حلب کی جنگ کا خاتمہ اور مربوط معاملات
شام میں مسلسل چار سال سے جاری حکومت اور مخالف گروپوں کے مابین چلنے والی جنگ آخرکار بشارالاسد نے جیت لی
JHANG:
شام میں مسلسل چار سال سے جاری حکومت اور مخالف گروپوں کے مابین چلنے والی جنگ آخرکار بشارالاسد نے جیت لی۔انھوں نے 15 دسمبر کو یہ باضابطہ اعلان کیا کہ حلب پر شام کی حکومت کا مکمل کنٹرول ہے اور غیر ملکی جنگجو یہاں سے بھاگنے پر مجبور ہو گئے ہیں۔ درحقیقت یہ جنگ ایک بہت بڑے پس منظر کی عکاس ہے۔
شام کی سرحد کے اس حصے کے قریب جو ترکی سے ملتا ہے، یہ ان کے سب سے بڑے شہر الیپو (Allepo) یعنی حلب کی خونریز کہانی ہے اور ایک وقت ایسا بھی اس جنگ میں آیا تھا کہ دمشق کے کچھ حصے پر حکومت مخالف جانباز قبضہ کرنے والے تھے مگر اس موقع پر تقریباً ڈیڑھ سال قبل ولادی میر پوتن نے اس جنگ میں بشارالاسد کی کھلم کھلا حمایت کر کے، اس کو روس اور امریکا کی پراکسی وار بنا دیا۔
دراصل یہ جنگ جو سعودی عرب اور شام میں براہ راست تھی دونوں ملکوں کے حمایتی اپنے اپنے حامیوں کی حمایت میں کھڑے ہو گئے اور کسی حد تک اسرائیل بھی شام کے خلاف صف بندی میں کھڑا نظر آتا تھا، شام اور اسرائیل اب تک ایک دوسرے کے مخالف ہیں۔ اگر ہم اس جنگ کو ماضی میں جا کر دیکھیں تو بڑی صف بندی نظر آئے گی، اس صف بندی میں ابتدائی طور پر شام کا ایک ہمسایہ ملک بھی درپردہ بعض جہادی گروپوں کی مدد کرتا رہا مگر جنگ کے اختتام سے تقریباً دس ماہ قبل ترکی اور روس کے تعلقات کشیدہ ترین صورتحال پر آن پہنچے تھے اور ایک وقت ایسا آ گیا تھا جب 2 روسی طیاروں کو ترکی کی طیارہ شکن توپوں نے باغیوں کے قبضہ والے علاقے میں مار گرایا تھا۔
باوجود اس کے کہ ترکی نیٹو کا ایک رکن ہے اور روس نے اس کو حملہ کرنے کی دھمکی دی۔ مگر امریکا کی خاموشی نے ترکی کو مجبور کیا کہ وہ روس سے تحریری طور پر معافی مانگے۔ سو ایسا ہی ہوا کہ صدر اردگان صدر پوتن سے ملنے ماسکو گئے اور ایک لحاظ سے ان کے حمایتی روابط میں جو باغیوں سے قریب تر تھے دراڑ پڑ گئی۔ اس طرح شام کی جنگ میں ایسا کرنے سے صدر اسد کے مخالفین کی پوزیشن کمزور ہو گئی اور روس نے صرف ایسا ہی نہیں کیا، زبردست بحری حملے کیے جو خصوصاً حلب کے مشرقی علاقے پر تھے، جس کی تاب باغی گروپ نہ لاسکے اور رفتہ رفتہ حزیمت اٹھانے کے بعد پسپا ہونا شروع ہو گئے اور اب صورتحال اس حد تک ابتر ہو چکی ہے کہ اب مجموعی طور پر شام مخالفاتحادی ممالک نفسیاتی طور پر اپنے اثر ورسوخ کو پھیلانے کے قابل نہیں رہے۔
ایک موقع پاکستان پر بھی ایسا آیا تھا کہ یمن کی جنگ میں بھی پاکستان کی افواج کو عرب ممالک نے گھسیٹنا چاہا، مگر راحیل شریف نے نہایت چابکدستی سے اس راہ سے کنارہ کشی کر لی۔ گو جنرل راحیل شریف نے غیر سیاسی شخصیت ہونے کے باوجود معاملات کو نہایت سیاسی تدبر سے حل کیا اور آج پاکستان یمن جنگ سے کوسوں دور ہے۔ مستقبل قریب میں یمن کا معرکہ تیز تر ہو جائے گا، ایران اور سعودی عرب یمن کی پراکسی وار کے دو اہم رکن ہیں، ایسے موقع پر پاکستان کا غیر جانبدار ہونا ہی سیاست کی اہم چال ہے، بلکہ اس جنگ کے سیاسی حل کی جانب اپنا کردار ادا کرنا چاہیے مگر پاکستان خارجہ پالیسی کے میدان میں فکر و نظر سے عاری محسوس ہوتا ہے۔
حالیہ دنوں میں پاکستانی وزارت خارجہ کے مشیر طارق فاطمی جب امریکی صدر ٹرمپ سے رابطہ کے خواہاں تھے تو انھوں نے اپنے اخباری بیان میں امریکا کو 1980ء کے عشرے کی یاد دلائی جب پاکستان نے سوویت یونین کے خلاف امریکا کے لیے طالبان تیار کیے تھے۔ حالانکہ اس بات کو دہرانا فائدہ مند نہیں۔ بقول امریکی دانشوروں کے موجودہ حالات میں پوتن دنیا کے درجہ اول کے رہنما مانے جا رہے ہیں اور وہ امریکا پر سبقت لے جا رہے ہیں، اس کے علاوہ چین کے بعد روس بھی سی پیک کا اتحادی کہلائے گا اور عرب کے معاملات میں اس کا اہم کردار رہے گا۔
مثال کے طور پر روسی صدر گزشتہ دنوں جاپان کے دورے پر تھے، جہاں انھوں نے جاپانی رہنماؤں سے ان جزیروں کی واپسی پر گفتگو کی جو 1945ء میں دوسری جنگ عظیم کے بعد روس کے قبضے میں آ گئے تھے۔ گو جاپان G-7 کا رکن ملک ہے، اس نے پھر بھی روس پر کوئی اقتصادی پابندی نہ لگائی، حالانکہ یوکرین کے معاملے میں جاپان امریکا کا ہمنوا بھی رہا ہے۔ مگر فی الحال اس نے قومی مفادات کو مدنظر رکھتے ہوئے قریب ترین اقتصادی تعلقات استوار کرنے کی بات کی۔ خصوصاً روس سے جاپان توانائی کے شعبے میں تعاون چاہتا ہے۔
آپ خود دیکھیں دنیا کی سیاسی شخصیتیں کس قدر سوچ بچار سے کام لیتی ہیں، ایک ہم ہیں کہ متنازع معاملات کی یاد دہانی کرواتے ہیں اور خصوصاً جو چین کا اتحادی ہے۔ ابھی حال میں حلب کی جنگ بندی کے لیے جو قرارداد مصر نے سلامتی کونسل میں پیش کی تھی اس کو چین نے ویٹو کر دیا تھا، خصوصاً روس کی حمایت میں۔ اس لیے فاطمی صاحب کا بیان بے موقع ہے۔ خاص طور سے ایسے وقت جب ڈونلڈ ٹرمپ کی کامیابی پر روس کی ہیکنگ کا داغ لگ رہا ہے اور جاتے جاتے اوباما نے کہا کہ ہمیں ڈونلڈ ٹرمپ کے انتخاب کے سلسلے میں کچھ کرنا ہو گا جب کہ وزیر خارجہ کا قلمدان اور وزارت دفاع بھی نئی حکومت نے روسی صدر کے دوستوں کے حوالے کر دی ہے، اس لیے امریکی اسٹیبلشمنٹ میں بھی ایک ہیجان بپا ہے۔
امریکا اور برطانیہ کے میڈیا مسلسل انتخاب کے بعد ڈونلڈ ٹرمپ کے خلاف گفتگو کر رہے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ انتقال اقتدار میں کچھ رکاوٹوں کے امکانات موجود ہیں یا کچھ عرصے کے بعد امریکا میں کچھ ایسا ہو سکتا ہے جس کو اندرونی خلفشار سے تعبیر کیا جا سکتا ہے، جس کے نتیجے میں امریکا کا سیاسی اثر و رسوخ عالمی پیمانے پر زوال پذیر ہو سکتا ہے۔ ویسے بھی حلب کی جنگ کے اثرات نہ صرف ایشیائی ممالک پر پڑیں گے بلکہ مغربی ممالک میں بھی ٹوٹ پھوٹ کے امکانات ہو سکتے ہیں۔ فرانس کے انتخابات میں بھی کچھ ایسی تبدیلیاں ممکن ہیں کہ نیٹو کا وجود خطرے میں پڑ سکتا ہے۔
لیبیا میں فرانس نے امریکا کے کہنے پر جو اقدامات کیے اس سے لیبیا میں ایسی حکومت برسر اقتدار آ گئی جسے طوائف الملوکی کے سوا اور کوئی نام نہیں دیا جا سکتا جس کا اعتراف ہلیری کلنٹن بھی کرچکی ہیں۔ نئے امریکی صدر کے خارجہ پالیسی کے اثرات تبدیل ہونے میں وقت لگے گا، داعش کے لیے ٹرمپ کے دل میں کوئی نرم گوشہ نہیں بلکہ اس مسئلے پر صدر پوتن اور ٹرمپ کے خیالات یکساں ہیں۔ گویا شرق اوسط میں ڈیموکریٹ کی سیاسی حکمت عملی ناقص اور ناکام رہی، بس یہی رعایت روس کی طرف سے کافی مل چکی کہ شکست خوردہ مجاہدین کے 20-25 ہزار سے زائد لوگ اپنے گھر والوں کے ساتھ حلب چھوڑنے میں کامیاب ہو چکے ہیں، ورنہ خدشہ تھا کہ حلب میں یہ تمام لوگ جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے۔
ابھی شام، ترکی کے معاملات روس کے ساتھ آگے بڑھ رہے تھے کہ چند دن قبل ترکی میں روس کے سفیر کو ترکی گارڈ نے ہلاک کردیا۔ اس علاقے میں یمن ایک نئی خانہ جنگی کا شاخسانہ ہے اور حلب کے بعد اب اس علاقے میں ایک اور نئی آگ کے بھڑکنے کا اندیشہ ہے اور جان کیری اس آگ کو بجھانے کی اہلیت نہیں رکھتے، کیونکہ ان کی حکومت محض دو ماہ سے بھی کم کی مہمان ہے۔
روسی سفیر کی ہلاکت ایک وقتی کشیدگی تو پیدا کرسکتی ہے مگر بات چیت کا دروازہ بند نہیں کرسکتی، البتہ اس علاقے میں آزاد کردستان کی تحریک کا آغاز بھی ہونے کو ہے، کردوں نے بھی عرب مجاہدین اور داعش کے خلاف جنگ میں زبردست مزاحمت کی اور ایک بڑے علاقے کو آزاد کرایا ہے۔ اب ایسے موقع پر کردوں کی پارٹی پی کے کے (PKK) اپنی ریاست کو قائم کرنے کے لیے شام اور روس سے حق مانگے گی، اس کے اور ترکی کے معاملات میں کافی تناؤ ہے اور آزاد کردستان جو 1971ء سے اپنے کچھ علاقے ترکی اور شام سے مانگے گا، اس پر روس اور شام کا کیا موقف ہوتا ہے، یہ بھی ایک سوالیہ نشان ہے۔
شام کی حمایت میں جہاں ایران، حزب اللہ اور کرد ایک طرف تھے تو دوسری جانب عرب ریاستوں اور ان کے ساتھی دوسری جانب، گویا جنگ کے بعد امن کے راستے کا بھی ایک طویل اور پیچیدہ سفر باقی ہے، جس کی طرف روس اور شام کو بڑھنا ہے اور اس کے پس پشت پردہ نشینوں کے بھی نام آتے ہیں جو اس جنگ میں سرمایہ کاری کر رہے تھے، لہٰذا ایسے موقع پر پاکستان کی سفارتکاری دانشمندی کا مظہر ہونی چاہیے۔ ایک عرصے تک دنیا میں امریکا ہی سپر پاور تھا اور اب اس قوت کو روس نے دنیا کو بائی پولر بنا دیا ہے۔
شام میں مسلسل چار سال سے جاری حکومت اور مخالف گروپوں کے مابین چلنے والی جنگ آخرکار بشارالاسد نے جیت لی۔انھوں نے 15 دسمبر کو یہ باضابطہ اعلان کیا کہ حلب پر شام کی حکومت کا مکمل کنٹرول ہے اور غیر ملکی جنگجو یہاں سے بھاگنے پر مجبور ہو گئے ہیں۔ درحقیقت یہ جنگ ایک بہت بڑے پس منظر کی عکاس ہے۔
شام کی سرحد کے اس حصے کے قریب جو ترکی سے ملتا ہے، یہ ان کے سب سے بڑے شہر الیپو (Allepo) یعنی حلب کی خونریز کہانی ہے اور ایک وقت ایسا بھی اس جنگ میں آیا تھا کہ دمشق کے کچھ حصے پر حکومت مخالف جانباز قبضہ کرنے والے تھے مگر اس موقع پر تقریباً ڈیڑھ سال قبل ولادی میر پوتن نے اس جنگ میں بشارالاسد کی کھلم کھلا حمایت کر کے، اس کو روس اور امریکا کی پراکسی وار بنا دیا۔
دراصل یہ جنگ جو سعودی عرب اور شام میں براہ راست تھی دونوں ملکوں کے حمایتی اپنے اپنے حامیوں کی حمایت میں کھڑے ہو گئے اور کسی حد تک اسرائیل بھی شام کے خلاف صف بندی میں کھڑا نظر آتا تھا، شام اور اسرائیل اب تک ایک دوسرے کے مخالف ہیں۔ اگر ہم اس جنگ کو ماضی میں جا کر دیکھیں تو بڑی صف بندی نظر آئے گی، اس صف بندی میں ابتدائی طور پر شام کا ایک ہمسایہ ملک بھی درپردہ بعض جہادی گروپوں کی مدد کرتا رہا مگر جنگ کے اختتام سے تقریباً دس ماہ قبل ترکی اور روس کے تعلقات کشیدہ ترین صورتحال پر آن پہنچے تھے اور ایک وقت ایسا آ گیا تھا جب 2 روسی طیاروں کو ترکی کی طیارہ شکن توپوں نے باغیوں کے قبضہ والے علاقے میں مار گرایا تھا۔
باوجود اس کے کہ ترکی نیٹو کا ایک رکن ہے اور روس نے اس کو حملہ کرنے کی دھمکی دی۔ مگر امریکا کی خاموشی نے ترکی کو مجبور کیا کہ وہ روس سے تحریری طور پر معافی مانگے۔ سو ایسا ہی ہوا کہ صدر اردگان صدر پوتن سے ملنے ماسکو گئے اور ایک لحاظ سے ان کے حمایتی روابط میں جو باغیوں سے قریب تر تھے دراڑ پڑ گئی۔ اس طرح شام کی جنگ میں ایسا کرنے سے صدر اسد کے مخالفین کی پوزیشن کمزور ہو گئی اور روس نے صرف ایسا ہی نہیں کیا، زبردست بحری حملے کیے جو خصوصاً حلب کے مشرقی علاقے پر تھے، جس کی تاب باغی گروپ نہ لاسکے اور رفتہ رفتہ حزیمت اٹھانے کے بعد پسپا ہونا شروع ہو گئے اور اب صورتحال اس حد تک ابتر ہو چکی ہے کہ اب مجموعی طور پر شام مخالفاتحادی ممالک نفسیاتی طور پر اپنے اثر ورسوخ کو پھیلانے کے قابل نہیں رہے۔
ایک موقع پاکستان پر بھی ایسا آیا تھا کہ یمن کی جنگ میں بھی پاکستان کی افواج کو عرب ممالک نے گھسیٹنا چاہا، مگر راحیل شریف نے نہایت چابکدستی سے اس راہ سے کنارہ کشی کر لی۔ گو جنرل راحیل شریف نے غیر سیاسی شخصیت ہونے کے باوجود معاملات کو نہایت سیاسی تدبر سے حل کیا اور آج پاکستان یمن جنگ سے کوسوں دور ہے۔ مستقبل قریب میں یمن کا معرکہ تیز تر ہو جائے گا، ایران اور سعودی عرب یمن کی پراکسی وار کے دو اہم رکن ہیں، ایسے موقع پر پاکستان کا غیر جانبدار ہونا ہی سیاست کی اہم چال ہے، بلکہ اس جنگ کے سیاسی حل کی جانب اپنا کردار ادا کرنا چاہیے مگر پاکستان خارجہ پالیسی کے میدان میں فکر و نظر سے عاری محسوس ہوتا ہے۔
حالیہ دنوں میں پاکستانی وزارت خارجہ کے مشیر طارق فاطمی جب امریکی صدر ٹرمپ سے رابطہ کے خواہاں تھے تو انھوں نے اپنے اخباری بیان میں امریکا کو 1980ء کے عشرے کی یاد دلائی جب پاکستان نے سوویت یونین کے خلاف امریکا کے لیے طالبان تیار کیے تھے۔ حالانکہ اس بات کو دہرانا فائدہ مند نہیں۔ بقول امریکی دانشوروں کے موجودہ حالات میں پوتن دنیا کے درجہ اول کے رہنما مانے جا رہے ہیں اور وہ امریکا پر سبقت لے جا رہے ہیں، اس کے علاوہ چین کے بعد روس بھی سی پیک کا اتحادی کہلائے گا اور عرب کے معاملات میں اس کا اہم کردار رہے گا۔
مثال کے طور پر روسی صدر گزشتہ دنوں جاپان کے دورے پر تھے، جہاں انھوں نے جاپانی رہنماؤں سے ان جزیروں کی واپسی پر گفتگو کی جو 1945ء میں دوسری جنگ عظیم کے بعد روس کے قبضے میں آ گئے تھے۔ گو جاپان G-7 کا رکن ملک ہے، اس نے پھر بھی روس پر کوئی اقتصادی پابندی نہ لگائی، حالانکہ یوکرین کے معاملے میں جاپان امریکا کا ہمنوا بھی رہا ہے۔ مگر فی الحال اس نے قومی مفادات کو مدنظر رکھتے ہوئے قریب ترین اقتصادی تعلقات استوار کرنے کی بات کی۔ خصوصاً روس سے جاپان توانائی کے شعبے میں تعاون چاہتا ہے۔
آپ خود دیکھیں دنیا کی سیاسی شخصیتیں کس قدر سوچ بچار سے کام لیتی ہیں، ایک ہم ہیں کہ متنازع معاملات کی یاد دہانی کرواتے ہیں اور خصوصاً جو چین کا اتحادی ہے۔ ابھی حال میں حلب کی جنگ بندی کے لیے جو قرارداد مصر نے سلامتی کونسل میں پیش کی تھی اس کو چین نے ویٹو کر دیا تھا، خصوصاً روس کی حمایت میں۔ اس لیے فاطمی صاحب کا بیان بے موقع ہے۔ خاص طور سے ایسے وقت جب ڈونلڈ ٹرمپ کی کامیابی پر روس کی ہیکنگ کا داغ لگ رہا ہے اور جاتے جاتے اوباما نے کہا کہ ہمیں ڈونلڈ ٹرمپ کے انتخاب کے سلسلے میں کچھ کرنا ہو گا جب کہ وزیر خارجہ کا قلمدان اور وزارت دفاع بھی نئی حکومت نے روسی صدر کے دوستوں کے حوالے کر دی ہے، اس لیے امریکی اسٹیبلشمنٹ میں بھی ایک ہیجان بپا ہے۔
امریکا اور برطانیہ کے میڈیا مسلسل انتخاب کے بعد ڈونلڈ ٹرمپ کے خلاف گفتگو کر رہے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ انتقال اقتدار میں کچھ رکاوٹوں کے امکانات موجود ہیں یا کچھ عرصے کے بعد امریکا میں کچھ ایسا ہو سکتا ہے جس کو اندرونی خلفشار سے تعبیر کیا جا سکتا ہے، جس کے نتیجے میں امریکا کا سیاسی اثر و رسوخ عالمی پیمانے پر زوال پذیر ہو سکتا ہے۔ ویسے بھی حلب کی جنگ کے اثرات نہ صرف ایشیائی ممالک پر پڑیں گے بلکہ مغربی ممالک میں بھی ٹوٹ پھوٹ کے امکانات ہو سکتے ہیں۔ فرانس کے انتخابات میں بھی کچھ ایسی تبدیلیاں ممکن ہیں کہ نیٹو کا وجود خطرے میں پڑ سکتا ہے۔
لیبیا میں فرانس نے امریکا کے کہنے پر جو اقدامات کیے اس سے لیبیا میں ایسی حکومت برسر اقتدار آ گئی جسے طوائف الملوکی کے سوا اور کوئی نام نہیں دیا جا سکتا جس کا اعتراف ہلیری کلنٹن بھی کرچکی ہیں۔ نئے امریکی صدر کے خارجہ پالیسی کے اثرات تبدیل ہونے میں وقت لگے گا، داعش کے لیے ٹرمپ کے دل میں کوئی نرم گوشہ نہیں بلکہ اس مسئلے پر صدر پوتن اور ٹرمپ کے خیالات یکساں ہیں۔ گویا شرق اوسط میں ڈیموکریٹ کی سیاسی حکمت عملی ناقص اور ناکام رہی، بس یہی رعایت روس کی طرف سے کافی مل چکی کہ شکست خوردہ مجاہدین کے 20-25 ہزار سے زائد لوگ اپنے گھر والوں کے ساتھ حلب چھوڑنے میں کامیاب ہو چکے ہیں، ورنہ خدشہ تھا کہ حلب میں یہ تمام لوگ جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے۔
ابھی شام، ترکی کے معاملات روس کے ساتھ آگے بڑھ رہے تھے کہ چند دن قبل ترکی میں روس کے سفیر کو ترکی گارڈ نے ہلاک کردیا۔ اس علاقے میں یمن ایک نئی خانہ جنگی کا شاخسانہ ہے اور حلب کے بعد اب اس علاقے میں ایک اور نئی آگ کے بھڑکنے کا اندیشہ ہے اور جان کیری اس آگ کو بجھانے کی اہلیت نہیں رکھتے، کیونکہ ان کی حکومت محض دو ماہ سے بھی کم کی مہمان ہے۔
روسی سفیر کی ہلاکت ایک وقتی کشیدگی تو پیدا کرسکتی ہے مگر بات چیت کا دروازہ بند نہیں کرسکتی، البتہ اس علاقے میں آزاد کردستان کی تحریک کا آغاز بھی ہونے کو ہے، کردوں نے بھی عرب مجاہدین اور داعش کے خلاف جنگ میں زبردست مزاحمت کی اور ایک بڑے علاقے کو آزاد کرایا ہے۔ اب ایسے موقع پر کردوں کی پارٹی پی کے کے (PKK) اپنی ریاست کو قائم کرنے کے لیے شام اور روس سے حق مانگے گی، اس کے اور ترکی کے معاملات میں کافی تناؤ ہے اور آزاد کردستان جو 1971ء سے اپنے کچھ علاقے ترکی اور شام سے مانگے گا، اس پر روس اور شام کا کیا موقف ہوتا ہے، یہ بھی ایک سوالیہ نشان ہے۔
شام کی حمایت میں جہاں ایران، حزب اللہ اور کرد ایک طرف تھے تو دوسری جانب عرب ریاستوں اور ان کے ساتھی دوسری جانب، گویا جنگ کے بعد امن کے راستے کا بھی ایک طویل اور پیچیدہ سفر باقی ہے، جس کی طرف روس اور شام کو بڑھنا ہے اور اس کے پس پشت پردہ نشینوں کے بھی نام آتے ہیں جو اس جنگ میں سرمایہ کاری کر رہے تھے، لہٰذا ایسے موقع پر پاکستان کی سفارتکاری دانشمندی کا مظہر ہونی چاہیے۔ ایک عرصے تک دنیا میں امریکا ہی سپر پاور تھا اور اب اس قوت کو روس نے دنیا کو بائی پولر بنا دیا ہے۔