قومی ٹیم تو ہار گئی مگر اسد ’غالب‘ رہا
خاموش طبیعت اور خاموش مزاج کا کھلاڑی، خاموشی سے رنز بناتا ہے اور خاموشی سے ہی اُس کو اُس کے حق سے محروم کردیا جاتا ہے۔
جب پاکستان اور آسٹریلیا کے درمیان ٹیسٹ سیریز کا آغاز ہوا تو اکثریت کی طرح میرا بھی یہی خیال تھا کہ بھیا آسٹریلوی میدانوں میں بڑی ذلت ہونے والی ہے، بلکہ میں نے تو دفتر کے ساتھی سے یہاں تک کہہ دیا تھا کہ سعید بھائی، نیوزی لیںڈ میں کھیلی گئی ٹیسٹ سیریز اور آسٹریلیا میں پریکٹس میچ میں بلے بازوں نے جو کارکردگی دکھائی اُس کو دیکھتے ہوئے تو تینوں ٹیسٹ میچ تین تین دن کی مار معلوم ہوتے ہیں۔ میں یہاں بھی نہیں رکا بلکہ مزید تجزیہ جھاڑتے ہوئے یہ بھی کہہ دیا کہ اسکور کچھ یوں ہوگا۔ آسٹریلیا پہلی اننگ 500 رنز اور جواب میں قومی ٹیم پہلی اننگ میں 250 اور دوسری اننگ میں 200 رنز پر فارغ ہوجائے گی۔
یہ عین ممکن ہے کہ آپ کہنا شروع کردیں کہ میرا تجزیہ جذباتی تھا، اگر آپ واقعی ایسا کہہ رہے ہیں تو میں آپ کی رائے کی قدر کرتے ہوئے اختلاف کی جسارت کرنا چاہوں گا کیونکہ یہ قطعی طور پر جذباتی تجزیہ نہیں تھا بلکہ ماضی میں آسٹریلوی میدانوں میں قومی ٹیم کی کارکردگی کا بغور جائزہ لینے کے بعد یہ سب کچھ کہا گیا تھا۔
قومی ٹیم نے پہلی مرتبہ آسٹریلیا کا دورہ 1964ء میں کیا تھا جہاں صرف ایک ہی ٹیسٹ میچ کھیلا گیا تھا جو بغیر کسی نتیجے کے ختم ہوگیا تھا۔ یہ نتیجہ اِس اعتبار سے بہت اچھا تھا کہ کم از کم پہلے ہی دورے میں شکست کا منہ دیکھنا نہیں پڑا تھا۔ اِس واحد ٹیسٹ میچ پر مشتمل سیریز کے بعد اگلی دس ٹیسٹ سیریز میں پاکستان ہر ہر دورے میں کن مشکلات کا شکار رہا، آئیے اُس پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔
1972/73 - تین ٹیسٹ میچوں میں پاکستان کو تین صفر کی شکشت کا سامنا کرنا پڑا
1976/77 - تین ٹیسٹ میچوں کی سیریز ایک، ایک سے برابر رہی
1978-79 - دو ٹیسٹ میچوں کی سیریز ایک، ایک سے برابر رہی
1981-82 - تین ٹیسٹ میچوں کی سیریز دو، ایک سے آسٹریلیا کے نام رہی
1983/84 - پانچ ٹیسٹ میچوں کی سیریز دو، صفر سے آسٹریلیا کے نام رہی
1989/90 - تین ٹیسٹ میچوں کی سیریز ایک صفر سے آسٹریلیا کے نام رہی
1995/96 - تین ٹیسٹ میچوں کی سیریز دو، ایک سے آسٹریلیا کے نام رہی
1999/00 - تین ٹیسٹ میچوں کی سیریز میں آسٹریلیا تین، صفر سے فاتح رہا
2004/05 - تین ٹیسٹ میچوں کی سیریز ایک بار پھر تین، صفر سے آسٹریلیا کے نام رہی
2009/10 - تین ٹیسٹ میچوں کی سیریز میں لگاتار تیسری مرتبہ آسٹریلیا کو تین، صفر سے کامیابی ملی
اب جب کسی ٹیم کو لگاتار گزشتہ تین سیریز میں وائٹ واش کا سامنا کرنا پڑا ہو، کسی ایک سیریز میں بھی کامیابی نصیب نہ ہوئی ہو، ایسی صورت میں ہمارا تجزیہ جذبات قرار دیا جانا چاہیئے یا ایک ایسے فرد کا جو تمام تر حقائق کو نظر انداز کرتے ہوئے کہے کہ جناب آپ دیکھئے گا، اِس بار تو پاکستان ہی فتحیاب ہوگی۔
آج میرا ہرگز مقصد ماضی میں ہونے والی رسوائی کا ذکر کرنا نہیں تھا، لیکن بات سے بات نکلی تو سوچا کیوں نہ حقائق کو بیان کرتے ہوئے آج کی شاندار اور یادگار کارکردگی پر کچھ ستائش کردی جائے۔
برسبین میں کھیلے جانے والے پہلے ٹیسٹ میں جب قومی ٹیم کے بلے باز 429 رنز کے جواب میں ایک بار پھر ناکام ہوئے اور 142 رنز پر ہمت ہار گئے تو ہر بار کی طرح اِس بار بھی مایوسی ہوئی اور اپنے جس تجزیے کو غلط ہوتے دیکھنا چاہتا تھا وہ ایک بار پھر سچ ثابت ہوتا نظر آیا۔ مایوسی اور پریشانی کی وجہ شاید یہ بھی تھی کہ بلے بازوں سے تو ہم نے کبھی اُمیدیں لگائی ہی نہیں تھیں کیونکہ ہماری لیے تو جیت کی آخری اُمید گیند باز ہی ہوتے تھے اور ہوتے ہیں، لیکن جس سطحی انداز میں انہوں نے گیند بازی کی اُس کے بعد تو تھوڑی بہت اُمید بھی دم توڑ گئی تھی۔
اِس خراب تر کارکردگی کے بعد پھر وہ ہوا جس کا کسی کو بھی یقین نہیں تھا۔ اگرچہ اوپنر سمیع اسلم، نوجوان بابر اعظم اور کپتان مصباح الحق دوسری اننگ میں بھی ناکام رہے لیکن بقیہ کھلاڑیوں نے حصہ بقدر جثہ فتح کو سمیٹنے کے لیے ہرممکن کوشش کی۔ مگر میں آج اُس ستارے کا ذکر کرنا چاہتا ہوں جو ہر مشکل وقت میں ٹیم کے کام آنے کے باوجود وہ مقام حاصل نہ کرسکا جس کا وہ حقدار تھا۔ جی ہاں، میں اسد شفیق کا ہی ذکر کررہا ہوں۔ خاموش طبیعت اور خاموش مزاج کا کھلاڑی، خاموشی سے رنز بناتا ہے اور خاموشی سے ہی اُس کو اُس کے حق سے محروم کردیا جاتا ہے۔
جب آج کے میچ کا اختتام ہوا تو ہر طرف اِس منجھے ہوئے کھلاڑی کی تعریفوں کے پل باندھے جارہے تھے۔ تعریفوں کے پل نہیں بلکہ وہ حقائق بیان کئے جارہے تھے جو آج سے پہلے نہیں بیان کیے گئے۔ تعریف کرنے والوں میں بھارتی سابق کھلاڑی سنجے منجریکر بھی تھے جنہوں نے کہا کہ ایشیائی کھلاڑی کی جانب سے اوول، کیپ ٹاون اور برسبین میں سنچری اسکور کرنا غیر معمولی ہے۔
51 ٹیسٹ میچوں میں 41.84 کی اوسط سے 10 سنچریوں کی مدد سے 3264 رنز بنانے والے کھلاڑی کے بارے میں اکثر لوگوں کو کہتے سنا ہے کہ یار یہ رنز کب بناتا ہے؟ یہ بیکار ہے، اِس کو تو ٹیم سے ہی نکال دینا چاہیئے۔ ایسی باتیں کرنے والے لوگ شاید یہ نہیں جانتے ہیں کہ اسد شفیق وہ کھلاڑی ہیں جنہوں نے کیرئیر کی پہلی سینچری بطور اوپنر بنائی تھی اور پھر کبھی مستقل پوزیشن پر اپنی جگہ نہ بناسکے۔ سینئرز کی ٹیم میں موجودگی کی وجہ سے ہمیشہ قربانی کا بکرا، اسد شفیق کو ہی بنایا جاتا رہا۔ کیا آپ کو انگلستان کے خلاف چوتھے اور اہم ترین ٹیسٹ میچ یاد نہیں جب ابتدائی تین ٹیسٹ میچوں میں یونس خان کی ناکامی کی جگہ اسد شفیق کو اچانک چھٹے سے چوتھے نمبر پر بھیج دیا۔ مشکل صورتحال میں یہ کسی بھی کھلاڑی کے لیے انتہائی مشکل کام ہوتا ہے کہ اچانک اُس کی جگہ تبدیل کردی جائے، لیکن اِس کھلاڑی نے صورتحال سے گھبرانے کے بجائے صورتحال کا مقابلہ کیا اور شاندار سنچری اسکور کردی۔
ان کے چوتھے نمبر پر آنے کا فائدہ یہ ہوا کہ جو یونس خان پوری سیریز میں ناکام رہے تھے انہوں نے پوزیشن تبدیل ہونے کی وجہ سے ڈبل سنچری اسکور کردی اور یوں پاکستان کو اہم ترین میچ میں کامیابی نصیب ہوئی اور سیریز دو، دو سے برابر رہی۔
جب اسد شفیق کی پوزیشن تبدیل ہوئی اور انہوں نے اُس میں سنچری بھی بنائی تو خیال تھا کہ اب شاید ان کی جگہ کو نہیں چھیڑا جائے گا مگر سینئرز تو سینئرز، جونئیر بابر اعظم کو جگہ دینے کے لئے ایک بار پھر اسد شفیق کو قربانی دینی پڑی اور وہ پھر سے چھٹے نمبر پر بلے بازی کے لیے آنے لگے۔
جو لوگ اب بھی یہ سمجھتے ہیں کہ اسد شفیق اچھے کھلاڑی نہیں ہیں اُن لوگوں کے لئے آخری بات یہ ہے کہ چھٹے نمبر پر آنے والے بلے باز کے بعد عام طور پر ٹیل اینڈرز کی باری آجاتی ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ آپ کو زیادہ کھیلنے کا موقع کم ہی ملتا ہے مگر اِس کے باوجود اسد شفیق نے اِس پوزیشن پر عظیم گیری سوبرز کی 8 سنچریوں کا ریکارڈ توڑ دیا۔
ہاں اسد شفیق کا قصور یہ ہے کہ وہ فضول اسکینڈلز کا حصہ نہیں بنتے، فضول ڈانس پارٹیوں میں شرکت نہیں کرتے، ٹریفک اہلکاروں سے جھگڑا نہیں کرتے، بورڈ کے خلاف بیان نہیں دیتے، کسی کھلاڑی کے ساتھ جھگڑا نہیں کرتے، اگر یہ کام کرتے تو ضرور اُن کو بھی مقبولیت مل جاتی۔
[poll id="1285"]
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
یہ عین ممکن ہے کہ آپ کہنا شروع کردیں کہ میرا تجزیہ جذباتی تھا، اگر آپ واقعی ایسا کہہ رہے ہیں تو میں آپ کی رائے کی قدر کرتے ہوئے اختلاف کی جسارت کرنا چاہوں گا کیونکہ یہ قطعی طور پر جذباتی تجزیہ نہیں تھا بلکہ ماضی میں آسٹریلوی میدانوں میں قومی ٹیم کی کارکردگی کا بغور جائزہ لینے کے بعد یہ سب کچھ کہا گیا تھا۔
قومی ٹیم نے پہلی مرتبہ آسٹریلیا کا دورہ 1964ء میں کیا تھا جہاں صرف ایک ہی ٹیسٹ میچ کھیلا گیا تھا جو بغیر کسی نتیجے کے ختم ہوگیا تھا۔ یہ نتیجہ اِس اعتبار سے بہت اچھا تھا کہ کم از کم پہلے ہی دورے میں شکست کا منہ دیکھنا نہیں پڑا تھا۔ اِس واحد ٹیسٹ میچ پر مشتمل سیریز کے بعد اگلی دس ٹیسٹ سیریز میں پاکستان ہر ہر دورے میں کن مشکلات کا شکار رہا، آئیے اُس پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔
1972/73 - تین ٹیسٹ میچوں میں پاکستان کو تین صفر کی شکشت کا سامنا کرنا پڑا
1976/77 - تین ٹیسٹ میچوں کی سیریز ایک، ایک سے برابر رہی
1978-79 - دو ٹیسٹ میچوں کی سیریز ایک، ایک سے برابر رہی
1981-82 - تین ٹیسٹ میچوں کی سیریز دو، ایک سے آسٹریلیا کے نام رہی
1983/84 - پانچ ٹیسٹ میچوں کی سیریز دو، صفر سے آسٹریلیا کے نام رہی
1989/90 - تین ٹیسٹ میچوں کی سیریز ایک صفر سے آسٹریلیا کے نام رہی
1995/96 - تین ٹیسٹ میچوں کی سیریز دو، ایک سے آسٹریلیا کے نام رہی
1999/00 - تین ٹیسٹ میچوں کی سیریز میں آسٹریلیا تین، صفر سے فاتح رہا
2004/05 - تین ٹیسٹ میچوں کی سیریز ایک بار پھر تین، صفر سے آسٹریلیا کے نام رہی
2009/10 - تین ٹیسٹ میچوں کی سیریز میں لگاتار تیسری مرتبہ آسٹریلیا کو تین، صفر سے کامیابی ملی
اب جب کسی ٹیم کو لگاتار گزشتہ تین سیریز میں وائٹ واش کا سامنا کرنا پڑا ہو، کسی ایک سیریز میں بھی کامیابی نصیب نہ ہوئی ہو، ایسی صورت میں ہمارا تجزیہ جذبات قرار دیا جانا چاہیئے یا ایک ایسے فرد کا جو تمام تر حقائق کو نظر انداز کرتے ہوئے کہے کہ جناب آپ دیکھئے گا، اِس بار تو پاکستان ہی فتحیاب ہوگی۔
آج میرا ہرگز مقصد ماضی میں ہونے والی رسوائی کا ذکر کرنا نہیں تھا، لیکن بات سے بات نکلی تو سوچا کیوں نہ حقائق کو بیان کرتے ہوئے آج کی شاندار اور یادگار کارکردگی پر کچھ ستائش کردی جائے۔
برسبین میں کھیلے جانے والے پہلے ٹیسٹ میں جب قومی ٹیم کے بلے باز 429 رنز کے جواب میں ایک بار پھر ناکام ہوئے اور 142 رنز پر ہمت ہار گئے تو ہر بار کی طرح اِس بار بھی مایوسی ہوئی اور اپنے جس تجزیے کو غلط ہوتے دیکھنا چاہتا تھا وہ ایک بار پھر سچ ثابت ہوتا نظر آیا۔ مایوسی اور پریشانی کی وجہ شاید یہ بھی تھی کہ بلے بازوں سے تو ہم نے کبھی اُمیدیں لگائی ہی نہیں تھیں کیونکہ ہماری لیے تو جیت کی آخری اُمید گیند باز ہی ہوتے تھے اور ہوتے ہیں، لیکن جس سطحی انداز میں انہوں نے گیند بازی کی اُس کے بعد تو تھوڑی بہت اُمید بھی دم توڑ گئی تھی۔
اِس خراب تر کارکردگی کے بعد پھر وہ ہوا جس کا کسی کو بھی یقین نہیں تھا۔ اگرچہ اوپنر سمیع اسلم، نوجوان بابر اعظم اور کپتان مصباح الحق دوسری اننگ میں بھی ناکام رہے لیکن بقیہ کھلاڑیوں نے حصہ بقدر جثہ فتح کو سمیٹنے کے لیے ہرممکن کوشش کی۔ مگر میں آج اُس ستارے کا ذکر کرنا چاہتا ہوں جو ہر مشکل وقت میں ٹیم کے کام آنے کے باوجود وہ مقام حاصل نہ کرسکا جس کا وہ حقدار تھا۔ جی ہاں، میں اسد شفیق کا ہی ذکر کررہا ہوں۔ خاموش طبیعت اور خاموش مزاج کا کھلاڑی، خاموشی سے رنز بناتا ہے اور خاموشی سے ہی اُس کو اُس کے حق سے محروم کردیا جاتا ہے۔
جب آج کے میچ کا اختتام ہوا تو ہر طرف اِس منجھے ہوئے کھلاڑی کی تعریفوں کے پل باندھے جارہے تھے۔ تعریفوں کے پل نہیں بلکہ وہ حقائق بیان کئے جارہے تھے جو آج سے پہلے نہیں بیان کیے گئے۔ تعریف کرنے والوں میں بھارتی سابق کھلاڑی سنجے منجریکر بھی تھے جنہوں نے کہا کہ ایشیائی کھلاڑی کی جانب سے اوول، کیپ ٹاون اور برسبین میں سنچری اسکور کرنا غیر معمولی ہے۔
51 ٹیسٹ میچوں میں 41.84 کی اوسط سے 10 سنچریوں کی مدد سے 3264 رنز بنانے والے کھلاڑی کے بارے میں اکثر لوگوں کو کہتے سنا ہے کہ یار یہ رنز کب بناتا ہے؟ یہ بیکار ہے، اِس کو تو ٹیم سے ہی نکال دینا چاہیئے۔ ایسی باتیں کرنے والے لوگ شاید یہ نہیں جانتے ہیں کہ اسد شفیق وہ کھلاڑی ہیں جنہوں نے کیرئیر کی پہلی سینچری بطور اوپنر بنائی تھی اور پھر کبھی مستقل پوزیشن پر اپنی جگہ نہ بناسکے۔ سینئرز کی ٹیم میں موجودگی کی وجہ سے ہمیشہ قربانی کا بکرا، اسد شفیق کو ہی بنایا جاتا رہا۔ کیا آپ کو انگلستان کے خلاف چوتھے اور اہم ترین ٹیسٹ میچ یاد نہیں جب ابتدائی تین ٹیسٹ میچوں میں یونس خان کی ناکامی کی جگہ اسد شفیق کو اچانک چھٹے سے چوتھے نمبر پر بھیج دیا۔ مشکل صورتحال میں یہ کسی بھی کھلاڑی کے لیے انتہائی مشکل کام ہوتا ہے کہ اچانک اُس کی جگہ تبدیل کردی جائے، لیکن اِس کھلاڑی نے صورتحال سے گھبرانے کے بجائے صورتحال کا مقابلہ کیا اور شاندار سنچری اسکور کردی۔
ان کے چوتھے نمبر پر آنے کا فائدہ یہ ہوا کہ جو یونس خان پوری سیریز میں ناکام رہے تھے انہوں نے پوزیشن تبدیل ہونے کی وجہ سے ڈبل سنچری اسکور کردی اور یوں پاکستان کو اہم ترین میچ میں کامیابی نصیب ہوئی اور سیریز دو، دو سے برابر رہی۔
جب اسد شفیق کی پوزیشن تبدیل ہوئی اور انہوں نے اُس میں سنچری بھی بنائی تو خیال تھا کہ اب شاید ان کی جگہ کو نہیں چھیڑا جائے گا مگر سینئرز تو سینئرز، جونئیر بابر اعظم کو جگہ دینے کے لئے ایک بار پھر اسد شفیق کو قربانی دینی پڑی اور وہ پھر سے چھٹے نمبر پر بلے بازی کے لیے آنے لگے۔
جو لوگ اب بھی یہ سمجھتے ہیں کہ اسد شفیق اچھے کھلاڑی نہیں ہیں اُن لوگوں کے لئے آخری بات یہ ہے کہ چھٹے نمبر پر آنے والے بلے باز کے بعد عام طور پر ٹیل اینڈرز کی باری آجاتی ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ آپ کو زیادہ کھیلنے کا موقع کم ہی ملتا ہے مگر اِس کے باوجود اسد شفیق نے اِس پوزیشن پر عظیم گیری سوبرز کی 8 سنچریوں کا ریکارڈ توڑ دیا۔
ہاں اسد شفیق کا قصور یہ ہے کہ وہ فضول اسکینڈلز کا حصہ نہیں بنتے، فضول ڈانس پارٹیوں میں شرکت نہیں کرتے، ٹریفک اہلکاروں سے جھگڑا نہیں کرتے، بورڈ کے خلاف بیان نہیں دیتے، کسی کھلاڑی کے ساتھ جھگڑا نہیں کرتے، اگر یہ کام کرتے تو ضرور اُن کو بھی مقبولیت مل جاتی۔
[poll id="1285"]
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لئے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کےساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔