فکر نہ کریں سب کچھ ٹھیک ہوجائے گا پہلا حصہ

تارکین وطن اور یورپین پر غیر متاثرکن انداز میں ملبہ ڈالا جاتا ہے


Sajid Ali Sajid December 22, 2016

کچھ عرصہ پہلے ہم نے ممتاز کالم نگار اور صحافی تھامس ایل فرائیڈ مین کے ایک مضمون کے کچھ حصے اپنے کالم میں شامل کیے تھے جس میں انھوں نے 2007ء کے بعد سے کمپیوٹر ٹیکنالوجی میں بقول ان کے تبدیلیوں کے آنے والے طوفان کا ذکر کیا تھا، اب مسٹر فرائیڈ مین نے اسی سے ملتے جلتے موضوع پر ایک کتاب لکھ ڈالی ہے جس کے کچھ اقتباسات اور کتاب پر ہونے والا تبصرہ ہم آج پیش کرنا چاہیں گے، جو امید ہے ہمارے قارئین کے کسی نہ کسی کام کا ہو گا۔

حقیقت یہ ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ سے لے کر بریکٹ اور میرین لی پین تک ایک چیز جو غم کے مارے یورپ میں قدرمشترک ہے وہ چہار اطراف چھائی ہوئی، پراسراریت اور ہر طرف پھیلا ہوا انتشار ہے، پورے یورپ اور شمالی امریکا میں لوگ شدت سے محسوس کر رہے ہیں کہ ان کی دنیا بہت تیز رفتاری سے ان کے ہاتھوں سے نکل رہی ہے، مگر وہ سمجھ نہیں پا رہے کہ یہ سب کچھ کیوں ہو رہا ہے۔

اصل میں کوئی بتانے والا، بیان کرنے والا نہیں ہے، تارکین وطن اور یورپین پر غیر متاثرکن انداز میں ملبہ ڈالا جاتا ہے مگر ایماندار وضاحت اور توجیہ پیش نہیں کی جاتی کیونکہ جب مرض کی تشخیص ہو اس کے بعد کوئی علاج تجویز کیا جا سکتا ہے۔ پھر ایسے گھپ اندھیرے میں جہاں ہاتھ کو ہاتھ سجھائی نہیں دیتا، ڈاکٹر ٹام فرائیڈمین ہاتھ میں ایک شمع لیے داخل ہوتے ہیں۔

جب کہ دوسرے اخبار نویس انویسٹیگیٹو جرنلسٹ یا نیوز بریکرز بننے کا خواب دیکھتے ہیں، تھامس ایل فرائیڈمین جیساکہ وہ خود اعتراف کرتے ہیں وضاحت کرنے والے صحافی ہیں اور اس کام میں خاصی مہارت رکھتے ہیں، انھیں چیزوں کی وجہ تسمیہ بیان کرنے کا فن آتا ہے، انھوں نے گلوبلائزیشن اور موسموں کی تبدیلی پر بیسٹ سیلنگ کتابیں لکھی ہیں۔ ان پر اگرچہ تنقید بھی ہوئی ہے مگر شاید ہی کوئی اور صحافی ہو جس نے اتنے سارے لوگوں کے سامنے انتہائی پیچیدہ موضوعات پر وضاحتیں پیش کی ہوں اور کچا چٹھا کھولا ہو۔

اب انھوں نے اپنے تئیں ایک اور قابل فخر کتاب لکھ ڈالی ہے جس میں کچھ تو ان کے کارناموں کا بیان ہے اور کچھ کامن سینس پر مبنی ان کا منشور ہے، اس کا عنوان کچھ عجیب سا ہے Thank you for being late یعنی دیر سے آنے کا شکریہ۔ اس کے دو مقاصد ہیں، پہلے تو مسٹر فرائیڈ مین یہ وضاحت کرنا چاہتے ہیں کہ دنیا ایسی کیوں ہے، یعنی کیوں اتنی ساری چیزیں کنٹرول سے باہر ہو رہی ہیں، خاص طور پر منی سوٹا کی گوری مڈل کلاس کے لیے جہاں وہ خود پلے بڑھے ہیں۔ اس کے بعد وہ ہم سب کو یہ اطمینان اور یقین دلانا چاہتے ہیں کہ پریشان نہ ہوں بنیادی طور پر یہ سب کچھ اوکے ہو جائے گا۔ مجموعی طور پر ان کی وضاحت ''ری ایشورنس'' سے زیادہ قائل معقول کرنے والی ہے۔

مسٹر فرائیڈ مین کی دلیل یہ ہے کہ انسان درحقیقت خود کو بہت اچھی طرح حالات کے مطابق ڈھالنے والی مخلوق ہے، مگر مسئلہ یہ ہے کہ فی الحال ہماری ایڈاپٹ کرنے کی صلاحیت کو ایک ''سپرنووا'' نے پیچھے دھکیل دیا ہے۔ یہ طوفان انسانی صلاحیت سے کہیں زیادہ تیز رفتار تین چیزوں کا بنا ہوا ہے۔ یعنی ٹیکنالوجی، مارکیٹ اور موسم کی تبدیلی۔ یہ ایسی فہرست ہے جس کی پیش گوئی کی جا سکتی ہے مگر مسٹر فرائیڈ مین نے بڑی چالاکی اور سمجھداری سے تینوں کی چھان پھٹک کی ہے، مثال کے طور پر ٹیکنالوجی کے بارے میں ان کا استدلال ہے کہ 2007ء جس نے آئی فون، اینڈرائیڈ اور کنڈل کی آمد دیکھی وہی سال تھا جب نیٹ اسکیپ کے بانی کے الفاظ میں سوفٹ ویئر نے دنیا کو کھانا شروع کیا تھا۔

پھر وہ چھوٹے مگر اہم ٹکڑوں جیسے گٹ ہب اور حدوپ کا تعارف کراتے ہیں اور اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ اگر مورز کا یہ قانون (Moor's Law) (کہ مائیکرو چپس کی طاقت ہر دو سال میں دگنی ہوجائے گی) کمپیوٹر چپس کے بجائے کاروں پر (اپلائی) لاگو کر دیا جاتا تو 1971ء کی فوکس ویگنVolx Vagon کی موجودہ پوتی یا نواسی ''بیٹل'' تین لاکھ میل فی گھنٹے کی رفتار سے دوڑ رہی ہوتی، اس کی لاگت چار سینٹ ہوتی اور وہ ایک ٹینک گیسولین پر پوری زندگی گزار دیتی۔ انھوں نے موسم کی تبدیلی اور مارکیٹ کے ابواب میں بھی ایسی ہی چونکا دینے والی باتیں لکھی ہیں۔ تاہم مسٹر فرائیڈ مین یہ بھی بتاتے ہیں کہ یہ تینوں طاقتیں کس طرح انٹرایکٹ کرتی ہیں، ایک دوسرے کے لیے پیچیدگیاں پیدا کرتی ہیں اور ایک دوسرے کی رفتار بڑھاتی ہیں۔

نائیجیریا میں موسم کی تبدیلی فصلیں تباہ کر رہی ہے، مگر ٹیکنالوجی زیادہ سے زیادہ بچوں کی جانیں بچانے میں مدد دے رہی ہے۔ اس حد تک کہ ایک کروڑ نوے لاکھ کی آبادی 2050ء تک 7 کروڑ بیس لاکھ بھوکے لوگوں تک پہنچ جائے گی، ٹریڈنگ کے شعبوں میں ٹیکنالوجی اور مارکیٹیں ''لوٹ مار'' Spoofing کو جنم دے رہی ہیں، چنانچہ اب ایک 36 سالہ بدمعاش ہیتھرو میں اپنے والدین کے فلیٹ میں بیٹھ کر ''فلیش کرپش'' کے ذریعے ڈاؤجونز انڈیکس کو 9 فیصد نیچے گرا سکتا ہے اور ہر چیز جیساکہ فرائیڈ مین خبردار کرتے ہیں تیز سے تیز تر ہوتی چلی جائے گی۔ پہلے ہی کم از کم دس ارب اشیا انٹرنیٹ سے کنیکٹڈ ہیں جو اب بھی ممکنہ ٹوٹل کے ایک فیصد سے بھی کم ہے کیونکہ کاروں، گیجٹس اور باڈیز کا ایک جم غفیر انٹرنیٹ سے وابستہ ہونے کے لیے تیار ہے۔

انسان نے بھی خود اپنے رسپانس ٹائم کی رفتار خاصی بڑھا دی ہے، اب ٹیکنالوجیکل تبدیلیوں کا عادی ہونے میں دس پندرہ سال لگتے ہیں جب کہ پہلے یہ کام کئی نسلوں میں ہوا کرتا تھا۔ مگر ایسی ٹیکنالوجی کا کیا فائدہ جو پانچ سے سات سال میں بے کار Obsolete ہو جاتی؟ ''سپرنووا'' پیٹنٹ لا اور تعلیم دونوں کا مذاق اڑا رہا ہے۔ حکومتیں، کمپنیاں اور افراد سب اپنے آپ کو موجودہ رفتار سے ہم آہنگ رکھنے کے لیے ہاتھ پاؤں مار رہے ہیں۔

(جاری ہے)

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں