یہ باسٹھ کی دنیا ہے
نئی ٹیکنالوجی اور عالمگیری معیشت کا تصور غربت اور عدم مساوات بڑھا نہیں رہا کم کر رہا ہے
گذشتہ سنیچر (دس دسمبر) کو انسانی حقوق کے عالمی دن کے موقع پر حسبِ توقع دو تین چینلز کی جانب سے رابطہ کیا گیا کہ اس موقع پر اسٹوڈیو میں آ کر یا بذریعہ ڈی ایس این جی کچھ کہہ دیجیے۔ایک این جی او نے نیوتا دیا کہ انسانی حقوق کے تحفظ کے لیے ہم نے سول سوسائٹی کی ایک واک منظم کی ہے۔آپ بھی آجائیں تو اچھا لگے گا۔ایک سیمینار کے منتظمین نے بھی کچھ ایسے ہی جذبات کا اظہار کیا۔مجھے ہر اہم عالمی دن بالخصوص انسانی حقوق کے دن اس طرح کی سرگرمیاں منظم کرنے والوں کے اخلاص پر قطعاً کوئی شبہہ نہیں۔مگر شائد بڑھتی عمر کے ساتھ آنے والے سنکی پن کے سبب مجھ جیسے لوگ اس نتیجے پر پہنچ رہے ہیں کہ کسی بھی مسئلے کے کنوئیں سے بھر بھر پانی ڈول نکالنے سے کیا فائدہ جب اس کنوئیں میں پڑا کتا نکالنے کی سکت ہی نہیں۔
عدم مساوات نامی اس کتے کو سب جانتے ہیں مگر دن بدن یہ اتنا پھولتا جا رہا ہے کہ شائد ایک دن ہمیں یہ متعفن کنواں ہی ترک کرنا پڑ جائے۔عدم مساوات دو دھاری تلوار ہے کچھ کو اتنی طاقت دے دیتی ہے کہ باقیوںکے پاس مزاحمت کے لیے بھی کچھ نہیں بچتا۔اب تو لگتا ہے کہ ترقی وہ جال ہے جس میں چند لوگ پوری دنیا کو جکڑ کے دائمی غلام بنانا چاہتے ہیں۔یہ اتنے طاقتور ہو چکے ہیں کہ ریاست کا ادارہ بھی ان کے آگے کچھ نہیں بیچتا۔بات اب محرومی اور نا محرومی کے سوال سے آگے بڑھ کے جینے اور مرنے کی حدود میں داخل ہو چکی ہے۔
آج کی نام نہاد ترقی یافتہ دنیا کی شکل کچھ یوں ہے کہ دنیا کی ایک فیصد آبادی ( آٹھ کروڑ ) کے قبضے میں جتنے وسائل ہیں وہ باقی ننانوے فیصد آبادی ( سات ارب بانوے کروڑ )کے زیرِ تصرف وسائیل کے برابر ہیں۔ صرف چھ برس پہلے تک اس دنیا کے تین سو اٹھاسی امیر ترین لوگوں کے قبضے میں جتنی دولت تھی وہ اس دنیا کی آدھی آبادی ( چار ارب )کے زیرِ تصرف مجموعی وسائل سے بھی زیادہ تھی۔ دو ہزار چودہ میں ان تین سو اٹھاسی امیر ترین افراد کی تعداد گھٹ کے اسی رھ گئی اور آج صرف باسٹھ امیر ترین افراد آدھی دنیا کے برابر دولت کے مالک ہیں۔
یہ باسٹھ جو ایک بس میں سما سکتے ہیں، انھوں نے باقی دنیا کو بے بس کر رکھا ہے۔اگلے دو برس میں یہ باسٹھ بھی گھٹ کے پچاس رھ جائیں گے۔اور اگر یہی رفتار رہی تو سن دو ہزار تیس میں صرف ایک امیر العالم (سپر رچ ) ہی پوری دنیا کے وسائل کنٹرول کر رہا ہوگا (مگر مجھے خوش فہمی ہے کہ شائد ایسا دن نہ آئے )۔
ہمیں یہ بتایا جاتا ہے کہ نئی ٹیکنالوجی اور عالمگیری معیشت کا تصور غربت اور عدم مساوات بڑھا نہیں رہا کم کر رہا ہے۔مثلاً ایک ارب تیس کروڑ بھارتیوں میں سے چالیس کروڑ اب متوسط طبقہ کہلاتے ہیں۔چین کی چالیس فیصد آبادی پچھلے بیس برس کے دوران انتہائی غربت سے نکل کر نیم متوسط معاشی دائرے میں داخل ہو چکی ہے۔پاکستان میں بس خیابان ِ معیشت( اکنامک کاریڈور ) مکمل ہونے کی دیر ہے۔ سب بنیادی دلدر دور ہوجائیں گے۔
مگر میں آئی ایم ایف ، عالمی بینک جیسے ساہو کاروں اور آکسفیم جیسی عالمگیر فلاحی تنظیموں کے اعداد و شمار کس چولہے میں ڈالوں جو ہماری ترقی یافتہ دنیا کی مجموعی تصویر یہ دکھا رہے ہیں کہ دو ہزار دس سے پندرہ کے درمیان صرف پانچ برس میں اس دنیا کی آدھی آبادی کی دولت میں اکتالیس فیصد کمی ہوئی ہے اور امیر ترین باسٹھ افراد کی مجموعی دولت پانچ کھرب ڈالر سے بڑھ کر تقریباً پندرہ کھرب ڈالر تک پہنچ چکی ہے۔
مگر یہ پندرہ کھرب ڈالر تو وہ ہیں جو نظر آ رہے ہیں۔ پرانے زمانے میں بدشکل خونخواردیو زاد جادوگر دل کش پریوں کو کوہِ قاف کے قلعے میں قید رکھتے تھے جہاںشہزادہ گلفام کے سوا کسی آدم زاد کو قدم رکھنے کی ہمت بھی نہیں ہوتی تھی۔آج کی دنیا میں یہ کوہ قاف پانامہ ، برمودا ، کیمن آئی لینڈ ، ورجن آئی لینڈ وغیرہ جیسے ناموں سے جانا جاتا ہے۔ یہاں کے مالیاتی قلعوں میں لکشمی دیوی کو ان دیو زادوں کی تحویل میں رکھا جاتا ہے جنھیں آپ بینکرز اور ٹیکس ایکسپرٹس اور چارٹرڈ اکاؤنٹینٹ کمپنیاں سمجھتے ہیں۔ان طلسماتی کوہ قافوں کے لاکرز میں امیر ترین افراد ، اداروں اور ملٹی نینشل کمپنیوں کے لگ بھگ اسی کھرب ڈالر ٹیکس اور احتساب کی گرم ہواؤں سے محفوظ پڑے ہیں۔
کرپشن اور ٹیکس چوری پر نگاہ رکھنے والے سرکردہ عالمی اداروں اور ماہرین کے مجموعی اندازوں کا اوسط نکالا جائے تو نقشہ یوں ہے کہ باقی چور تو رہے، ایک طرف صرف بین الاقوامی کمپنیاں ہی ہر سال درجنوں ریاستوں میں ایک سو ارب ڈالر کی ٹیکس چوری کرتی ہیں۔اگر آف شور کمپنیوں کے لاکرز میں پڑے یہ اسی کھرب ڈالر باقاعدہ عالمی معیشت کا حصہ بن جائیں تو ان سے ریاستوں کو ایک سو نوے بلین ڈالر کی سالانہ کی اضافی ٹیکس آمدنی ہو سکتی ہے۔
اس وقت براعظم افریقہ کی تیس فیصد دولت کے بارے میں اندازہ ہے کہ وہ سمندر پار اکاؤنٹس میں جمع ہے۔ اگر یہ تیس فیصد افریقی معیشت کا حصہ بن جائیں تو افریقی ممالک کو چودہ ارب ڈالر سالانہ کا اضافی ٹیکس مل سکتا ہے۔ اتنی رقم ہر افریقی بچے کو اسکول بھیجنے کے لیے کافی ہے۔مگر یہ اعداد و شمار جمع کرنے والے مورکھ یہ نہیں جانتے کہ مقصد ہر بچے کو تعلیم یافتہ اور صحت مند بنانا ہی ہوتا تو آف شور اکاؤنٹس کا وجود ہی کیوں ہوتا ؟
حل کیا ہے ؟ بے لگام انسانی لالچ اور سامنے والے کے خون کا آخری قطرہ نچوڑ کر پی جانے والے ڈریکولائی نظامِ معیشت کو عوام دوست بنانے کے لیے بظاہر کوئی ٹھوس شریفانہ حل نہیں۔مگر پنڈت لوگوں کا کہنا ہے کہ اگر آف شور بینکنگ کو ریاستی بینکنگ نظام میں ضم کرنے پر سب ریاستیں متفق ہو جائیں ، اگر یہ اصول کہ '' سب کو ٹیکس دینا چاہیے '' اس اصول سے بدل جائے کہ '' سب سے ٹیکس لینا چاہیے '' اور اگر یہ تہیہ کر لیا جائے کہ جو بھی ٹیکس وصولا جائے گا وہ بنیادی عوامی سہولتوں اور ادارتی اصلاحات پر ہی خرچ ہوگا اور اگر زیادہ سے زیادہ آمدنی اور کم سے کم آمدنی کے تفاوت کو کنٹرول کرنے کا نظام بنا لیا جائے تو شائد اس گلوبل ولیج میں باسٹھ چوہدری اور سات ارب بانوے کروڑ غلام نہ ہوں۔
مگر میرا بالکل زاتی خیال یوں ہے کہ اگر بلے کو دودھ کی رکھوالی سے پرے کر دیا جائے تو بنیادی حقوق سے نتھی اسی فیصد مسائیل کو نتھ ڈالی جا سکتی ہے۔لیکن ، چونکہ ، چنانچہ ، تاہم ، البتہ کی عادی اس دنیا میں دودھ کی رکھوالی پر بیٹھے بلے کے گلے میں گھنٹی باندھے گا کون؟