جناب طاہرالقادری کا یادگاری خطاب
ہمیں امید ہے کہ آیندہ تین ہفتوں میں حکمران خود ہی اپنے کَس بَل نکال کر سیدھے ہوجائیں گے
ادارہ منہاج القرآن ڈاکٹرمحمد طاہرالقادری کی انتھک محنتوں کا نتیجہ ہے۔اِس ادارے کو اوجِ کمال تک پہنچانے اور جناب طاہر القادری کو مالی اعتبار سے مستحکم کرنے میں میاں محمد شریف مرحوم،محمد نوازشریف اور شہبازشریف کا مرکزی اور بنیادی کردار ہے۔ ڈاکٹر طاہرالقادری پر شریف خاندان کے کئی احسانات ہیں جن کا بدلہ شاید وہ کبھی نہیں اُتارسکتے۔یہ علیحدہ بات ہے کہ وہ ان احسانات کافوراً انکار کردیتے ہیں۔شریف خاندان کا اُن پر تازہ احسان یہ ہے کہ اُنھیں نے انھیں لاہور میں غیر معمولی سیکیورٹی فراہم کی اور اُن کے جلسے کی کامیابی میں کوئی رکاوٹ نہ ڈالی۔
23دسمبر2012کولاہور میں تحریکِ منہاج القرآن کے شاندار اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے مولانا محمد طاہرالقادری نے حکومت کو الٹی میٹم اور وارننگ نما دھمکی بھی دی ہے۔آپ نے فرمایاکہ تین ہفتے کے اندر اندر نظام بدل لو،اپنے آپ کو درست کرلو،ورنہ تمہارے کَس بَل نکالنے کے لیے میں14جنوری2013 کو چالیس لاکھ کے ''لشکریوں'' کے ساتھ اسلام آباد آئوں گا۔اُن کی اس دھمکی سے یقیناً موجودہ مرکزی حکمرانوں کے دل غیر معمولی انداز میں دھڑک دھڑک گئے ہوں گے۔ہم علامہ طاہرالقادری صاحب کے ارادت مندوں میں شامل ہیں اور ہمہ وقت اُن کی کامیابیوں اور کامرانیوں کے لیے دعاگو رہتے ہیں۔
انھوں نے جس شعلہ صفت لہجے میں حکمرانوں کو للکارا ہے،ہمیں امید ہے کہ آیندہ تین ہفتوں میں حکمران خود ہی اپنے کَس بَل نکال کر سیدھے ہوجائیں گے اور جناب طاہرالقادری کا شایانِ شان استقبال کرنے کے لیے اسلام آباد کے مضافات میں دست بستہ کھڑے ہوجائیں گے۔ہم چشمِ تصور سے وہ نظارہ دیکھ سکتے ہیں جب صَف در صَف تمام اہلِ اقتدار اپنی اپنی جانیں اور مستقبل بچانے کے لیے ڈاکٹرمحمد طاہرالقادری صاحب کے سامنے دست بستہ آکھڑے ہوں گے۔ پھر وہ جسے چاہیں گے،شرفِ باریابی بخشیں گے۔ ہمارا خیال ہے کہ وہ سب سے پہلے صدرِمملکت آصف علی زرداری کو اِذنِ باریابی عطافرمائیں گے کیونکہ ماضی قریب میں وہ''پاکستان عوامی تحریک'' کے چیئرمین ہونے کے ناتے شہید بی بی کے ساتھ ایک سیاسی معاہدے کے بندھن میں بھی باندھے گئے تھے۔آج اگرچہ شہید بی بی ہمارے درمیان نہیں ہیں لیکن اُن کے وارث تو موجود ہیں۔
اگر ہم یاد کریں تو انکشاف ہوتا ہے کہ طاہرالقادری صاحب اپنے مقاصد(جنھیں ابھی تک پوری طرح عیاں نہیں کیاگیا)کے حصول اور اپنے مخفی ایجنڈے کی تکمیل کے لیے جس طرح اسلام آباد پر چڑھائی کی وارننگ دے رہے ہیں ،اِس میدان میں وہ پہلے عظیم شخص نہیں ہیں۔اُن سے قبَل بھی کئی محترم اور مقدس مذہبی ہستیاںاپنے اپنے ایجنڈے کی تکمیل کے لیے اسلام آباد پر چڑھائی کی دھمکیاں دے چکے ہیں لیکن اِن کا نتیجہ کیانکلا؟ اُنھیں ہم یاد کرتے ہیں تو مارے افسوس اور ندامت کے دل تھام کررہ جاتے ہیں۔اپنی قطع کے ایک خاص صوفی حضرت مولانامحمد اکرم اعوان صاحب نے بھی ایک بار اسلام آباد پر ہلّا بولنے اور یلغار کا اعلان کیاتھا۔وہ اپنے لشکریوں کا ذکر بھی کرتے اور ریاست کو مزید مشرف بہ اسلام کرنے کا دعویٰ بھی کیاکرتے تھے۔شرط یہ تھی کہ پہلے اسلام آباد کاتخت زیرِ نگیں کرلیاجائے۔کچھ دنوں تک اُن کی یلغار کا بہت شہرہ سناگیا لیکن پھر رفتہ رفتہ اِس کی بازگشت محض پہاڑوں میں مقید ہو کر رہ گئی۔
ایک زمانے،جسے گزرے ہوئے ابھی زیادہ عرصہ نہیں ہوا،میں سابق امیرِ جماعت اسلامی محترم قاضی حسین احمد صاحب نے بھی دھرنے کے نام پر اسلام آباد پر چڑھ دوڑنے کی ٹھانی تھی۔یہ عملی یلغار اس وقت کی گئی جب محترمہ بے نظیربھٹو وزیراعظم تھیں اور ایک عورت کا حکمران ہونا جماعتِ اسلامی اور اُن کے ہمنوائوں کے لیے سوہانِ روح بن گیاتھا۔ جناب قاضی حسین احمد صاحب اپنے جانثاروں کے ہمراہ دارالحکومت پر چڑھائی کے لیے اپنے مورچے سے یقیناً باہر نکلے،انھوں نے شدید گرمی میں آنسوگیس کا مقابَلہ بھی کیا لیکن اُن کے لشکریوں کی یلغار محض راولپنڈی تک محدود رہ سکی۔قاضی حسین احمد صاحب ایک بہادر آدمی ہیںلیکن ناقدین کا کہنا ہے کہ جب اِس ملک پر ایک جرنیل، جنرل پرویزمشرف نے بزورِ بندوق قبضہ کیا تو صد افسوس کہ اس بہادر قاضی کی جماعت اس آمرکے نظام کا حصہ بن گئی۔ قاضی صاحب ایک عورت حکمران کے خلاف شمشیر بدست باہر تو یقیناً نکلے لیکن وہ ایک ڈکٹیٹر اور غاصب حکمران کے دور میں سڑکوں پر نہ آ سکے۔اُس کے خلاف انھوں نے اسلام آباد پر چڑھائی کا نہ سوچا۔اب طاہرالقادری صاحب بھی اپنے حامیوں کی سنگت میں وفاقی دارالحکومت پر چڑھائی کرکے دیکھ لیں۔
''یلغار'' اور ''چڑھائی'' ایسے الفاظ ہیںجن میں جارحیت کا عنصر کھٹکتا محسوس ہوتا ہے۔کیا کوئی شخص اپنے ہی ملک، اپنے ہی وطن کو فتح کرنا چاہتا ہے؟اگر سیاست کی تطہیر کرکے ریاست بچانے کا نعرہ لگانے والے حضرت مولاناطاہرالقادری اسلام آباد پر چڑھائی کا نعرہ لگاسکتے ہیں تو پھر طالبان کیوں یہ دھمکی آمیز نعرہ نہیں لگاسکتے؟ کیونکہ ''تحریکِ طالبان پاکستان''(ٹی ٹی پی)کے مرکزی رہنما حکیم اللہ محسود اور ان کے وابستگان بھی تو پاکستانی ہیں۔جناب طاہرالقادری نے 23دسمبر کے اپنے یادگاری خطاب میں ٹی ٹی پی کے ارکان کے بارے میں جو ڈپلومیٹک لہجہ اختیار کیا،یہ کافی نہیں ہے۔طاہرالقادری صاحب کو غالباً معلوم نہیں ہے کہ ٹی ٹی پی والے ان کے بارے میں کیا نظریات وخیالات رکھتے ہیں۔''تحریک طالبان پاکستان''کے ترجمان احسان اللہ احسان نے ان کی پاکستان آمد آمد کے موقعے پر انٹرنیٹ کے ذریعے جو پیغام دیا،اسے نظراندازنہیں کیا جاسکتا۔
احسان اللہ احسان نے اِس پیغام میں طاہرالقادری کو ''غیر ملکی اداکار''کے نام سے یادکیاہے۔''غیرملکی'' کے لفظ سے ہمیں محترم عطاء الحق قاسمی کا 21دسمبر کوشایع ہونے والا ایک کالم یاد آیا ہے جس میں قارئین پر انکشاف کیاگیا ہے کہ طاہرالقادری صاحب کینیڈا کی شہریت حاصل کرچکے ہیں۔اگریہ خبردرست ہے تو سوال یہ ہے کہ آئینی اعتبار سے کیا اب وہ پاکستان کے شہری نہیں رہے؟ہمیں تواب بھی اِس دل شکن خبر پریقین نہیں آرہا کہ ایک اسلامی ملک کی شہریت مسترد کرکے علامہ صاحب ایک غیر اسلامی ملک کی شہریت بھی حاصل کرسکتے ہیں۔ اِس سے اعتبار اور اعتماد کے کئی آئینے تڑخ کررہ گئے ہیں۔ چیف جسٹس آف پاکستان جناب افتخار محمد چوہدری نے غیر ملکی شہریت رکھنے والوں کے بارے میں جوفیصلہ صادر فرمارکھا ہے،اِس کی روشنی میں جناب طاہرالقادری خو دکو کہاں ''فائز'' ہوتا دیکھ رہے ہیں؟ ہمارا خیال ہے کہ اِس بارے میں قادری صاحب کا موقف بھی سامنے آنا چاہیے،بصورتِ دیگر اُن کے خلاف پھیلتی دھند مزید پھیلتی جائے گی۔
کچھ سوالات بھی گردش میں ہیں۔ ڈاکٹر محمدطاہرالقادری کی بے پناہ (اور قابلِ تحسین) پبلسٹی اِن میں سے ایک ہے۔ملک کے طول وعرض، اخبارات اور الیکٹرانک میڈیا میںانھیں جس بے پناہ انداز میں مشتہر کیاگیا،اِس سے کئی آنکھیں چندھیا کر رہ گئی ہیں۔ایسے میں ملک بھر سے محصولات اکٹھا کرنے والے ایک قومی ادارے نے بیان دیا ہے کہ مینارِ پاکستان جلسے کے اخراجات کے ذرایع معلوم کریں گے۔24دسمبر2012 کو ایک حیرت انگیز خبر شایع ہوئی جس میں کہاگیا ہے:''فیڈرل بورڈ آف ریونیو(ایف بی آر) کے چیئرمین علی ارشد حکیم نے کہا ہے کہ ایف بی آر مینار پاکستان لاہور میں جلسے کے منتظمین سے سورس دریافت کرے گا کہ اس جلسے پراٹھنے والے بھاری اخراجات کہاں سے کیے گئے؟ ڈاکٹرطاہرالقادری اور تحریکِ منہاج القرآن کو انکم ٹیکس قانون کے تحت دستاویزی شواہد ایف بی آرحکام کو مقررہ مدت میں جمع کرانا ہوں گے کہ اتوار23دسمبر کو مینار پاکستان ریلی اور اس کی میڈیا پر تشہیر کے لیے خرچ کی گئی بھاری رقم کہاں سے آئی،کس نے دی؟ آیا اِس رقم کا پاکستان کے قانون کے مطابق ٹیکس ادا کیا گیا؟'' ڈاکٹر محمدطاہرالقادری صاحب نے لاہور میں اپنے یادگاری خطاب میں پاکستان کے ٹیکس چوروں کا ذکربلند آہنگ سے کیا۔ہمیں امید رکھنی چاہیے کہ اِسی حوالے سے اگر اُنھیں ایف بی آرکی طرف سے کسی پُرسش کا سامنا کرنا پڑتاہے تو وہ ببانگِ دہل اور آن دی ریکارڈ اِس کا جواب دیں گے تاکہ مجھ سمیت اُن کے لاتعداد عشاق مطمئن ہوسکیں۔