صوبائی مطلق العنانیاں
سندھ میں ایم کیو ایم اور فنکشنل لیگ اور پی ٹی آئی متحد نہیں ہیں
پیپلز پارٹی کی گزشتہ وفاقی حکومت میں صوبوں کو صوبائی خودمختاری دینے کے لیے ایک پارلیمانی کمیٹی سینیٹر میاں رضا ربانی کی سربراہی میں قائم ہوئی تھی جس نے تمام جماعتوں کی مشاورت سے آئین میں اٹھارہویں ترمیم کے ذریعے صوبوں کو بے انتہا اختیارات دلا کر مطلق العنان بنا دیا تھا، جس پر سابق گورنر پنجاب اور پیپلز پارٹی کے رہنما لطیف کھوسہ نے رضا ربانی پر 1973ء کے آئین کا بیڑا غرق کرنے کا جو الزام عائد کیا تھا جس سے صوبے اتنے بااختیار ہو گئے کہ وفاق کو آنکھیں دکھانے لگے اور وفاق صوبوں کے اختیارات کے سامنے بے بس ہوکر رہ گیا ہے اور کچھ کرنے کی پوزیشن میں نہیں رہا ہے اور کمزور وفاقی حکومت میں وفاق دن بہ دن کمزور اور صوبے خود کو ملک کا مالک و مختار تصور کر رہے ہیں۔
چاروں صوبوں اور خصوصاً پنجاب اور سندھ کی (ن) لیگ اور پیپلز پارٹی کی حکومتیں اپنی پارٹی اکثریت کے زور پر جو من مانیاں، غیر قانونی اقدامات اور مطلق العنانیاں کر رہی ہیں، اس پر سپریم کورٹ اور پنجاب اور سندھ ہائی کورٹس دونوں حکومتوں کے خلاف سخت ریمارکس دے چکی ہیں اور واضح کرچکی ہیں کہ دونوں صوبوں میں گڈ گورننس ہے اور نہ انتظامی اور حکومتی معاملات میں شفافیت کہیں نظر آتی ہے۔ سندھ اور پنجاب کے برعکس بلوچستان اور کے پی کے میں چونکہ مخلوط حکومتیں ہیں اور برسر اقتدار پارٹیوں کی اکثریت نہیں ہے۔
کے پی کے میں پی ٹی آئی کی حکومت میں جماعت اسلامی اور قومی وطن پارٹی جب کہ بلوچستان میں مسلم لیگ (ن) کی حکومت میں بلوچستان نیشنل پارٹی، پختونخوا ملی پارٹی اور مسلم لیگ (ق) شامل ہونے کی وجہ سے پی ٹی آئی اور مسلم لیگ (ن) کے وزیر اعلیٰ من مانیاں کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں اور انھیں دوسروں کو ساتھ لے کر چلنے کی مجبوری کا سامنا ہے، اس لیے وہاں پنجاب اور سندھ کے واضح اکثریت رکھنے والے وزرائے اعلیٰ اپنی پارٹی قیادت کے کہنے پر ہی فیصلے کرتے ہیں۔
سندھ میں ایم کیو ایم اور فنکشنل لیگ اور پی ٹی آئی متحد نہیں ہیں اور اپوزیشن کے زیادہ ارکان ایم کیو ایم کے ہیں اور تینوں مل کر پی پی حکومت کو من مانیوں سے روکنے کی مضبوط پوزیشن میں نہیں ہیں اور یہی حال بلکہ سندھ سے بڑھ کر پنجاب میں ہے، جہاں (ن) لیگ کو اسمبلی میں دو تہائی سے بھی زیادہ اکثریت حاصل ہے اور پنجاب کے وزیراعلیٰ شہباز شریف وزیراعظم کے چھوٹے بھائی ہیں اور دونوں میں یہ بات بھی مشترک ہے کہ دونوں ہی اپنے اپنے ارکان سے دور رہتے ہیں اور کابینہ کے اجلاس بھی بہت کم منعقد کرتے ہیں اور اپنی اسمبلیوں کے اجلاسوں میں بہت کم آتے ہیں اور اپنے ارکان سے بہت کم ملتے ہیں۔
وزیراعلیٰ پنجاب نے دیگر صوبوں کے برعکس ملک کا سب سے بڑا صوبہ ہونے کے باوجود اپنی کابینہ مختصر رکھی اور اب سوا تین سال بعد گیارہ نئے وزیر پنجاب کابینہ میں شامل کیے ہیں۔ وزیراعلیٰ پنجاب نے نو محکمے اپنے پاس رکھے ہوئے تھے اور بلاشبہ وہ سب سے متحرک وزیراعلیٰ تھے اور جہاں ضروری سمجھتے فوراً وہاں پہنچتے جب کہ دیگر وزرائے اعلیٰ ان جیسے متحرک نہیں ہیں۔
وزیراعلیٰ پنجاب قانون سے بالاتر ہوکر بعض دفعہ اقدامات کرجاتے ہیں جو ہائی کورٹ میں چیلنج ہوکر خلاف قانون قرار پائے۔ پنجاب کے وزیراعلیٰ خود کو خادم اعلیٰ قرار دیتے ہیں۔ اہم اختیارات اپنے پاس رکھتے ہیں اور صوبے میں گڈ گورننس کا فقدان ہے مگر میرٹ کو پھر بھی ترجیح دی جاتی ہے مگر فیصلے من مانے ہوتے ہیں۔
سندھ ملک کا دوسرا بڑا صوبہ ہے جس کے لیے مشہور ہے کہ سندھ کے معاملات دبئی سے چلائے جا رہے ہیں اور وزیراعلیٰ اور دیگر وزرا دبئی جاکر اپنے چیئرمین آصف زرداری سے ہدایات حاصل کرتے ہیں جو ہیں تو شریک چیئرمین مگر سندھ کے معاملات وہ اور ان کی ہمشیرہ دیکھتی ہیں جب کہ گزشتہ حکومت میں تو کہا جاتا تھا کہ سندھ میں قائم علی شاہ سمیت چار وزیراعلیٰ ہیں۔
آٹھ سال بعد سندھ میں نئے وزیراعلیٰ کا تقرر کیا گیا جن کے آنے سے سیکریٹریٹ اور دیگر سرکاری دفاتر صبح نو بجے آباد ہونے لگے ہیں اور سوٹ پہننے کے شوقین وزیراعلیٰ مراد علی شاہ اپنی پارٹی کے بانی کے طرز پر عوامی رہنما بننے پر یقین نہیں رکھتے اور اپنی انفرادیت سوٹ پہن کر نمایاں رکھتے ہیں مگر اپنے پارٹی بانی کی طرح عوامی نہیں ہیں اور عوام کے قریب رہنے پر یقین نہیں رکھتے مگر انھیں بھی اپنے دونوں چیئرمینوں کے احکامات کے برعکس چلنے کی آزادی حاصل نہیں ہے اور پارٹی پالیسی فالو کرنا پڑتی ہے۔
سندھ حکومت نے ایک مشیر مقرر کیا ہوا ہے جنھیں شاید وفاقی حکومت، وزیراعظم اور ان کے وزیروں پر تنقید کی سرکاری ذمے داری سونپی گئی ہے۔ ملک کے کسی اور صوبے میں اتنے وزیر، مشیر اور معاون خصوصی نہیں ہیں، جتنے سندھ میں ہیں۔ سندھ کے تمام معاونین خصوصی کو باقاعدہ محکمے پہلی بار دیے گئے ہیں اور ایک مشیر مرتضیٰ وہاب کا تقرر سندھ ہائی کورٹ نے غیر قانونی قرار دیا ہے جن کے پاس دو اہم محکمے تھے اور یہ غیر منتخب کابینہ اجلاس میں شریک ہوتے تھے۔ قائم علی شاہ دور میں بھی بے شمار لوگوں کو نوازا گیا تھا مگر اتنی فیاضی اور غیرقانونی تقرریاں نہیں تھیں۔
کے پی کے کے تحریک انصاف کے وزیر اعلیٰ پرویز خٹک تو سرکاری پروٹوکول میں اسلام آباد پر سیکڑوں کارکنوں کے ساتھ چڑھائی کرنے آئے تھے اور انھوں نے ایف سی اہلکاروں کو تعصب پر ابھارا تھا اور دھمکی دی تھی کہ انھیں اسلام آباد نہ آنے دیا گیا تو وہ وزیر اعظم کو کے پی کے میں جلسہ کرنے نہیں دیں گے۔ یہ دھمکی بزرگ وزیراعلیٰ نے دی ہے کسی جذباتی صوبائی وزیر نے نہیں جنھیں بولتے ہوئے ہوش سے بھی کام لینا چاہیے تھا اور ایک وزیراعلیٰ کو دھرنا سیاست سے گریز کرنا چاہیے تھا جس میں اسلام آباد کو بند کرکے ملک کو دنیا میں بدنام کرانا تھا۔
بلوچستان کی مخلوط حکومت کے وزیراعلیٰ نواب ہیں اور صوبے کو نوابوں کی طرح چلا رہے ہیں جن کے دور میں دہشت گردی کے متعدد جان لیوا نقصانات ہوچکے ہیں۔ نواب ثنا اللہ زہری وفاق کے لیے تو کوئی مسئلہ نہیں مگر ان کی صوبے میں کمزور گرفت عوام کے لیے مسئلہ ضرور ہے۔ وزیراعلیٰ دلچسپی لے کر پولیس ٹریننگ سینٹر کی دیوار عملی طور پر بنوانے پر توجہ دیتے تو نئی نسل کا اتنا بڑا جانی نقصان نہ ہوتا۔ وزیر اعلیٰ کا کام صرف اعلان کرکے جان چھڑا لینا نہیں ہوتا بلکہ حساس سینٹر کی دیوار بنوادی جاتی تو اتنی بڑی دہشت گردی کامیاب نہیں ہوسکتی تھی۔
ہر صوبے میں چیف سیکریٹری اور آئی جی پولیس وفاق کے نمایندے تو ہیں مگر وفاق اب صوبوں کی رضامندی کا محتاج ہے جن کی مرضی کے بغیر وہ اپنے اعتماد کے افسر صوبوں میں نہیں لگا سکتا اور صوبے اہل فسروں کو لینے سے انکار کردیتے ہیں۔ مستقبل میں کوئی وزیراعلیٰ اپنی اسمبلی سے وفاق اور وزیر اعظم کے خلاف اپنی سیاسی مرضی کا فیصلہ کراسکتا ہے۔ موجودہ صورتحال میں یہ مطلق العنانیاں وفاق کے لیے شدید نقصان کا باعث بن سکتی ہیں۔