خلازاد اور جمیل الرحمن
نثری نظم کی تفہیم کا کام اس لیے سب سے زیادہ مشکل ہے کیوں کہ اس کا کینوس بے حد وسیع ہے
نثری نظم کی تفہیم کا کام اس لیے سب سے زیادہ مشکل ہے کیوں کہ اس کا کینوس بے حد وسیع ہے۔ اس میں دنیا بھر کے علائم، استعارے، تشبیہات، تلمیحات، نظام ہائے تلازمہ کاری برتے جا سکتے ہیں اور حقیقت انھی کے درمیان بکھری پڑی ہوتی ہے جس تک پہنچنا اچھے خاصے ذہین آدمی کے لیے بھی آسان نہیں ہوتا، بعض اوقات کار دارد۔ نثری نظم کی تفہیم ہوجانے کے بعد بھی اس میں کچھ ''چیزیں'' ایسی رہ جاتی ہیں جو قاری کے لیے شجر ممنوعہ بنی رہتی ہیں، وہ ان تک پہنچنا چاہتا ہے لیکن پہنچ نہیں پاتا، یہ شاعر کے بس سے بھی باہر ہوتی ہیں، بے اختیاری میں سرزد ہونے والے اعمال کی طرح، جن کی کوئی توجیہہ نہیں کی جاسکتی لیکن اگر انھیں ایک خاص سلسلے میں دیکھا جائے تو بظاہر مربوط اور متعلقہ لگتی ہیں۔
عرصہ دراز سے برطانیہ میں مقیم، لاہور سے تعلق رکھنے والے جمیل الرحمن، شاعر بھی ہیں اور ادبی نقاد بھی۔ ان کی نظمیں معروضی ردعمل اور فکر کے امتزاج سے نمودار ہونے والی ایسی لسانی اور شعری تشکیلات ہیں جن میں انفرادیت کا شدید جذبہ کارفرما نظرآتا ہے۔
جلاوطنی، بے بسی، عدم رواداری، قتل وغارت گری اور استحصال ایسے کئی ایک منفی عناصر پر مبنی سماج کے ساتھ تعلق رکھنے کا دکھ ان سے نظمیں کہلواتا آرہا ہے اور کم و بیش پندرہ برسوں پر مبنی اس سفر میں اب تک نثری نظموں پر مشتمل تین مجموعے منظرعام پر آ چکے ہیں، چوتھا زیر ترتیب ہے۔ اس سے قبل وہ غزل سے وابستہ تھے اور نثری نظموں کے مخالف تھے، لیکن سماجی سطح پر فکروعمل سے وابستگی رکھنے والا شاعر اس دور میں نثری نظم سے زیادہ دیر تک دور نہیں رہ سکتا۔ اپنے سماج کے ساتھ ان کا جو رشتہ ہے وہ خود اپنے آپ میں منفرد ہے اور یہ دکھ کا رشتہ ہے۔
انھوں نے سماج کی ساری منفیت کو اپنے اندر اتار لیا ہے، اور نہ کٹ سکتے ہیں نہ جڑ سکتے ہیں، چنانچہ پندرہ برسوں میں انھوں نے نثری نظم میں اپنے لیے وہ پیرایہ دریافت کر ہی لیا جس کے ذریعے انھوں نے اپنے اندر کی ساری نارسائی اور ناطاقتی مجتمع کرکے فن پارے تخلیق کیے۔ یہ نارسائی اور ناطاقتی کا احساس ہے جس نے اظہار کو بہت سارے استعارے، تشبیہات اور علامتیں فراہم کیں اور انفرادیت کے شدید جذبے کو نظموں کا روپ دیا۔ ان استعاروں اور علامتوں میں اجنبیت کی حد تک انفرادیت ہے، جن کی وجہ سے نظموں کی تفہیم قاری سے گہری اور مکرر قرأت کا تقاضا کرتی ہے۔
جمیل الرحمن کی فکر کا ایک اہم عنصر ماضی کے ساتھ ربط یا یوں کہیں کہ ماضی کی بازیافت کی شدید خواہش پر مبنی ہے، چنانچہ اسے صرف ریفرنس نہیں کہا جا سکتا، بلکہ نظم کے تاروپود میں اس کی موجودی بنیاد کی حیثیت رکھتی ہے۔ وجہ ایک ہی ہے، توشۂ عمر میں اگر کوئی قابل قدر شے ان کے پاس ہے تو وہ ان کا ماضی ہے، وطن سے بچھڑے آدمی کے وہ دن، جو ایک کارکن کے طور پر بھرپور سیاسی جدوجہد سے عبارت ہیں۔
یہ ریفرنس ان کی ذات سے بھی جڑا ہے اور تاریخ سے بھی۔ ماضی کی درخشاں علامات (اگر کوئی ہیں) عصری حالات میں اپنے لیے کوئی بامعنی منظرنامہ تشکیل دیتی دکھائی دیتی ہیں، لیکن سچ یہ ہے کہ ماضی کی یہ علامات اگر غیر متعلقہ محسوس ہوں تو بامعنی منظرنامہ بھی اپنی معنویت منکشف کرنے میں تامل کرتا ہے۔ شاید یہ وجہ بھی ہے کہ ان کی علامات اور استعارے بھرپور ہونے کے باوجود تفہیم کے مسئلے سے دوچار ہوجاتے ہیں۔
نثری نظم کی خاصیت ہے کہ اس میں دکھائی دینے والی دنیا وہی ہوتی ہے جسے ہم دیکھنے سے گریز کرتے ہیں یا وژن کی کمزوری کے باعث دیکھنے سے محروم رہتے ہیں یا کسی خاص قسم کا تعصب ہمیں حقیقت تک پہنچنے میں رکاوٹ بنتا ہے۔ نثری نظم ہمیں یہ سب کچھ دیکھنے پر اس طرح مجبور کرتی ہے کہ کراہیت بھی محسوس نہیں ہوتی اور اندر احساس کا شعلہ بھڑک جاتا ہے، احساس کا یہ شعلہ جمیل کی نظمیں بخوبی بھڑکاتی ہیں۔
یہ نثری نظم کے کینوس کی انفرادیت ہے کہ ساخت کے لامحدود امکانات ہر وقت روشن رہتے ہیں لیکن اکثر اوقات اس قسم کے تجربات میں شاعری کا رومانی تاثر گم ہوجاتا ہے اور دانش کی بلند سطح جو نثری نظم کی بنیاد میں شامل ہے، نیچے آجاتی ہے۔ میری رائے میں شعریت کا عنصر نثری نظم کے لیے بھی اتنا ہی ضروری ہے جتنا کہ غزل یا آزاد نظم کے لیے۔ جمیل الرحمن نے چونکہ ابتدا غزلوں سے کی تھی اس لیے رومانی تاثر ہو یا شعریت، ان کے ہاں دونوں عناصر بھرپور ہیں۔
جمیل کی نظمیں خواہشات اور خوابوں کے اسیر انسانوں کے ذہنی رویوں کو موضوع بناتی ہیں۔ دوسرے مجموعے کارنیوال میں ان کی شاعری ایک دردمند بزرگ شاعر کا اپنے معاشرے سے ایک مسلسل خطاب کی صورت ظہور کرتی ہے۔ وہ کہیں گہرے جذبے سمیٹ کر انھیں آواز دیتا ہے کہیں لاتعلقی اور غصے کا عنصر سطح پر ابھرتا ہے۔ تیسرے مجموعے میورل میں نظم گہرائی میں اترتی دکھائی دیتی ہے اور چوتھے مجموعے خلازاد میں نئے ابعاد کے ساتھ نمودار ہوتی ہے۔
ہم چونکہ ادب کی بات کرتے ہوئے ادیب کو منہا کرنے کی عیاشی کے متحمل نہیں ہوسکتے، اس لیے شاعری پر بات کرتے ہوئے بار بار شاعر کی طرف اسے منسوب کرنے پر مجبور ہوتے ہیں، انفرادیت کا یہ ریفرنس ہمارے لیے ادب کی تفہیم میں کارآمد ہی ہوتا ہے۔ اس حوالے سے خلازاد اور جمیل کے تمام نظمی سفر کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ واضح دکھائی دیتا ہے کہ وہ انسانی آفاقی اقدار کا نقیب ہے۔ مابعد جدید افکار سے ان کی مخاصمت کی بنیاد بھی اسی پر قائم ہے۔ زندگی کے لیے اقدار کا ضروری ہونا روح کی حیثیت جیسا معاملہ ہے لیکن ساتھ ہی انھیں نئی اور سب سے ہٹ کر نظم کہنے پر جنون کی حد تک سرگرم جذبہ اکساتا رہا ہے۔
ان کی انفرادیت یہ ہے کہ وہ نثری نظم میں اساطیر کی آمیزش سے بھرپور رزمیہ لے کر آئے ہیں۔ سلطان، بادشاہ، شہزادے، شہزادیاں، محل، اصطبل، گھوڑے، خرجین، معرکے، میدان، شکار، جڑاؤ خنجر، غرض محبت سے لبریز نظموں میں بھی ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے جنگ کی علامتوں کے بغیر محبت بھی معتبر نہیں ہوسکتی۔ وہ خود کو بھی ایک لشکر کا سپاہی محسوس کیا کرتا ہے جسے اپنی زمین سے بے دخل کیا گیا ہے اور وہ ایک ایسی جنگ لڑ رہا ہے جس کے بارے میں انھیں یقین ہے کہ نہیں جیت سکتا، اسے مایوسی بھی کہا جاسکتا ہے اور حقیقت حال میں لپٹا معاشرتی جبر بھی۔
خلازاد کو پڑھتے ہوئے محسوس ہوتا ہے کہ بات کو نئے ڈھنگ سے کہنا اور اس کے لیے نئے استعارے اور نئی تشبیہات اور نئی علامتیں تخلیق کرنا جمیل کا واضح ترین ہنر ہے، مجموعے کا مطالعہ بتاتا ہے کہ قاری کسی نئی نظم سے نبردآزما ہے، وہ نئی نظم جس کی آج کل باتیں ہوتی ہیں اور اس کی شکل و صورت کے حوالے سے بہت ابہام پھیلا دکھائی دیتا ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ شاعر مادی اور معاشی حوالوں پر مابعدالطبیعاتی حوالوں کو فوقیت دیتا ہے، لیکن یہ سب ان علامتوں اور استعاروں کا کمال ہے جن کا ماخذ تاریخ، تہذیب، فلسفہ، اساطیر، سائنس اور مذہبی صحائف میں ملتا ہے۔
ان سے ذہنی سطح پر ہم آہنگ ہونا بلاشبہ بہت مشکل ہے، اور اس لیے جمیل کی نظموں کو بعض اوقات مبہم بھی کہہ دیا جاتا ہے، گنجلک بھی اور بے معنی بھی۔ اس لیے میری رائے ہے کہ جمیل کی نظم کو تب تک نہیں سمجھا جاسکتا جب تک اس میں موجود تاریخی تناظر سے واقفیت حاصل نہیں کی جاتی۔ خلازاد ایک منفرد اور عمدہ تخلیقی تجربہ ہے۔ ان میں موجود علامتوں اور استعاروں اور تشبیہات کو سمجھنا مشکل ضرور ہے لیکن نئی نظم کے متلاشی قاری کے لیے یہ دل خوش کن تجربہ بھی لاتا ہے۔