کراچی میں چائنا کٹنگ اور عوامی مسائل

ناجائز قابضین کے خلاف کارروائی سیاسی مصلحت کا شکار


ہما بیگ December 22, 2016
کراچی اس وقت مسائل کی آماج گاہ بن چکا ہے جس کے لیے بلدیاتی سطح پر سدباب کی اشد ضرورت ہے۔ فوٹو: فائل

KARACHI: باوثوق ذرایع کے مطابق KDA نے گذشتہ 45 سال میں تقریباً 7 لاکھ پلاٹ 46 رہائشی اسکیموں میں فراہم کیے لیکن وہ اپنے اس تسلسل کو برقرار رکھنے میں ناکام رہی، جس کی ایک وجہ حکومت کی جانب سے پلاٹوں کی الاٹمنٹ پر پابندی تھی تو دوسری جانب KDA کی اپنی کم زور اور ڈھیلی ڈھالی پالیسیاں تھیں۔

بتایا جاتا ہے کہ KDA اور دوسری ہاؤسنگ سوسائٹیوں نے لوگوں سے ایک حلف نامہ تو پرُ کرایا جو انھیں اس بات کا پابند کرتا تھا کہ وہ یا ان کی زیرکفالت کسی فرد کے پاس پاکستان بھر میں کوئی دوسرا رہائشی پلاٹ نہیں، لیکن KDA نے اس قانون پر خود ہی عمل نہیں کیا۔ اور تو اور KDA نے اپنے ملازمین کو ایک سے زاید پلاٹ مختلف ناموں سے الاٹ کردیے۔ شاید ہی کوئی بااثر شخص ایسا ہو جسے اس ادارے نے نہیں نوازا۔ رہا ضرورت مند غریب طبقہ، وہ تو سرکاری اسکیموں کی قرعہ اندازی کے خواب میں اپنی تعبیر ڈھونڈتا رہا اور اکثر محروم ہی رہا۔

KDA کی ناکام اسکیموں میں سپر ہائی وے پر اسکیم 33، لانڈھی میں شاہ لطیف ٹاؤن، ہاکس بے، سرجانی ٹاؤن اور ایسی ہی کئی دوسری اسکیمیں سال ہا سال گزرنے کے باوجود آج بھی اجاڑ اور غیر آباد ہیں۔ اس سے یہ تاثر پیدا ہوتا ہے کہ پلاٹ ان لوگوں کو ملے جنھیں ان کی ضرورت نہیں تھی، اگرچہ KDA اور دوسری اتھارٹیز نے رہائشی اسکیمیں تو بنائیں اور خوب روپیہ بھی بٹورا لیکن بروقت ضروری ترقیاتی کام نہیں کرائے۔

22 ہزار ایکڑز پر محیط اسکیم 33 میں بورڈ آف ریونیو نے سیکڑوں ہاؤسنگ سوسائٹیوں کو زمین فراہم کی اور KDA کو اس کے ترقیاتی کام کا ذمے دار ٹھہرایا۔ ان سوسائٹیوں اور الاٹیز سے کروڑوں روپے ڈیویلپمنٹ کے نام پر وصول بھی کیے گئے لیکن ترقیاتی کام نہ ہونے کے برابر ہوا، یہاں سڑکیں ہیں نہ بجلی، پانی اور نہ گیس، ماسوائے چند پروجیکٹس کے آج چالیس سال گزرنے کے باوجود پوری اسکیم میں چند سو مکانات بھی تعمیر نہیں ہوسکے۔ اس عرصے میں کتنے ہی لوگ اپنے مکان کی حسرت لیے اس دنیا سے چلے گئے۔



یہ ایک بڑا المیہ ہے کہ ایک طرف تو ضرورت مند زمین کے حصول کے لیے پریشان سرکاری زمین پر قبضہ کرکے شہر کو کچی آبادی میں تبدیل کررہے ہیں تو دوسری طرف ہزارہا ایکڑ زمین پر لاکھوں رہائشی پلاٹ غیرآباد ہیں۔ اس ناکامی کی وجہ صرف یہ ہے کہ ہم نے ان قوانین پر عمل ہی نہیں کیا جو ہم نے خود بنائے تھے یا پھر وہ قانون ہی تبدیل ہوچکا ہے۔

کراچی اس وقت مسائل کی آماج گاہ بن چکا ہے جس کے لیے بلدیاتی سطح پر سدباب کی اشد ضرورت ہے، اگرچہ اس ضمن میں وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ کے چند اچھے اقدامات کی وجہ سے صوبے میں کچھ بہتری کی امید ہوچلی ہے۔ سماجی حلقوں کا کہنا ہے کہ کراچی کے ہر بڑے چھوٹے ٹاؤن میں سرکاری اور غیر سرکاری زمینوں پر این او سی لیے بغیر گھر بناکر قبضہ کرلیا جاتا ہے اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے یہ کچی آبادی پورے قبضے کا روپ دھار لیتی ہے۔

ان کچی آبادیوں میں زیادہ تر جرائم پیشہ لوگ رہائش اختیار کرلیتے ہیں اور جن لوگوں کی زمین پر ناجائز آبادیاں قائم ہوجاتی ہیں وہ ساری عمر دوبارہ اپنی زمین کا قبضہ حاصل نہیں کرسکتے۔ جب کہ سندھ کے دارالخلافہ کراچی میں کے ڈی اے کی ملی بھگت اور چشم پوشی کی وجہ سے متعدد غیرقانونی چائنا کٹنگ قائم ہوچکی ہیں۔ یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ ان آبادیوں کو کیسے بجلی اور گیس کے کنکشن دیے جاتے ہیں۔ ظاہر ہے یہ محکمے بھی رشوت لے کر غیر قانونی طور پر بجلی اور گیس ان کچی آبادیوں کو فراہم کرتے ہیں۔



اس بات کا واضح مطلب یہ ہے کہ سرکاری ادارے ان آبادیوں کی ضرورتیں پوری کرکے ان کی حوصلہ افزائی اور اپنی جیبیں گرم کرتے رہتے ہیں۔ افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ کراچی کی ہر چھوٹی بڑی آبادی میں بڑے چھوٹے سیکٹرز پر غیر قانونی طور پر قبضہ گروپس کا راج ہے۔ گذشتہ کئی سال سے ذرایع ابلاغ، سماجی نمایندے اور درددل رکھنے والے لوگ ان چائنا کٹنگ کے خلاف واویلا مچاتے رہے اور ان آبادیوں کے خاتمے کے لیے متعلقہ اداروں کو یاد دہانیاں کراتے رہے ہیں۔ لیکن کسی بھی محکمے نے ان درد دل رکھنے والے شہریوں کی آواز پر کان نہ دھرا اور پھر دن بہ دن اس غیر قانونی قبضہ کی حامل چائنا کٹنگ میں اضافہ ہوتا رہا۔

سماجی حلقوں کے مطابق عوام کے شور مچانے اور اخبارات میں خبریں چھپنے کی وجہ سے کچھ ادارے تھوڑی بہت کوشش کرتے رہے ہیں کہ ان قابضین سے ان جگہوں کو خالی کرایا جائے لیکن مفاد پرست طبقہ ان کی کوششوں کو کام یاب نہیں ہونے دیتا۔ کیا یہ حقیقت کسی سے پوشیدہ ہے کہ سرکاری ادارے ان آبادیوں کی درپردہ مدد کرتے ہیں اور ان سے پیسے بٹورتے اور اس کام کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں۔ جب سرکاری طور پر ان کے خلاف کوئی قدم اٹھانے کا پروگرام بنتا ہے تو یہ رشوت خور ان قبضہ گروپ والوں کو پہلے ہی سے ہوشیار کردیتے ہیں اور سرکاری کوششوں کو ناکام بنانے کے لیے ان کی مدد کرتے ہیں۔

ان ہی رشوت خور سرکاری ملازمین کی وجہ سے غیر قانونی چائنا کٹنگ میں بجلی کی سپلائی لائن پر کنڈے ڈال کر بجلی دھڑلے سے چوری کی جارہی ہے۔ بجلی کی شدید کمی کے باوجود یہ لوگ بجلی چوری کرکے استعمال کررہے ہیں اور انھیں پوچھنے والا کوئی بھی نہیں۔ ان غیرقانونی آبادیوں کے خاتمے کے لیے کئی مرتبہ عدلیہ متعلقہ اداروں کو حکم دے چکی ہے کہ ناجائز قابضین کو نکالا جائے لیکن یہی سرکاری ملازمین عدلیہ کے حکم پر عمل درآمد میں رکاوٹ بن جاتے ہیں۔



وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے سرکاری زمینوں پر قائم غیرقانونی آبادیوں کے انخلا اور 100 کچی آبادیوں کو پکا کرنے کا حکم دے کر عوام کے دل جیت لیے ہیں جب کہ اس ضمن میں تعمیراتی ماہرین کا خیال ہے کہ چائنا کٹنگ کے نام سے سرکاری زمین پر کیے جانے والے قبضے پر انہدامی کارروائی کو جلد سے جلد شروع کیا جائے اور گرفتار کیے جانے والے کے ڈی اے کے ان افسران کے خلاف چالان پیش کرکے عدالتی فیصلہ آنے پر فوری طور پر اس زمین کو سنوار کر اس میں سڑکیں، گلیاں اور پارک بناکر اس کا قبضہ فوراً مالکان کو دیا جائے تاکہ وہ اس جگہ کو آباد کرکے رہائش اختیار کرسکیں۔ جب کہ کے ڈی اے شہر کے مختلف ٹاؤن میں اپنی خالی پڑی ہوئی زمینوں کی حفاظت بھی کرے۔ کسی شخص کو اجازت نہیں ہونی چاہیے کہ وہ کسی خالی زمین پر ناجائز قبضہ کرکے رہائش اختیار کرے۔

دوسری طرف چائنا کٹنگ کے حوالے سے ایسی آبادیوں کے مکینوں کا کہنا ہے کہ انھیں موقع دیا جائے تو وہ سرکاری زمین کی موجودہ اصل قیمت دینے کو تیار ہیں۔ تاہم اس ضمن میں کچھ سماجی تنظیموں کا کہنا یہ بھی ہے کہ جو حلقے ان لوگوں کے حق میں بیان بازی کررہے ہیں انھیں شرم آنی چاہیے کہ وہ ایک غیر قانونی کام کرنے والوں کی حوصلہ افزائی کررہے ہیں۔ جن مفاد پرستوں کو ان غیر قانونی کام کرنے والوں سے ہم دردی ہے وہ انھیں اپنے بڑے گھروں میں لے جاکر آباد کریں تاکہ ان کی ہم دردی کا پتا چل سکے، ملک میں فتنہ فساد پھیلانے والے یہ افراد کسی رعایت کے مستحق نہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔