کالم لکھنے کا طریقہ
ہمیں کم از کم دو ڈھائی گھنٹے یکسوئی درکار ہوتی ہے جو کہ اب صرف خواب میں ہی میسر ہو سکتی ہے۔
گزشتہ ڈیڑھ 2سال کی مسلسل جھک ماری کے بعد ہم بالا ٓخر اس نتیجے تک پہنچ گئے ہیں کہ کسی ایک ہی موضوع پر کالم لکھنا اب ہمارے لیے ممکن ہی نہیں۔ پورا کالم لکھنے کیلیے ہمیں کم از کم دو ڈھائی گھنٹے یکسوئی درکار ہوتی ہے جو کہ اب صرف خواب میں ہی میسر ہو سکتی ہے۔ چنانچہ اپنے ناراض قارئین کے خاموش عتاب سے بچنے کیلیے ہم نے آخری کوشش کے طور پر ایک نیا طریقہ وضع کیا ہے جس میں آپ کو اپنا کالم تین چار حصے میں تقسیم کرنا پڑتا ہے۔ یعنی آپ تین چار مختلف موضوعات کو یکجا کر کے سرخیاں دیں اور بقول ظفر اقبال صاحب کے ''ٹوٹوں'' کی شکل میں کالم مکمل کر لیں۔ گویا آپ ایک کالم میں تین چار کالم لکھ سکتے ہیں۔ چنانچہ ہم دعویٰ تو نہیں کرتے مگر پختہ ارادہ ضرور کر رہے ہیں کہ زود رنج قارئین کو مزید تنگ نہیں کریں گے اور ہفتے میں کم از کم دو ایک کالم ضرور لکھتے رہیں گے۔
چلو چلو چکوال چلو!
چکوال بلاشبہ پنجاب کا سب سے حسین ضلع اور شکاریوں کی جنت ہے۔ تیتر کا سیزن شروع ہوتے ہی ملک بھر کے شکاری زائرین کی طرح ٹولیاں بنا کر چکوال کا رخ کرتے ہیں کہ اہل نظر کے مطابق سالٹ رینج کے تیتر سے زیادہ مشکل اور دلکش شکار دنیا کے کسی گوشے میں نہیں ہوتا۔ یہاں شکار سے مراد صرف پرندے یعنی فقط ''اپ لینڈ'' شکار ہے۔
اس مرتبہ بھی اپنے پیارے دوست چوہدری ارشد اور دیگر مقامی مہربانوں کے توسط سے سیزن کا پہلا اتوار ہم نے چکوال کی ایک شکارگاہ میں گزارا۔ مصطفیٰ آباد والے سید سجاد حسن کی دلفریب شوٹنگ اور ہجرہ شاہ مقیم والے سید رضا علی گیلانی کی شاندار کمپنی ہمارے شکاری ٹرپ کا لازمی جزو ہوتی ہے۔ گیلانی صاحب کے سر پر شکار کچھ یوں سوار تھا کہ وزارت کا حلف اٹھاتے ہی انھوں نے رختِ سفر باندھ لیا۔ موصوف کو تعلیم کا قلمدان دیا گیا ہے اور آپ سارا وقت ہمارے ساتھ ایک ہی موضوع پر سرگوشیاں کرتے رہے کہ محکمہ تعلیم پنجاب کا حال بہت برا ہے، اسے کیسے بہتر کیا جا سکتا ہے۔
جاوید محمود بھٹی ہے تو چکوال کا ڈی سی او مگر اس کی خدمات اور کام کا حجم کم از کم 4 ڈی سی اوز کے برابر ہے، نادار بچوں کی تعلیم و تربیت ہو یا زیتون کی کاشت، اس جنونی شخص نے خدمت کے عمل کو نکتہ کمال تک پہنچا دیا ہے۔کام کی زیادتی کی وجہ سے بھٹی صاحب ہمیں اور ہمارے شکار کو تو وقت نہ دے سکے مگر ان کے کارنامے لوگوں کی زبانی سن کر ہمارا سر فخر سے ہمیشہ بلند ہی ہوتا رہتا ہے۔ بالکل یہی صورتحال ہمارے ایک اور دوست ذوالفقارگھمن کے ہاں تھی کہ موصوف جس ضلع میں بھی جاتے ہیں خدمتِ خلق کے نشے میں بری طرح مبتلا رہتے ہیں۔ فرق صرف یہ ہوتا ہے کہ جاوید محمود بھٹی کے برعکس ان کا زور تعلیم سے زیادہ صحت پر ہوتا ہے۔ اگر کسی کو اس دعوے میں شک و شبہ ہو تو ڈسٹرکٹ ہیڈکوارٹر اسپتال جہلم کا نیا ایمرجنسی سیٹ اپ ضرور دیکھے کہ اس کی ایک ایک چیز پر ذوالفقار گھمن کی چھاپ صاف نظر آتی ہے۔
دانیال عزیز کی وزارت اور نواز شریف کا ہاسا!
دانیال عزیز ہے تو ایک قابل شخص مگر اس کے ساتھ کوئی نہ کوئی ہاتھ ضرور ہو جاتا ہے۔ پرویز مشرف نے بھی اس معصوم سے کام تو بہت لیا اور ایک جعلی سا وزارت نما محکمہ سونپے رکھا مگر آخری دن تک پوری وزارت سے محروم ہی رکھا۔ آجکل موصوف ٹی وی مباحثوں میں بیٹھے حقِ نمک ادا کرکر کے باقاعدہ ''پھاوے''ہو چکے ہیں مگر وزارت اب بھی ان سے کوہسوں دور دکھائی دیتی ہے حالانکہ اس وزارت کی خاطر آپ جو جو کچھ صبح دوپہر شام برداشت کر رہے ہیں اس سے تو بہتر تھا کہ آپ وزارت پر لعنت بھیج کر کوئی ڈھنگ کا پیشہ اختیار کر لیتے۔
بہرحال، موصوف کی اس محرومی میں بہت بڑا ہاتھ میڈیا کا بھی ہے کہ تقریباً ہر اینکر کو معلوم ہو چکا ہے کہ ہر بھاری الجثہ شخص کی طرح دانیال عزیز کو بھی غصے پر کنٹرول نہیں رہتا۔ چنانچہ شو شروع ہوتے ہی وہ انھیں کوئی نہ کوئی سرخ جھنڈی ضرور دکھا دیتا ہے اور یہ بیچارے اچھے خاصے پڑھے لکھے ہونے کے باوجود نہایت نچلے لیول کی گفتگو شروع کر دیتے ہیں اور بدنصیبی اس قوم کی کہ وہ اس کی کسمپرسی اور بے چارگی کو انجوائے کرنے لگتی ہے اور یوں پروگرام ریٹنگ کا گورکھ دھندہ جاری و ساری رہتا ہے۔
ادھر میاں نواز شریف اگر دانیال عزیز کی وزارت پر سنجیدگی سے غورو فکر کرنے بھی لگتے ہیں تو اپوزیشن میں سے کوئی اٹھ کر ایک زبانی کلامی قرار داد پیش کر دیتا ہے کہ دانیال صاحب چونکہ وزارت کے بغیر تقریباً قریبِ مرگ ہو چکے ہیں، اس لیے نواز شریف کو اس طرف بھی دھیان ضرور دینا چاہیے۔ چنانچہ وزیراعظم گزشتہ ایک ماہ کے دوران یہ ''نیک'' کام کرنے کا دوچار مرتبہ مصمم ارادہ کر بھی لیتے ہیں تو عین اس وقت اپوزیشن دانیال عزیز کا چیزا لینے لگتی ہے اور نواز شریف کا ''ہاسا'' نکل جاتا ہے۔
سنا ہے اس حوالے سے موصوف کا آخری ''ہاسا'' گزشتہ روز اس وقت نکلا جب دانیال کی تقریر سے پہلے شاہ محمود قریشی نے فلور پر ان کی وزارت کیلیے قرار داد لانے کا نعرہ مستانہ بلند کر دیا۔ کہا جاتا ہے کہ اس عظیم مقصد کیلیے متحدہ اپوزیشن نے باقاعدہ لابنگ بھی شروع کر دی ہے۔ دیکھیں نواز شریف کا اگلا ''ہاسا'' کب نکلتا ہے، ہیں جی؟
چلو چلو چکوال چلو!
چکوال بلاشبہ پنجاب کا سب سے حسین ضلع اور شکاریوں کی جنت ہے۔ تیتر کا سیزن شروع ہوتے ہی ملک بھر کے شکاری زائرین کی طرح ٹولیاں بنا کر چکوال کا رخ کرتے ہیں کہ اہل نظر کے مطابق سالٹ رینج کے تیتر سے زیادہ مشکل اور دلکش شکار دنیا کے کسی گوشے میں نہیں ہوتا۔ یہاں شکار سے مراد صرف پرندے یعنی فقط ''اپ لینڈ'' شکار ہے۔
اس مرتبہ بھی اپنے پیارے دوست چوہدری ارشد اور دیگر مقامی مہربانوں کے توسط سے سیزن کا پہلا اتوار ہم نے چکوال کی ایک شکارگاہ میں گزارا۔ مصطفیٰ آباد والے سید سجاد حسن کی دلفریب شوٹنگ اور ہجرہ شاہ مقیم والے سید رضا علی گیلانی کی شاندار کمپنی ہمارے شکاری ٹرپ کا لازمی جزو ہوتی ہے۔ گیلانی صاحب کے سر پر شکار کچھ یوں سوار تھا کہ وزارت کا حلف اٹھاتے ہی انھوں نے رختِ سفر باندھ لیا۔ موصوف کو تعلیم کا قلمدان دیا گیا ہے اور آپ سارا وقت ہمارے ساتھ ایک ہی موضوع پر سرگوشیاں کرتے رہے کہ محکمہ تعلیم پنجاب کا حال بہت برا ہے، اسے کیسے بہتر کیا جا سکتا ہے۔
جاوید محمود بھٹی ہے تو چکوال کا ڈی سی او مگر اس کی خدمات اور کام کا حجم کم از کم 4 ڈی سی اوز کے برابر ہے، نادار بچوں کی تعلیم و تربیت ہو یا زیتون کی کاشت، اس جنونی شخص نے خدمت کے عمل کو نکتہ کمال تک پہنچا دیا ہے۔کام کی زیادتی کی وجہ سے بھٹی صاحب ہمیں اور ہمارے شکار کو تو وقت نہ دے سکے مگر ان کے کارنامے لوگوں کی زبانی سن کر ہمارا سر فخر سے ہمیشہ بلند ہی ہوتا رہتا ہے۔ بالکل یہی صورتحال ہمارے ایک اور دوست ذوالفقارگھمن کے ہاں تھی کہ موصوف جس ضلع میں بھی جاتے ہیں خدمتِ خلق کے نشے میں بری طرح مبتلا رہتے ہیں۔ فرق صرف یہ ہوتا ہے کہ جاوید محمود بھٹی کے برعکس ان کا زور تعلیم سے زیادہ صحت پر ہوتا ہے۔ اگر کسی کو اس دعوے میں شک و شبہ ہو تو ڈسٹرکٹ ہیڈکوارٹر اسپتال جہلم کا نیا ایمرجنسی سیٹ اپ ضرور دیکھے کہ اس کی ایک ایک چیز پر ذوالفقار گھمن کی چھاپ صاف نظر آتی ہے۔
دانیال عزیز کی وزارت اور نواز شریف کا ہاسا!
دانیال عزیز ہے تو ایک قابل شخص مگر اس کے ساتھ کوئی نہ کوئی ہاتھ ضرور ہو جاتا ہے۔ پرویز مشرف نے بھی اس معصوم سے کام تو بہت لیا اور ایک جعلی سا وزارت نما محکمہ سونپے رکھا مگر آخری دن تک پوری وزارت سے محروم ہی رکھا۔ آجکل موصوف ٹی وی مباحثوں میں بیٹھے حقِ نمک ادا کرکر کے باقاعدہ ''پھاوے''ہو چکے ہیں مگر وزارت اب بھی ان سے کوہسوں دور دکھائی دیتی ہے حالانکہ اس وزارت کی خاطر آپ جو جو کچھ صبح دوپہر شام برداشت کر رہے ہیں اس سے تو بہتر تھا کہ آپ وزارت پر لعنت بھیج کر کوئی ڈھنگ کا پیشہ اختیار کر لیتے۔
بہرحال، موصوف کی اس محرومی میں بہت بڑا ہاتھ میڈیا کا بھی ہے کہ تقریباً ہر اینکر کو معلوم ہو چکا ہے کہ ہر بھاری الجثہ شخص کی طرح دانیال عزیز کو بھی غصے پر کنٹرول نہیں رہتا۔ چنانچہ شو شروع ہوتے ہی وہ انھیں کوئی نہ کوئی سرخ جھنڈی ضرور دکھا دیتا ہے اور یہ بیچارے اچھے خاصے پڑھے لکھے ہونے کے باوجود نہایت نچلے لیول کی گفتگو شروع کر دیتے ہیں اور بدنصیبی اس قوم کی کہ وہ اس کی کسمپرسی اور بے چارگی کو انجوائے کرنے لگتی ہے اور یوں پروگرام ریٹنگ کا گورکھ دھندہ جاری و ساری رہتا ہے۔
ادھر میاں نواز شریف اگر دانیال عزیز کی وزارت پر سنجیدگی سے غورو فکر کرنے بھی لگتے ہیں تو اپوزیشن میں سے کوئی اٹھ کر ایک زبانی کلامی قرار داد پیش کر دیتا ہے کہ دانیال صاحب چونکہ وزارت کے بغیر تقریباً قریبِ مرگ ہو چکے ہیں، اس لیے نواز شریف کو اس طرف بھی دھیان ضرور دینا چاہیے۔ چنانچہ وزیراعظم گزشتہ ایک ماہ کے دوران یہ ''نیک'' کام کرنے کا دوچار مرتبہ مصمم ارادہ کر بھی لیتے ہیں تو عین اس وقت اپوزیشن دانیال عزیز کا چیزا لینے لگتی ہے اور نواز شریف کا ''ہاسا'' نکل جاتا ہے۔
سنا ہے اس حوالے سے موصوف کا آخری ''ہاسا'' گزشتہ روز اس وقت نکلا جب دانیال کی تقریر سے پہلے شاہ محمود قریشی نے فلور پر ان کی وزارت کیلیے قرار داد لانے کا نعرہ مستانہ بلند کر دیا۔ کہا جاتا ہے کہ اس عظیم مقصد کیلیے متحدہ اپوزیشن نے باقاعدہ لابنگ بھی شروع کر دی ہے۔ دیکھیں نواز شریف کا اگلا ''ہاسا'' کب نکلتا ہے، ہیں جی؟