انتخابات کے لئے پیپلز پارٹی کی سیاسی حکمت عملی

کوئی مانے یا نہ مانے بلاول بھٹو، بختاور اور آصفہ پارٹی کے چہرے کی حیثیت رکھتے ہیں۔


Khalid Qayyum December 25, 2012
کوئی مانے یا نہ مانے بلاول بھٹو، بختاور اور آصفہ پارٹی کے چہرے کی حیثیت رکھتے ہیں۔ فوٹو: فائل

امریکہ کی چوٹی کی یونیورسٹی سے اعلیٰ تعلیم حاصل کرکے وطن لوٹنے والے ذہین، فطین اور وجیہہ ذوالفقار علی بھٹو سکندر مرزا کابینہ میں وزارت کا قلمدان سنبھالنے والے سب سے کم عمر نوجوان تھے۔

انہیں ایوب خان کابینہ میں بھی اکلوتے سویلین وزیر بننے کا اعزاز حاصل ہوا، جلد ہی ان کی صلاحیتوں کو بھانپتے ہوئے انہیں پاکستان کا وزیر خارجہ مقرر کیاگیا اور پھر انہوں نے دنیا بھر کواپنی بصیرت سے مسحور کردیا۔ اب ان کی اگلی منزل ملک کا سربراہ بننا تھا جسے انہوں نے چند گام میں ہی حاصل کرلیا، اب ان کی سیاست کاچہار دانگ عالم میں ڈنکا بج رہا تھا لیکن پھر بقول خود ان کے ''سفید ہاتھی'' ان کی جان کا دشمن بن گیا اور اس سفید ہاتھی کے ایجنٹوں نے انہیں تختہ دار پر چڑھا دیا لیکن جنہوں نے یہ سوچا تھا کہ زندگی کے چھن جانے سے بھٹو لیگیسی بھی ختم ہوجائے گی، وہ یہ دیکھ کر حواس باختہ ہیں کہ بھٹو کل بھی زندہ تھا اور آج بھی زندہ ہے اور یہ نعرہ کہ ''تم کتنے بھٹو مارو گے، ہر گھر سے بھٹو نکلے گا'' ہر جیالے کی زبان پر ہے۔

بھٹو کے نام میں اتنی کشش تھی کہ ان کی جلاوطن بیٹی بینظیر بھٹو وطن واپس آئیں تو باپ کے منصب جلیلہ پر فائز کردی گئیں اور اب بینظیر کا نو خیز نور نظر، لخت جگر بلاول بھٹو زرداری اپنے نانا کی پیپلزپارٹی جو بلا شبہ ملک کی سب سے بڑی سیاسی جماعت کا درجہ حاصل کرچکی ہے کا چیئرمین نامزد کیا جاچکا ہے جبکہ بلاول کے والد اور صدر پاکستان آصف علی زرداری ان کی نیابت میں بیٹھے ان کی مشاورت کر رہے ہیں۔ اگرچہ بلاول بھٹو زرداری ستمبر 2013ء میں 25سال کے ہوں گے جو انتخاب لڑنے کی کم از کم عمر ہے تاہم صدر زرداری اپنے بلند منصب بیٹے کو آئندہ عام انتخابات میں میدان میں اتار کر ان کے باقاعدہ سیاسی کیریئر کا آغاز کرنا چاہتے ہیں۔ جس طرح بھارت میں کسی گاندھی کے بغیر کانگریس کیلئے انتخابی مہم چلانا ممکن نہیں، ایسے ہی پیپلزپارٹی بھٹوز کے بغیر انتخابی مہم چلانے کا سوچ بھی نہیں سکتی ۔

کوئی مانے یا نہ مانے بلاول بھٹو، بختاور اور آصفہ پارٹی کے چہرے کی حیثیت رکھتے ہیں۔ پیپلزپارٹی اور بھٹوز ایک ہی چیز کے دونام ہیں۔ جب کسی انتخابی ریلی سے کوئی بھٹو خطاب کررہا ہو تو پارٹی ورکروں اور ووٹروں میں غیر معمولی جوش و خروش پیدا ہوجاتا ہے، اس حقیقت کا احساس پارٹی قیادت کو بخوبی ہے لہٰذا وہ کسی صورت اسے کھونا نہیں چاہتی خصوصاً ایسے ماحول میں جب الیکشن سر پر آگئے ہیں۔ بختاور 22سال کی ہوچکی ہیں مگر انہیں سیاست میں زیادہ دلچسپی نہیں۔ آصفہ 19 سال کی ہیں (یعنی ٹین ایج کے آخری سال میں) لہٰذا ابھی وہ جلسہ عام سے خطاب کرنے کے حوالے سے کم عمر ہیں۔

یہاں اس بات کا تذکرہ ضروری ہے کہ پارٹی لیڈروں کا ایک گروپ بلاول کو باقاعدگی کے ساتھ ضروری تربیت بہم پہنچا کر سیاسی بلوغت کی منازل طے کرنے میں مدد کررہا ہے، ان کے کام کو بلاول بھٹو نے سیاست میں گہری دلچسپی لے کر آسان کردیا ہے۔ بلاول نے پچھلے دنوں ایوان صدر میں طلبہ کے ایک گروپ کے سامنے جو تقریر کی، اس میں خیالات کی پختگی بہت سے لوگوں کی توقعات سے بھی بڑھ کر تھی۔ 4000 الفاظ پر مشتمل تقریر انہوں نے فی البدیہہ کر دی۔ یہ ایک ایسی مربوط تقریر تھی جس میں ملک کے تقریباً تمام داخلی و خارجی مسائل و معاملات کا احاطہ کیا گیا تھا۔

ملک بھر کی یونیورسٹیوں کے چیدہ چیدہ طلبہ کے سامنے بلاول کی تقاریر کا سلسلہ دراصل سیاسی بنیادوں پر تموج پیدا کرنے کی ابتداء ہے۔ تقریر میں بلاول نے عسکریت پسندی کے خلاف پارٹی کی پالیسی پر روشنی ڈالی اور پارٹی حکومت کی گزشتہ ساڑھے چار سالہ کارکردگی اور کامیابیوں کو بیان کیا اور ساتھ ہی انتخابات میں پارٹی کے حریفوںنواز شریف، عمران خان، جماعت اسلامی اور دیگر سیاسی قوتوں کے ساتھ تعاون و اشتراک کا عندیہ بھی دیا اور اپنی والدہ کے ویژن پر بھی روشنی ڈالی اور ملک کی آزادی و ترقی کیلئے ہر قربانی دینے کا عزم ظاہر کیا۔

اب ایک منظر ملاحظہ کریں، 25 دسمبر 2102ء بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح کے یوم پیدائش پر مزار قائد کے باہر ایک کالے رنگ کی مرسیڈیز گاڑی رکی، دروازہ کھلا تو دو روائتی مہمانوں کے ہمراہ ایک غیر روائتی مہمان بھی گاڑی سے اترا۔گورنر سندھ عشرت العباد اور وزیراعلیٰ سندھ سیدقائم علی شاہ اپنے سرکاری فرائض کی انجام دہی کیلئے قائداعظم کے مزار پر پہنچے تھے ، ان کے ساتھ شلوار قمیض میں ملبوس بلاول بھٹو بھی تھے۔

مزار قائداعظم پر حاضری دے کر انہوں نے یہ مخمصہ دور کردیا کہ پیپلزپارٹی کی الیکشن مہم کو کون لیڈ کرے گا؟ 27دسمبر کو گڑھی خدا بخش میں بے نظیر بھٹو کی پانچویں برسی پر بلاول بھٹو زرداری پیپلزپارٹی کے بڑے اجتماع سے خطاب کریں گے، یہ پیپلزپارٹی کی انتخابی مہم کا نکتۂ آغاز ہوگا۔ جنوری 2013سے وہ پارٹی کی مرکزی قیادت کے ہمراہ ملک بھر کا دورہ کریں گے اور مقامی پارٹی قیادت اور کارکنوں سے ملاقاتیں کریں گے۔ وہ اپنے دورے کا آغاز لیاری سے کریں گے۔

بلاول بھٹو صدر آصف زرداری اور بے نظیر بھٹو کے اکلوتے صاحبزادے ہیں۔ پیپلزپارٹی کے کارکن بھٹواور بے نظیر بھٹو کو اپنا سیاسی قائد مانتے ہیں، جب وہ بلاول کو اپنے درمیان دیکھیں گے تو جوش وجذبات کا طوفان امڈآئے گا، میں تصور کی آنکھ سے بلاول کو جلسہ عام سے خطاب کرتے دیکھ رہاہوں، پتہ نہیں مخالفین دیکھ رہے ہیں یا نہیں لیکن ایک بات طے ہے کہ بلاول والی پیپلز پارٹی کو انتخابی میدان میں ہرانا پہاڑ سے دودھ کی نہر نکالنے کے مترداف ہوگا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں