چکن گنیا کے ممکنہ حملے سے 2006 میں ہی خبردار کردیا تھا پروفیسر ڈاکٹر امتیاز
چکن گنیا وائرس بھی اُسی مچھر (ایڈیز البوپکٹس) میں پروان چڑھتا ہے جس میں ڈینگی کا وائرس پایا جاتا ہے،ماہرحشریات
KARACHI:
پاکستانی ماہر حشریات پروفیسر ڈاکٹر امتیاز احمد کا کہنا ہے کہ انہوں نے آج سے 10 سال قبل ہی چکن گنیا کے ممکنہ حملے سے حکام کو خبردار کردیا تھا اور تب وہ پاکستان میں ڈینگی کے پھیلاؤ سے متعلق ماہرین کی ایک ٹیم کی قیادت کررہے تھے۔
ڈاکٹر امتیاز کا یہ بھی کہنا تھا کہ چکن گنیا سے گھبرانے کی ضرورت نہیں کیونکہ یہ شدید بخار اور جوڑوں میں درد ضرور پیدا کرتا ہے لیکن عام طور پر ہلاکت کا باعث نہیں بنتا اور تقریباً ایک ہفتے میں اپنی مدت پوری کرکے ختم ہوجاتا ہے۔ ایکسپریس ڈاٹ پی کے سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے ڈاکٹر امتیاز کا کہنا تھا کہ اگرچہ میڈیا کو سنسنی پھیلانے سے باز رہنا چاہئے لیکن اس بات کا بھی قوی امکان ہے کہ یہ نامعلوم بیماری در حقیقت چکن گنیا ہی ہے۔
ڈاکٹر امتیاز نے بتایا کہ اس نامعلوم بیماری کی ظاہری علامات وہی ہیں جو چکن گنیا کی ہوتی ہیں جبکہ چکن گنیا وائرس بھی اُسی مچھر (ایڈیز البوپکٹس اور ایڈیز ایجپٹائی) میں پروان چڑھتا ہے جس میں ڈینگی کا وائرس پایا جاتا ہے؛ اور کراچی میں اس مچھر کی بہتات ہے، اس لئے انہیں خدشہ ہے کہ یہ چکن گنیا بخار ہی ہوسکتا ہے۔
کیا یہ بیماری ڈینگی وائرس کی کسی تبدیل شدہ قسم (mutated strain) کا نتیجہ ہوسکتی ہے؟ اس سوال کے جواب میں ڈاکٹر امتیاز نے کہا کہ اگرچہ یہ پہلو خارج از امکان نہیں لیکن بظاہر بہت کم ہے جب کہ زیادہ شواہد چکن گنیا ہی کی طرف اشارہ کررہے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ملیر کے دیہاتوں اور گرد و نواح کے علاقوں میں صفائی کی صورتِ حال باقی شہر کے مقابلے میں کہیں زیادہ خراب ہے جبکہ وہاں باغات اور کھیتوں کے علاوہ گلیوں اور سڑکوں پر بھی جا بجا پانی بہتا دکھائی دیتا ہے اور یہ کیفیات ایڈیز ایجپٹائی (ڈینگی اور چکن گنیا پھیلانے والے مچھر) کی نشوونما کےلئے بہترین ہیں۔ اگر اس وقت بھی ایڈیز ایجپٹائی مچھر کے پھیلاؤ پر قابو پانے کےلئے ضروری اقدامات کرلئے جائیں اور عوامی سطح پر آگہی کا اہتمام کرلیا جائے تو امید ہے کہ حالات جلد ہی بہتر ہوجائیں گے۔
ڈاکٹر امتیاز نے واضح کیا کہ گزشتہ چند ماہ سے بھارتی دارالحکومت دہلی بھی چکن گنیا کے شدید حملے کی لپیٹ میں ہے جس پر بھارتی میڈیا نے خاموشی اختیار کر رکھی ہے جب کہ وہاں بھی یہ مسئلہ شدید گندگی کے نتیجے میں پیدا ہوا ہے۔
یاد رہے کہ پروفیسر ڈاکٹر امتیاز احمد پاکستان کے ممتاز ترین ماہرِ حشریات ہیں جو گزشتہ 50 سال سے اس شعبے میں تحقیق سے وابستہ ہیں جنہیں ان کی طویل تحقیقی خدمات کے باعث متعدد ملکی اور غیرملکی اعزازات دیئے جاچکے ہیں۔
دوسری جانب سرکاری حکام نے کراچی میں چکن گنیا بخار کی موجودگی کے حوالے سے میڈیا میں آنے والی خبروں کی سختی سے تردید کرتے ہوئے کہا ہے کہ فی الحال اس پراسرار بیماری میں مبتلا مریضوں سے خون کے نمونے لے کر لیبارٹریوں میں جانچ کےلئے بھجوادیئے گئے ہیں اور جب تک اس جانچ کے حتمی نتائج نہیں آجاتے، تب تک وہ اس بارے میں کچھ نہیں کہہ سکتے اس لئے میڈیا کو بھی اس بارے میں سنسنی پھیلانے سے باز رہنا چاہئے کیونکہ جانچ کی رپورٹیں آنے میں تقریباً ایک ہفتہ لگ جائے گا۔
واضح رہے کہ اس وقت کراچی میں ملیر اور گرد و نواح کے دیہی علاقے ایک پراسرار بیماری کی لپیٹ میں ہیں جس کی ظاہری علامات میں تیز بخار (104 یا زیادہ) اور جوڑوں میں شدید درد سب سے نمایاں ہیں۔ اطلاعات کے مطابق اب تک ملیر اور شاہ فیصل کے مختلف اسپتالوں میں اس نامعلوم بیماری کے 2000 سے زائد مریض لائے جاچکے ہیں جن میں سے بیشتر کو ابتدائی علاج معالجے کے بعد رخصت کردیا گیا ہے کیونکہ اسپتالوں میں اتنے مریضوں کےلئے گنجائش نہیں۔
پاکستانی ماہر حشریات پروفیسر ڈاکٹر امتیاز احمد کا کہنا ہے کہ انہوں نے آج سے 10 سال قبل ہی چکن گنیا کے ممکنہ حملے سے حکام کو خبردار کردیا تھا اور تب وہ پاکستان میں ڈینگی کے پھیلاؤ سے متعلق ماہرین کی ایک ٹیم کی قیادت کررہے تھے۔
ڈاکٹر امتیاز کا یہ بھی کہنا تھا کہ چکن گنیا سے گھبرانے کی ضرورت نہیں کیونکہ یہ شدید بخار اور جوڑوں میں درد ضرور پیدا کرتا ہے لیکن عام طور پر ہلاکت کا باعث نہیں بنتا اور تقریباً ایک ہفتے میں اپنی مدت پوری کرکے ختم ہوجاتا ہے۔ ایکسپریس ڈاٹ پی کے سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے ڈاکٹر امتیاز کا کہنا تھا کہ اگرچہ میڈیا کو سنسنی پھیلانے سے باز رہنا چاہئے لیکن اس بات کا بھی قوی امکان ہے کہ یہ نامعلوم بیماری در حقیقت چکن گنیا ہی ہے۔
ڈاکٹر امتیاز نے بتایا کہ اس نامعلوم بیماری کی ظاہری علامات وہی ہیں جو چکن گنیا کی ہوتی ہیں جبکہ چکن گنیا وائرس بھی اُسی مچھر (ایڈیز البوپکٹس اور ایڈیز ایجپٹائی) میں پروان چڑھتا ہے جس میں ڈینگی کا وائرس پایا جاتا ہے؛ اور کراچی میں اس مچھر کی بہتات ہے، اس لئے انہیں خدشہ ہے کہ یہ چکن گنیا بخار ہی ہوسکتا ہے۔
کیا یہ بیماری ڈینگی وائرس کی کسی تبدیل شدہ قسم (mutated strain) کا نتیجہ ہوسکتی ہے؟ اس سوال کے جواب میں ڈاکٹر امتیاز نے کہا کہ اگرچہ یہ پہلو خارج از امکان نہیں لیکن بظاہر بہت کم ہے جب کہ زیادہ شواہد چکن گنیا ہی کی طرف اشارہ کررہے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ملیر کے دیہاتوں اور گرد و نواح کے علاقوں میں صفائی کی صورتِ حال باقی شہر کے مقابلے میں کہیں زیادہ خراب ہے جبکہ وہاں باغات اور کھیتوں کے علاوہ گلیوں اور سڑکوں پر بھی جا بجا پانی بہتا دکھائی دیتا ہے اور یہ کیفیات ایڈیز ایجپٹائی (ڈینگی اور چکن گنیا پھیلانے والے مچھر) کی نشوونما کےلئے بہترین ہیں۔ اگر اس وقت بھی ایڈیز ایجپٹائی مچھر کے پھیلاؤ پر قابو پانے کےلئے ضروری اقدامات کرلئے جائیں اور عوامی سطح پر آگہی کا اہتمام کرلیا جائے تو امید ہے کہ حالات جلد ہی بہتر ہوجائیں گے۔
ڈاکٹر امتیاز نے واضح کیا کہ گزشتہ چند ماہ سے بھارتی دارالحکومت دہلی بھی چکن گنیا کے شدید حملے کی لپیٹ میں ہے جس پر بھارتی میڈیا نے خاموشی اختیار کر رکھی ہے جب کہ وہاں بھی یہ مسئلہ شدید گندگی کے نتیجے میں پیدا ہوا ہے۔
یاد رہے کہ پروفیسر ڈاکٹر امتیاز احمد پاکستان کے ممتاز ترین ماہرِ حشریات ہیں جو گزشتہ 50 سال سے اس شعبے میں تحقیق سے وابستہ ہیں جنہیں ان کی طویل تحقیقی خدمات کے باعث متعدد ملکی اور غیرملکی اعزازات دیئے جاچکے ہیں۔
دوسری جانب سرکاری حکام نے کراچی میں چکن گنیا بخار کی موجودگی کے حوالے سے میڈیا میں آنے والی خبروں کی سختی سے تردید کرتے ہوئے کہا ہے کہ فی الحال اس پراسرار بیماری میں مبتلا مریضوں سے خون کے نمونے لے کر لیبارٹریوں میں جانچ کےلئے بھجوادیئے گئے ہیں اور جب تک اس جانچ کے حتمی نتائج نہیں آجاتے، تب تک وہ اس بارے میں کچھ نہیں کہہ سکتے اس لئے میڈیا کو بھی اس بارے میں سنسنی پھیلانے سے باز رہنا چاہئے کیونکہ جانچ کی رپورٹیں آنے میں تقریباً ایک ہفتہ لگ جائے گا۔
واضح رہے کہ اس وقت کراچی میں ملیر اور گرد و نواح کے دیہی علاقے ایک پراسرار بیماری کی لپیٹ میں ہیں جس کی ظاہری علامات میں تیز بخار (104 یا زیادہ) اور جوڑوں میں شدید درد سب سے نمایاں ہیں۔ اطلاعات کے مطابق اب تک ملیر اور شاہ فیصل کے مختلف اسپتالوں میں اس نامعلوم بیماری کے 2000 سے زائد مریض لائے جاچکے ہیں جن میں سے بیشتر کو ابتدائی علاج معالجے کے بعد رخصت کردیا گیا ہے کیونکہ اسپتالوں میں اتنے مریضوں کےلئے گنجائش نہیں۔