ضعیف الاعتقادی اور نوسرباز جعلی عامل
جعلی عامل معصوم لوگوں کو اپنے جال میں پھنسا کر اپنے مذموم مقاصد کے لیے استعمال کرتے ہیں۔
KARACHI:
آج جس موضوع پر قلم اٹھایا ہے اس کا محرک ایک پرسوز و دل فگار خط ہے۔ بہتر ہو گا کہ کسی اضافی تمہید کے بغیر اس خط کا متن ضروری تبدیلی کے ساتھ یہاں شامل کر دیا جائے تا کہ قارئین نہ صرف موضوع کی حساسیت سے واقف ہو سکیں بلکہ اس مظلوم لڑکی کے واقعے سے سبق بھی حاصل کر سکیں۔ خط کچھ یوں ہے۔''میں اپنے ساتھ پیش آنے والے جس دردناک واقعے اور معاشرے کے ایک اہم مسئلے کی طرف آپ کی توجہ مبذول کرانا چاہتی ہوں، اس کا تعلق ایک درندہ صفت شیطان جعلی عامل سے ہے۔
جس کے ہاتھوں میں اپنا سب کچھ اپنا زیور، اپنا پیسہ یہاں تک کہ اپنی عزت بھی لٹا چکی ہوں۔ یہ میری بدقسمتی تھی کہ میں T.V پر اس کا ایک پروگرام دیکھ کر کلفٹن، جہاں اس کا آفس ہے، اس سے ملنے چلی گئی۔ میں اس سے صرف اپنی تعلیم اور شادی کے بارے میں جاننا چاہتی تھی مگر اس ظالم نے مجھے اپنے جال میں پھنسا کر مجھ سے 62 ہزار روپے لے لیے۔ میرے بوڑھے والدین نے میری شادی کے لیے جو زیور بنا کر رکھا تھا، اس جعلی عامل نے کالے اور سفلی علم کی کاٹ کے بہانے ڈرا دھمکا کر مجھ سے میرا سارا زیور جو کہ 4 سے 5 لاکھ روپے کا تھا لوٹ لیا، بعد میں مجھے بلیک میل کر کے مجھ سے کھیلتا رہا۔ اس شیطان نے میری ویڈیو بنا رکھی ہے، جسے دیکھ کر میں نے گھبرا کر خودکشی کی کوشش کی۔ میرا کوئی بھائی نہیں ہے، مجھ سے چھوٹی 2 بہنیں ہیں، والدہ اکثر بیمار رہتی ہیں اور میرے بوڑھے والد صاحب ایک فیکٹری میں ملازم ہیں۔ اگر میں سب کچھ ان کو بتائوں تو شاید وہ غم سے ہی مر جائیں گے۔
2، 3 بار خودکشی کی کوشش کی مگر شاید ابھی اﷲ نے سانسیں باقی لکھی ہیں، مگر مجھے نہیں لگتا کہ میں اب زیادہ زندہ رہ پائوں گی۔ اس لیے مرنے سے پہلے میں آپ کے اخبار کے ذریعے اس جعلی عامل کا اصلی روپ دنیا کو دکھانا چاہتی ہوں تا کہ میری تڑپتی اور سسکتی روح کو چین آ جائے۔ اس جعلی عامل کے آفس میں مجھے 2، 3 لڑکیوں نے بھی بتایا ہے کہ یہ شخص ہم سے بھی ہماری عزت، پیسہ اور زیور سب لوٹ چکا ہے اور بعد میں یا تو شادی کی آفر کر دیتا ہے یا زندہ جلا کر جان سے مار ڈالنے کی دھمکی دیتا ہے۔ اس عامل کے آفس کے برابر میں بیٹھے ایک دوسرے دکاندار نے مجھے اس کے خلاف ماضی میں چھپی ہوئی خبروں کی کٹنگ دی جو میں آپ کو بھیج رہی ہوں۔ میں ایک مرتبہ پھر ہاتھ جوڑ کر آپ کو اﷲ اور اس کے رسول کا واسطہ دیتی ہوں کہ خدا کے لیے آپ میرے جیسی اور بہنوں اور بیٹیوں کی عزت اس جعلی عامل کے ہاتھوں لٹنے سے بچالیں۔ میرے ساتھ تو جو ہونا تھا وہ ہو چکا مگر شاید آپ کو کسی بہن اور کسی بیٹی کی دعا لگ جائے اور مزید گھر تباہ ہونے سے بچ جائیں اور مزید عزتیں لٹنے اور پامال ہونے سے بچ جائیں۔ شاید ...! والسلام''
پالیسی کے تحت درج بالا خط کے کئی حصے حذف کر دیے گئے ہیں ورنہ تفصیلات نہایت روح فرسا تھیں کہ کس طرح شیطان صفت جعلی عامل معصوم لوگوں کو اپنے جال میں پھنسا کر اپنے مذموم مقاصد کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ اس مظلوم لڑکی نے عامل کے خلاف خبروں کے جو تراشے بھیجے ہیں اس میں کافی تفصیلات ہیں، حیرت ہے اس کے باوجود بھی اس طرح کے جعلی عامل قانون کی ناک کے نیچے اپنے مکروہ کاروبار کو جاری رکھے ہوئے ہیں اور لوگ بھی حقیقت سے واقف ہونے کے باوجود ان کے جال میں پھنس جاتے ہیں۔
ٹیکنالوجی کے اس دور میں بھی جہاں انسان ترقی کے بام عروج پر ہے، عہد جاہلیت کی کچھ فرسودہ چیزیں اور روایتیں صدیوں سے آج تک انسانی ذہن کو اپنی گرفت میں لیے ہوئے ہیں۔ بعض لوگ محبت، نفرت، دوستی جیسے جذبات کی شدت کو بھی ''جادو'' کی جادوگری سمجھتے ہیں۔ کاروبار میں مندی ہو یا شادی میں رکاوٹ، خانگی مسائل ہوں یا ذہنی الجھنیں، توہم پرست لوگ اسے کالا جادو گردانتے ہیں۔ اس کے بعد پھر عامل بابا، بنگالی بابا اور مستانی مائی جیسے لوگوں کی چاندی ہونے لگتی ہے۔ کالے بکرے، کالی مرغیاں، سونے کے پتر پر لکھے جانے والے تعویز اور ہدیہ و نذرانہ کے نام پر ہزاروں روپے ہماری اسی ذہنی فرسودگی کی بھینٹ چڑھنے لگتے ہیں۔ کم تعلیم یافتہ اور جاہل طبقہ تو ایک طرف نہایت افسوس کا مقام تو یہ ہے کہ پڑھے لکھے لوگ بھی ان فرسودہ روایات کے اسیر نظر آتے ہیں۔
جادو ٹونہ کرنیوالے یہ اشتہاری عامل، روحوں سے بات کرنے والی مستانی مائی اور ایسے ہی مختلف عرفیت اختیار کرنے والے چالاک و عیار لوگ اپنی سحر انگیز اور گھاگ باتوں سے اچھے بھلے سادہ لوگوں کو اپنے جال میں جکڑ لیتے ہیں، اور وہ عہد جاہلیت کے لوگوں کی طرح اندھے اعتقاد کے ہاتھوں مغلوب ہو جاتے ہیں۔ اگر حسن اتفاق سے ان عاملوں کی کوئی بات درست ہو جائے تو ان کی چاندی ہو جاتی ہے، اس بات کا چرچا ہوتا ہے اور وہ لوگ بھی جو ان خرافات سے دور تھے ان کی جانب متوجہ ہونے لگتے ہیں یوں معتقدین کا یہ دائرہ وسیع ہوتا جاتا ہے۔ ہمارے مذہب میں جادو کی ممانعت ہے، لیکن اس کے باوجود توہم پرست اور ضعیف الاعتقاد لوگ جادو کے پھیر میں کچھ اس طرح الجھ جاتے ہیں کہ اس جال سے نکلنا ان کے لیے ناممکن ہو جاتا ہے۔
آج کے پُرفتن دور میں جہاں بے چینی و بے سکونی کو فروغ ملا ہے، بیروزگاری کی بہتات ہے، خلوص کی فضا نایاب ہے، ہر شخص دولت کی فراوانی چاہتا ہے، ایسے میں لوگ کسی ایسے ''شارٹ کٹ'' کی تلاش میں رہتے ہیں جس کی بدولت وہ اپنی منزل مراد جلد سے جلد پا سکیں۔ جادو، سحر، تعویز گنڈے وغیرہ بھی ایسے ہی ''شارٹ کٹ'' کے زمرے میں آتے ہیں۔ شادی بیاہ کے بعد جادو کا چکر ہمارے خانگی معاملات میں بھی بڑے زور و شور سے چلنے لگتا ہے۔
بیٹے کا بیوی کی جانب فطری میلان یا شوہر کا ماں کی دیکھ بھال کرنا تک جادو کے زمرے میں آتا ہے اور یوں ساس یا بہو ان اثرات کو کم کرنے کے لیے تعویز گنڈوں کا سہارا لینا شروع کر دیتی ہیں۔ بیروزگار نوجوان اور محبت کے مارے اپنی منزل مقصود پانے کے لیے ایسے ہی نام نہاد آستانوں کے چکر میں پڑ جاتے ہیں جہاں چہرے پر بزرگی و شرافت کی نقاب لگائے کریہہ النفس شیطان معصوم اذہان کو غلط راہ پر لگا کر اپنی دکان چمکانے لگتے ہیں۔ جادو کی جادو گری کا شکار کوئی ایک مخصوص طبقہ نہیں بلکہ ہر سطح و طبقے کے لوگ اس کے اسیر ہیں، چاہے کچے محلے ہوں یا عالیشان بنگلوں کے رہائشی، جاہل ہوں یا تعلیم یافتہ، فرسودہ روایتوں کے اسیر نہ صرف اپنی دنیا بلکہ عاقبت بھی خراب کرتے ہوئے ان منفی روایتوں کی اندھی تقلید میں مصروف بہ عمل ہیں۔
آج جس موضوع پر قلم اٹھایا ہے اس کا محرک ایک پرسوز و دل فگار خط ہے۔ بہتر ہو گا کہ کسی اضافی تمہید کے بغیر اس خط کا متن ضروری تبدیلی کے ساتھ یہاں شامل کر دیا جائے تا کہ قارئین نہ صرف موضوع کی حساسیت سے واقف ہو سکیں بلکہ اس مظلوم لڑکی کے واقعے سے سبق بھی حاصل کر سکیں۔ خط کچھ یوں ہے۔''میں اپنے ساتھ پیش آنے والے جس دردناک واقعے اور معاشرے کے ایک اہم مسئلے کی طرف آپ کی توجہ مبذول کرانا چاہتی ہوں، اس کا تعلق ایک درندہ صفت شیطان جعلی عامل سے ہے۔
جس کے ہاتھوں میں اپنا سب کچھ اپنا زیور، اپنا پیسہ یہاں تک کہ اپنی عزت بھی لٹا چکی ہوں۔ یہ میری بدقسمتی تھی کہ میں T.V پر اس کا ایک پروگرام دیکھ کر کلفٹن، جہاں اس کا آفس ہے، اس سے ملنے چلی گئی۔ میں اس سے صرف اپنی تعلیم اور شادی کے بارے میں جاننا چاہتی تھی مگر اس ظالم نے مجھے اپنے جال میں پھنسا کر مجھ سے 62 ہزار روپے لے لیے۔ میرے بوڑھے والدین نے میری شادی کے لیے جو زیور بنا کر رکھا تھا، اس جعلی عامل نے کالے اور سفلی علم کی کاٹ کے بہانے ڈرا دھمکا کر مجھ سے میرا سارا زیور جو کہ 4 سے 5 لاکھ روپے کا تھا لوٹ لیا، بعد میں مجھے بلیک میل کر کے مجھ سے کھیلتا رہا۔ اس شیطان نے میری ویڈیو بنا رکھی ہے، جسے دیکھ کر میں نے گھبرا کر خودکشی کی کوشش کی۔ میرا کوئی بھائی نہیں ہے، مجھ سے چھوٹی 2 بہنیں ہیں، والدہ اکثر بیمار رہتی ہیں اور میرے بوڑھے والد صاحب ایک فیکٹری میں ملازم ہیں۔ اگر میں سب کچھ ان کو بتائوں تو شاید وہ غم سے ہی مر جائیں گے۔
2، 3 بار خودکشی کی کوشش کی مگر شاید ابھی اﷲ نے سانسیں باقی لکھی ہیں، مگر مجھے نہیں لگتا کہ میں اب زیادہ زندہ رہ پائوں گی۔ اس لیے مرنے سے پہلے میں آپ کے اخبار کے ذریعے اس جعلی عامل کا اصلی روپ دنیا کو دکھانا چاہتی ہوں تا کہ میری تڑپتی اور سسکتی روح کو چین آ جائے۔ اس جعلی عامل کے آفس میں مجھے 2، 3 لڑکیوں نے بھی بتایا ہے کہ یہ شخص ہم سے بھی ہماری عزت، پیسہ اور زیور سب لوٹ چکا ہے اور بعد میں یا تو شادی کی آفر کر دیتا ہے یا زندہ جلا کر جان سے مار ڈالنے کی دھمکی دیتا ہے۔ اس عامل کے آفس کے برابر میں بیٹھے ایک دوسرے دکاندار نے مجھے اس کے خلاف ماضی میں چھپی ہوئی خبروں کی کٹنگ دی جو میں آپ کو بھیج رہی ہوں۔ میں ایک مرتبہ پھر ہاتھ جوڑ کر آپ کو اﷲ اور اس کے رسول کا واسطہ دیتی ہوں کہ خدا کے لیے آپ میرے جیسی اور بہنوں اور بیٹیوں کی عزت اس جعلی عامل کے ہاتھوں لٹنے سے بچالیں۔ میرے ساتھ تو جو ہونا تھا وہ ہو چکا مگر شاید آپ کو کسی بہن اور کسی بیٹی کی دعا لگ جائے اور مزید گھر تباہ ہونے سے بچ جائیں اور مزید عزتیں لٹنے اور پامال ہونے سے بچ جائیں۔ شاید ...! والسلام''
پالیسی کے تحت درج بالا خط کے کئی حصے حذف کر دیے گئے ہیں ورنہ تفصیلات نہایت روح فرسا تھیں کہ کس طرح شیطان صفت جعلی عامل معصوم لوگوں کو اپنے جال میں پھنسا کر اپنے مذموم مقاصد کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ اس مظلوم لڑکی نے عامل کے خلاف خبروں کے جو تراشے بھیجے ہیں اس میں کافی تفصیلات ہیں، حیرت ہے اس کے باوجود بھی اس طرح کے جعلی عامل قانون کی ناک کے نیچے اپنے مکروہ کاروبار کو جاری رکھے ہوئے ہیں اور لوگ بھی حقیقت سے واقف ہونے کے باوجود ان کے جال میں پھنس جاتے ہیں۔
ٹیکنالوجی کے اس دور میں بھی جہاں انسان ترقی کے بام عروج پر ہے، عہد جاہلیت کی کچھ فرسودہ چیزیں اور روایتیں صدیوں سے آج تک انسانی ذہن کو اپنی گرفت میں لیے ہوئے ہیں۔ بعض لوگ محبت، نفرت، دوستی جیسے جذبات کی شدت کو بھی ''جادو'' کی جادوگری سمجھتے ہیں۔ کاروبار میں مندی ہو یا شادی میں رکاوٹ، خانگی مسائل ہوں یا ذہنی الجھنیں، توہم پرست لوگ اسے کالا جادو گردانتے ہیں۔ اس کے بعد پھر عامل بابا، بنگالی بابا اور مستانی مائی جیسے لوگوں کی چاندی ہونے لگتی ہے۔ کالے بکرے، کالی مرغیاں، سونے کے پتر پر لکھے جانے والے تعویز اور ہدیہ و نذرانہ کے نام پر ہزاروں روپے ہماری اسی ذہنی فرسودگی کی بھینٹ چڑھنے لگتے ہیں۔ کم تعلیم یافتہ اور جاہل طبقہ تو ایک طرف نہایت افسوس کا مقام تو یہ ہے کہ پڑھے لکھے لوگ بھی ان فرسودہ روایات کے اسیر نظر آتے ہیں۔
جادو ٹونہ کرنیوالے یہ اشتہاری عامل، روحوں سے بات کرنے والی مستانی مائی اور ایسے ہی مختلف عرفیت اختیار کرنے والے چالاک و عیار لوگ اپنی سحر انگیز اور گھاگ باتوں سے اچھے بھلے سادہ لوگوں کو اپنے جال میں جکڑ لیتے ہیں، اور وہ عہد جاہلیت کے لوگوں کی طرح اندھے اعتقاد کے ہاتھوں مغلوب ہو جاتے ہیں۔ اگر حسن اتفاق سے ان عاملوں کی کوئی بات درست ہو جائے تو ان کی چاندی ہو جاتی ہے، اس بات کا چرچا ہوتا ہے اور وہ لوگ بھی جو ان خرافات سے دور تھے ان کی جانب متوجہ ہونے لگتے ہیں یوں معتقدین کا یہ دائرہ وسیع ہوتا جاتا ہے۔ ہمارے مذہب میں جادو کی ممانعت ہے، لیکن اس کے باوجود توہم پرست اور ضعیف الاعتقاد لوگ جادو کے پھیر میں کچھ اس طرح الجھ جاتے ہیں کہ اس جال سے نکلنا ان کے لیے ناممکن ہو جاتا ہے۔
آج کے پُرفتن دور میں جہاں بے چینی و بے سکونی کو فروغ ملا ہے، بیروزگاری کی بہتات ہے، خلوص کی فضا نایاب ہے، ہر شخص دولت کی فراوانی چاہتا ہے، ایسے میں لوگ کسی ایسے ''شارٹ کٹ'' کی تلاش میں رہتے ہیں جس کی بدولت وہ اپنی منزل مراد جلد سے جلد پا سکیں۔ جادو، سحر، تعویز گنڈے وغیرہ بھی ایسے ہی ''شارٹ کٹ'' کے زمرے میں آتے ہیں۔ شادی بیاہ کے بعد جادو کا چکر ہمارے خانگی معاملات میں بھی بڑے زور و شور سے چلنے لگتا ہے۔
بیٹے کا بیوی کی جانب فطری میلان یا شوہر کا ماں کی دیکھ بھال کرنا تک جادو کے زمرے میں آتا ہے اور یوں ساس یا بہو ان اثرات کو کم کرنے کے لیے تعویز گنڈوں کا سہارا لینا شروع کر دیتی ہیں۔ بیروزگار نوجوان اور محبت کے مارے اپنی منزل مقصود پانے کے لیے ایسے ہی نام نہاد آستانوں کے چکر میں پڑ جاتے ہیں جہاں چہرے پر بزرگی و شرافت کی نقاب لگائے کریہہ النفس شیطان معصوم اذہان کو غلط راہ پر لگا کر اپنی دکان چمکانے لگتے ہیں۔ جادو کی جادو گری کا شکار کوئی ایک مخصوص طبقہ نہیں بلکہ ہر سطح و طبقے کے لوگ اس کے اسیر ہیں، چاہے کچے محلے ہوں یا عالیشان بنگلوں کے رہائشی، جاہل ہوں یا تعلیم یافتہ، فرسودہ روایتوں کے اسیر نہ صرف اپنی دنیا بلکہ عاقبت بھی خراب کرتے ہوئے ان منفی روایتوں کی اندھی تقلید میں مصروف بہ عمل ہیں۔