پروین شاکر عورت کے استحصال کی داستان
پروین شاکر کی شاعری کا اگرچہ بیشتر حصہ نسائی محبت کا انوکھا اور دل کو چھوتا ہوا اظہار ہے
KARACHI:
ایسے معاشرے جہاں عورت کو ایک فرد ہی تسلیم نہیں کیا جاتا وہاں اس کے لیے مشکلیں دوچند ہو جاتی ہیں کچھ اسی قسم کا سماج پاکستان اور ہندوستان کا ہے جس میں عورت کئی سطح پر اپنے ہونے کی جنگ لڑتی ہے اور اس کے بعد اگر کوئی عورت قلم کار کی حیثیت سے اپنے آپ کو منوا لیتی ہے تو اسے غیر معمولی کامیابی کہنا چاہیے، پروین شاکر کا شمار بلاشبہ ان خواتین میں ہوتا ہے جن کے فن کا اعتراف کرنا مردوں کے لیے بھی ناگزیر ہو جاتا ہے۔
پروین شاکر کی شاعری کا اگرچہ بیشتر حصہ نسائی محبت کا انوکھا اور دل کو چھوتا ہوا اظہار ہے مگر وہ اپنے عصر ی تقاضوں اور رجحانات کی بھرپور عکاسی کرتی بھی دکھائی دیتی ہے، اور اردو ادب کی اس تاریخ کو رقم کرتی ہے اس سے پہلے اتنے جاندار طریقے سے سامنے نہیں آ سکی تھی۔ اعتبارِ ذات کی منزلوں کی تلاش میں مصروفِ عمل اس کے اندر کی فنکار جو ایک عورت بھی ہے اس کی شاعری میں جا بجا مردانہ سماج میں بے اختیاری و بے اعتباری کے مجبور موسموں کی سنگت میں انگنت سوال کرتی ہوئی ایک تابناک شعری تاریخ رقم کرتی ہے۔
مغرب میں نسائی تحریک کے پنپنے میں مارکسی فلسفوں کے علاوہ مابعد جدیدیت نے، جو اعلیٰ اور ادنیٰ کے فوقیتی تصور پر کاری ضرب لگاتی ہے، اہم کردار ادا کیا، مگر اس کے اثرات اُردو ادب پر پڑنے اس لیے بھی ضروری تھے کہ یہ خواتین کے حالات کا ترجمان تھا۔ اُردو ادب اور سماج کی روایت رہی ہے کہ اس میں ہر نظریے کا اطلاق اپنے تناظر کی نفی کر کے تجریدی سطح پر کیا جاتا ہے، کچھ اسی طرح بعض خواتین نے بھی اپنے بنیادی ضروری حقوق کو نظر انداز کر کے 'آزادی' اور اپنے حقوق کے لیے آواز بلند کرنا ضروری سمجھا، جب کہ پاکستان اور ہندوستان میں جنسی بنیادوں پر حقوق حاصل کرنے سے بھی زیادہ ضرورت بنیادی انسانی حقوق کے حصول کی تھی وہ حقوق جن پر جاگیرداری اور سرمایہ داری قابض ہو چکی ہیں۔
مشرق میں تو عورت ابھی ایک خاندان میں اپنے آپ کو فرد کی حیثیت سے نہیں منوا سکی، وہ فرد جس کو انسانی سطح پر زندگی گزارنے کی اجازت ہو۔ پروین شاکر کی شاعری میں عورت کے انھی بنیادی حقوق کے لیے شدت سے آواز اُٹھائی گئی ہے۔ اُردو شاعری نسائیت کے رنگوں اور جذبوں سے بہت عرصہ محروم رہنے کے بعد گزشتہ نصف صدی سے نسائیت سے بھی معتبر ہوئی، تاہم اس کا سفر جس اعتماد اور وقار کے ساتھ جاری رہنا چاہیے تھا اس کی کمی تاحال محسوس کی جا سکتی ہے۔
نسائی جذبوں اور لہجے سے آویزاں شاعری کی کمی ہی بنیادی وجہ تھی کہ پروین شاکر کی شاعری کا وہ حصہ بہت زیادہ مقبول ہوا جو نسائی محبت کا معصوم اور انوکھا اظہار تھا اسی وجہ سے پروین شاکر کی شاعری کا وہ حصہ نظر انداز ہوا جو عصری شعور کی نمایندگی کرتا ہے۔ اس کی بڑی وجہ خود پروین شاکر کا نسائی توانا لہجہ تھا جس نے لوگوں کو مسحور کر کے رکھ دیا ۔
پروین شاکر کا نام سنتے اور پڑھتے ہی بظاہر ایک رومانوی شاعرہ کا تصور ذہن میں ابھرتا ہے۔ جس کا کلام ''خوشبو'' کی طرح چارسو بکھرتا ہوا ہر کسی کو مسحور کر لیتا ہے حتیٰ کہ یہ نوجوانوں کو ہی اپنی لپیٹ میں نہیں لیتا بلکہ سنجیدہ قاری کے پختہ احساس پر بھی اثر انداز ہوتا ہے۔ پروین شاکر نے 'خوشبو' کو اپنی 'صد برگ' سوچوں سے 'خود کلامی' کرتے ہوئے کئی معنی پہنائے، ہزاروں رنگ بخشے، ہر بار نیا تاثر پیدا کیا۔ حسن ِ بیان، خیال آفرینی، شدتِ احساس، ہجر و وصال کے انوکھے تجربے و تجزیے کچھ اس طرح سے شعری قالب میں ڈھالے کہ نسائی شاعری کے لیے نئی راہیں ہموار ہوتی چلی گئیں، پروین شاکر نے کچھ ایسے انداز سے شہر سخن وراں میں حروف و معانی کے رنگ بکھیرے کہ اس کی الگ اور نمایاں شاعرانہ حیثیت سے ''انکار '' کرنا ایک کار ِ محال ہے۔ اُس نے 'خوشبو' 'خودکلامی' 'صد برگ' اور 'انکار' جیسے ناقابل ِ فراموش شعری مجموعوں کو تخلیق کر کے ''ماہ تمام'' کو اُردو ادب کے ماہِ ناتمام کے سپرد کر دیا۔
پروین کی شاعری میں نئے پن کاجو اظہار عورت کے حوالے سے ملتا ہے، وہ ایک مدت سے ہماری ادبی فضائوں کو اپنی لپیٹ میں لیے ہوئے ہے اور اس سے کئی اور نئے لہجے اور زاویے جنم لے رہے ہیں۔ وہ بلا شبہ تخیل کی ایسی رفعتوں پر مائل بہ پرواز تھی جہاں تک بہت سے لوگوں کی سوچ کے پر بھی نہیں جا سکتے ایسی اہلیت بھی کم لوگوں کو نصیب ہوتی ہے۔
وہ اپنی عمر ِ مختصر کے باوجود بہت سی ایسی منزلیں طے کر چکی ہیں کہ ان کی شاعری اُردو ادب میں شاعرات کی شعری تاریخ میں سنگ ِ میل کی حیثیت اختیار کر چکی ہے۔ پروین شاکر کی ہمعصر اور پیش رو شاعرات گو کہ شاعرانہ عظمت کے اعتبار سے قابل ِ قدر ہیں، مگر پروین شاکر اپنے عہد کے ان شعری امکانات کو بھر پور طریقے سے بروئے کار لاتی ہے جو خواتین کی شاعری کو مخصوص لہجہ عطا کر سکتے تھے۔ کچھ ناقدین پروین شاکر کے بارے میں یوں لکھتے ہیں کہ، پر وین شاکر کی شاعری اگرچہ کوئی بڑا تجربہ یا سوال سامنے نہیں لا سکی مگر نسائی احساسات کا بھر پور اظہار کرتی ہے، ظاہر ہے ایک عورت نسائیت کا ہی اظہار کرے گی جیسے سب مرد اپنی شاعری میں مردانہ احساسات کا اظہار کرتے آئے ہیں مگر یہ پروین شاکر کی نسائی شاعری کی طاقت ہے کہ آج کئی مردانہ شعری کتب میں پروین کی شاعری کا عکس اور لہجے کی گونج سنائی دیتی ہے۔
کئی ناقدین ایسے بھی ہیں جن کو اعتراض ہے کہ ''پروین نے شاعری کو بیڈ روم تک محدود کردیا'' اگرچہ پروین کی شاعری میں بیڈروم ایک معمولی سا جزو ہے جو ایک گھر کا حصہ ہے اور گھر پورے سماج کا، اسی لیے پروین کی شاعری پورے سماج کی بھرپور عکاسی ہی نہیں کرتی بلکہ اُردو ادب کی شعری تاریخ کے حصے کو تکمیل بخشتی ہے جس کے بغیر یہ ادھوری رہ جاتی۔ خوش کن بات یہ ہے کہ کم از کم پروین نے زلف و رخسار پر مبنی تیسرے درجے کی شاعری سے اُردو ادب کو چھٹکارا دلانے میں اہم کردار ادا کیا ہے، کہ آج کا شعری سماج مکمل سماج ہے جو صرف مردانہ سماج کا ہی نہیں بلکہ نسائی وادیوں کا بھی عکاس ہے۔ پروین کی خصوصیت یہ ہے کہ اس نے اپنا اسلوب اور شعری لب و لہجہ خود دریافت کیا ہے۔ ساختیاتی اعتبار سے دیکھیں یا رومانوی طرز ِ احساس ہو یا علامات و استعارات کی ہمہ پہلو معنویت، اس کی شاعری میں نسائی لہجے کے ساتھ عصری آگاہی اور جدت طرازی بھر پور اظہار کر رہی ہیں۔ پروین شاکر کی شاعری بلاشبہ نئے نسائی عصری شعور سے آویزاں ہے ۔
اس نے شاعری کو نہ صرف اعلیٰ سطح پر جمالیاتی احساس سے آراستہ کیا، بلکہ معنویاتی سطح پر بھی وہ مضبوطی بخشی جو اپنے عہد کے تقاضوں سے ہم آہنگ ہونے کے علاوہ ماضی کی روایات اور مستقبل کے خواب ساتھ لے کر چلتی ہے۔ وہ اپنے اردگرد دم توڑتی ہوئی انسانی اقدار کا گہری بصیرت سے جائزہ لیتی ہے۔ ۔ 'خوشبو' کی ابتدا سے 'انکار' کی انتہا تک اس کے سفر کے ارتقائی مراحل واضح طور پر اس کی شاعری میں محسوس کیے جا سکتے ہیں، تاہم کچھ لوگ اس بات پر بھی بضد رہے کہ اس کی شاعری میں ''محبت کا جذبہ روایتی انداز میں ملتا ہے'' محبت تو خود ایک روایت ہے جو انسانی زندگی کے آغاز سے وابستہ ہے۔
محبت اور زندگی کو مکمل طور پر الگ کیا ہی نہیں جا سکتا، اس کی شاعری میں رومانویت کے یہ پہلو تو مقبول عام ہیں ہی مگر زندگی کی تلخ حقیقتیں بھی بہت مضبوطی سے اپنا اظہار کرتی ہیں جس میں بحیثیت فرد اپنی شناخت کو قائم کرنے کی خواہش بھی ہے اور پہلے کے استحصال پر گلہ بھی ہے، ان احساسات کی موجودگی اس کی شاعری کے علاوہ 'خوشبو' کے پیش لفظ میں جابجا ملتی ہے۔ وہ زندگی سے محبت کرنے کا جرم پورے غرور کے ساتھ قبول کرتی ہے، بہاروں کے رنگ اسے خوشی دیتے ہیں تو خزاں بھی اسے دکھی کرتی ہے، مگر وہ اس سے دشمنی نہیں کرتی۔ وہ تنہائیوں سے اور سنّاٹوں سے گبھراتی ہے، مگر نفرت نہیں کرتی، خواہشوں کا ادھورا پن اس میں جو خلاء پیدا کرتا ہے وہ اسے فن کی بلندیوں پر جا کر پورا کرتی ہے۔
پروین شاکر کی شاعری میں فنی دسترس کے باوجود نثری نظمیں بھی ملتی ہیں جو اس بات کی دلیل ہیں کہ ان کے فن کا بحرکراں عروض و بحور کے محدود کناروں سے باہر تک رسائی چاہتا تھا۔ پروین شاکر کی شعری سچائیوں کا یہ سلسلہ چلتا رہتا اگر جو موت کے بے رحم ہاتھ 26 دسمبر 1994 کی اس شام کو، اس کا قلم نہ روک دیتے، جو اپنی پشت میں موت چھپائے خالی ہاتھ آئی تھی اور جس کی خبر اس کے شعری وجدان نے اسے پہلے ہی کر دی تھی ۔