سانحہ کوئٹہ کا ماسٹر مائنڈ انجینئرنگ یونیورسٹی سے پڑھا تھا کمیشن رپورٹ
دہشت گرد تنظیمیں وسائل سے مالا مال، ان میں شامل افراد ذہین اور تربیت یافتہ ہیں، رپورٹ
سانحہ کوئٹہ کے فیکٹ فائنڈنگ جوڈیشل کمیشن نے دہشت گرد تنظیموں اور اس میں شامل افراد کے بارے میں تمام اندازے غلط ثابت کرتے ہوئے نتیجہ اخذ کیا ہے کہ مذکورہ تنظیمیں وسائل سے مالا مال اور ان میں شامل افراد انتہائی تربیت یافتہ اور تکنیکی مہارت کے حامل ہیں۔
جوڈیشل کمیشن رپورٹ کے مطابق سنڈیمن اسپتال کی عمارت میں اگرکوئی ناواقف شخص پہلی یا دوسری مرتبہ داخل ہو تو وہ راہداریوں میں گم ہو جائے گا لیکن دہشت گرد اسپتال سے بھی خوب واقف تھے جس گروپ نے حملہ کیا اس کا سرغنہ 25 سالہ جہانگیر بادینی تھا جو انجینئرنگ یونیورسٹی خضدار سے فارغ التحصیل تھا جب کہ گروپ میں 21 سالہ علی حسن، 23سالہ حبیب اللہ، 26 سالہ سمیر خان اور33 سالہ نور اللہ شامل تھے، خودکش حملہ آور احمد علی، جہانگیر بادینی، سمیر خان اور علی حسن کوئٹہ میں رہتے تھے۔
اس خبر کو بھی پڑھیں: سانحہ کوئٹہ پر کمیشن کی رپورٹ جاری
رپورٹ کے مطابق گروپ کا ایک رکن سید نور اللہ قلعہ عبداللہ میں رہتا تھا، ایک رکن سید محمد نصیر ہرمزئی پشین میں رہتا تھا اور زندہ گرفتار ہوا، جس گھر میں خودکش جیکٹس بنتی تھیں اور حملوں کی منصوبہ بندی کی جاتی تھی وہ سبی روڈ پر سریاب پولیس اسٹیشن کے قریب واقع تھا اور وہاں سے بارود کے 2 ڈرم، 3 خودکش جیکٹ، 8 آئی ای ڈیز،408 الیکٹرک ڈیٹونیٹر،208 نان الیکٹرک ڈیٹونیٹر،2 پنسل ٹائپ ڈیٹونیٹر،83 ریسیورز، 7 ریموٹ کنٹرول،8 ہینڈ گرنیڈ،3 پستول بمعہ ایمونیشن، 2 کلاشنکوف بمع ایمونیشن،کیمیکل اور بال بیرنگ برآمد ہوئے۔
واضح رہے کہ کوئٹہ کے سول اسپتال میں 8 اگست کو خودکش حملہ کیا گیا تھا جس میں 60 وکلا سمیت 73 افراد جاں بحق ہوئے تھے۔
جوڈیشل کمیشن رپورٹ کے مطابق سنڈیمن اسپتال کی عمارت میں اگرکوئی ناواقف شخص پہلی یا دوسری مرتبہ داخل ہو تو وہ راہداریوں میں گم ہو جائے گا لیکن دہشت گرد اسپتال سے بھی خوب واقف تھے جس گروپ نے حملہ کیا اس کا سرغنہ 25 سالہ جہانگیر بادینی تھا جو انجینئرنگ یونیورسٹی خضدار سے فارغ التحصیل تھا جب کہ گروپ میں 21 سالہ علی حسن، 23سالہ حبیب اللہ، 26 سالہ سمیر خان اور33 سالہ نور اللہ شامل تھے، خودکش حملہ آور احمد علی، جہانگیر بادینی، سمیر خان اور علی حسن کوئٹہ میں رہتے تھے۔
اس خبر کو بھی پڑھیں: سانحہ کوئٹہ پر کمیشن کی رپورٹ جاری
رپورٹ کے مطابق گروپ کا ایک رکن سید نور اللہ قلعہ عبداللہ میں رہتا تھا، ایک رکن سید محمد نصیر ہرمزئی پشین میں رہتا تھا اور زندہ گرفتار ہوا، جس گھر میں خودکش جیکٹس بنتی تھیں اور حملوں کی منصوبہ بندی کی جاتی تھی وہ سبی روڈ پر سریاب پولیس اسٹیشن کے قریب واقع تھا اور وہاں سے بارود کے 2 ڈرم، 3 خودکش جیکٹ، 8 آئی ای ڈیز،408 الیکٹرک ڈیٹونیٹر،208 نان الیکٹرک ڈیٹونیٹر،2 پنسل ٹائپ ڈیٹونیٹر،83 ریسیورز، 7 ریموٹ کنٹرول،8 ہینڈ گرنیڈ،3 پستول بمعہ ایمونیشن، 2 کلاشنکوف بمع ایمونیشن،کیمیکل اور بال بیرنگ برآمد ہوئے۔
واضح رہے کہ کوئٹہ کے سول اسپتال میں 8 اگست کو خودکش حملہ کیا گیا تھا جس میں 60 وکلا سمیت 73 افراد جاں بحق ہوئے تھے۔