ہمارے قائد اعظم
جناح نے دادا بھائی کو کامیاب کرانے کے لیے اپنی طرف سے پوری پوری جدوجہد کی۔
KARACHI:
محمد علی جناح 25 دسمبر 1876 کو کراچی کے علاقے کھارادر میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی اور اعلیٰ تعلیم کراچی اور بمبئی میں حاصل کی۔ چونکہ ان کا خاندان تاجر پیشہ لوگوں کا تھا لہٰذا ان کے والد یہ چاہتے تھے کہ محمد علی جناح ایک بڑے تاجر بن جائیں لیکن ان کے والد کے ایک انگریز دوست نے محمد علی جناح کو ولایت بھیجنے کا مشورہ دیا۔ ولایت جا کر انھوں نے قانون کی تعلیم حاصل کی اور 22 برس کی عمر میں بیرسٹری کی سند حاصل کر لی۔ محمد علی جناح نے اپنے چار سالہ عرصۂ قیام کے دوران برطانوی پارلیمنٹ کی کارکردگی کا بھی مطالبہ کیا۔ اس وقت ایک ہندوستانی دادا بھائی نوروجی، برطانوی پارلیمنٹ کا انتخاب لڑ رہے تھے، جناح نے دادا بھائی کو کامیاب کرانے کے لیے اپنی طرف سے پوری پوری جدوجہد کی۔ دادا بھائی کامیاب ہوئے۔ اس کے بعد آپ نے دادا بھائی کے سیکریٹری کی حیثیت سے کام کیا اور سیاست کے اولین سبق انھی سے سیکھے۔
محمد علی جناح بیسویں صدی کے اوائل میں میدان سیاست میں داخل ہوئے۔ 1905 میں پہلی مرتبہ مدراس کے ایک رسالے ''انڈین ریویو'' میں مسلمان کانگریسی کی حیثیت سے ان کا تذکرہ کیا گیا اور ان کی سیاسی حوصلہ مندی کو خراج تحسین پیش کیا گیا۔ 1913 میں محمد علی جناح نے مسلم لیگ کی رکنیت قبول کی، لیکن کانگریس کی رکنیت سے مستعفی نہیں ہوئے، انھوں نے ہندو مسلم اتحاد اور کانگریس لیگ اتحاد کے لیے بے انتہا کوشش کی جس کے نتیجے میں مسلم لیگ اور کانگریس کے اجلاس 1916 میں بیک وقت لکھنؤ میں منعقد ہوئے اور کانگریس و مسلم لیگ میں ایک معاہدہ ہوا جسے میثاق لکھنؤ کہتے ہیں۔ 1915 اور 1917 کے مسلم لیگ کے اجلاس میں کئی کانگریسی رہنماؤں نے بھی شرکت کی مثلاً گاندھی جی، مدن موہن مالویہ وغیرہ، اور اس طرح ہندو مسلم اتحاد کی فضا سازگار ہو گئی۔ اس جذبۂ اتحاد کے تحت خلافت اور عدم تعاون کی تحریکیں ساتھ ساتھ چلائی گئیں لیکن جب گاندھی جی نے یکایک تحریک کو ختم کر دیا اور اس کے بعد ہندوؤں نے شدھی اور سنلھٹن کی تحریکیں شروع کیں تو مسلمانوں پر مصائب کا نزول شروع ہوا۔ محمد علی جناح نے مسلمانوں کو متحد کرنے کی کوشش کی، انھیں دلاسہ دیا اور مسلم لیگ کو ازسر نو منظم کرنے کا کام شروع کیا۔ جب سائمن کمیشن برصغیر آیا تو محمد علی جناح نے کمیشن کا بائیکاٹ کیا۔
1928 میں جب نہرو رپورٹ مرتب ہوئی تو اس پر غور و خوض کرنے کے لیے کل جماعتی کانفرنس کلکتہ میں 22 دسمبر کو منعقد ہوئی۔ محمد علی جناح نے نہرو رپورٹ میں بہت سی ترمیمات پیش کیں، لیکن سوائے ایک کے سب رد کر دی گئیں۔ لہٰذا مسلمانوں کو تحفظ دلانے کی خاطر آل انڈیا مسلم لیگ کی میٹنگ بمقام دہلی مارچ 1929 میں منعقد کی گئی جس میں نہرو رپورٹ کو مسترد کر دیا گیا اور مسٹر جناح کے 14 نکات کو مسلمانوں کے تحفظ کا ضامن قرار دیا گیا۔
1935 میں جب نیا گورنمنٹ ایکٹ نافذ ہوا تو اساسی رُو سے مرکز میں فیڈریشن اور صوبوں میں خود اختیاری حکومت کا فارمولا طے پایا اور اسی ایکٹ کے تحت ہندوستان کے تمام صوبوں میں انتخابات ہوئے جس میں کانگریس کو اکثریت حاصل ہوئی۔ ان انتخابات سے کانگریسی رہنماؤں نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ کانگریس کے ساتھ ہندوستان کی تمام آبادی اور کانگریس ہی ہندوستان کے تمام باشندگان کی نمایندگی کرتی ہے اور کانگریس ہی واحد سیاسی جماعت ہے جو انگریزوں کے بعد ہندوستان کی عنان حکومت سنبھال سکتی ہے۔ چنانچہ کانگریس کے لیڈر پنڈت جواہر لال نہرو نے ایک بار اعلان کیا کہ ''ہندوستان میں صرف دو جماعتیں ہیں، ایک برٹش گورنمنٹ اور دوسری کانگریس۔''
محمد علی جناح نے فوراً چیلنج کیا اور کہا کہ ''ان دو جماعتوں کے علاوہ تیسری جماعت بھی ہے جو دس کروڑ مسلمانوں کی نمایندگی کرتی ہے اور وہ ہے مسلم لیگ۔ کانگریس مسلمانوں کی نمایندہ جماعت نہیں ہے۔''
1935کے آئین کے تحت جب کانگریس وزارتیں قائم ہوئیں تو انھوں نے مسلم لیگ کی حیثیت کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا۔ کانگریس کا کہنا تھا کہ مسلمانوں کو جب ہی نمایندگی دی جا سکتی ہے جب وہ مسلم لیگ کو ختم کر کے کانگریس میں آ ملیں۔ محمد علی جناح نے اس بات کا اعلان کیا کہ ''مسلمان کانگریس سرکار کے زیر سایہ حق و انصاف کی امید نہیں رکھ سکتے۔'' انھوں نے کانگریس کی متعصبانہ پالیسی پر کڑی تنقید کی، لیکن جب کانگریسی وزارتوں نے مسلمانوں پر مظالم ڈھانا شروع کیا اور ان پر عرصۂ حیات تنگ کر دیا تو محمد علی جناح نے اسے بڑی شدت سے محسوس کیا اور جب 1939 میں کانگریسی وزارتیں مستعفی ہو گئیں تو انھوں نے مسلمانوں کو ''یوم نجات'' منانے کا حکم دیا۔ پورے ملک میں مسلمانوں نے یوم نجات منایا۔
1938 قائد اعظم محمد علی جناح کی زندگی میں ایک اہم سال ہے۔ اس سال کے آغاز میں ''الامان'' دہلی کے مدیر مولانا مظہر الدین مرحوم نے کروڑوں مسلمانوں کے جذبات کی ترجمانی کرتے ہوئے مسٹر جناح کے لیے ''قائد اعظم'' کا لقب تجویز کیا۔
قائد اعظم بے ایمانی، فریب اور بددیانتی کے دشمن تھے۔ جب ان پر ہندو لیڈروں کے رویے سے یہ بات واضح ہو گئی کہ مسلمانوں کے بارے میں ان کے ارادے نیک نہیں ہیں اور آزاد ہندوستان میں وہ مسلمانوں کو دوسرے نمبر کے اچھوت بنانے کی تیاریاں کر رہے ہیں تو انھوں نے اپنے رویے پر نظرثانی کی۔ وہ کانگریس سے علیحدہ ہو گئے اور مسلمانوں کی جداگانہ تنظیم کی ضرورت پر زور ہی نہیں دیا بلکہ اس میں عملاً گہری دلچسپی لی اور مسلم لیگ کو فعال سیاسی جماعت بنایا۔
علامہ اقبال، قائد اعظم کے متعلق یہ کہنے میں حق بجانب ہیں کہ ''ہندوستان میں بحیثیت مسلمان آپ کی (قائد اعظم کی) تنہا ذات ہے جس سے ملت پر توقع رکھنے کا حق رکھتی ہے کہ شمال مغربی یا کہ پورے ہندوستان پر جو سیلاب آ رہا ہے اس میں آپ صحیح رہنمائی کریں گے۔''
اور قائد اعظم نے ان توقعات کو پورا کر دکھایا۔
قائد اعظم نے 22 مارچ 1940 کو مسلم لیگ کے لاہور کے اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے اعلان کیا کہ مسلمان اقلیت نہیں ہیں اور ہر اعتبار سے ایک قوم ہیں۔ انھوں نے کہا کہ ''اگر برطانوی حکومت یہ چاہتی ہے کہ برصغیر کے لوگ امن اور خوشی سے رہیں تو یہ بات لازمی ہے کہ بڑی قوموں کو علیحدہ علیحدہ وطن دیا جائے اور برصغیر کی تقسیم عمل میں لائی جائے، کوئی وجہ سمجھ میں نہیں آتی کہ دو قومی ریاستیں آپس میں کیوں برسر پیکار ہوں گی۔ برعکس اس کے یہ کوشش کہ ایک قوم دوسری قوم کی تنظیم پر حاوی ہو جائے اور اقتدار حاصل کر کے اس پر سیاسی برتری کا اظہار کرے ختم ہو جائے گی۔''
23؍ مارچ 1940کو آل انڈیا مسلم لیگ نے اپنے لاہور کے اجلاس میں قرارداد پاکستان منظور کی۔ قرارداد پاکستان کی منظوری قائد اعظم کی بہت بڑی سیاسی کامیابی تھی۔
قرارداد پاکستان کی منظوری کے بعد تحریک پاکستان اپنی منزل کی جانب تیزی سے گامزن ہوئی اور مختلف مراحل سے گزرتی ہوئی بالآخر 14 اگست 1947 کو اپنی منزل مقصود پر پہنچی اور مسلمان قائد اعظم کی رہنمائی میں اپنے لیے ایک علیحدہ وطن حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے اور قائد اعظم پاکستان کے پہلے گورنر جنرل منتخب ہوئے۔
قائد اعظم محمد علی جناح نے پاکستان تو حاصل کر لیا تاہم اس نوزائیدہ مملکت کو ہر چہار سو مشکلات کا سامنا تھا۔ لیکن قائد اعظم نے اپنی سیاسی سوجھ بوجھ، حکمت و بصیرت اور ناقابل شکست صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے ان تمام تر مشکلات پر بخوبی قابو پا لیا۔
24 اگست 1947 کو اپنے ایک بیان میں انھوں نے یہ واضح کر دیا کہ ''پاکستان کی تشکیل بحیثیت ایک مملکت ہو چکی ہے اور اس کا ختم ہونا یا ختم کرنا ناممکن ہے۔''
قائد اعظم محمد علی جناح پر جو وسیع ذمے داریاں عائد کی گئی تھیں ان کو وہ ہمت و استقلال کے ساتھ نبھاتے رہے لیکن کام کی زیادتی اور انتھک محنت کے سبب ان کی صحت جواب دینے لگی اور بالآخر ہمارے قائد اعظم 11 ستمبر 1948 کو رحلت فرما گئے۔
محمد علی جناح 25 دسمبر 1876 کو کراچی کے علاقے کھارادر میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی اور اعلیٰ تعلیم کراچی اور بمبئی میں حاصل کی۔ چونکہ ان کا خاندان تاجر پیشہ لوگوں کا تھا لہٰذا ان کے والد یہ چاہتے تھے کہ محمد علی جناح ایک بڑے تاجر بن جائیں لیکن ان کے والد کے ایک انگریز دوست نے محمد علی جناح کو ولایت بھیجنے کا مشورہ دیا۔ ولایت جا کر انھوں نے قانون کی تعلیم حاصل کی اور 22 برس کی عمر میں بیرسٹری کی سند حاصل کر لی۔ محمد علی جناح نے اپنے چار سالہ عرصۂ قیام کے دوران برطانوی پارلیمنٹ کی کارکردگی کا بھی مطالبہ کیا۔ اس وقت ایک ہندوستانی دادا بھائی نوروجی، برطانوی پارلیمنٹ کا انتخاب لڑ رہے تھے، جناح نے دادا بھائی کو کامیاب کرانے کے لیے اپنی طرف سے پوری پوری جدوجہد کی۔ دادا بھائی کامیاب ہوئے۔ اس کے بعد آپ نے دادا بھائی کے سیکریٹری کی حیثیت سے کام کیا اور سیاست کے اولین سبق انھی سے سیکھے۔
محمد علی جناح بیسویں صدی کے اوائل میں میدان سیاست میں داخل ہوئے۔ 1905 میں پہلی مرتبہ مدراس کے ایک رسالے ''انڈین ریویو'' میں مسلمان کانگریسی کی حیثیت سے ان کا تذکرہ کیا گیا اور ان کی سیاسی حوصلہ مندی کو خراج تحسین پیش کیا گیا۔ 1913 میں محمد علی جناح نے مسلم لیگ کی رکنیت قبول کی، لیکن کانگریس کی رکنیت سے مستعفی نہیں ہوئے، انھوں نے ہندو مسلم اتحاد اور کانگریس لیگ اتحاد کے لیے بے انتہا کوشش کی جس کے نتیجے میں مسلم لیگ اور کانگریس کے اجلاس 1916 میں بیک وقت لکھنؤ میں منعقد ہوئے اور کانگریس و مسلم لیگ میں ایک معاہدہ ہوا جسے میثاق لکھنؤ کہتے ہیں۔ 1915 اور 1917 کے مسلم لیگ کے اجلاس میں کئی کانگریسی رہنماؤں نے بھی شرکت کی مثلاً گاندھی جی، مدن موہن مالویہ وغیرہ، اور اس طرح ہندو مسلم اتحاد کی فضا سازگار ہو گئی۔ اس جذبۂ اتحاد کے تحت خلافت اور عدم تعاون کی تحریکیں ساتھ ساتھ چلائی گئیں لیکن جب گاندھی جی نے یکایک تحریک کو ختم کر دیا اور اس کے بعد ہندوؤں نے شدھی اور سنلھٹن کی تحریکیں شروع کیں تو مسلمانوں پر مصائب کا نزول شروع ہوا۔ محمد علی جناح نے مسلمانوں کو متحد کرنے کی کوشش کی، انھیں دلاسہ دیا اور مسلم لیگ کو ازسر نو منظم کرنے کا کام شروع کیا۔ جب سائمن کمیشن برصغیر آیا تو محمد علی جناح نے کمیشن کا بائیکاٹ کیا۔
1928 میں جب نہرو رپورٹ مرتب ہوئی تو اس پر غور و خوض کرنے کے لیے کل جماعتی کانفرنس کلکتہ میں 22 دسمبر کو منعقد ہوئی۔ محمد علی جناح نے نہرو رپورٹ میں بہت سی ترمیمات پیش کیں، لیکن سوائے ایک کے سب رد کر دی گئیں۔ لہٰذا مسلمانوں کو تحفظ دلانے کی خاطر آل انڈیا مسلم لیگ کی میٹنگ بمقام دہلی مارچ 1929 میں منعقد کی گئی جس میں نہرو رپورٹ کو مسترد کر دیا گیا اور مسٹر جناح کے 14 نکات کو مسلمانوں کے تحفظ کا ضامن قرار دیا گیا۔
1935 میں جب نیا گورنمنٹ ایکٹ نافذ ہوا تو اساسی رُو سے مرکز میں فیڈریشن اور صوبوں میں خود اختیاری حکومت کا فارمولا طے پایا اور اسی ایکٹ کے تحت ہندوستان کے تمام صوبوں میں انتخابات ہوئے جس میں کانگریس کو اکثریت حاصل ہوئی۔ ان انتخابات سے کانگریسی رہنماؤں نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ کانگریس کے ساتھ ہندوستان کی تمام آبادی اور کانگریس ہی ہندوستان کے تمام باشندگان کی نمایندگی کرتی ہے اور کانگریس ہی واحد سیاسی جماعت ہے جو انگریزوں کے بعد ہندوستان کی عنان حکومت سنبھال سکتی ہے۔ چنانچہ کانگریس کے لیڈر پنڈت جواہر لال نہرو نے ایک بار اعلان کیا کہ ''ہندوستان میں صرف دو جماعتیں ہیں، ایک برٹش گورنمنٹ اور دوسری کانگریس۔''
محمد علی جناح نے فوراً چیلنج کیا اور کہا کہ ''ان دو جماعتوں کے علاوہ تیسری جماعت بھی ہے جو دس کروڑ مسلمانوں کی نمایندگی کرتی ہے اور وہ ہے مسلم لیگ۔ کانگریس مسلمانوں کی نمایندہ جماعت نہیں ہے۔''
1935کے آئین کے تحت جب کانگریس وزارتیں قائم ہوئیں تو انھوں نے مسلم لیگ کی حیثیت کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا۔ کانگریس کا کہنا تھا کہ مسلمانوں کو جب ہی نمایندگی دی جا سکتی ہے جب وہ مسلم لیگ کو ختم کر کے کانگریس میں آ ملیں۔ محمد علی جناح نے اس بات کا اعلان کیا کہ ''مسلمان کانگریس سرکار کے زیر سایہ حق و انصاف کی امید نہیں رکھ سکتے۔'' انھوں نے کانگریس کی متعصبانہ پالیسی پر کڑی تنقید کی، لیکن جب کانگریسی وزارتوں نے مسلمانوں پر مظالم ڈھانا شروع کیا اور ان پر عرصۂ حیات تنگ کر دیا تو محمد علی جناح نے اسے بڑی شدت سے محسوس کیا اور جب 1939 میں کانگریسی وزارتیں مستعفی ہو گئیں تو انھوں نے مسلمانوں کو ''یوم نجات'' منانے کا حکم دیا۔ پورے ملک میں مسلمانوں نے یوم نجات منایا۔
1938 قائد اعظم محمد علی جناح کی زندگی میں ایک اہم سال ہے۔ اس سال کے آغاز میں ''الامان'' دہلی کے مدیر مولانا مظہر الدین مرحوم نے کروڑوں مسلمانوں کے جذبات کی ترجمانی کرتے ہوئے مسٹر جناح کے لیے ''قائد اعظم'' کا لقب تجویز کیا۔
قائد اعظم بے ایمانی، فریب اور بددیانتی کے دشمن تھے۔ جب ان پر ہندو لیڈروں کے رویے سے یہ بات واضح ہو گئی کہ مسلمانوں کے بارے میں ان کے ارادے نیک نہیں ہیں اور آزاد ہندوستان میں وہ مسلمانوں کو دوسرے نمبر کے اچھوت بنانے کی تیاریاں کر رہے ہیں تو انھوں نے اپنے رویے پر نظرثانی کی۔ وہ کانگریس سے علیحدہ ہو گئے اور مسلمانوں کی جداگانہ تنظیم کی ضرورت پر زور ہی نہیں دیا بلکہ اس میں عملاً گہری دلچسپی لی اور مسلم لیگ کو فعال سیاسی جماعت بنایا۔
علامہ اقبال، قائد اعظم کے متعلق یہ کہنے میں حق بجانب ہیں کہ ''ہندوستان میں بحیثیت مسلمان آپ کی (قائد اعظم کی) تنہا ذات ہے جس سے ملت پر توقع رکھنے کا حق رکھتی ہے کہ شمال مغربی یا کہ پورے ہندوستان پر جو سیلاب آ رہا ہے اس میں آپ صحیح رہنمائی کریں گے۔''
اور قائد اعظم نے ان توقعات کو پورا کر دکھایا۔
قائد اعظم نے 22 مارچ 1940 کو مسلم لیگ کے لاہور کے اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے اعلان کیا کہ مسلمان اقلیت نہیں ہیں اور ہر اعتبار سے ایک قوم ہیں۔ انھوں نے کہا کہ ''اگر برطانوی حکومت یہ چاہتی ہے کہ برصغیر کے لوگ امن اور خوشی سے رہیں تو یہ بات لازمی ہے کہ بڑی قوموں کو علیحدہ علیحدہ وطن دیا جائے اور برصغیر کی تقسیم عمل میں لائی جائے، کوئی وجہ سمجھ میں نہیں آتی کہ دو قومی ریاستیں آپس میں کیوں برسر پیکار ہوں گی۔ برعکس اس کے یہ کوشش کہ ایک قوم دوسری قوم کی تنظیم پر حاوی ہو جائے اور اقتدار حاصل کر کے اس پر سیاسی برتری کا اظہار کرے ختم ہو جائے گی۔''
23؍ مارچ 1940کو آل انڈیا مسلم لیگ نے اپنے لاہور کے اجلاس میں قرارداد پاکستان منظور کی۔ قرارداد پاکستان کی منظوری قائد اعظم کی بہت بڑی سیاسی کامیابی تھی۔
قرارداد پاکستان کی منظوری کے بعد تحریک پاکستان اپنی منزل کی جانب تیزی سے گامزن ہوئی اور مختلف مراحل سے گزرتی ہوئی بالآخر 14 اگست 1947 کو اپنی منزل مقصود پر پہنچی اور مسلمان قائد اعظم کی رہنمائی میں اپنے لیے ایک علیحدہ وطن حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے اور قائد اعظم پاکستان کے پہلے گورنر جنرل منتخب ہوئے۔
قائد اعظم محمد علی جناح نے پاکستان تو حاصل کر لیا تاہم اس نوزائیدہ مملکت کو ہر چہار سو مشکلات کا سامنا تھا۔ لیکن قائد اعظم نے اپنی سیاسی سوجھ بوجھ، حکمت و بصیرت اور ناقابل شکست صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے ان تمام تر مشکلات پر بخوبی قابو پا لیا۔
24 اگست 1947 کو اپنے ایک بیان میں انھوں نے یہ واضح کر دیا کہ ''پاکستان کی تشکیل بحیثیت ایک مملکت ہو چکی ہے اور اس کا ختم ہونا یا ختم کرنا ناممکن ہے۔''
قائد اعظم محمد علی جناح پر جو وسیع ذمے داریاں عائد کی گئی تھیں ان کو وہ ہمت و استقلال کے ساتھ نبھاتے رہے لیکن کام کی زیادتی اور انتھک محنت کے سبب ان کی صحت جواب دینے لگی اور بالآخر ہمارے قائد اعظم 11 ستمبر 1948 کو رحلت فرما گئے۔