چاٹ فروخت کرنے کے لیے بیٹھی ہوئی ہوتی ہوں۔ ارواشی کا ماننا ہے کہ 'جب آپ دباؤ میں ہوتے ہیں، تو آپ کو اپنی اہلیت کا بھی پتا چلتا ہے۔ میرے ساتھ بھی بالکل ایسا ہی ہوا۔

انہوں نے ڈگمگاتے معاشی مستقبل کے خوف کو اپنی طاقت بنالیا۔ وہ کہتی ہیں کہ بے شمار لوگ اپنی معاشی پریشانیوں کا تذکرہ تو کرتے رہتے ہیں، مگر یہ نہیںجانتے کہ اگر ایسے میں ان کے ساتھ اور کوئی کٹھن مرحلہ پیش آگیا، تو وہ اس کا مقابلہ کس طرح کریں گے۔



ان کے سسرالیوں کا خیال تھا کہ وہ تین دن کے اندر ہمت ہار بیٹھیں گی، لیکن ایسا نہیں ہوا۔ گھر میں اچھا کھانا تیار کرنا تو وہ خوب جانتی ہی تھیں، لیکن لبِ سڑک گاہکوں سے معاملات کرنا انہیں یہاں آکر سیکھنا پڑا۔ سماج کے کچھ نفسیاتی اور بیمار ذہنی رویوں کی رکاوٹیں جھیلنے کے باوجود وہ روزانہ اپنی ریڑھی دھکیلتی ہوئی اسی پیپل کے پیڑ کے نیچے آجاتی ہیں۔ ابتدا میں انہوں نے ٹھیلے کا رخ بازار کی طرف کیا تھا، لیکن پھر انہیں بہتر یہی لگا کہ وہ اس پیپل کے درخت کے نیچے ٹھیر کر اپنا کام زیادہ بہتر طریقے سے کر سکتی ہیں۔

ارواشی کے سسر نوین کمار یادیو بھی ان کے ساتھ کھڑے ہوئے ہوتے ہیں، وہ فضائیہ کے 'ونگ کمان دار' رہے، اب سبک دوش ہو چکے ہیں۔ بیٹے کے حادثے کے بعد انہوں نے اپنی بہو کو دکان کھول کر دینے کی پیش کش کی تھی، مگر ارواشی نے سب کام اپنے زور بازو پر کرنے کو ترجیح دی۔ ان کے سسر زیادہ دیر دھوپ میں کھڑے نہیں ہو سکتے، لیکن حوصلہ افزائی کے لیے ان کے ساتھ یہاں موجود ہوتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کوئی کام چھوٹا یا بڑا نہیں ہوتا۔

ارواشی جب ریستوران کھولیں گی، تو وہاں غریبوں کے لیے بلامعاوضہ کھانے کا انتظام بھی کریں گی۔ وہ دو بچوں کی ماں ہیں۔ بیٹی نندنی 12 سال کی ہے، جب کہ بیٹا بیٹا یاتیش سات برس کا ہے۔ اسکول کی ملازمت کے دوران وہ ہمہ وقت مصروف رہتی تھیں، جب کہ اب انہیں کچھ فرصت مل جاتی ہے۔ صبح تازہ دم یہ کام شروع کرتی ہیں اور سہ پہر کے بعد گھر لوٹ جاتی ہیں۔ اس کے بعد بچوں کی پڑھائی کے ساتھ گھر کے باورچی خانے کی ذمہ داریاں سنبھالتی ہیں۔

اسکول کے پرسکون اور محفوظ ماحول سے نکل کر گلی میں آکر کام کرنے کے سوال پر انہوں نے بتایا کہ اگر کوئی منفی رویے کا مظاہرہ کرے، تو اسے ہم اپنے اچھے رویے سے قابو میں رکھ سکتے ہیں۔ انہوں نے اعتراف کیا روزانہ بہت سے لوگ ان پر آوازیں بھی کستے ہیں، لیکن وہ صرف اپنے کام کو توجہ دیتی ہیں۔ ایسی فضول چیزوں کی بالکل پروا نہیں کرتیں اور یک سر نظر انداز کر دیتی ہیں۔

سماجی رابطے کی ویب سائٹ 'فیس بک' پر ان کے مضبوط عزم کی داستان رقم ہوئی، تو ان کے کام کی شہرت اور بھی بڑھ گئی۔ اب ان کا کاروبار رواں ہونے لگا ہے اور یومیہ تین ہزار روپے تک کی آمدن ہو جاتی ہے۔ ان کی دیکھا دیکھی بہت سی دوسری خواتین بھی ان کے نقش قدم پر چلنے کی خواہاں ہیں۔ کالج کے طلبہ میں وہ 'کلچے والی آنٹی' کہلاتی ہیں۔ ارواشی یادیو کہتی ہیں کہ ہر عورت کے اندر کوئی نہ کوئی ہنر پوشیدہ ہوتا ہے، اسے پہچان کر مثبت طور پر استعمال کرنے کی ضرورت ہے۔ اس بات کو بھول کر کہ لوگ کیا کہیں گے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔