دہشت گردی کے خلاف اے این پی کی قربانیاں
بشیر احمد بلور پیدائشی طور پر ہی خدائی خدمت گار تحریک کا حصہ تھے جو نیپ سے سفر کرتے ہوئے اے این پی میں پہنچے
KARACHI:
جب سے عوامی نیشنل پارٹی نے دہشت گردی کے خلاف کاروائی کا آغاز کیا۔ اسی دن سے اے این پی ہدف بنی ہوئی ہے اور اسی وجہ سے اب تک اے این پی اپنے دو ایم پی ایز سمیت سینکڑوں کی تعداد میں کارکن گنوا چکی ہے
تاہم سینئر وزیر بشیر احمد بلور کو ہدف بنا کر عسکریت پسندوں نے اے این پی کو بڑا واضح پیغام دے دیا ہے کہ آئندہ عام انتخابات کے لیے میدان میں اترنا اے این پی کے لیے آسان نہیں ہوگا، گو کہ اس سے قبل دو ایم پی ایز اور سینکڑوں کی تعداد میں پارٹی کارکنوں کی ہلاکت کی صورت میں اے این پی کو جو نقصان اٹھانا پڑا ہے وہ بھی کم نہیں ہے تاہم بشیر احمد بلور کی موت کی صورت میں جو نقصان اے این پی کو پہنچا ہے وہ ناقابل تلافی ہے کیونکہ بشیر احمد بلور اے این پی کے ان رہنمائوں میں سے تھے جو دہشت گردی کے خلاف موجودہ صورت حال میں فرنٹ مین کا کردار ادا کررہے تھے اور کسی بھی کاروائی کی صورت میں منظر پر جو نظر آتے ہیں وہ یا تو وزیراطلاعات میاں افتخار حسین ہیں یا پھر سینئر وزیر بشیر احمد بلور تھے جو ہر فورم پر اپنی پارٹی اور اس کی پالیسیوں کا دفاع کرتے ہوئے دکھائی دیتے تھے، تاہم اب وہ نہیں رہے جس کے باعث یقینی طور پر اے این پی کو اپنے موقف اور پالیسیوں کے دفاع کے حوالے سے بھی مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔
بشیر احمد بلور پیدائشی طور پر ہی خدائی خدمت گار تحریک کا حصہ تھے جو نیپ سے سفر کرتے ہوئے اے این پی میں پہنچے اور انہوں نے تمام الیکشن اے این پی ہی کے پلیٹ فارم سے لڑے تھے اور پارٹی کے سینئر ترین رہنمائوں میں شامل ہونے کی وجہ سے جب 2008 ء کے عام انتخابات میں اے این پی نے اکثریت حاصل کی اور مرکز کی جانب سے آشیر باد ملنے کے بعد اس پوزیشن میں آگئی کہ صوبہ میں حکومت بنائے تو خیال یہی کیا جارہا تھا کہ بشیر احمد بلور کو وزیر اعلیٰ کے عہدہ کے لیے نامز دکیاجائے گا ، تاہم پارٹی کا فیصلہ ان کے حق میں نہیں آیا اور انھیں وزارت اعلیٰ کے لیے نامزد کرنے کی بجائے سینئر وزیر اور صوبائی اسمبلی میں پارلیمانی لیڈر کے عہدوں کے لیے نامزد کیا گیا ۔ اس کے باوجود سوات کے طالبان سے مذاکرات سے لے کر دہشت گردی کے حوالے سے پارٹی اور حکومتی پالیسیوں کا دفاع کرنے تک بشیر احمد بلور صف اول میں کھڑے نظر آئے اور انہوں نے ثابت کردیا کہ عہدوں کے متمنی نہیں بلکہ پارٹی کے وفادار ہیں اور رہیں گے ۔
حالات کی خبر رکھنے والوں کا کہنا ہے کہ امریکہ کے 2014 ء میں افغانستان سے انخلاء سے قبل پاکستان کے قبائلی علاقوں ،خیبرپختونخوا اور اسی طرح ملک کے دیگر حصوں پر نہایت سخت وقت آنے والا ہے کیونکہ افغانستان میں جاری جنگ اور صورت حال کو پاکستان کی جانب منتقل کرنے کی کوشش کی جارہی ہے جس کی وجہ سے 2008 ء سے پاکستان میں جو حالات دیکھنے کو مل رہے ہیں اس سے زیادہ برے حالات پیدا ہوسکتے ہیں اور جس انداز میں پشاور میں ائیر پورٹ پر حملہ کیا گیا اور ایک ہی رات دو پولیس چوکیوں پر عسکریت پسندوں نے دھاوا بولا ، اب صوبائی حکومت کے ایک اہم ستون کو نشانہ بنایا گیا اس صورت حال کے ڈانڈے انہی تجزیوں سے ملانے کی کوشش کی جارہی ہے جو امریکہ کے افغانستان سے انخلاء کے حوالے سے پاکستان میں بننے والی صورت حال کے بارے میں کیے جارہے ہیں جس کے حوالے سے نہ صرف حکومت کو اپنی پالیسیوں پر نظر ثانی کرتے ہوئے انھیں موجودہ حالات کے مطابق بنانا ہوگا بلکہ مشرق اور مغرب کی جانب پڑوسی ممالک کے ساتھ تعلقات کی موجودہ نوعیت کا بھی جائزہ لینا ہوگا تاکہ آنے والے برے دنوں کی روک تھام کی جاسکے ۔
امن وامان کی موجودہ صورت حال اور سیاسی رہنمائوں او راجتماعات کو ٹارگٹ بنائے جانے کے واقعات نے آئندہ عام انتخابات پر سوالیہ نشان لگادیا ہے کیونکہ ان حالات کے تناظر میں پہلے ہی سے خدشات کا اظہار کیاجارہاتھا کہ عام انتخابات ملتوی بھی ہوسکتے ہیں کیونکہ ایک ایسے ماحول میں جبکہ تمام سیاسی پارٹیاں اور ان کے امیدوار اپنے ووٹروں تک پہنچنے کے لیے جلسے ،جلوسوں اور دیگر سیاسی سرگرمیوں میں مصروف ہوں گے ،سیکورٹی اداروں کی جانب سے ا ن کی حفاظت کی کس حد تک ضمانت دی جاسکے گی؟ اور اگر اس حد تک ان کی سیکورٹی کو ممکن بنا بھی لیاجائے تو کیا ان حالات میں یہ امیدوار اور سیاسی پارٹیاں عوا م تک اپنا پیغام پہنچانے میں کامیاب ہوپائیں گی ؟اور ان حالات میں پولنگ ڈے پر ووٹ ڈالنے کے لئے ووٹروں کو گھروں سے کیسے نکالاجائے گا ؟یہ سارے وہ سوالات ہیں جو کم ازکم خیبرپختونخوا اور قبائلی علاقہ جات کی حدتک حکومت اور سیاسی جماعتوں کے سامنے کھڑے ہیں جن کا جواب تلاش کرنا ان کے لیے اس اعتبار سے ضروری ہوگا کہ اگر ان کی جانب توجہ نہ دی گئی تو الیکشن کے لیے میدان میں اترنا انہی سیاسی جماعتوں کے لیے مشکل بھی ہوگا۔
جب سے عوامی نیشنل پارٹی نے دہشت گردی کے خلاف کاروائی کا آغاز کیا۔ اسی دن سے اے این پی ہدف بنی ہوئی ہے اور اسی وجہ سے اب تک اے این پی اپنے دو ایم پی ایز سمیت سینکڑوں کی تعداد میں کارکن گنوا چکی ہے
تاہم سینئر وزیر بشیر احمد بلور کو ہدف بنا کر عسکریت پسندوں نے اے این پی کو بڑا واضح پیغام دے دیا ہے کہ آئندہ عام انتخابات کے لیے میدان میں اترنا اے این پی کے لیے آسان نہیں ہوگا، گو کہ اس سے قبل دو ایم پی ایز اور سینکڑوں کی تعداد میں پارٹی کارکنوں کی ہلاکت کی صورت میں اے این پی کو جو نقصان اٹھانا پڑا ہے وہ بھی کم نہیں ہے تاہم بشیر احمد بلور کی موت کی صورت میں جو نقصان اے این پی کو پہنچا ہے وہ ناقابل تلافی ہے کیونکہ بشیر احمد بلور اے این پی کے ان رہنمائوں میں سے تھے جو دہشت گردی کے خلاف موجودہ صورت حال میں فرنٹ مین کا کردار ادا کررہے تھے اور کسی بھی کاروائی کی صورت میں منظر پر جو نظر آتے ہیں وہ یا تو وزیراطلاعات میاں افتخار حسین ہیں یا پھر سینئر وزیر بشیر احمد بلور تھے جو ہر فورم پر اپنی پارٹی اور اس کی پالیسیوں کا دفاع کرتے ہوئے دکھائی دیتے تھے، تاہم اب وہ نہیں رہے جس کے باعث یقینی طور پر اے این پی کو اپنے موقف اور پالیسیوں کے دفاع کے حوالے سے بھی مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔
بشیر احمد بلور پیدائشی طور پر ہی خدائی خدمت گار تحریک کا حصہ تھے جو نیپ سے سفر کرتے ہوئے اے این پی میں پہنچے اور انہوں نے تمام الیکشن اے این پی ہی کے پلیٹ فارم سے لڑے تھے اور پارٹی کے سینئر ترین رہنمائوں میں شامل ہونے کی وجہ سے جب 2008 ء کے عام انتخابات میں اے این پی نے اکثریت حاصل کی اور مرکز کی جانب سے آشیر باد ملنے کے بعد اس پوزیشن میں آگئی کہ صوبہ میں حکومت بنائے تو خیال یہی کیا جارہا تھا کہ بشیر احمد بلور کو وزیر اعلیٰ کے عہدہ کے لیے نامز دکیاجائے گا ، تاہم پارٹی کا فیصلہ ان کے حق میں نہیں آیا اور انھیں وزارت اعلیٰ کے لیے نامزد کرنے کی بجائے سینئر وزیر اور صوبائی اسمبلی میں پارلیمانی لیڈر کے عہدوں کے لیے نامزد کیا گیا ۔ اس کے باوجود سوات کے طالبان سے مذاکرات سے لے کر دہشت گردی کے حوالے سے پارٹی اور حکومتی پالیسیوں کا دفاع کرنے تک بشیر احمد بلور صف اول میں کھڑے نظر آئے اور انہوں نے ثابت کردیا کہ عہدوں کے متمنی نہیں بلکہ پارٹی کے وفادار ہیں اور رہیں گے ۔
حالات کی خبر رکھنے والوں کا کہنا ہے کہ امریکہ کے 2014 ء میں افغانستان سے انخلاء سے قبل پاکستان کے قبائلی علاقوں ،خیبرپختونخوا اور اسی طرح ملک کے دیگر حصوں پر نہایت سخت وقت آنے والا ہے کیونکہ افغانستان میں جاری جنگ اور صورت حال کو پاکستان کی جانب منتقل کرنے کی کوشش کی جارہی ہے جس کی وجہ سے 2008 ء سے پاکستان میں جو حالات دیکھنے کو مل رہے ہیں اس سے زیادہ برے حالات پیدا ہوسکتے ہیں اور جس انداز میں پشاور میں ائیر پورٹ پر حملہ کیا گیا اور ایک ہی رات دو پولیس چوکیوں پر عسکریت پسندوں نے دھاوا بولا ، اب صوبائی حکومت کے ایک اہم ستون کو نشانہ بنایا گیا اس صورت حال کے ڈانڈے انہی تجزیوں سے ملانے کی کوشش کی جارہی ہے جو امریکہ کے افغانستان سے انخلاء کے حوالے سے پاکستان میں بننے والی صورت حال کے بارے میں کیے جارہے ہیں جس کے حوالے سے نہ صرف حکومت کو اپنی پالیسیوں پر نظر ثانی کرتے ہوئے انھیں موجودہ حالات کے مطابق بنانا ہوگا بلکہ مشرق اور مغرب کی جانب پڑوسی ممالک کے ساتھ تعلقات کی موجودہ نوعیت کا بھی جائزہ لینا ہوگا تاکہ آنے والے برے دنوں کی روک تھام کی جاسکے ۔
امن وامان کی موجودہ صورت حال اور سیاسی رہنمائوں او راجتماعات کو ٹارگٹ بنائے جانے کے واقعات نے آئندہ عام انتخابات پر سوالیہ نشان لگادیا ہے کیونکہ ان حالات کے تناظر میں پہلے ہی سے خدشات کا اظہار کیاجارہاتھا کہ عام انتخابات ملتوی بھی ہوسکتے ہیں کیونکہ ایک ایسے ماحول میں جبکہ تمام سیاسی پارٹیاں اور ان کے امیدوار اپنے ووٹروں تک پہنچنے کے لیے جلسے ،جلوسوں اور دیگر سیاسی سرگرمیوں میں مصروف ہوں گے ،سیکورٹی اداروں کی جانب سے ا ن کی حفاظت کی کس حد تک ضمانت دی جاسکے گی؟ اور اگر اس حد تک ان کی سیکورٹی کو ممکن بنا بھی لیاجائے تو کیا ان حالات میں یہ امیدوار اور سیاسی پارٹیاں عوا م تک اپنا پیغام پہنچانے میں کامیاب ہوپائیں گی ؟اور ان حالات میں پولنگ ڈے پر ووٹ ڈالنے کے لئے ووٹروں کو گھروں سے کیسے نکالاجائے گا ؟یہ سارے وہ سوالات ہیں جو کم ازکم خیبرپختونخوا اور قبائلی علاقہ جات کی حدتک حکومت اور سیاسی جماعتوں کے سامنے کھڑے ہیں جن کا جواب تلاش کرنا ان کے لیے اس اعتبار سے ضروری ہوگا کہ اگر ان کی جانب توجہ نہ دی گئی تو الیکشن کے لیے میدان میں اترنا انہی سیاسی جماعتوں کے لیے مشکل بھی ہوگا۔