جدید اسپتال قائم کیے جائیں
جس سہولت سے عوام کو محروم کرنا مقصود ہو تو وہ سہولت نجی شعبے کے حوالے کرتے جا رہے ہیں
تنگدستی اگر نہ ہو غالب
تندرستی ہزار نعمت ہے
مندرجہ بالا شعر میں شاعر نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ تندرستی ایک ہزار نعمتوں کے مساوی ہے، مگر شرط یہ ہے کہ تندرستی کے ساتھ تنگدستی نہ ہو۔ حقیقت تو یہ ہے کہ اس شعر میں شاعر نے نہ صرف اپنے زمانے کی بات کی ہے، بلکہ عصر حاضر اور آنے والے تمام زمانوں کی ترجمانی کی ہے۔ چنانچہ عہد حاضر میں ہم دیکھتے ہیں کہ آج کا انسان جہاں دیگر مسائل کا شکار ہے وہیں علاج کی ناکافی سہولیات کا بھی سامنا کر رہا ہے۔
علاج کی ناکافی سہولیات کا شکار دنیا کے ہر خطے کا انسان ہے۔ چنانچہ آج کے جدید و ترقی یافتہ دور میں دنیا کی واحد سپرپاور ہونے کے دعویدار امریکا جیسے ملک میں لاکھوں لوگ اس کیفیت میں زندگی بسر کر رہے ہیں کہ بیمار ہونے کی صورت میں وہ یا تو اس روز کھانا کھا سکتے ہیں یا پھر اپنے لیے دوا لے سکتے ہیں۔ جہاں امریکا میں یہ کیفیت ہو، وہاں افریقی و ایشیائی غریب ممالک کا تو ذکر ہی کیا، البتہ ذکر ہم وطن عزیز کا کریں تو یہاں کی کیفیت یہ ہے کہ پاکستان میں اکثریت آبادی علاج کی سہولیات سے یا تو محروم ہے یا انھیں علاج کی سہولیات سے محروم کر دیا گیا ہے۔ اس محرومی کا باعث وسائل کی کمی ہرگز نہیں ہے، بلکہ صداقت تو یہ ہے کہ وطن عزیز میں ہر قسم کے وسائل کی فروانی ہے مگر ہو یہ رہا ہے کہ ہمارے اپنے حکمران ایک ایک کر کے وطن عزیز کے باسیوں کو محروم کر رہے ہیں۔
ہوتا یہ ہے کہ جس سہولت سے عوام کو محروم کرنا مقصود ہو تو وہ سہولت نجی شعبے کے حوالے کرتے جا رہے ہیں، جس کی ایک مثال ہے صنعتی شعبہ، جسے کثرت کے ساتھ ٹھیکیداری نظام کے سپرد کر دیا گیا ہے، دوسری مثال تعلیمی شعبے کی ہے، تیسری مثال ہے علاج کی سہولیات کے شعبے کی۔ اب کیفیت یہ ہے کہ ان تینوں شعبوں کو نجی شعبے میں دینے سے گویا عام آدمی روزگار، تعلیم و علاج کی سہولیات سے محروم ہوتا جا رہا ہے، چنانچہ آج کی نشست میں ہم ذکر کریں گے علاج کی سہولیات کا۔
پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی کی کیفیت یہ ہے کہ کراچی کی آبادی 2 کروڑ کی حد پار کرچکی ہے، مگر علاج کی سہولیات کا یہ عالم ہے کہ کراچی میں چار قابل ذکر اسپتال ہیں جن میں ایک جناح اسپتال ہے، دوسرا سول اسپتال، تیسرا عباسی شہید اسپتال اور چوتھا لیاری جنرل اسپتال۔ یعنی 50 لاکھ افراد کو علاج کی سہولیات فراہم کرنے کے لیے ایک اسپتال ہے، ان حالات میں ہوتا یہ ہے کہ مہلک ترین امراض میں مبتلا لوگوں کو بھی وقتی سکون دینے والی ادویات دے کر اسپتالوں سے فارغ کر دیا جاتا ہے، اگرچہ وہ لوگ بہت زیادہ توجہ کے مستحق ہوں۔
ایسا اس لیے ہوتا ہے کہ اسپتالوں میں اس قدر جگہ ہی نہیں کہ ان مریضوں کو اسپتالوں میں داخل کیا جائے، البتہ جو لوگ ان اسپتالوں میں بغرض علاج داخل ہوتے ہیں ان کو بھی تمام قسم کی ادویات خود خریدنا پڑتی ہیں مگر اکثریت میں مریض ایسے ہوتے ہیں جوکہ اپنی مفلسی کے باعث یہ ادویات خریدنے سے قاصر ہوتے ہیں۔
حد تو یہ ہے کہ بعض ضروری ٹیسٹ بھی یہ کہہ کر باہر سے کروائے جاتے ہیں کہ اسپتال کی مشین خراب ہے اس لیے یہاں یہ ٹیسٹ ممکن نہیں ہے۔ اب اگر نجی شعبوں میں کام کرنے والے اسپتالوں کا ذکر ہو تو صورتحال یہ سامنے آتی ہے کہ اگر کوئی آدمی موسمی تغیرات کے باعث کسی مرض میں مبتلا ہوکر علاج کی غرض سے کسی نجی شفاخانے میں جائے تو ایک یوم کی دوا اسے پانچ سو روپے تک میں ملے گی۔ یہ پانچ سو روپے بھی ہم نے کم سے کم بتائے ہیں۔ البتہ اس قسم کے مریض کو کوئی ٹیسٹ کروانا پڑ جائے تو پھر یہ اخراجات 12 سے 15 سو روپے ہوں گے۔
ہاں اگر کوئی مریض کسی سنگین مرض میں مبتلا ہو جائے تو اس سلسلے میں ایک مثال دیں گے کہ ہمارے ساتھ کام کرنے والے ایک صاحب کے قریبی عزیز پر فالج کا حملہ ہوا، جس کے باعث ان صاحب کو ایک نجی اسپتال میں داخل کروا دیا گیا، جہاں ان کا 10 یوم علاج ہوتا رہا۔ 10 یوم کے بعد جب ان کو اسپتال سے فارغ کیا گیا تو جو بل ان صاحب نے ادا کیا، وہ تھا ایک لاکھ پچاس ہزار روپے۔ گویا اس قسم کے اگر کوئی مریض علاج کروائے تو اخراجات ہوں گے ایک ماہ کے چار سے پانچ لاکھ روپے۔ اب آپ خود ہی اندازہ کر لیں اس قدر خطیر رقم کتنے لوگ برداشت کر پاتے ہوں گے۔ ظاہر ہے اکثریت یا تو موت کے منہ میں چلی جاتی ہے یا معذوری ان کا مقدر بن جاتی ہے۔
کراچی کے ساتھ ساتھ اگر ذکر لاہور کے اسپتالوں کا کریں تو کیفیت یہاں بھی کراچی سے مختلف نہیں ہے، بلکہ شاید لاہور کے اسپتالوں کی حالت کراچی کے اسپتالوں سے بدتر ہے۔ لاہور میں دو قابل ذکر اسپتال ہیں ایک گنگا رام اسپتال، دوسرا میو اسپتال۔ مگر حالت یہ ہے کہ ان اسپتالوں میں ایک ایک بیڈ پر دو دو مریض پڑے ہوتے ہیں، بسا اوقات ان مریضوں کی تعداد تین چار بھی ہو جاتی ہے۔ ایک جانب علاج کے بارے میں یہ مایوس کن صورتحال ہے، دوسری جانب یہی حکمران ایسے منصوبوں کی تکمیل میں مصروف نظر آتے ہیں، جن کی تکمیل کے بغیر بھی گزارا ہوسکتا ہے۔
ایسے مہنگے ترین منصوبوں میں میٹرو بس منصوبہ و میٹرو اورنج ٹرین منصوبے شامل ہیں۔ یہ وہ منصوبے ہیں کہ اگر نا بھی تکمیل ہوں تو کیا فرق پڑے گا؟ کیونکہ حقیقی ضرورت یہ ہے کہ علاج کے لیے جدید ترین اسپتال قائم کیے جائیں، کیونکہ جدید اسپتال نہ ہونے سے مشکل یہ ہے کہ ہمارے ان حکمرانوں کو چھوٹے بڑے امراض میں مبتلا ہونے کی صورت میں بحالت مجبوری بیرون ممالک میں علاج کی غرض سے تشریف لے جانا پڑتی ہے، چنانچہ علاج کی ناکافی سہولیات کے باعث ابھی چند ماہ قبل ہمارے ہر دلعزیز وزیراعظم کو چاہتے نہ چاہتے بیرون ملک جانا پڑا اور جہاں ان کا قیام 48 یوم رہا، جب کہ کروڑوں روپے وزیراعظم کے علاج پر خرچ ہوئے۔ حد تو یہ ہے کہ ملک بھر میں کوئی ایسا اسپتال تک نہیں جہاں کسی وفاقی وزیر کی آنکھ کا آپریشن ممکن ہو سکے۔
چنانچہ یہی باعث ہے کہ وزیر داخلہ کو فقط آنکھ کے آپریشن کے لیے برطانیہ تشریف لے جانا پڑا۔ ظاہر ہے کہ نتیجتاً ایک خطیر رقم قومی خزانے سے ادا کی گئی، اب اگر وطن عزیز میں کوئی اعلیٰ معیار کا اسپتال ہوتا تو وزیراعظم و وزیر داخلہ کو بغرض علاج بیرون ملک نہ جانا پڑتا۔ چنانچہ ضرورت اس امر کی ہے کہ وطن عزیز میں اعلیٰ معیار کے اسپتال قائم کیے جائیں، جہاں تمام شہریوں کو تمام سہولیات فراہم کی جائیں۔ کیونکہ صحت مند شہری ہی اپنے سماج کی ترقی کے ضامن ہوتے ہیں بصورت دیگر ہمارا بیمار سماج مزید امراض کا شکار ہوتا جائے گا۔