پنجاب کا سیاسی دنگل

یہ پارٹی اپنی زبردست خواہش کے باوجود گزشتہ 25 سال سے پنجاب میں جیالے وزیراعلیٰ کے تحت حکومت نہیں بنا سکی۔

شیر محمد چشتی

پنجاب پاکستان کا آبادی، انسانی وسائل، زرعی اور صنعتی پیداوار کے لحاظ سے سب سے اہم اور بڑا صوبہ ہے۔ اس کی آبادی کل ملکی آبادی کے 62% کے قریب ہے۔ اس لیے قومی اسمبلی کی 272 نشستوں میں سے 148 پنجاب کی ہیں۔ جو پارٹی یہاں سے اکثریتی سیٹیں جیت لے گی وہی حکومت بنائے گی۔

ابھی تک آیندہ الیکشن کا باقاعدہ اعلان نہیں ہوا ہے لیکن آئینی طور پر انتخابات عنقریب متوقع ہیں اس لیے کچھ سیاسی پارٹیوں نے اپنی انتخابی مہم شروع کر کے اس سرد موسم کو گرمانا شروع کر دیا ہے۔

اس وقت سیاسی پارٹیوں کی پوزیشن کچھ اس طرح سے ہے۔

پاکستان مسلم لیگ (ن) گزشتہ پانچ سالوں سے میاں شہباز شریف کی سربراہی میں واضح اکثریت کے ساتھ پنجاب میں حکمران چلی آ رہی ہے اور بڑی مستحکم ہے۔ یہ بہت سے عوامی فلاحی تعمیراتی ترقیاتی منصوبے مکمل کر کے ہر دلعزیز بن چکی ہے۔ وفاقی حکومت اور دیگر تینوں صوبوں کی حکومتوں کے مقابلے میں اس کی کارکردگی کہیں بہتر ہے۔ نیز صدر پاکستان مسلم لیگ میاں نواز شریف کی ولولہ انگیز قیادت میں پنجاب کے علاوہ خیبر پختونخوا، بلوچستان اور سندھ کے صوبوں میں بھی مقبول ہو چکی ہے۔ اس کی عوام میں پذیرائی دیکھ کر پیپلز پارٹی، مسلم لیگ (ق) اور تحریک انصاف کی کئی اہم شخصیات اس میں شامل ہو چکی ہیں۔ ابھی تک مسلم لیگ (ن) نے اپنی انتخابی مہم شروع نہیں کی ہے جونہی یہ شروع ہو گی مزید ارکان اس میں شمولیت کے انتظار میں بیٹھے ہیں۔

پیپلزپارٹی: تین فیکٹرز اس پارٹی کو دباؤ میں رکھے ہوئے ہیں۔ (1) یہ پارٹی اپنی زبردست خواہش کے باوجود گزشتہ 25 سال سے پنجاب میں جیالے وزیراعلیٰ کے تحت حکومت نہیں بنا سکی۔ سوائے 1993 کچھ عرصے کے لیے جب مسلم لیگ سے بے وفائی کر کے 17 سیٹوں کا الگ دھڑا بنانے والے منظور وٹو کو چیف منسٹر بنا کر حکومت بنائی گئی تھی۔ منظور وٹو نے چیف منسٹر بننے کے بعد پیپلز پارٹی کے وزراء کے تمام اختیارات اپنے ہاتھ میں لے کر ان کو عضو معطل بنا کر رکھا اور جیالوں کا جینا دوبھر کر دیا تھا۔ شکایات جب زیادہ بڑھ جاتی تھیں تو محترمہ بے نظیر بھٹو خود لاہور آ کر جیالوں کے کچھ کام کرا دیتی تھیں لیکن ان کے جانے کے بعد پھر پرانی صورت حال بحال ہو جاتی تھی۔ بالآخر منظور وٹو صاحب سے استعفیٰ لے لیا گیا۔ اب وہی منظور وٹو پیپلزپارٹی میں شامل ہو گئے ہیں اور ان کو وسطی پنجاب کی تنظیم کا چیئرمین بنا کر پنجاب کو فتح کرنے کے لیے میدان میں اتارا گیا۔ لیکن قیادت میں جو خوبیاں ہوتی ہیں وہ ان میں ندارد ہیں۔ پیپلزپارٹی کے جیالے ان کے سابقہ کردار کو نہیں بھولے اور اس نامزدگی پر تحفظات کا اظہار کر رہے ہیں۔ پنجاب کے عوام بھی جناب وٹو کی سیاسی قلابازیوں اور بے وفائیوں کی وجہ سے ان سے محبت نہیں کرتے۔ اس لیے پارٹی آگے جانے کے بجائے پیچھے جا رہی ہے۔

b۔ اس پارٹی کی مرکز میں حکومت ہے۔ گزشتہ پانچ سالوں کی کارکردگی، کرپشن، اقربا پروری، بجلی اور گیس کی لوڈ شیڈنگ، کارخانوں کی بندش، بے روزگاری پاکستانی کرنسی کی کم قدری، افراط زر آسمان کو چھوتی ہوئی کمر توڑ مہنگائی بڑھتی ہوئی بے انتہا غربت نے اسے عوام سے دور کر دیا ہے۔


c۔ اس پارٹی کے ساتھ تیسری مشکل یہ آن پڑی ہے کہ آئینی طور پر صدر زرداری پارٹی کی سرگرمیوں میں حصہ نہیں لے سکتے اور نہ ہی قیادت فراہم کر سکتے ہیں۔ اب سپریم کورٹ آف پاکستان نے اپنے ایک فیصلے میں صدر پاکستان کے اختیارات اور فرائض کی کھل کر وضاحت کر دی ہے ۔

ان حالات کی وجہ سے پارٹی مشکل میں ہے۔

(3)۔ مسلم لیگ (ق): چوہدری برادران اس کے کرتا دھرتا ہیں۔ 2008کے انتخابات میں اسے ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔ اس میں جو شخصیات انتخاب جیت کر آئی تھیں، ان میں سے کئی افراد مسلم لیگ (ن) میں شامل ہو چکے ہیں۔

مسلم لیگ (ق) نے پیپلزپارٹی کے ساتھ انتخابی اتحاد بھی کر لیا ہے تاہم انتخابی مہم الگ الگ چل رہی ہے۔

(4) ۔ تحریک انصاف: گزشتہ سال سونامی طوفان کی مہم سے اس میں اچانک ابھار آ گیا لیکن ایک جنرل کی ریٹائرمنٹ کے بعد یہ طوفان غائب ہو گیا۔ مختلف پارٹیوں سے نکل کر جو حضرات اس میں شامل ہوئے تھے وہ اور اس کے نظریاتی کارکن اس پارٹی کی ناکامی کے امکانات دیکھ کر اسے چھوڑ گئے ہیں۔ محسن پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان اور رہبر ملت قاضی حسین احمد نے عمران خان کو بہت سمجھایا اور مشورے دیے کہ ملک کی موجودہ خراب صورت حال کی وجہ پیپلزپارٹی کی حکومت ہے۔ اسے انتخابات میں شکست دینے کے لیے حزب اختلاف کی پارٹیوں کا متحدہ محاذ بننا چاہیے تا کہ پیپلزپارٹی کے مخالف ووٹ تقسیم نہ ہوں اور اسے آسانی سے شکست دی جا سکے۔ لیکن عمران خان نے ان کے گراں قدر مشوروں کو رد کر کے انھیں مایوس کر دیا۔ شاید خان صاحب بھی مولانا فضل الرحمن کی طرح حکمرانوں سے اندرونی طور پر ملے ہوئے ہیں۔ وہ نہیں چاہتے کہ پیپلزپارٹی سے عوام کی جان چھوٹے۔

(5)۔ جماعت اسلامی: یہ ایک منظم جماعت ہے اور لوئر مڈل کلاس میں بڑی مقبول ہے۔ قومی اسمبلی کے ہر حلقے میں ان کے 10 ہزار سے 15 ہزار تک پکے ووٹرز ہیں۔ جماعت کی رابطہ مہم تو ہر موسم میں جاری رہتی ہے لیکن انتخابی مہم ابھی شروع نہیں ہوئی۔ اس دفعہ یہ خوب چھان پھٹک کر کسی پارٹی کے ساتھ انتخابی اتحاد یا سیٹ ایڈجسٹمنٹ کرے گی۔
Load Next Story