فیصلہ 2018ء میں ہوگا

پاکستان تحریک انصاف نے جب پارلیمنٹ کے اجلاس سے بائیکاٹ کے خاتمے کا اعلان کیا


[email protected]

پاکستان تحریک انصاف نے جب پارلیمنٹ کے اجلاس سے بائیکاٹ کے خاتمے کا اعلان کیا تو بعض سیاسی تجزیہ نگاروں نے اسے پی ٹی آئی کا خوش آیند فیصلہ قرار دیا۔ کیونکہ پی ٹی آئی موجودہ حکومت کے خلاف مسلسل سازشیں کرتی رہی اور اپنی سیاست کا محور سڑکوں کو بنا رکھا ہے جب کہ سیاسی ناقدین اسے پارلیمنٹ سے رجوع کرنے کا مشورہ دیتے رہے، مگر پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان نے ''میں نہ مانوں'' کی رٹ اس وقت لگا رکھی تھی جب ترک صدر طیب اردگان نے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کیا۔ وہ اجتحاج نہیں بلکہ فساد، سازشیں اور یوٹرن کی سیاست کرتے رہے ہیں۔

اب یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ سپریم کورٹ کی طرف سے پاناما لیکس کی سماعت جنوری کے پہلے ہفتے تک ملتوی ہونے کے بعد پی ٹی آئی نے پارلیمنٹ کا بائیکاٹ ختم کرنے کا فیصلہ محض ہنگامہ آرائی، گھیراؤ اور دھمکیاں دینے کی نیت سے کیا تھا۔ عمران خان درست سیاسی فیصلے کرنے کی صلاحیت کھوچکے ہیں، وہ اپنے فیصلوں پر قائم نہیں رہتے۔ اسی لیے بعض لوگوں نے انھیں یوٹرن خان کہنا شروع کردیا ہے۔ قومی اسمبلی میں کیا ہوا اس کا جائزہ لینے سے پہلے خان صاحب کے کچھ دلچسپ یوٹرن کا ذکر کرنا ضروری تصور کرتا ہوں۔

قارئین کو یاد ہوگا کہ پی ٹی آئی 2014ء دھرنے کے دوران کئی ماہ اسمبلی میں نہیں آئی تھی اور اسے لٹیروں، ٹیکس چوروں اور ڈاکوؤں کا مجموعہ قرار دے رہی تھی۔ مگر احتجاج کر کے اسمبلی میں واپس آگئی۔ اس وقت وفاق اور پنجاب سے تعلق رکھنے والے پی ٹی آئی کے اراکین اسمبلی نے استعفیٰ بھی دیے تھے جو انھوں نے واپس لے لیے۔ اس کے علاوہ پاناما لیکس کا کیس سامنے آنے کے بعد پی ٹی آئی نے جوڈیشل کمیشن بنانے کا مطالبہ کیا تھا مگر جب سپریم کورٹ کمیشن بنانے پر آمادہ ہوئی تو انھوں نے اس کے بائیکاٹ کی دھمکی دے دی۔

الیکشن دھاندلی کے الزامات کی تحقیقات کے لیے بھی عمران خان نے ایک جوڈیشل کمیشن بنانے کا مطالبہ کیا تھا لیکن جب وہ بل گیا تو انھوں نے یہ موقف اختیار کیا کہ اب اس فورم کا وقت گزر چکا ہے۔ پی ٹی آئی نے کمیشن کی سماعت میں حصہ بھی لیا لیکن جب اس کی رپورٹ سامنے آئی تو اسے مسترد کردیا۔ پھر عمران خان نے نگراں وزیراعلیٰ پنجاب کے خلاف 36 پنکچر کا الزام لگایا، بعدازاں اسے سیاسی بیان قرار دے دیا۔ جب آف شور کمپنیوں کا ایشو سامنے آیا تو ان کا موقف یہ تھا کہ لوگ اپنی غیر قانونی دولت چھپانے کے لیے آف شور کمپنیاں بناتے ہیں، لیکن جب ان کے ساتھیوں کے نام بھی سامنے آئے تو وہ ان کے کاروبار کے جواز تراشنے لگے۔

2014ء کے دھرنے میں انھوں نے حکومت کی برطرفی کے لیے اکثر امپائر کی انگلی اٹھنے کا ذکر کیا، جب ان پر اس حوالے سے نکتہ چینی کی گئی تو انھوں نے یہ جواز پیش کیا کہ وہ تو اللہ تعالیٰ کی طرف اشارہ تھا آرمی چیف کی طرف نہیں۔ پھر انھوں نے سول نافرمانی کی تحریک شروع کی اور گیس و بجلی کے بل جلانے لگے، لیکن عوام نے ان کی تحریک پر کوئی توجہ نہیں دی۔ جب کہ وہ بنی گالہ میں بچوں کے نہانے کے لیے گرم پانی کی غرض سے گیس استعمال کرتے رہے۔

عمران خان طویل عرصے تک طالبان کی حمایت کرتے رہے، ان کے طالبان سے رابطے کسی سے ڈھکے چھپے نہیں لیکن فوج کی جانب سے ضرب عضب شروع ہونے کے بعد وہ اپنے موقف سے پھر گئے۔ اسی طرح تحریک انصاف نے ملالہ حملے پر احتجاج کے لیے کئی روز تک پشاور کے قریب نیٹو سپلائی بند کردی لیکن کسی اعلان کے بغیر اور مطالبات کی منظوری کے بغیر دھرنا ختم کردیا۔ 2014ء میں اسمبلیوں کا بائیکاٹ خم کرنے پر عمران خان نے اپنے اراکین اسمبلی کی تنخواہیں عطیہ کرنے کا اعلان کیا تھا مگر پھر انھوں نے یہ تنخواہیں اپنے اوپر ہی خرچ کرلیں۔ انھوں نے بار بار وزیراعظم محمد نوازشریف سے استعفے کا مطالبہ کیا اور کہا کہ استعفے تک وہ احتجاج ختم نہیں کریں گے لیکن پھر وہ خاموشی سے احتجاج ختم کردیتے ہیں۔

اسی طرح وہ بار بار یہ کہتے رہے کہ شریف خاندان کی غیر ملکی کمپنیوں کے خلاف ان کے پاس ٹھوس ثبوت موجود ہیں لیکن جب معاملہ سپریم کورٹ پہنچا تو ان کے دعوے دھرے کے دھرے رہ گئے۔ عمران خان سپریم کورٹ میں شریف خاندان کے خلاف جب ٹھوس ثبوت دینے میں ناکام ہوگئے تو انھوں نے عدالت پر نکتہ چینی شروع کردی اور عدلیہ پر دباؤ ڈالنے کے لیے یہاں تک کہہ دیا کہ اگر کمیشن بنایا گیا تو وہ پھر سڑکوں پر آجائیں گے۔ ابھی عدالت کا فیصلہ سامنے نہیں آیا لیکن وہ اس سے قبل ہی خوفزدہ دکھائی دے رہے ہیں۔

فی الحال انھوں نے سڑکوں پر فساد پھیلانے کے بجائے پارلیمنٹ کا بائیکاٹ کرکے اس فورم پر لڑائی جھگڑا، گھیراؤ اور تصادم کی سیاست کو فروغ دینا ہے۔ اسمبلی میں پہنچتے ہی قائد حزب اختلاف اور تحریک انصاف کی جانب سے تحاریک استحقاق پیش کی گئی، جنھیں اسپیکر ایاز صادق نے یہ کہہ کر مسترد کر دیا کہ رولز کے مطابق پاناما لیکس کا معاملہ عدالت میں ہے اس لیے تحاریک استحقاق قبول نہیں کی جا سکتیں۔ تحاریک استحقاق مسترد ہونے اور جب وزیر ریلوے سعد رفیق تقریر کرنے کھڑے ہوئے تو تحریک انصاف نے قومی اسمبلی میں ہنگامہ آرائی شروع کر دی۔

ایجنڈے کی کاپیاں پھاڑ دیں اور اسپیکر کا گھیراؤ کر لیا، جب کہ وزیراعظم کے خلاف نعرے بھی لگائے گئے جس سے ایوان مچھلی بازار بن گیا۔ اس دوران جو کچھ کیا اس سے پارلیمنٹ کا تقدس پامال ہوا۔ قومی اسمبلی میں جو سیاسی صورتحال دکھائی دی، اس سے واضح ہوتا ہے کہ تحریک انصاف اور عمران خان کی پارلیمنٹ میں واپسی صحت مندانہ سیاسی روایات کے برعکس محض ٹکراؤ کی سیاست کے لیے تھی۔ انھوں نے پارلیمنٹ کو سیاسی اکھاڑا بنا کر قوم کو یہ پیغام دیا ہے کہ وہ کسی صورت بھی مثبت سیاست کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔

پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو کے تیور بھی بدل گئے ہیں، انھوں نے اپنی حالیہ پریس کانفرنس میں واضح الفاظ میں کہا ہے کہ اگر ان کے 4 مطالبات تسلیم نہیں کیے گئے تو وہ بتا دیں گے اپوزیشن کیا ہوتی ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ پیپلز پارٹی حکومت کے خلاف کوئی شو کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہے اور پنجاب میں تو اب اس کو کوئی اہمیت دینے کو تیار نہیں ہے مگر بلاول بھٹو تحریک چلانے اور وزیراعظم محمد نوازشریف پر مسلسل نکتہ چینی کرنے میں مصروف ہیں۔ سوال یہ ہے کہ پیپلز پارٹی نے سندھ کو کیا دیا ہے؟

شہری علاقے ہوں یا دیہی علاقے، سندھ کا ایک عام شہری سندھ کی کرپٹ سیاسی حکومت سے نالاں ہے۔ پیپلز پارٹی کی حکومت نے سندھ کے شہروں کو کھنڈر بنا دیا ہے۔ بلدیاتی اداروں اور خاص طور پر میئر کراچی کے اختیارات سلب کر دیے ہیں۔ یہ حکومت کراچی سے کچرا بھی نہیں اٹھا سکتی اور عروس البلاد کو کچرا خانہ بنا دیا گیا۔ سندھی عوام تعلیم اور صحت کی سہولتوں کے لیے ترس رہے ہیں۔ اداروں میں کرپشن عروج پر ہے۔ سندھ جہاں پی پی کی حکومت 8 سال سے قائم ہے، اگر ایسی ہی حکومت وفاق یا کسی اور صوبے میں قائم ہوئی تو یہ اس قوم کی بدنصیبی ہو گی۔

بلاول بھٹو کو چاہیے کہ وہ پہلے اپنا گھر ٹھیک کرلیں پھر پنجاب یا وفاق کی سیاست میں دلچسپی لیں۔ اپوزیشن کے ترکش میں اب ایسا کوئی تیر نہیں ہے جو کارگر ثابت ہو۔ اس تناظر میں میں سمجھتا ہوں کہ سوراب ہوشاب شاہراہ کی افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم نوازشریف نے درست کہا ہے کہ اب فیصلہ 2018ء میں ہو گا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں