برآمدات کے نام پر ٹیکس چوری کرنے والوں کیخلاف تحقیقات شروع

محکمہ کسٹمز انٹیلی جنس نے افغانستان کوبرآمدات کے نام پر 31 کروڑ 17 لاکھ 15 ہزار روپے کی ٹیکس چوری کا کیس پکڑلیا

فیڈرل ریونیو بورڈ نے تمام کلکٹریٹس کو مینوفیکچرنگ بونڈڈ ویئر ہائوسز کا رسک بیسڈ آڈٹ کر کے رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت کر دی، ذرائع فوٹو: فائل

فیڈرل بورڈ آف ریونیو(ایف بی آر) نے افغانستان سمیت دیگر ممالک کو اربوں روپے مالیت کی جعلی برآمدات ظاہر کرکے کروڑوں روپے کی ٹیکس چوری میں ملوث تاجروں، صنعت کاروں، برآمد کنندگان اور مینوفیکچررز کے خلاف تحقیقات شروع کردی ہیں۔

ایف بی آرکے سینئر افسر نے بتایا کہ فیڈرل بورڈایف بی آر کو ایم سی سی لاہور کی طرف سے موصول ہونے والے لیٹر نمبر C.NO.V-Cus/MBCO/cont/02/12/1259 میں ایف بی آر کو آگاہ کیا گیا تھا کہ بعض کمپنیاں اور برآمدکنندگان کی طرف سے افغانستان سمیت دیگر ممالک کو اربوں روپے مالیت کی جعلی برآمدات ظاہر کرکے کروڑ روپے مالیت کا ٹیکس چوری کیا جارہا ہے، کسٹمز ڈپارٹمنٹ نے 31کروڑ روپے سے زائد مالیت کی ٹیکس چوری کے کیس کا سراغ لگا کر اربوں روپے مالیت کی جعلی برآمدات ظاہر کرکے ٹیکس چوری میں ملوث لاہور کی ایک بڑی کمپنی کے منیجنگ ڈائریکٹر کو گرفتار بھی کیا تھا۔

ذرائع نے بتایا کہ ایف بی آر نے مذکورہ کیس کی بنیاد پر دیگر مینوفیکچرنگ بونڈڈ ہائوسز کے ریکارڈ کی بھی چھان بین کی ہدایات جاری کی ہیں تاکہ جعلی برآمدات ظاہر کرکے کروڑوں روپے کی ٹیکس چوری کرکے ملکی خزانے کو نقصان پہنچانے والوں کے خلاف کارروائی کی جاسکے۔ ایف بی آر کے مذکورہ افسر کے مطابق ماڈل کسٹمز کلکٹریٹ کسٹمز ہائوس گلبرگ تھری لاہور کی طرف سے ایف بی آرکے ممبر کسٹمز کو لکھے جانے والے لیٹر کے ذریعے ایف بی آر کو بتایا گیا تھا کہ ایف بی آر کے لیٹر نمبر C.NO.SS(TPA)Export details/2012 اور ماڈل کسٹمز کلکٹریٹ کسٹمز ہائوس لاہور کو ملنے والی خفیہ معلومات پر لاہور ڈرائی پورٹ مغلپورہ لاہور کی طرف سے کوٹ عبدالمالک شیخوپورہ روڈ لاہور پر واقع مینوفیکچرنگ بونڈڈ ویئر ہاوس کا لائسنس رکھنے والی ایک کمپنی کا ریکارڈ اور دستاویزات آڈٹ کیلیے حاصل کی تھیں اور مذکورہ مینوفیکچرنگ بونڈڈ ویئر ہاوس نے افغانستان کو بڑے پیمانے پر برآمدات ظاہر کررکھی ہیں۔




مگر آڈٹ کے دوران جب ویئر ہاوس سے برآمدی دستاویزات پیش کرنے کا کہا گیا تو مذکورہ ویئر ہائوس نے 296 گڈز ڈکلیئریشن (جی ڈیز) پیش کیں جو 7 اگست 2012 کو لیٹر V-Cus/MBCO/Pipe/Export/55/201/625 کے تحت تصدیق کے لیے ماڈل کسٹمز کلکٹریٹ(ایم سی سی) پشاور بھجوائی گئیں۔ دستاویز کے مطابق ایم سی سی پشاور نے مذکورہ جی ڈیزکے بارے میں چھان بین کرنے کے بعد 11 اگست 2012 کو لیٹر نمبر C.NO.CST/Verifi/2012/1752 کے تحت بھجوائے جانے والے جواب میں بتایا کہ پاکستان ریونیو آٹومیشن لمیٹڈ(پرال) نے رپورٹ کیا ہے کہ مذکورہ جی ڈیز میں سے 202 جی ڈیز کا مشین نمبر اور تاریخیں مذکورہ کمپنی کے بجائے کسی دوسرے برآمد کنندہ اور کلیئرنگ ایجنٹس کی طرف سے فائل کی گئی ہیں جبکہ باقی ماندہ 94 جی ڈیزکا مشین نمبر اور تاریخیں پرال کے ریکارڈ میں نہیں اور نہ ہی متعلقہ پیریڈ کے دوران پرال کی طرف سے کسی دوسرے برآمد کنندہ یا کلیئرنگ ایجنٹ کو الاٹ کیے گئے ہیں۔

جبکہ فزیکل ریکارڈسے بھی واضح ہوتا ہے کہ ان جی ڈیز کا نہ تو ایکسپورٹ بونڈ رجسٹرز میں اندراج ہے اور نہ ہی کسی دوسرے سرکاری ریکارڈ میں اندراج ہے۔ ذرائع نے بتایا کہ اس کیس کی تحقیقات کی روشنی میں مذکورہ کمپنی سے 31 کروڑ 17لاکھ 15ہزار روپے کی ٹیکس چوری کے لیے 18 جون 2001 کو جاری کردہ ایس آر او 450(I)/2001 کے تحت غیر قانونی طور پر ٹیکس سے چھوٹ لینے اور جعلی برآمدات ظاہر کرنے کے الزمات عائد کیے گئے ہیں اور مذکورہ الزامات کے تحت کسٹمز ایکٹ 1969 کی سیکشن 156(I) کی شق 14 کے ساتھ مل کر پڑھا جائے تو سیکشن 32(I) کے تحت اور سیکشن 14 اے کے تحت مذکورہ کمپنی کے خلاف مجرمانہ کارروائی شروع کی گئی۔

ذرائع نے بتایا کہ ایف بی آر نے مذکورہ کیس کی بنیاد پر تمام کلکٹریٹس کو ہدایت کی ہے کہ مینوفیکچرنگ بونڈڈ ویئر ہائوسز کا رسک بیسڈ آڈٹ کر کے رپورٹ پیش کی جائے تاکہ جعلی برآمدات ظاہر کرنے اور ٹیکس چوری کے دیگر کیسوں کا بھی سراغ لگاکر ان کے خلاف کارروائی شروع کی جا سکے۔
Load Next Story