خواب کی باتیں
تعلیم بازار میں بکنے والی جنس ہے اور جابجا انگلش میڈیم پرائیویٹ اسکولوں کے نام پر اس کی دکانیں کھلی ہیں۔۔۔
اب تو تعلیم بازار میں بکنے والی جنس ہے اور جابجا انگلش میڈیم پرائیویٹ اسکولوں کے نام پر اس کی دکانیں کھلی ہیں، لیکن ایک زمانہ تھا جب اسے مقدس امانت جان کر مشنری جذبے سے طالبان علم میں مفت تقسیم کیا جاتا تھا۔ مجھے 65، 60 سال پہلے کے اپنے وہ پرائمری اسکول ٹیچر آج بھی یاد ہیں جو ننگے پاؤں اسکول آیا کرتے تھے اور جن کے کپڑوں میں جگہ جگہ پیوند لگے ہوتے تھے، لیکن انھوں نے خود کو بچوں کی تعلیم و تربیت کے لیے وقف کر رکھا تھا۔ تعلیم کا کاروبار کرنے والے اس کے نام پر ایک جانب بچوں اور والدین تو دوسری طرف اساتذہ کا بھی استحصال کرتے ہیں۔
فیس کے نام پر بچوں کے والدین سے ہر ماہ لاکھوں روپے بٹورنے والے بچوں کو معیاری تعلیم نہ دے کر ان کے مستقبل سے کھیلتے، والدین کی جیبیں کاٹتے اور اساتذہ کو حکومت کی مقرر کردہ کم سے کم اجرت سے بھی کم تنخواہ دے کر ان کا بھی استحصال کرتے ہیں۔ مڈل کلاس آبادی والے علاقوں میں قائم اوسط درجے کے انگلش میڈیم اسکول ان بچوں سے کم از کم 2 ہزار روپے ماہانہ فیس لیتے ہیں، جنھوں نے ابھی اسکول جانا شروع کیا ہے۔
اس حوالے سے کیے گئے ایک سروے کے مطابق ہر ابتدائی کلاس میں اوسطاً 20 بچے ہوتے ہیں، 2 ہزار کے حساب سے 40 ہزار فی کلاس آمدنی حاصل کرنے والے اسکول، ٹیچر کو بمشکل 6 ہزار روپے ماہانہ دیتے ہیں، زیادہ تر ٹیچرز نوجوان لڑکیاں ہوتی متوسط طبقے کی ان لڑکیوں کو اپنا تعلیمی سلسلہ جاری رکھنے اور دوسری ضروریات کے لیے پیسے چاہیے ہوتے ہیں، والدین افورڈ نہیں کر سکتے، اس لیے وہ انھیں جاب کرنے کی اجازت تو دے دیتے ہیں لیکن ان کی ترجیح کسی دفتر کے بجائے اسکول ہوتی ہے، وہ بھی گھر کے قریب۔ اسکول مالکان ان کی اس مجبوری کا فائدہ اٹھاتے ہیں اور ان کو کم پیسوں کے عوض ملازم رکھ لیتے ہیں۔
برائے نام تنخواہ پر ملازم رکھی گئی ان لڑکیوں کا استحصال اپنی جگہ، لیکن اس کا دوسرا پہلو یہ بھی ہے کہ کم پڑھی لکھی اور غیر تربیت یافتہ یہ فیمیل ٹیچرز خود باہر کی وہ کتابیں نہیں پڑھ اور سمجھ سکتیں جو ان کے اسکولوں نے بچوں کے والدین پر رعب جھاڑنے اور انھیں بیوقوف بنانے کے لیے اپنے نصاب میں شامل کر رکھی ہوتی ہیں۔ ظاہر ہے جب یہ کتابیں ٹیچرز کو سمجھ نہیں آئیں گی تو وہ بچوں کو کیا خاک پڑھائیں گی۔
جہاں تک اسکول مالکان کا تعلق ہے تو انھیں اس سے کوئی غرض نہیں کہ ٹیچرز کیا پڑھاتی ہیں اور بچے کیا پڑھتے ہیں، انھیں اسکول بزنس سے کمائے ہوئے نوٹ گننے سے ہی فرصت نہیں ہوتی کہ دوسری باتوں کی طرف بھی دھیان دے سکیں۔ ٹیچرز ہیں تو وہ اس پیشے کا انتخاب تعلیم عام کرنے، قوم تعمیر کرنے یا مستقبل کے معمار تیار کرنے کے لیے نہیں کرتے بلکہ محض نوکری سمجھ کر اور چار پیسے کمانے کا ذریعہ سمجھ کر کرتے ہیں۔
سرکاری شعبے کے اسکولوں اور کالجوں میں سی ٹی، بی ٹی، بی ایڈ اور ایم ایڈ ہونے کے تقاضے صرف رسماً کیے جاتے ہیں، ورنہ نوکری کو صحیح معنوں میں نوکری سمجھ کر سرکاری شعبے میں ہی کیا جاتا ہے۔ پرائیویٹ اسکول تو یہ تکلف بھی نہیں کرتے، بس امیدوار میٹرک، انٹر یا گریجویٹ ہونا چاہیے، پڑھانے کی استعداد اور اہلیت رکھنا ضروری نہیں۔ انگریزوں کے دور میں جن امیدواروں کو پرائمری اسکولوں میں بطور ٹیچرز پڑھانے کے لیے منتخب کیا جاتا تھا انھیں تب تک پوسٹنگ نہیں ملتی تھی جب تک وہ مطلوبہ تربیت حاصل نہیں کر لیتے تھے اور وہ تربیت ایسی ہوتی تھی جو انھیں سب سے پہلے اس پیشے کی عظمت و اہمیت کا احساس دلاتی تھی اور انھیں خود ان کا مقام و مرتبہ سمجھاتی تھی، جس کا نتیجہ یہ تھا کہ وہ اپنا کام عبادت سمجھ کر انجام دیتے تھے۔ حیدرآباد میں تلک چاڑی پر واقع ٹیچرز ٹریننگ کالج اسی دور کی یادگار ہے۔
یہاں کی ٹریننگ میں بچوں کی نفسیات کو سمجھنے پر خصوصی توجہ دی جاتی تھی، جس سے ٹیچرز کو بچوں کے مسائل معلوم کرنے میں بڑی مدد ملتی تھی۔ یہ بھی اسی ٹریننگ کا اعجاز تھا کہ ٹیچرز اپنے دل میں بچوں کے لیے پدرانہ شفقت کے جذبات رکھتے تھے۔ میں نے شروع میں اپنے جس پرائمری ٹیچر کا ذکر کیا تھا انھی کی مثال لے لیجیے، اتنی غربت اور تنگدستی کے باوجود انھیں کیوں کبھی یہ خیال نہیں آیا کہ سب کو نہیں تو صرف امیروں کے بچوں ہی کو ٹیوشن پڑھا کر چار پیسے زیادہ بھی کمائے جا سکتے ہیں۔ اس کی وجہ صرف اور صرف یہ تھی کہ انھیں اپنی حالت بہتر بنانے سے زیادہ مستقبل کے معماروں کی صحیح تعلیم و تربیت کی فکر تھی۔
اس زمانے میں پرائمری کی سطح تک امتحانات زیادہ تر زبانی (اورل) ہوتے تھے، میں حساب میں کمزور تھا اور پہاڑے یاد نہیں ہوتے تھے، امی حضور بتایا کرتی تھیں کہ ہمارے وہ ٹیچر رات کو لالٹین ہاتھ میں لیے آ کر دروازے پر دستک دیتے اور نہایت عجز و انکساری سے درخواست کرتے کہ بچے کو تھوڑی دیر کے لیے ڈیوڑھی میں بھیج دیں تاکہ میں اسے پہاڑے یاد کرا دوں، کل صاحب امتحان لینے آئیں گے، کہیں فیل نہ ہوجائے۔ ٹیچرز تو بچوں کے لیے فکرمند رہتے ہی تھے، لیکن اس میں محکمہ تعلیم کے وضع کردہ نظام کا بھی بڑا دخل تھا۔
ایک مثال سے آپ کو اسے سمجھنے میں مدد ملے گی، پرائمری اسکول کی تیسری کلاس کے ٹیچر ذرا اونچا سنتے تھے، لیکن اپنے کام میں مہارت کے حوالے سے اپنا جواب نہیں رکھتے تھے۔ سنتے تھے کہ ان کی کلاس میں بیس پچیس نہیں پورے 80 بچے پڑھتے تھے۔ صاحب نے امتحان لیا تو ایک بچہ فیل ہوگیا۔ انھوں نے 79 بچوں کے پاس ہونے پر تو ٹیچر کو شاباش نہیں دی، البتہ ایک بچے کے فیل ہونے پر ان کی اتنی سخت سرزنش کی کہ بیچارے رو پڑے۔ اس کے برعکس آپ آج کل کے سرکاری اسکولوں اور کالجوں کو دیکھئے، ان میں سے بورڈز اور جامعات کے امتحانات میں صفر فیصد نتیجہ لانے والے تعلیمی اداروں اور ان کے تدریسی عملے سے کوئی باز پرس نہیں ہوتی، طلبا اور والدین اساتذہ کو ذمے دار ٹھہراتے ہیں جب کہ ان کے بقول طلبا پڑھنے سے زیادہ یونین کی سرگرمیوں میں دلچسپی رکھتے ہیں، وہ باقاعدگی سے پڑھانے آتے ہیں لیکن طلبا کلاسیں اٹینڈ نہیں کرتے، اب وہ انھیں پکڑ پکڑ کر کلاسوں میں لانے سے تو رہے۔
آج کل طلبا میں غنڈہ گردی کو بھی کافی فروغ حاصل ہوا ہے، ٹیچرز سے ملیں تو قسم قسم کی کہانیاں سننے کو ملیں گی، سختی کرنے والے ٹیچر کو قمیص کا پلو اٹھا کر ٹی ٹی کی جھلک دکھانے اور ٹی ٹی سامنے رکھ کر دھڑلے سے کاپی کرنے کی باتیں اب ماضی کے قصے کہلاتی ہیں۔ اسی کلچر کا ثمر ہے کہ نوجوانوں کے پاس ڈگریاں تو ہیں، اہلیت نہیں ہے۔ وہ بے روزگاری کا رونا تو روتے ہیں، یہ بتانے سے قاصر ہیں کہ کام لیے بغیر محض ڈگریاں دیکھ کر کون انھیں نوکریاں اور تنخواہیں دے گا۔
سرکاری تعلیمی اداروں کی اسی ناکامی کا فائدہ اٹھا کر، پھر اس کا ذمے دار کوئی بھی ہو، نجی تعلیمی اداروں کے نام پر تعلیم کو کاروبار بناکر مال بنانے والوں کو اپنا ہنر دکھانے اور دو متوازی تعلیمی نظام قائم کرکے ایک طرف پہلے سے موجود طبقاتی تقسیم کو مزید گہرا اور مضبوط کرنے تو دوسری جانب تعلیم کا بیڑہ غرق کرنے میں رہی سہی کسر بھی پوری کرکے مستقل بنیادوں پر اپنی جگہ بنانے کا موقع ملا اور وہ اس سے بھرپور فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ حکومت کو اس بات کا کریڈٹ نہ دینا سخت ناانصافی ہوگی کہ وہ پوری طرح تعلیم کے ان بیوپاریوں کی معاون بنی ہوئی ہے۔ یہ اس کی محض خام خیالی ہے کہ نجی تعلیمی ادارے تعلیم کے فروغ میں کوئی کردار ادا کر رہے ہیں۔ اب بھی وقت ہے، حکومت خواب غفلت سے جاگے، تمام سرکاری و نجی تعلیمی اداروں کو یکساں نصاب کے تحت نگرانی کے مربوط نظام کا پابند بنائے، ورنہ ہمارے بچے آدھے تیتر اور آدھے بٹیر میں تقسیم ہوکر ایک دوسرے کی جڑیں کاٹنے لگیں گے اور تعلیم کے شعبے میں اصلاح کی باتیں خواب کی باتیں ہو کر رہ جائیں گی۔