سانحہ کوئٹہ کمیشن رپورٹ اور حکومتی ترجیحات

سانحہ کوئٹہ کمیشن رپورٹ میں حکومت کے لیے بہت کچھ ہے۔۔۔


علی احمد ڈھلوں December 21, 2016
[email protected]

اگر مجھ سے یہ پوچھا جائے کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سانحہ کوئٹہ کے حوالے سے رپورٹ میں کیا نیا ہے؟ تو میرا جواب یہی ہوگا کہ یہ رپورٹ قلیل مدت میں ایک رکنی کمیشن نے تندہی، بہادری اور پروفیشنل اندز میںبنائی اور حکومت کے ہاتھوں میں دینے سے پہلے اسے ''پبلک'' کیا اور پہلی بار ایسا لگا کہ اس ملک کے عوام کا بھی سرکاری رپورٹس اور کمیشنز پر اتنا ہی ''حق'' ہے جتنا صاحب ِاقتدار لوگوں کا ہوا کرتا ہے۔ ماضی میں کمیشن رپورٹس کو آج تک محض اس لیے ''پبلک'' نہیں کیا گیا کہ شاید رپورٹس کو منظر عام پر لانے سے ملکی سلامتی کا خطرہ پیدا ہوتا ہو! جو کم از کم جابر حکمرانوں کے سامنے کلمہ حق تو کہتے ہیں ورنہ عوام کو پتھر بنا دیا گیا ہے، بقول شاعر

میں آ ہستہ آہستہ پتھر کا ہو رہا ہوں

یہ مجھ پر میرے حکمرانوں کی عنائتیں ہیں

مذکورہ رپورٹ میں حکومت کے لیے بہت کچھ ہے، معزز جج نے جس چیز کی ضرورت محسوس کی اسے رپورٹ کا بہادری سے حصہ بنایا۔ اس رپورٹ میں 18تجاویز بھی دی گئی ہیںجن پر اگر عمل درآمد ہو جائے تو ملک میں دہشت گردوں کے چھپے ہوئے گروہوں کا مکمل خاتمہ کیا جا سکتا۔ بہرکیف تمام تجاویز ایک سے بڑھ کر ایک ہیں۔ ان میں سے ایک تجویز نمبر 7 آپ کے سامنے رکھتا ہوں جس کے مطابق ''تمام کرائم سین کو پیشہ ورانہ طریقے سے محفوظ کیا جانا چاہیے، فرانزک معائنہ کیا جانا چاہیے، اور جلد زیادہ سے زیادہ تصاویر لے کر محفوظ کی جانی چاہئیںاور اگر تفتیشی افسرتفتیش کرنے میں ناکام رہتا ہے تو یہ ''فعل'' اس کی ذاتی فائل میں ریکارڈ کیا جانا چاہیے اور اس افسر کے خلاف تادیبی کارروائی کی جانی چاہیے''۔ یقین مانیں یہ پڑھ کر میں ایک دفعہ رک گیا اور سوچ میں پڑھ گیا کہ کہیں کمیشن ''دودھ کا رکھوالا بلا '' والی کہاوت تو نہیں کہہ گئے یعنی بادی النظر میں پیٹی بھائی دوسرے پیٹی بھائی کے خلاف تادیبی کارروائی کرے۔ یہ بالکل ایسے ہی ہے جیسے ایک سابقہ صدر پاکستان کو موجودہ حکمرانوں پر نظر رکھنے کی ذمے داری ڈال دی جائے، پھر بقول شاعر ہمارے حکمران شاید یہ کہہ رہے ہوں کہ

کتنے پختہ یقین دلا کے عدم

راز داروں نے مار ڈالا ہے

ہاں اس رپورٹ میں وزارت داخلہ کی ''دھجیاں'' اُڑتی ضرور نظر آتی ہیں، تبھی تو چوہدری نثار علی خان پریس کانفرنس کرنے کے لیے آگئے۔ ان کے والد قاضی عیسیٰ بھی ایک نامور وکیل تھے۔ انھوں نے بلوچستان میں آل انڈیا مسلم لیگ بنائی۔ وہ مسلم لیگ کی ورکنگ کمیٹی میں بلوچستان کے نمایندے تھے اور 23 مارچ 1940ء کی قرارداد لاہور منظور کرنے والوں میں شامل تھے۔ قاضی فائز عیسیٰ نے بلوچستان ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کی حیثیت سے صوبے میں عدلیہ کو نیچے سے اوپر تک ازسر نو منظم کیا۔

ان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ کسی مقدمے کی سماعت کے دوران بڑے سے بڑے وکیل کا لحاظ نہیں کرتے اور بڑے سخت سوالات کرتے ہیں، اگر وہ عدالت میں کسی سوال پر اٹک جائیں تو جواب لیے بغیر مقدمہ آگے نہیں بڑھنے دیتے، جسٹس قاضی فائز عیسی نے سیکریٹری داخلہ سے کہا ''جماعت الاحرار اور لشکر جھنگوی العالمی بم دھماکوں کی ذمے داری قبول کر رہی ہیں ، پھر بھی حکومت انھیں کالعدم ڈکلیئر کرنے سے کیوں کترا رہی ہے؟''۔سیکریٹری داخلہ نے آئی بائیں شائیں کیا اور آخر کار مان لیا کہ ''انھیں نہیں معلوم! انھوں نے کمیشن کی رپورٹ بناتے وقت بھی کسی کا نہ لحاظ کیا اور نہ کسی کو چھوڑا۔ کمیشن کے مطابق بلوچستان میں قانون پر عملدرآمد نہیں کیا جاتا اور اقربا پروری کا کلچر ہے جس کی وجہ سے غیر قانونی طور پر نا اہل افراد کو بھرتی کیا جاتا ہے۔ اس ضمن میں سیکریٹری ہیلتھ کا حوالہ دیا گیا ... مزید یہ کہ ایف سی سول انتظامیہ کو جوابدہ نہیں ۔

داخلی قومی سیکیورٹی پالیسی پر عمل نہیں کیا جا رہا۔ یہ وزارت غیر واضع لیڈر شپ اور ہدایات کے بغیر چل رہی ہے اور ''دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے اپنے کردار کے بارے میں کنفیوژن کا شکار ہے۔ نیشنل ایکشن پلان کے بارے میں کہا گیا کہ '' مزکورہ پلان بامعنی یا منظم منصوبہ نظر نہیں آرہا۔'' وفاقی وزارت داخلہ کی کارکردگی کا عالم یہ ہے ساڑھے تین سال کے دوران نیکٹا کی ایگزیکٹیو کمیٹی کا فقط ایک اجلاس منعقد ہوا۔ رپورٹ کے مطابق نیکٹا ایکٹ پر عملدرآمد نہیں کیا جا رہا ہے اور نیکٹا مکمل طور پر ناکام ہو گیا ہے۔ ہم تو بس عام عوام ہیںجنھیں دہشت گردوں، چوروں، لٹیروں اور ڈاکوؤں کے آسرے پر چھوڑ دیا گیا ہے''۔ میرے خیال میں وزیر داخلہ نے اختلاف کے حق کو جس طرح استعمال کیا ہے، وہ درست نہیں ہے۔

مختصر یہ کہ کمیشن کی رپورٹ میں حکومتوں سے بڑھ کر ریاست کی عملداری کا سوال بین السطور ہے۔ یہ رپورٹ اس امر کی نشاندہی کر رہی ہے کہ قانون کی عملداری ناپید ہے اور حکومتی ترجیحات میں سے دہشت گردی کے خاتمے کا لفظ ہی نکل چکا ہے اور یہ بات صرف بلوچستان یا کوئٹہ تک محدود نہیں بلکہ پورے ملک بشمول آزاد کشمیر، گلگت بلتستان اور فاٹا ہر جگہ کی ہے۔ اقربا پروری اورسفارش پر تعینات ہونے والے افسر معاشرے میں موجود کالی بھیڑوں کے ہاتھوں کھلونا بن جاتے ہیں۔ بلوچستان کے وزرائے اعلیٰ پہلے بھی کراچی اور اسلام آباد میں اپنا وقت زیادہ گزارتے تھے اور اب بھی ایسا ہی ہے۔ مقتدر قوتوںنے ہمیشہ سرداروں اور نوابوں کے ذریعے بلوچستان کے عام لوگوں کو قابو میں رکھنے کی کوشش کی ہے۔ یہ ان سرداروں کو بھی بخوبی معلوم ہے کہ ان کے بغیر ریاست کا گزارا نہیں، اسی لیے بیوروکریسی اور پولیس سب کچھ انھی کا ہوتا ہے۔ بہرحال اگر کمیشن بنائے جائیں تو ان کی رپورٹس کا بھی احترام کیا جانا چاہیے۔

ابھی کل ہی کی بات ہے کہ جسٹس جاوید اقبال بھی ایبٹ آباد کمیشن رپورٹ کے حوالے سے پھٹ پڑے ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ ایبٹ آباد کمیشن رپورٹ پر 6 ماہ کام کیا اور اس میں تمام ذمے داروں کا تعین کر لیا تھا ، کمیشن نے اپنی رپورٹ میں جو سفارشات پیش کی تھیں اگر ان پر عمل درآمد ہوتا تو آج حالات مختلف ہوتے اور نئے ادارے بنانے کی ضرورت نہ پڑتی۔ ایبٹ آباد کمیشن کی رپورٹ کسی الماری میں پڑی ہوگی، اگر حکومتی ترجیحات کے حوالے سے بات کی جائے تو کوئٹہ کمیشن کی رپورٹ موجودہ حالات میں حکومت اور غیر حکومتی ادروں کے لیے بانگ درا کی حیثیت رکھتی ہے۔

اس رپورٹ کی سفارشات پر عمل درآمد کیا جائے تو کم از کم ادارہ جاتی کمزوریوں پر قابو پانے میں مدد ملے گی۔ اس بات کی تو کوئی گارنٹی نہیں کہ سانحہ کوئٹہ جیسے واقعات آیندہ نہیں ہوں گے تاہم اس رپورٹ پر عمل درآمد سے ایسے واقعات کے بعد جوابی اقدامات میں بہتری لائی جاسکتی ہے۔ اگر اس رپورٹ کی سفارشات پر عمل درآمد نہ کیا گیا تو اس ملک میں ماضی میں بننے والے دیگر کمیشنوں کی رپورٹوں کے طاقچے میں ایک اور رپورٹ کے اضافہ کے سوا کچھ نہیں ہوگا...!

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں