خودساختہ نمائندے
دنیا میں کوئی اور ملک ایسا نہیں ہے جسے ایسی الجھن درپیش ہے، جیسی ہمیں ہے۔۔۔
ISLAMABAD:
سولہویں صدی کے آغاز میں یورپ سیکولرازم سے روشناس ہوا، جس کے تحت پہلے سائنس، پھر عمومی علم، پھر سیاست، طاقت اور آخر میں کلچر آتا ہے، جس کے ذریعے انھوں نے مذہبی انتہاپسندی سے چھٹکارا حاصل کرلیا۔ یوں سیکولر یونیورسٹی وجود میں آئی، پھر سیکولر قوم یا ملک اور پھر سیکولر معاشرہ۔ یہ دراصل ان کی ناکامی تھی جو زمین پر خود کو خدا کا نمایندہ قرار دیتے تھے اور جنھوں نے عقل ودانش پر پابندی عائد کر رکھی تھی، جنھوں نے سوچ پر پہرے بٹھا رکھے تھے، جو اپنے علاوہ کسی اور کو مذہب پر سوچ و بچار کا حق نہیں دیتے تھے اور جو صرف اپنے آپ کو حق اور باقی سب کو باطل سمجھتے تھے۔ اور یہ ان لوگوں کی کامیابی تھی جو عقل کی حکمرانی پر یقین رکھتے تھے، جو 'سوچو اور فکر کرو' کے پجاری تھے۔ اس کے بعد آہستہ آہستہ پوری دنیا کے لوگ ان زنجیروں سے آزاد ہوتے چلے گئے جو انھیں مذہب کے نام پر پہنائی گئی تھیں۔
دوسری طرف جب ہم آج اپنے معاشرے پر نظریں دوڑاتے ہیں تو ہم پر وحشت ناک انکشاف ہوتا ہے کہ ہمارے معاشرے میں وہی سب کچھ ہورہا ہے جو صدیوں قبل یورپ میں ہوتا تھا۔ آج ہمارے معاشرے میں بھی خدا کے خودساختہ نمایندے گلی گلی میں پھر رہے ہیں، جو مذہب کے ٹھیکیدار بنے ہوئے ہیں، جو اختلاف پر موت کے پروانے جاری کردیتے ہیں، جو جنت اور دوزخ میں داخلے کے آرڈر لیے لیے پھرتے ہیں، جو اپنی زبان سے نکلے ہر لفظ کو قانون کا درجہ دیتے ہیں، جو اپنے علاوہ باقیوں کو مسلمان ماننے کے لیے تیار ہی نہیں، جو خود ہی مدعی ہیں، خود ہی منصف ہیں، خود ہی جلاد ہیں اور خو د ہی عدالت ہیں۔ انھیں تعلیم کے نام پر جہالت پھیلانے کے لیے لامحدود اختیارات حاصل ہیں۔ ان کے پاس حوروں کا بہکاوا سب سے بڑا ہتھیار ہے، منکر نکیر کے خوفناک قبری سوال نامے ہر وقت ان کی جیبوں میں موجود ہوتے ہیں۔
ایڈمنڈ برک کے الفاظ ہیں ''کوئی جذبہ خوف سے زیادہ کسی دماغ کی عقل کی طاقت استعمال کرنے کی صلاحیت مفلوج نہیں کرتا''۔ مذہبی انتہاپسند ہمیں جس خوف خدا کی ترغیب دیتے ہیں اس نے ہمیں منطق اور عقلیت کی طرف سے اندھا کردیا ہے۔ انتہاپسند خدا کی محبت، رحمتوں اور نعمتوں کو پیش نظر نہیں رکھتے، اس کے بجائے وہ آخرت میں عذاب کے خوف کی مسلسل تکرار کرتے ہیں، جس کی وجہ سے ہم فکر و سوچ کی جانب نہیں جاسکتے۔ جہاں عقل ہوگی وہاں انتہاپسندی نہیں ہوسکتی اور جہاں انتہاپسندی ہوگی وہاں عقل کا وجود نہیں ہوسکتا۔ اسی انتہاپسندی کی وجہ سے ہم مادی، معاشرتی تنزلی اور سماجی ثقافتی اور فکری طور پر رجعت پسندی کا شکار ہیں اور یہی رجعت پسندی ہماری سماجی، سیاسی، معاشی، سائنسی ترقی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔
ہم ذرا اپنی 1400 سالہ تاریخ پر نظریں دوڑائیں تو ہم پر ایک خوشگوار زمانے کا انکشاف ہوگا، جس میں مسلمان معاشی، سماجی، سیاسی، سائنسی ترقی میں دیگر قوموں کے مقابلے میں عروج پر تھے۔ اس وقت ہمارے معاشروں میں مذہبی انتہاپسندی، رجعت پسندی کو غلبہ حاصل نہیں تھا، اس وقت معاشروں پر عقل کی حکمرانی قائم تھی۔ اسے ہماری بدقسمتی ہی کہا جائے گا کہ آج ہمارے معاشرے میں عقل چھپتی پھرتی ہے اور رجعت پسند، بوسیدہ خیالات دندناتے پھرتے ہیں۔ لگتا ہے مولانا رومی نے ہمارے بارے میں ہی کہا تھا کہ ''سجدہ رقص کرنے کی جگہ نہیں، لیکن میں نے جہالت کو وہاں ناچتے ہوئے دیکھا ہے''۔ دنیا میں کوئی اور ملک ایسا نہیں ہے جسے ایسی الجھن درپیش ہے، جیسی ہمیں ہے۔ ایک طرف تو ہمیں مذہبی انتہاپسندی اور دہشتگردی کا سامنا ہے، تو دوسری طرف ہم بے اختیاری، غربت، افلاس، کرپشن اور لوٹ مار کی آگ میں جھلس رہے ہیں۔
سوال پیدا ہوتا ہے کہ ہماری فکری خانقاہیں اور عملی خانوادے کیوں بے چراغ ہیں؟ ان کے چراغ کیوں اجڑے پڑے ہیں، کیوں عقل دوستوں کا کال پڑا ہوا ہے اور کیوں عقل دشمن دندناتے پھرتے ہیں، آخر ہم کیوں اتنے بانجھ ہوچکے ہیں؟ آج ہر جگہ رجعت پسند کیوں گھات لگائے بیٹھے رہتے ہیں کہ جہاں عقل و دانش کا کوئی چراغ جلے جھپٹ کر اس پر حملہ کردیں۔
کیوں آج جہالت کی تاریک کمیں گاہیں آباد ہیں، کیوں ان میں اتنی چہل پہل ہے اور فکری خانقاہیں کیوں اتنی اجڑی پڑی ہیں کہ انسان کا گزر ہوجائے تو اس پر وحشت اور دہشت طاری ہوجائے۔ کیوں آج عقلیت پرستی، روشن خیالی کو کفر و بدعت سے تعبیر کیا ہوا ہے۔ کیوں ہمارے ذہنوں پر جہالت کا عذاب نازل ہوگیا ہے۔ کیوں ہم عقل کو عقیدے کے زیراثر رکھنے پر بضد ہیں۔ کیوں اہل دانش و مفکرین کو ملزم و جرم قرار دیا جارہا ہے۔ کیوں مخصوص لوگ ہمیں مسلمان ماننے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ کیوں ہماری عبادت کو شک کی نگاہوں سے دیکھا جاتا ہے۔ کیا مسجدوں، امام بارگاہوں، گرجاگھروں، معبدوں، مندروں میں خدا کی عبادت کرنے والے، اسے پکارنے والے غلط ہوسکتے ہیں؟ کیا خدا کے سامنے اپنا ماتھا ٹیکنے والے گمراہ ہوسکتے ہیں؟
آج ہمارے حالات پر دوستوفسکی کے ناول The Possessed کا ایک منظر یاد آجاتا ہے ''اس عالم میں کہ پکڑدھکڑ اور محاسبے کا سلسلہ جاری ہے اور بے دینوں کو دہکتی ہوئی آگ کے شعلوں میں پھینکا جارہا ہے، حضرت عیسیٰ زمین پر تشریف لاتے ہیں، وہ تشدد کے طریقوں کی کھلی مذمت کرتے ہیں، اس کے جواب میں دین سے انحراف کا الزام لگا کر خود انھیں محتسب اعلیٰ کے آگے پیش کیا جاتا ہے، ان سے کہا جاتا ہے کہ اپنا دفاع کرنے کے لیے دلائل پیش کریں۔ حضرت عیسیٰ کہتے ہیں کہ تم مجھے نہیں جانتے، میں ہی مسیحی مذہب کا بانی ہوں۔ محتسب اعلیٰ اس بات پر مناسب تعظیم بجا لاتا ہے اور ان کا شکریہ ادا کرتا ہے، لیکن ساتھ ہی انھیں متنبہ کرتا ہے کہ مسیحیت کے معنی اب وہ ہیں جسے مسیحی کلیسا درست سمجھتا ہے''۔
والٹیئر نے کہا تھا مذہبی تعصب جرم ہے اور اس کا علاج رواداری ہے۔ مذہبی جنون تین طریقوں سے عدم رواداری کو جنم دیتا ہے۔ پہلی بات یہ کہ وہ دعویٰ کرتا ہے کہ میرا مذہب مطلق، مکمل اور آخری سچائی ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ میرے مذہبی عقیدے سے باہر سارے لوگ باطل، طاغوت اور قابل نفرت ہیں۔ اور تیسری بات یہ کہ متذکرہ وجوہات کی بنیاد پر یہ لوگ دشمنوں کی صف میں شامل ہیں۔ یاد رہے، ہم خود بھی اسی مرض 'مذہبی جنون' کا بری طرح شکار ہیں۔
عظیم فلسفی اپیک ٹیٹس نے کہا تھا ''ہمیں اپنے جسم سے ورم، پھوڑے اور رسولیاں دور کرنے کی نسبت اپنے ذہن سے غلط خیالات خارج کرنے کی زیادہ فکر و کوشش کرنی چاہیے''۔ اپیک ٹیٹس کی کہی گئی بات میں ہمارے تمام مسائل اور عذابوں کا حل موجود ہے۔ بس دیکھنا یہ ہے کہ ہم اس بات کو کتنی جلد سمجھتے ہیں۔
سولہویں صدی کے آغاز میں یورپ سیکولرازم سے روشناس ہوا، جس کے تحت پہلے سائنس، پھر عمومی علم، پھر سیاست، طاقت اور آخر میں کلچر آتا ہے، جس کے ذریعے انھوں نے مذہبی انتہاپسندی سے چھٹکارا حاصل کرلیا۔ یوں سیکولر یونیورسٹی وجود میں آئی، پھر سیکولر قوم یا ملک اور پھر سیکولر معاشرہ۔ یہ دراصل ان کی ناکامی تھی جو زمین پر خود کو خدا کا نمایندہ قرار دیتے تھے اور جنھوں نے عقل ودانش پر پابندی عائد کر رکھی تھی، جنھوں نے سوچ پر پہرے بٹھا رکھے تھے، جو اپنے علاوہ کسی اور کو مذہب پر سوچ و بچار کا حق نہیں دیتے تھے اور جو صرف اپنے آپ کو حق اور باقی سب کو باطل سمجھتے تھے۔ اور یہ ان لوگوں کی کامیابی تھی جو عقل کی حکمرانی پر یقین رکھتے تھے، جو 'سوچو اور فکر کرو' کے پجاری تھے۔ اس کے بعد آہستہ آہستہ پوری دنیا کے لوگ ان زنجیروں سے آزاد ہوتے چلے گئے جو انھیں مذہب کے نام پر پہنائی گئی تھیں۔
دوسری طرف جب ہم آج اپنے معاشرے پر نظریں دوڑاتے ہیں تو ہم پر وحشت ناک انکشاف ہوتا ہے کہ ہمارے معاشرے میں وہی سب کچھ ہورہا ہے جو صدیوں قبل یورپ میں ہوتا تھا۔ آج ہمارے معاشرے میں بھی خدا کے خودساختہ نمایندے گلی گلی میں پھر رہے ہیں، جو مذہب کے ٹھیکیدار بنے ہوئے ہیں، جو اختلاف پر موت کے پروانے جاری کردیتے ہیں، جو جنت اور دوزخ میں داخلے کے آرڈر لیے لیے پھرتے ہیں، جو اپنی زبان سے نکلے ہر لفظ کو قانون کا درجہ دیتے ہیں، جو اپنے علاوہ باقیوں کو مسلمان ماننے کے لیے تیار ہی نہیں، جو خود ہی مدعی ہیں، خود ہی منصف ہیں، خود ہی جلاد ہیں اور خو د ہی عدالت ہیں۔ انھیں تعلیم کے نام پر جہالت پھیلانے کے لیے لامحدود اختیارات حاصل ہیں۔ ان کے پاس حوروں کا بہکاوا سب سے بڑا ہتھیار ہے، منکر نکیر کے خوفناک قبری سوال نامے ہر وقت ان کی جیبوں میں موجود ہوتے ہیں۔
ایڈمنڈ برک کے الفاظ ہیں ''کوئی جذبہ خوف سے زیادہ کسی دماغ کی عقل کی طاقت استعمال کرنے کی صلاحیت مفلوج نہیں کرتا''۔ مذہبی انتہاپسند ہمیں جس خوف خدا کی ترغیب دیتے ہیں اس نے ہمیں منطق اور عقلیت کی طرف سے اندھا کردیا ہے۔ انتہاپسند خدا کی محبت، رحمتوں اور نعمتوں کو پیش نظر نہیں رکھتے، اس کے بجائے وہ آخرت میں عذاب کے خوف کی مسلسل تکرار کرتے ہیں، جس کی وجہ سے ہم فکر و سوچ کی جانب نہیں جاسکتے۔ جہاں عقل ہوگی وہاں انتہاپسندی نہیں ہوسکتی اور جہاں انتہاپسندی ہوگی وہاں عقل کا وجود نہیں ہوسکتا۔ اسی انتہاپسندی کی وجہ سے ہم مادی، معاشرتی تنزلی اور سماجی ثقافتی اور فکری طور پر رجعت پسندی کا شکار ہیں اور یہی رجعت پسندی ہماری سماجی، سیاسی، معاشی، سائنسی ترقی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔
ہم ذرا اپنی 1400 سالہ تاریخ پر نظریں دوڑائیں تو ہم پر ایک خوشگوار زمانے کا انکشاف ہوگا، جس میں مسلمان معاشی، سماجی، سیاسی، سائنسی ترقی میں دیگر قوموں کے مقابلے میں عروج پر تھے۔ اس وقت ہمارے معاشروں میں مذہبی انتہاپسندی، رجعت پسندی کو غلبہ حاصل نہیں تھا، اس وقت معاشروں پر عقل کی حکمرانی قائم تھی۔ اسے ہماری بدقسمتی ہی کہا جائے گا کہ آج ہمارے معاشرے میں عقل چھپتی پھرتی ہے اور رجعت پسند، بوسیدہ خیالات دندناتے پھرتے ہیں۔ لگتا ہے مولانا رومی نے ہمارے بارے میں ہی کہا تھا کہ ''سجدہ رقص کرنے کی جگہ نہیں، لیکن میں نے جہالت کو وہاں ناچتے ہوئے دیکھا ہے''۔ دنیا میں کوئی اور ملک ایسا نہیں ہے جسے ایسی الجھن درپیش ہے، جیسی ہمیں ہے۔ ایک طرف تو ہمیں مذہبی انتہاپسندی اور دہشتگردی کا سامنا ہے، تو دوسری طرف ہم بے اختیاری، غربت، افلاس، کرپشن اور لوٹ مار کی آگ میں جھلس رہے ہیں۔
سوال پیدا ہوتا ہے کہ ہماری فکری خانقاہیں اور عملی خانوادے کیوں بے چراغ ہیں؟ ان کے چراغ کیوں اجڑے پڑے ہیں، کیوں عقل دوستوں کا کال پڑا ہوا ہے اور کیوں عقل دشمن دندناتے پھرتے ہیں، آخر ہم کیوں اتنے بانجھ ہوچکے ہیں؟ آج ہر جگہ رجعت پسند کیوں گھات لگائے بیٹھے رہتے ہیں کہ جہاں عقل و دانش کا کوئی چراغ جلے جھپٹ کر اس پر حملہ کردیں۔
کیوں آج جہالت کی تاریک کمیں گاہیں آباد ہیں، کیوں ان میں اتنی چہل پہل ہے اور فکری خانقاہیں کیوں اتنی اجڑی پڑی ہیں کہ انسان کا گزر ہوجائے تو اس پر وحشت اور دہشت طاری ہوجائے۔ کیوں آج عقلیت پرستی، روشن خیالی کو کفر و بدعت سے تعبیر کیا ہوا ہے۔ کیوں ہمارے ذہنوں پر جہالت کا عذاب نازل ہوگیا ہے۔ کیوں ہم عقل کو عقیدے کے زیراثر رکھنے پر بضد ہیں۔ کیوں اہل دانش و مفکرین کو ملزم و جرم قرار دیا جارہا ہے۔ کیوں مخصوص لوگ ہمیں مسلمان ماننے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ کیوں ہماری عبادت کو شک کی نگاہوں سے دیکھا جاتا ہے۔ کیا مسجدوں، امام بارگاہوں، گرجاگھروں، معبدوں، مندروں میں خدا کی عبادت کرنے والے، اسے پکارنے والے غلط ہوسکتے ہیں؟ کیا خدا کے سامنے اپنا ماتھا ٹیکنے والے گمراہ ہوسکتے ہیں؟
آج ہمارے حالات پر دوستوفسکی کے ناول The Possessed کا ایک منظر یاد آجاتا ہے ''اس عالم میں کہ پکڑدھکڑ اور محاسبے کا سلسلہ جاری ہے اور بے دینوں کو دہکتی ہوئی آگ کے شعلوں میں پھینکا جارہا ہے، حضرت عیسیٰ زمین پر تشریف لاتے ہیں، وہ تشدد کے طریقوں کی کھلی مذمت کرتے ہیں، اس کے جواب میں دین سے انحراف کا الزام لگا کر خود انھیں محتسب اعلیٰ کے آگے پیش کیا جاتا ہے، ان سے کہا جاتا ہے کہ اپنا دفاع کرنے کے لیے دلائل پیش کریں۔ حضرت عیسیٰ کہتے ہیں کہ تم مجھے نہیں جانتے، میں ہی مسیحی مذہب کا بانی ہوں۔ محتسب اعلیٰ اس بات پر مناسب تعظیم بجا لاتا ہے اور ان کا شکریہ ادا کرتا ہے، لیکن ساتھ ہی انھیں متنبہ کرتا ہے کہ مسیحیت کے معنی اب وہ ہیں جسے مسیحی کلیسا درست سمجھتا ہے''۔
والٹیئر نے کہا تھا مذہبی تعصب جرم ہے اور اس کا علاج رواداری ہے۔ مذہبی جنون تین طریقوں سے عدم رواداری کو جنم دیتا ہے۔ پہلی بات یہ کہ وہ دعویٰ کرتا ہے کہ میرا مذہب مطلق، مکمل اور آخری سچائی ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ میرے مذہبی عقیدے سے باہر سارے لوگ باطل، طاغوت اور قابل نفرت ہیں۔ اور تیسری بات یہ کہ متذکرہ وجوہات کی بنیاد پر یہ لوگ دشمنوں کی صف میں شامل ہیں۔ یاد رہے، ہم خود بھی اسی مرض 'مذہبی جنون' کا بری طرح شکار ہیں۔
عظیم فلسفی اپیک ٹیٹس نے کہا تھا ''ہمیں اپنے جسم سے ورم، پھوڑے اور رسولیاں دور کرنے کی نسبت اپنے ذہن سے غلط خیالات خارج کرنے کی زیادہ فکر و کوشش کرنی چاہیے''۔ اپیک ٹیٹس کی کہی گئی بات میں ہمارے تمام مسائل اور عذابوں کا حل موجود ہے۔ بس دیکھنا یہ ہے کہ ہم اس بات کو کتنی جلد سمجھتے ہیں۔