مقابلہ تو دل ناتواں نے خوب کیا
گوکہ فتح معمولی مارجن سے نہ مل سکی مگر اس میچ کے بارے میں جب بھی پاکستانی سوچیں گے سر فخر سے بلند ہو جائے گا
ISLAMABAD:
سچ سچ بتائیں کیا آپ کو ایک فیصد بھی لگتا تھا کہ آسٹریلیا کی ناسازگار کنڈیشنز میں چوتھی اننگز کھیلتے ہوئے پاکستانی ٹیم میزبان کو ناکوں چنے چبوا دے گی، 490 رنز کا تعاقب کرتے ہوئے 450 رنز بنا لینا کم از کم میرے تو وہم و گمان میں بھی نہ تھا، ذہن میں یہی بات تھی کہ بس اتنے رنز بنا جائیں کہ عزت رہ جائے مگر اب ہار کے بھی ایسا لگ رہا ہے جیسے جیت گئے، ہمیشہ یہ بات کہتا چلا آیا ہوں کہ لڑ کر ہارے تو لوگ کچھ نہیں کہیں گے اور اب اس کا عملی ثبوت مل گیا، گوکہ فتح معمولی مارجن سے نہ مل سکی مگر اس میچ کے بارے میں جب بھی پاکستانی سوچیں گے سر فخر سے بلند ہو جائے گا، بلاشبہ اس کا کریڈٹ اسد شفیق کو جاتا ہے، ہاری ہوئی ٹیم کے کسی کھلاڑی کو مین آف دی میچ ایوارڈ شاز ونادر ہی ملتا ہے مگر اسد اس اعزاز کے مستحق قرار پائے، اس سے ان کی اننگز کی اہمیت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے، ویسے اگر وہ مزید ناکامی کا شکار ہوتے تو ٹیم سے باہر کرنے کا شور مچنے لگتا، انہوں نے اپنے کیریئر کو بھی بچا لیا ہے۔
ہم ہمیشہ یہ کہتے ہیں کہ ٹیم کے پاس آل راؤنڈرز نہیں اور ٹیل بہت بڑی ہو چکی ہے، مگر اس میچ میں محمد عامر، وہاب ریاض اور یاسر شاہ نے بہترین بیٹنگ کا مظاہرہ کیا، بس یہ ایک میچ کی بات نہ ہو ، ایسی بیٹنگ اور فائٹنگ اسپرٹ اگر برقرار رہی تو ٹیم پھر سے ترقی کی منازل طے کرنے لگے گی، برسبین ٹیسٹ سے قبل اور درمیان کوئی بھی پاکستانی ٹیم کو خاطر میں لانے کو تیار نہ تھا، آسٹریلوی ٹیم نے فالوآن تک کرانے سے گریز کیا کہ کمزور حریف کو آؤٹ کرنا تو کوئی مسئلہ ہی نہیں، ایک دن بھی کافی ہو گا، سوشل میڈیا پر کھلاڑیوں پر تنقید اور مذاق اڑانے کا سلسلہ بھی عروج پر تھا مگر سب اچانک تعریف کرنے پر مجبور ہو گئے، مجھے ان سابق کرکٹرز کے بارے میں بھی سوچ کر ہنسی آ رہی ہے جو ٹیم کو آڑے ہاتھوں لینے کے لیے چھریاں تیز کیے بیٹھے تھے مگر اب تعریف میں زمین آسمان ایک کیے ہوئے ہیں، اس میچ سے سب کو یہ سبق ملتا ہے کہ پاکستانی ٹیم کو ''ہلکا'' نہ لیں، وہ پہلی اننگز میں 142 پر ڈھیر ہوئی تو اگلی میں 450 رنز بھی بنا سکتی ہے، میچ ختم ہونے کا انتظار کریں۔
دوسرے تو دور کی بات ہیں اپنوں کو بھی کھلاڑیوں کی صلاحیتوں پر بھروسہ نہ تھا، کوچ مکی آرتھر نے دوران میچ ہی 3 لیفٹ آرم پیسرز کی شمولیت کا دفاع کرتے ہوئے پلیئنگ الیون سے باہر سہیل خان کی صلاحیتوں پر سوال اٹھا دیے، متوقع شکست کے جواز تراشتے ہوئے انہوں نے ڈھکے چھپے الفاظ میں سلیکشن کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا، چیف سلیکٹر انضمام الحق اپنی تاویلیں پیش کرتے رہے، اب ان سب کو بھی سکون ملا ہو گا، دلچسپ بات یہ ہے کہ وہ لوگ جو متوقع تنقید کا سوچ کر خاموش بیٹھے تھے اب کریڈٹ لینے کیلیے نمایاں ہو رہے ہیں، جیسے نجم سیٹھی نے اسد شفیق کے بارے میں ٹویٹ کی، اگر میچ میں بڑی شکست ہوتی تو کئی دن تک ان کے منہ سے کرکٹ کی کوئی بات بھی کسی کو سننے کو نہ ملتی، اسی طرح چیئرمین شہریارخان آج کل کم میڈیا میں آتے ہیں مگر جب آئیں تو ہیڈ لائنز بنا دیتے ہیں، جیسے گذشتہ دنوں بیچارے اظہر علی ان کے زیرعتاب آئے، ایک اہم سیریز شروع ہونے والی تھی اور اس سے قبل بورڈ کا سربراہ بہترین بیٹسمین کو آڑے ہاتھوں لے رہا ہے یہ بات سمجھ سے باہر تھی، یہ بات درست ہے کہ اظہر ون ڈے میں بطور کپتان اور بیٹسمین توقعات پر پورا نہیں اتر رہے لیکن انھیں گھر سے بلا کر قیادت کی ذمہ داری شہریارخان نے ہی تو سونپی تھی، ساتھ بٹھا کر پریس کانفرنس کی فوٹیج اب بھی یوٹیوب پر موجود ہوگی، اس وقت تو ان کی تعریفیں کرتے زبان نہیں تھک رہی تھی اب تنقید کے نشتر برسا رہے ہیں۔ بغیر سوچے سمجھے جو فیصلے کیے جائیں ان کے بعد ایسا ہی ہوتا ہے، مگر چیئرمین صاحب کو ایسی باتیں میڈیا میں آکر نہیں کرنی چاہئیں اس کا کھلاڑیوں اور ٹیم پر خراب اثر پڑتا ہے۔
برسبین ٹیسٹ میں بھرپور فائٹ کے بعد شکست کی آڑ میں ہمیں خامیاں نظر انداز نہیں کرنی چاہئیں، اظہر علی نے گوکہ 71 رنز بنائے مگر اہم موقع پر وکٹ گنوا دی، اسی طرح یونس خان نے نصف سنچری بنا کر فارم میں واپسی کی کوشش شروع کر دی مگرجس احمقانہ انداز میں ریورس سویپ کرتے ہوئے وہ آؤٹ ہوئے کسی سینئر کھلاڑی سے ایسی توقع نہیں رکھی جا سکتی تھی،اگر وہ ایسے وکٹ نہ گنواتے تو شائد پاکستان میچ جیت جاتا، کپتان مصباح الحق کی ناکامیوں کا سلسلہ بھی بڑھتا جا رہا ہے سیریز بچانی ہے تو انھیں بھی جلد فارم میں واپس آنا ہو گا، سمیع اسلم اور بابر اعظم کو بھی اپنی صلاحیتیں آسٹریلوی کنڈیشنز میں منوانی چاہئیں۔
آخر میں یاسر شاہ کا کچھ ذکر ہو جائے ، انھیں سازگار پچ نہ ملے تو بالکل ہی زیروہو جاتے ہیں، جیسا کہ برسبین میں ہوا، انھیں اپنی بولنگ میں ورائٹی لانا ہوگی،اسی کے ساتھ اب شین وارن، شین وارن کرنا بند کریں، آپ کے اپنے ملک میں اتنا بڑا جادوگر اسپنر عبدالقادر موجود ہے اسے لفٹ نہیں کراتے اور آسٹریلوی اسٹار کی تھوڑی تعریفوں اور واٹس ایپس پیغامات سے خوش ہو کر انھیں آسمان پر چڑھا دیا، حال ہی میں وارن نے انھیں ''سستی سے سیکھنے والا'' قرار دیا اور منفی انداز سے بولنگ کا بھی میڈیا میں خوب ذکر کیا، یہ تک بتا دیا کہ وہ نامناسب اوقات میں میسجز بھیج کر پریشان کرتے ہیں، یقیناً عبدالقادر کبھی ایسا نہیں کرتے مگر یہاں بات ''گھر کی مرغی دال برابر'' والی ہی آ جاتی ہے، خیرامید ہے اس میچ میں جو خامیاں نظر آئیں انھیں دور کر کے گرین کیپس بھرپور انداز میں آسٹریلیا پر حملہ آور ہوں گے، شکست کے باوجود بھرپور فائٹ نے شائقین کی امیدیں بیحد بڑھا دی ہیں،اب میلبورن میں فتح کی توقعات ہیں، مگر وہ صرف ایک کھلاڑی نہیں دلا سکتا اس کیلیے ٹیم ورک ضروری ہے، یہ بات سب کو یاد رکھنا ہوگی۔
سچ سچ بتائیں کیا آپ کو ایک فیصد بھی لگتا تھا کہ آسٹریلیا کی ناسازگار کنڈیشنز میں چوتھی اننگز کھیلتے ہوئے پاکستانی ٹیم میزبان کو ناکوں چنے چبوا دے گی، 490 رنز کا تعاقب کرتے ہوئے 450 رنز بنا لینا کم از کم میرے تو وہم و گمان میں بھی نہ تھا، ذہن میں یہی بات تھی کہ بس اتنے رنز بنا جائیں کہ عزت رہ جائے مگر اب ہار کے بھی ایسا لگ رہا ہے جیسے جیت گئے، ہمیشہ یہ بات کہتا چلا آیا ہوں کہ لڑ کر ہارے تو لوگ کچھ نہیں کہیں گے اور اب اس کا عملی ثبوت مل گیا، گوکہ فتح معمولی مارجن سے نہ مل سکی مگر اس میچ کے بارے میں جب بھی پاکستانی سوچیں گے سر فخر سے بلند ہو جائے گا، بلاشبہ اس کا کریڈٹ اسد شفیق کو جاتا ہے، ہاری ہوئی ٹیم کے کسی کھلاڑی کو مین آف دی میچ ایوارڈ شاز ونادر ہی ملتا ہے مگر اسد اس اعزاز کے مستحق قرار پائے، اس سے ان کی اننگز کی اہمیت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے، ویسے اگر وہ مزید ناکامی کا شکار ہوتے تو ٹیم سے باہر کرنے کا شور مچنے لگتا، انہوں نے اپنے کیریئر کو بھی بچا لیا ہے۔
ہم ہمیشہ یہ کہتے ہیں کہ ٹیم کے پاس آل راؤنڈرز نہیں اور ٹیل بہت بڑی ہو چکی ہے، مگر اس میچ میں محمد عامر، وہاب ریاض اور یاسر شاہ نے بہترین بیٹنگ کا مظاہرہ کیا، بس یہ ایک میچ کی بات نہ ہو ، ایسی بیٹنگ اور فائٹنگ اسپرٹ اگر برقرار رہی تو ٹیم پھر سے ترقی کی منازل طے کرنے لگے گی، برسبین ٹیسٹ سے قبل اور درمیان کوئی بھی پاکستانی ٹیم کو خاطر میں لانے کو تیار نہ تھا، آسٹریلوی ٹیم نے فالوآن تک کرانے سے گریز کیا کہ کمزور حریف کو آؤٹ کرنا تو کوئی مسئلہ ہی نہیں، ایک دن بھی کافی ہو گا، سوشل میڈیا پر کھلاڑیوں پر تنقید اور مذاق اڑانے کا سلسلہ بھی عروج پر تھا مگر سب اچانک تعریف کرنے پر مجبور ہو گئے، مجھے ان سابق کرکٹرز کے بارے میں بھی سوچ کر ہنسی آ رہی ہے جو ٹیم کو آڑے ہاتھوں لینے کے لیے چھریاں تیز کیے بیٹھے تھے مگر اب تعریف میں زمین آسمان ایک کیے ہوئے ہیں، اس میچ سے سب کو یہ سبق ملتا ہے کہ پاکستانی ٹیم کو ''ہلکا'' نہ لیں، وہ پہلی اننگز میں 142 پر ڈھیر ہوئی تو اگلی میں 450 رنز بھی بنا سکتی ہے، میچ ختم ہونے کا انتظار کریں۔
دوسرے تو دور کی بات ہیں اپنوں کو بھی کھلاڑیوں کی صلاحیتوں پر بھروسہ نہ تھا، کوچ مکی آرتھر نے دوران میچ ہی 3 لیفٹ آرم پیسرز کی شمولیت کا دفاع کرتے ہوئے پلیئنگ الیون سے باہر سہیل خان کی صلاحیتوں پر سوال اٹھا دیے، متوقع شکست کے جواز تراشتے ہوئے انہوں نے ڈھکے چھپے الفاظ میں سلیکشن کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا، چیف سلیکٹر انضمام الحق اپنی تاویلیں پیش کرتے رہے، اب ان سب کو بھی سکون ملا ہو گا، دلچسپ بات یہ ہے کہ وہ لوگ جو متوقع تنقید کا سوچ کر خاموش بیٹھے تھے اب کریڈٹ لینے کیلیے نمایاں ہو رہے ہیں، جیسے نجم سیٹھی نے اسد شفیق کے بارے میں ٹویٹ کی، اگر میچ میں بڑی شکست ہوتی تو کئی دن تک ان کے منہ سے کرکٹ کی کوئی بات بھی کسی کو سننے کو نہ ملتی، اسی طرح چیئرمین شہریارخان آج کل کم میڈیا میں آتے ہیں مگر جب آئیں تو ہیڈ لائنز بنا دیتے ہیں، جیسے گذشتہ دنوں بیچارے اظہر علی ان کے زیرعتاب آئے، ایک اہم سیریز شروع ہونے والی تھی اور اس سے قبل بورڈ کا سربراہ بہترین بیٹسمین کو آڑے ہاتھوں لے رہا ہے یہ بات سمجھ سے باہر تھی، یہ بات درست ہے کہ اظہر ون ڈے میں بطور کپتان اور بیٹسمین توقعات پر پورا نہیں اتر رہے لیکن انھیں گھر سے بلا کر قیادت کی ذمہ داری شہریارخان نے ہی تو سونپی تھی، ساتھ بٹھا کر پریس کانفرنس کی فوٹیج اب بھی یوٹیوب پر موجود ہوگی، اس وقت تو ان کی تعریفیں کرتے زبان نہیں تھک رہی تھی اب تنقید کے نشتر برسا رہے ہیں۔ بغیر سوچے سمجھے جو فیصلے کیے جائیں ان کے بعد ایسا ہی ہوتا ہے، مگر چیئرمین صاحب کو ایسی باتیں میڈیا میں آکر نہیں کرنی چاہئیں اس کا کھلاڑیوں اور ٹیم پر خراب اثر پڑتا ہے۔
برسبین ٹیسٹ میں بھرپور فائٹ کے بعد شکست کی آڑ میں ہمیں خامیاں نظر انداز نہیں کرنی چاہئیں، اظہر علی نے گوکہ 71 رنز بنائے مگر اہم موقع پر وکٹ گنوا دی، اسی طرح یونس خان نے نصف سنچری بنا کر فارم میں واپسی کی کوشش شروع کر دی مگرجس احمقانہ انداز میں ریورس سویپ کرتے ہوئے وہ آؤٹ ہوئے کسی سینئر کھلاڑی سے ایسی توقع نہیں رکھی جا سکتی تھی،اگر وہ ایسے وکٹ نہ گنواتے تو شائد پاکستان میچ جیت جاتا، کپتان مصباح الحق کی ناکامیوں کا سلسلہ بھی بڑھتا جا رہا ہے سیریز بچانی ہے تو انھیں بھی جلد فارم میں واپس آنا ہو گا، سمیع اسلم اور بابر اعظم کو بھی اپنی صلاحیتیں آسٹریلوی کنڈیشنز میں منوانی چاہئیں۔
آخر میں یاسر شاہ کا کچھ ذکر ہو جائے ، انھیں سازگار پچ نہ ملے تو بالکل ہی زیروہو جاتے ہیں، جیسا کہ برسبین میں ہوا، انھیں اپنی بولنگ میں ورائٹی لانا ہوگی،اسی کے ساتھ اب شین وارن، شین وارن کرنا بند کریں، آپ کے اپنے ملک میں اتنا بڑا جادوگر اسپنر عبدالقادر موجود ہے اسے لفٹ نہیں کراتے اور آسٹریلوی اسٹار کی تھوڑی تعریفوں اور واٹس ایپس پیغامات سے خوش ہو کر انھیں آسمان پر چڑھا دیا، حال ہی میں وارن نے انھیں ''سستی سے سیکھنے والا'' قرار دیا اور منفی انداز سے بولنگ کا بھی میڈیا میں خوب ذکر کیا، یہ تک بتا دیا کہ وہ نامناسب اوقات میں میسجز بھیج کر پریشان کرتے ہیں، یقیناً عبدالقادر کبھی ایسا نہیں کرتے مگر یہاں بات ''گھر کی مرغی دال برابر'' والی ہی آ جاتی ہے، خیرامید ہے اس میچ میں جو خامیاں نظر آئیں انھیں دور کر کے گرین کیپس بھرپور انداز میں آسٹریلیا پر حملہ آور ہوں گے، شکست کے باوجود بھرپور فائٹ نے شائقین کی امیدیں بیحد بڑھا دی ہیں،اب میلبورن میں فتح کی توقعات ہیں، مگر وہ صرف ایک کھلاڑی نہیں دلا سکتا اس کیلیے ٹیم ورک ضروری ہے، یہ بات سب کو یاد رکھنا ہوگی۔